باطنی آنکھ۔۔۔۔😒یا فیر تیسری آنکھ۔۔۔🤔
مادی حواس یا شعوری حواس میں ہم گوشت پوست کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔(یہ ظاہر کی بات ہے۔۔) اگر آنکھیں بند کر لی جائیں تو وہ اطلاعات(تصویروں والی 😜) جو روشنی کے ذریعہ پردہ بصارت تک پہنچتی ہیں، رک جاتی ہیں اور کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ مادی(ظاہری) آنکھ کا عمل ہے جسے ظاہری بینائی بھی کہا جاتا ہے۔یعنی بندے نوں دسدا اے . . . . . 🤔
عام طور سے مشہور ہے کہ ہم آنکھوں سے دیکھتے ہیں، لیکن غور (دماغ نال😉) کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ دیکھنے کے لئے صرف آنکھوں کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر اعصاب کا وہ نظام حذف کر دیا جائے، جو بصارت کے پردے سے اطلاع کو دماغ تک پہنچاتا ہے۔ تو آنکھ کے موجود ہوتے ہوئے بھی آدمی کچھ نہیں دیکھ سکتا۔(پنجابی میں شائد اسکو انی دا کہتے ہیں 🤔😜) اس کا مطلب یہ ہے کہ بصارت کے میکانزم میں آنکھیں جزو ہیں کل نہیں۔ (یعنی ویکھنا ہور اے تے وکھانا ہور) اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص سویا ہوا ہے اور اس کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں لیکن وہ ماحول کی چیزوں کو دیکھ نہیں سکتا۔ آنکھیں اور دماغ کا اعصابی نظام سب کچھ موجود ہوتا ہے پھر بھی اسے کچھ نظر نہیں آتا۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دیکھنے کے لئے ذہن کا متوجہ ہونا ضروری ہے۔( 🙂
مثال لے لو 😒
ہم گھر سے اپنے دوست ول جاتے ہیں اور پاکپتن پہنچنے کے بعد ہمارے دوست ہم سے پوچھے کہ نوری صاحب راستے میں کیا کیا چیزیں دیکھی ہیں۔ تو میں ان سب چیزوں کے نام تو نہیں گنوا سکتا جو میں نے راستے میں دیکھی ہیں(😜) صرف وہ چیزیں بنا سکتے ہیں جن پر میں نے توجہ دی ہے۔( پرسنل میٹرز کے علاوہ۔۔۔۔ 😒)
ایک اور مثال یہ ہے کہ جب ہم گہری سوچ میں ہوتے ہیں تو گرد و پیش کی آوازوں( خواہ وہ گالیاں ای پڑ رہی ہوں😜) اور آنکھوں کے سامنے پیش آنے والے واقعات)مثلا منہ پر بستی😆) کے بارے میں ہم کچھ نہیں بتا سکتے۔( کیونکہ ہمارا دیھان کہیں اور ہوتا ہے۔۔۔۔😉)
انسان کے ذہن میں خیالات او ر تصورات کا ایک سلسلہ قائم رہتا ہے۔ غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کی تمام حرکات اور رنگینیاں انہی خیالات و تصورات سے وابستہ ہیں۔ تمام جبلی و فطری تقاضے بھی خیالا ت سے جنم لیتے ہیں۔( یعنی دماغ خیالات کی دائی ہے😁) نہ صرف افعال زندگی بلکہ علوم و فنون(محوب قدموں میں لانا ۔ساس قابو کرنا وغیرہ۔) بھی انسانی تصورات سے شروع ہوتے ہیں۔(اور ایزی پیسہ تک ختم ہوجاتے ہیں😆😜)
جب ہم خارج میں دیکھتے ہیں تو ماحول کی اطلاعات، خیالات کے لئے محور کا کام کرتی ہیں۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص ماحول سے لا تعلق بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے باوجو د خیالات و تصورات کے شبہات اس کے ذہن کے پردے پر بنتی رہتی ہیں🙂۔ مطلب یہ ہے کہ خارج کا عکس جب روشنی کے ذریعے پردہ بصارت پر پڑتا ہے تو آنکھ بیرونی منظر کو دیکھتی ہے۔ لیکن جب خیالات و تصورات ذہن کے پردے پر ابھرتے ہیں تو باہر کی روشنی کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ آدمی تصورات کے عکس کو اسی طرح محسوس کرتا ہے جس طرح کہ باہر کے عکس کو دیکھتا ہے۔ تصورات کا عکس مدہم سہی لیکن وہی معانی رکھتا ہے جو باہر کا عکس رکھتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ بصارت کا عمل دونوں صورتوں میں واقع ہوتا ہے۔( ایویں تے نہیں مثال بنی اندھا کیا جانے چودہ اگست کی بہار 😜)
