الواح اور ان کا روحانی و علمی پس منظر
الواح کا استعمال قدیم زمانے سے جادو، طلسمات اور روحانی عملیات میں ایک اہم ذریعہ رہا ہے۔ ان الواح کو مخصوص فلکیاتی اور روحانی اصولوں کے تحت تیار کیا جاتا ہے، اور ان کا استعمال مختلف مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے، جیسے کہ دولت کا حصول، دشمنوں سے حفاظت، یا بیماریوں سے شفاء۔
الواح کا تعارف اور تاریخی پس منظر
الواح کا ذکر قدیم عربی، فارسی، اور عبرانی کتب میں بہت وسیع پیمانے پر موجود ہے۔ ان الواح کو تیار کرنے کی تفصیلات زیادہ تر فلکیاتی حرکات، علم نجوم اور سیاروں کے اثرات پر مبنی ہوتی ہیں۔ یہ مانا جاتا ہے کہ مخصوص اوقات میں سیاروں سے بپا ہونے والی توانائی کو مختلف دھاتوں پر کندہ کر کے لوح کو طاقتور بنایا جا سکتا ہے۔
عربی کتب میں الواح کا ذکر
عربی علوم میں الواح اور طلسمات کے موضوع پر کئی اہم کتب پائی جاتی ہیں، جن میں “غایۃ الحکیم” (پکیٹریکس) خاص طور پر مشہور ہے۔ اسے ابوالقاسم المسعودی نے 10ویں صدی میں تحریر کیا تھا، اور اس میں فلکیاتی علوم اور طلسمات کے ذریعے روحانی قوتوں کو بیدار کرنے کی تفصیلات موجود ہیں۔ اس کتاب میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ سیاروں کی مخصوص حالتوں کے تحت تیار کی گئی الواح اپنے مقاصد میں مؤثر ہو سکتی ہیں۔
اسی طرح، ابن وحشیہ کی کتاب “شوق المستھام” بھی اہم ہے، جس میں مختلف سیاروں، ستاروں اور ان کے اثرات پر بات کی گئی ہے، اور ان کے مطابق الواح کے اصول و ضوابط بیان کیے گئے ہیں۔
فارسی کتب میں الواح کا ذکر
فارسی ادب میں بھی الواح اور طلسمات کے متعلق بہت سی معتبر کتب موجود ہیں۔ “جہانِ علوم” اور “عین العلوم” جیسی کتابیں اس موضوع پر قدیم فارسی علوم کا حصہ ہیں۔ بوزرجمیہر، جو ایک نامور فارسی حکیم تھے، نے اپنی کتاب میں روحانی عملیات اور طلسمات کی تفصیل بیان کی، جس میں الواح کی تیاری اور ان کے اصول بھی شامل ہیں۔
خواجہ نصیر الدین طوسی جیسے نامور فلسفی اور فلکیات دان نے بھی فلکیاتی نظاموں اور سیاروں کے اثرات پر بات کی ہے اور کہا کہ سیاروں کی مخصوص حالتوں میں تیار کی گئی الواح زیادہ مؤثر ہوتی ہیں۔
عبرانی کتب میں الواح کا ذکر
عبرانی روایت میں بھی الواح کا تذکرہ ملتا ہے۔ “سفر رازئیل” اور “سفر یتزیراہ” جیسی کتابوں میں جادوئی اور طلسماتی عملیات کا ذکر موجود ہے، جن میں کبالہ کے فلسفے کے مطابق حروف اور نمبروں کے ذریعے توانائی کو مخصوص شکل میں مرکوز کیا جاتا ہے۔ الواح اس مرکوز توانائی کو ایک مخصوص مقصد کے لیے استعمال کرتی ہیں، جسے ایک طاقتور روحانی علامت سمجھا جاتا ہے۔
الواح کی تیاری کا طریقہ اور اصول
الواح کی تیاری کے بنیادی اصول سیاروں کی حرکات، ان کے زائچے، اور مخصوص اوقات پر مبنی ہیں۔ ایک ماہر علم نجوم کو یہ معلوم کرنا ہوتا ہے کہ کب کون سا سیارہ اپنے اثرات کو زیادہ شدت سے ظاہر کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر، لوح مشتری اس وقت تیار کی جاتی ہے جب مشتری اپنے عروج پر ہو، یعنی اس وقت جب مشتری کا اثر زمین پر سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس لوح کو چاندی یا سونے جیسی مخصوص دھاتوں پر تیار کیا جاتا ہے، اور اس پر خاص نقوش کندہ کیے جاتے ہیں جو روحانی اور فلکیاتی اثرات کو مرکوز کرتے ہیں۔