بارہا اس بات کا تجربہ ہوتا ہے کہ کوئی ایسا واقعہ جس نے آپ کو بہت زیادہ متاثر کیا ہو یا کوئی شخصیت جس سے آپ دلی وابستگی رکھتے ہوں، اگر ذہن اس کی طرف چلا جائے اور توجہ میں گہرائی پیدا ہو جائے تو واقعہ کی جزئیات اور شخصیت کا خاکہ ذہن کے اسکرین پر عکس بن جاتا ہے۔ یہ خاکہ اس طرح عکس بنتا ہے کہ ہم اس کا احساس تصویری شکل وصورت میں کرتے ہیں۔(یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں صنم کو خدا بنالیا جاتا ہے😒) باہر سے کوئی منظر ذہن میں داخل نہیں ہوتا، اس کے باوجود ہم تصویری نقوش کو اس طرح اپنے سامنے پاتے ہیں جیسے وہ منظر نگاہوں کے سامنے ہے۔
اسی طرح جب ہم سو جاتے ہیں اور ہماری آنکھیں بند ہوتی ہیں تو بھی خواب میں مختلف مناظر نگاہ کے سامنے آتے رہتے ہیں۔ ۔۔۔۔یہ بات بھی تواتر کے ساتھ تجربے میں آتی ہے کہ خواب میں یا نیم غنودگی میں کوئی واقعہ نظر آیا اور کچھ عرصہ بعد وہی واقعہ بیداری میں بھی پیش آ گیا۔کتنے لوگوں کے ساتھ ایسا ہوا ۔۔۔۔🤔کمنٹ وچ دسیا جے زرا۔۔۔
خیر۔۔۔۔روزمرہ کی ان مثالوں میں یہ بات مشترک ہے کہ مناظر کو دیکھتے وقت یا مناظر کے عکس کو محسوس کرتے وقت ہماری مادی آنکھوں کا عمل دخل صفر ہوتا ہے۔۔۔۔
بتانا یہ مقصود ہے کہ انسانی نگاہ اپنے عمل میں مادی عوامل کی احتیار سے آزاد ہے۔ ایک طرز میں وہ مادی آنکھ کے وسیلے سے حرکت کرتی ہے اور دوسری طرز میں اس کا عمل آنکھ کے عمل سے ماوراء ہے۔ نگاہ کا وہ رخ جو مادی آنکھ کے بغیر کام کرتا ہے باطنی نگاہ، اندرونی نظر یا تیسری آنکھ کہلاتا ہے۔۔۔۔۔ہون وی نہ سمجھو تے رب ای راکھا۔۔۔😒
روحانی علم کی روشنی میں آدمی کی تعریف بیان کی جائے تو اس کو نگاہ کا نام دیا جائے گا اور نگاہ کا دارومدار اطلاعات پر ہے اطلاعات ذہن میں آتی رہتی ہیں اور ذہن میں آ کر نگاہ بن جاتی ہیں۔( اسی اصول پر دعوات و اعمال کے خدام سے انکی فریکوینسی 😮پکڑ کر گفتگو ہوتی ہے۔۔۔
خارج یا داخل سے جو بھی اطلاع ذہن میں وارد ہوتی ہے۔ اس کی واضح ترین تشریح قوت باصرہ کرتی ہے۔ باصرہ انسان کے اندر ایک ایسی صلاحیت ہے جو ذہن کو زیادہ سے زیادہ تفصیلات سے مطلع کرنے کی پابند ہے۔ یہ قوت جب جسمانی نظام میں عمل کرتی ہے تو گوشت پوست کی آنکھ کے ذریعے ’’مشاہدہ‘‘ عمل میں آتا ہے اور یہی قوت مادی آنکھ کے بغیر بھی اپنا فعل انجام دے سکتی ہے۔ اگر مادی آنکھ کی حرکت کو معطل کر دیا جائے اور نگاہ کو متوجہ رکھا جائے۔ اطلاعات کا سلسلہ رک جاتا ہے۔ چنانچہ قوت باصرہ ترقی کرنا شروع کر دیتی ہے۔۔۔۔۔
قوت باصرہ جب تک اپنا کام پورا نہ کرے، اس کا کردار پورا نہیں ہوتا اور وہ تخلیق کے قانون کے مطابق اپنا عمل پورا کرنے کی پابند ہے۔ قوت باصرہ جب صعود کرتی ہے تو آدمی بند آنکھوں سے غیب کی دنیا کو دیکھنے لگتا ہے۔۔۔۔😒ہمارے ہاں اسے کملہ کہتے ہیں ۔۔ اس وقت بصارت کائنات کے تمام خدوخال کا مشاہدہ کرتی ہے۔ یہ وہ نقش و نگار ہوتے ہیں جو ایک قدم آگے بڑھ کر مادی خدوخال میں مظاہرہ بنتے ہیں ۔ ان نقش و نگار کو روح یا باطن کی دنیا کہا جاتا ہے۔ مراقبہ میں پریکسٹس کا تسلسل قوت باصرہ کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ مادی دنیا کے پس پردہ چلی جائے اور نگاہ کا مرکز وہ دنیا بن جائے جو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتی۔