عامل کی روحانی قوت: “منا” کی اہمیت
یہاں یہ بات اہم ہے کہ سیاروں سے بپا ہونے والی توانائی ازخود لوح میں منتقل نہیں ہوتی۔ اس توانائی کو لوح میں جذب کرنے کے لیے عامل کی روحانی قوت درکار ہوتی ہے، جسے “منا” کہا جاتا ہے۔ منا دراصل عامل کی اندرونی روحانی طاقت ہے، جو سیاروں کی توانائی کو لوح میں منتقل کرنے میں معاون ہوتی ہے۔ صرف فلکیاتی حسابات کافی نہیں ہوتے، بلکہ عامل کی “منا” ہی وہ ذریعہ ہے جس کی مدد سے لوح اپنی پوری تاثیر کے ساتھ کام کرتی ہے۔
ایک عامل جس کی روحانی قوت زیادہ ہو، وہ سیاروں کی توانائی کو بہتر طریقے سے لوح میں مرکوز کر سکتا ہے اور اسے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔ اگر عامل کی “منا” کمزور ہو یا وہ روحانی طور پر ترقی یافتہ نہ ہو، تو لوح کی تاثیر بھی کم ہو جاتی ہے۔
الواح کے محدود اثرات
اگرچہ الواح کے ذریعے انسان کو فائدہ پہنچنے کے امکانات موجود ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ الواح کسی فقیر کو بادشاہ نہیں بنا سکتیں۔ الواح کا کام دنیاوی امور میں معمولی بہتری لانا ہو سکتا ہے، جیسے کہ مالی حالات میں کچھ بہتری، یا ذاتی زندگی میں کچھ مثبت تبدیلیاں، لیکن یہ دعویٰ کہ کوئی شخص لوح سے فوراً عظیم دولت یا طاقت حاصل کر لے گا، اکثر غلط اور غیر حقیقی ہوتا ہے۔
ماہرین کی آراء
ابن سینا جیسے عظیم فلسفی اور حکیم نے اپنے نظریات میں روحانی عملیات اور فلکیاتی اثرات کا ذکر کیا ہے۔ ان کے مطابق، “فلکیاتی عناصر ہماری دنیا پر مختلف طریقوں سے اثر انداز ہوتے ہیں، لیکن ان کے اثرات کو صحیح طریقے سے حاصل کرنے کے لیے انسان کو خود بھی ایک خاص روحانی اور ذہنی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔”
ابو معشر البلخی، جو ایک نامور ماہر فلکیات تھے، نے اپنی کتاب “کتاب المدخل الکبیر” میں فلکیات اور روحانی عملیات کے اثرات پر بات کی ہے۔ ان کے مطابق، سیاروں کے اثرات کو سمجھنا اور انہیں درست طریقے سے استعمال کرنا ہی اصل کلید ہے۔
نتیجہ
الواح کا تصور قدیم اور گہرے روحانی و فلکیاتی علم پر مبنی ہے، جسے مختلف تہذیبوں میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ عربی، فارسی، اور عبرانی کتب میں ان کا تذکرہ ملتا ہے، اور یہ علم ہمیں بتاتا ہے کہ الواح کی تیاری کا عمل فلکیاتی حرکات، سیاروں کے اثرات اور عامل کی روحانی قوت کی یکجائی پر مبنی ہے۔
اگرچہ الواح سے معمولی فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں، جیسے مالی یا ذاتی زندگی میں بہتری، لیکن یہ ضروری ہے کہ حقیقت پسندی کو مدنظر رکھا جائے۔ الواح کسی کو فقیر سے بادشاہ نہیں بنا سکتیں، اور ان کا اثر عامل کی روحانی قوت، “منا”، اور اس کی نیت پر منحصر ہوتا ہے۔ سیاروں کی توانائی کو جذب کرنے کے لیے عامل کی روحانی طاقت ناگزیر ہے، اور یہی چیز الواح کو مؤثر بناتی ہے۔
از استاد محترم غلام نبی قادری نوری
ریپلائی کیجیئے