جب ہم آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو پپوٹے حرکت کرتے ہیں اور پلک جھپکنے کا عمل صادر ہوتا ہے۔۔۔۔ بار بار پلک جھپکنے سے ڈیلوں پر ضرب پڑتی ہے اور ڈیلے(بندے کے پتروں کی طرح😅) حرکت کرتے ہیں۔ ڈیلوں کی حرکات سے باہر کی روشنیوں کا احساس دماغ میں کام کرتا ہے اور دماغ کو یہ اطلاع ملتی ہے کہ ماحول میں فلاں فلاں چیزیں موجود ہیں۔ اج گروپ میں فلاں میمبر کو غلام نبی نوری کی پوسٹ پر فلاں اعتراض تھا 😒۔۔یہ تمام حرکات اس وقت صادر ہوتی ہیں جب آدمی کا رجحان بیرونی دنیا کی طرف ہوتا ہے اور وہ اپنے گرد و پیش کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات چاہتا ہے۔ بیرونی دنیا میں انہماک اعصاب کی مخصوص حرکات میں نمودار ہوتا ہے۔ آنکھ کے ڈیلے حرکت کرتے ہیں اور پلک بار بار جھپک کر اعصاب کے اندر تحریک پیدا کرتی ہے۔ (سیاست نہیں ریاست بچاو والی تحریک نہیں 😒) اس نوعیت کی تمام اعصابی تحریکات مادی بینائی کو حرکت دیتی ہیں اور انہی کی بدولت محدود بصارت کا میکانزم کام کرتا ہے۔
اگر نگاہ کو کسی ایک نقطہ پر جما دیا جائے اور پھلک جھپکنے کا عمل معطل ہو جائے تو یکسوئی غالب آنے لگتی ہے۔ اور ماحول کا احساس کم ہونے لگتا ہے۔پر یہ پنگا بنا استاد لیجیے گا نہیں۔۔۔😒 یہ بات بھی تجربے میں آئی ہے کہ نقطہ نظروں کے سامنے سے غائب ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ ایک اسکرین دکھائی دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پلک نہ جھپکنے سے ڈیلوں کی حرکات میں اضمحلال پیدا ہونے لگتا ہے اور جب ایک ہی منظر شعور کی اسکرین پر قائم رہتا ہے تو یہ کیفیت بڑھنے لگتی ہے۔
جب مادی حواس غالب ہوتے ہیں تو ذہن ایک خیال سے دوسرے خیال اور ایک بات سے دوسری بات کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے۔ وہ کسی ایک خیال پر رکتا نہیں ہے۔ جب اس کے برعکس عمل ہوتا ہے توشعوری حواس مغلوب ہونے لگتے ہیں یعنی اگر دماغ کی اسکرین پر ایک ہی عکس قائم رہے۔۔۔ یقنی عقل ٹھکانے اجاتی ہے اور آنکھ کے پپوٹوں کی حرکات معطل ہوں تو شعور کے اندر کام کرنے والی رو میں ٹھہراؤ واقع ہونے لگتا ہے۔ پپوٹوں کی حرکات ساکت ہو جاتی ہیں۔ نتیجہ میں مادی بصارت مغلوب ہو جاتی ہے۔ جب یہ ٹھہراؤ ایک حد سے بڑھ جاتا ہے تو نگاہ کی طرز بدل جاتی ہے اور باطنی بینائی یا داخلی زاویہ نظر حرکت میں آ جاتا ہے۔۔۔🙂
جب کوئی شخص مراقبہ کرتا ہے تو وہ تمام عوامل حرکت میں آجاتے ہیں جو ظاہری بینائی کو معطل کر کے باطنی نگاہ کو متحرک کرتے ہیں۔اگر بندے کے پتروں کی طرح مراقبہ کرے۔۔۔۔ نہیں تے حرکت وچ ہور وی بڑا کچھ اجاندا اے 😏
خارجی اور داخلی دونوں اطلاعات کا دارومدار روشنی پر ہے۔ جس طرح خارج میں روشنی اطلاع کا ذریعہ ہے اسی طرح داخلی اطلاعات بھی روشنی کے ذریعے وصول ہوتی ہیں۔ روشنی میں تبدیلی واقع ہو جائے ۔۔۔۔تو محسوسات و مشاہدات میں بھی نظر کا زاویہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ دن طلوع ہوتا ہے اور ماحول سورج کی روشنی سے منور ہو جاتا ہے تو ہمارے احساسات الگ ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔اور جب رات کا اندھیرا پھیل جاتا ہے تو ہماری کیفیات وہ نہیں رہتیں جو دن میں ہوتی ہیں۔ اگر آنکھوں پر نیلے رنگ کا چشمہ لگا لیں تو ہر چیز نیلی نظر آتی ہے اور اگر سرخ لینز لگا لیا جائے تو سرخ رنگ غالب آ جاتا ہے۔ مسلسل تیز روشنی میں کام کیا جائے تو اعصاب میں اضمحلال پیدا ہو جاتا ہے اور اگر ماحول قدرتی رنگوں سے مزین ہو تو اعصاب فرحت محسوس کرتے ہیں۔ اگر دوربین آنکھوں پر لگالی جائے تو دور کی اشیاء قریب نظر آتی ہیں۔۔۔۔۔ اور بغض اوقات اسی چکر میں بندے کی مت ماری جاتی ہے 😆 اور اگر خوردبین استعمال کی جائے تو نظر نہ آنے والی اشیاء نگاہ کے سامنے آ جاتی ہیں۔۔۔اب کوئی خوردبین سے جن نہ ڈھونڈنے لگئیے گا ۔۔۔🙏😅
مادیت کے دائرے میں کتنی چیزیں ایسی ہیں جنہیں ہماری آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں۔ بہت چھوٹے ذرات، ایٹم اور ایٹم میں الیکٹران، پروٹان اور دیگر ایٹمی ذرات ہماری آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ جیسے جیسے فاصلہ بڑھتا ہے۔ ہم اشیاء کی صحیح ہیئت اور ان کی تفصیلات نہیں دیکھ سکتے۔ چند سو گز دور کا درخت اور اس کے پتے نظر نہیں آتے۔ عمارتیں اور ان کے خدوخال نگاہ کی ناتوانی کی وجہ سے دھندلے دکھائی دیتے ہیں۔ سائنس کہتی ہے کہ ایٹم میں الیکٹران مرکزے کے گرد گردش کرتے ہیں۔ مائع کی ساخت کی حدود میں مالیکیول تمام سمتوں میں آزادانہ حرکت کرتے ہیں جبکہ گیس میں ان کی حرکت کا دائرہ مزید وسیع ہو جاتا ہے۔ بہت سی چیزیں ہمیں دکھائی نہیں دیتیں لیکن ان کے اثرات سے انہیں پہچانا جاتا ہے جیسے بجلی کا بہاؤ، مقناطیسی میدان اور دوسری بہت سی لہریں۔
جب ہم طبعی فارمولوں کو سامنے رکھتے ہوئے کسی ایجاد کی مدد لیتے ہیں تو بہت سی تفصیلات ، چھپی ہوئی چیزیں اور مستور زاویے نظر آ جاتے ہیں۔ جب خوردبین کا لینز آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے تو چھوٹے سے چھوٹا جرثومہ، وائرس اور دیگر باریک ذرات دکھائی دیتے ہیں۔ ’’الیکٹران مائیکرواسکوپ‘‘ کے ذریعے الیکٹران کا ہیولا نظر آجاتا ہے۔ دوربین کا عدسہ نگاہوں پر فٹ ہو جائے تو دور دراز کی چیزیں قریب نظر آنے لگتی ہیں۔ جس قسم اور جس طاقت کا لینز آنکھوں پر لگ جائے اسی مناسبت سے ان دیکھی چیزیں مشاہدہ بن جاتی ہیں۔
یہ تذکرہ ہے اس روشنی کا جو خارج میں کام کرتی ہے۔ ماحاصل گفتگو یہ ہے کہ خارجی روشنی کا زاویہ بدل جائے تو ہماری بصارت میں بھی تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔😊 اسی طرح ذہن میں آنے والی اندرونی اطلاعات بھی روشنی کے عمل دخل پر قائم ہیں۔
جب آنکھیں بند کر کے ذہن کو یکسو کر دیا جاتا ہے تو خارجی روشنی کا سلسلہ رک جاتا ہے چنانچہ داخلی روشنی حواس میں نفوذ کر کے اس کی جگہ لے لیتی ہے۔۔۔۔۔
باقی مشقیں فیس بک پر ڈالنے لائق نہیں۔۔۔۔ اور نہ فیس بک پر سے اٹھا کر کرنے کی زحمت فرمائیے گا۔۔۔ علم اور اگہی الگ الگ چیزیں ہیں۔۔۔ اگاہ ہونا اچھا ہے۔۔۔۔ معرفت استاد سے میسر ہوتی ہے ۔۔۔ وماعلینا الاالبلاغ . . .
منجانب غلام نبی قادری نوری
Mere saath kai baar aisa hua hai kay main jo khawab main dekha woh hubahu waisa hi huwa so is ko kya kahen gay