بسم اللہ الرحمن الرحیم کا فلسلفہ  قسط 1

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم میں ’’حرف باء،، جار ہے، ’’اسم،، مجرور اور مضاف، ’’لفظ اللہ،، مضاف الیہ اور موصوف ہے، لفظ ’’الرحمن الرحیم،، دونوں یکے بعد دیگرے موصوف یعنی اللہ کی صفات ہیں۔ موصوف (اللہ) اپنی دونوں صفات (الرحمن الرحیم) کے ساتھ مل کر اسم کا مضاف الیہ بن گیا اور مضاف (اسم) اپنے مضاف الیہ (اللہ الرحمن الرحیم) سے مل کر جار یعنی ’’حرف باء،، کا مجرور ہو گیا۔ اب اس حرف باء (جار) کا ایک متعلق ہے جو فعل محذوف ہے۔ وہ یہاں أشرع، أبدا يا أقراء وغیرہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ جار و ’’مجرور،، اور ’’فعل محذوف،، جس میں فاعل بھی ہے۔ سب مل کر ’’جملہ فعلیہ خبریہ،، پر منتج ہو گئے۔ اس کی دوسری صورت یہ بھی ہے کہ یہاں فعل محذوف صیغہ امر أبدا يا أقراء کو مانا جائے۔ اس طرح تسمیہ، ’’جملہ فعلیہ انشائیہ،، قرار پائے گا۔

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم میں ’’حرف باء،، جار ہے، ’’اسم،، مجرور اور مضاف، ’’لفظ اللہ،، مضاف الیہ اور موصوف ہے، لفظ ’’الرحمن الرحیم،، دونوں یکے بعد دیگرے موصوف یعنی اللہ کی صفات ہیں۔ موصوف (اللہ) اپنی دونوں صفات (الرحمن الرحیم) کے ساتھ مل کر اسم کا مضاف الیہ بن گیا اور مضاف (اسم) اپنے مضاف الیہ (اللہ الرحمن الرحیم) سے مل کر جار یعنی ’’حرف باء،، کا مجرور ہو گیا۔ اب اس حرف باء (جار) کا ایک متعلق ہے جو فعل محذوف ہے۔ وہ یہاں أشرع، أبدا يا أقراء وغیرہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ جار و ’’مجرور،، اور ’’فعل محذوف،، جس میں فاعل بھی ہے۔ سب مل کر ’’جملہ فعلیہ خبریہ،، پر منتج ہو گئے۔ اس کی دوسری صورت یہ بھی ہے کہ یہاں فعل محذوف صیغہ امر أبدا يا أقراء کو مانا جائے۔ اس طرح تسمیہ، ’’جملہ فعلیہ انشائیہ،، قرار پائے گا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم کا فلسلفہ

قسط نمبر 1

تسمیہ کی ترکیب نحوی اور ایک لطیف نکتہ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم میں ’’حرف باء،، جار ہے، ’’اسم،، مجرور اور مضاف، ’’لفظ اللہ،، مضاف الیہ اور موصوف ہے، لفظ ’’الرحمن الرحیم،، دونوں یکے بعد دیگرے موصوف یعنی اللہ کی صفات ہیں۔ موصوف (اللہ) اپنی دونوں صفات (الرحمن الرحیم) کے ساتھ مل کر اسم کا مضاف الیہ بن گیا اور مضاف (اسم) اپنے مضاف الیہ (اللہ الرحمن الرحیم) سے مل کر جار یعنی ’’حرف باء،، کا مجرور ہو گیا۔ اب اس حرف باء (جار) کا ایک متعلق ہے جو فعل محذوف ہے۔ وہ یہاں أشرع، أبدا يا أقراء وغیرہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ جار و ’’مجرور،، اور ’’فعل محذوف،، جس میں فاعل بھی ہے۔ سب مل کر ’’جملہ فعلیہ خبریہ،، پر منتج ہو گئے۔ اس کی دوسری صورت یہ بھی ہے کہ یہاں فعل محذوف صیغہ امر أبدا يا أقراء کو مانا جائے۔ اس طرح تسمیہ، ’’جملہ فعلیہ انشائیہ،، قرار پائے گا۔

یہاں ایک لطیف نکتہ قابل غور ہے کہ تسمیہ کا ’’جملہ فعلیہ خبریہ یا جملہ فعلیہ انشائیہ،، ہونا فعل محذوف کی نوعیت پر مبنی تھا۔ اگر فعل محذوف کی بجائے زیادہ توجہ حرف باء کے مفہوم اور اس کی نوعیت کے تعین پر کی جائے جیسے کہ بعد میں بیان کیا جائے گا تو تسمیہ کا کلام ہر صورت میں ’’دعائیہ،، قرار پا جاتا ہے کیونکہ یہاں حرف باء تین حالتوں میں سے یقیناً کسی نہ کسی ایک حالت کا حامل ہے اور وہ ہیں۔ ’’الصاق و مصاجت،، ’’استمداد و استعانت،، اور ’’تبرک و تیمن،، لہذا ’’بائ،، مذکورہ بالا میں سے جس حالت پر بھی دلالت کرے۔ کلام تسمیہ ایک ’’دعا،، بن جاتی ہے اور یہی مقصود الٰہی ہے۔

تسمیہ کی شرعی حیثیت :
بسم اﷲ الرحمن الرحیم کے الفاظ کو اصطلاح میں ’’تسمیہ،، کہا جاتا ہے۔ یہی تسمیہ ایک آیت کے حصے کے طور پر قرآن حکیم کی سورۃ النمل میں وارد ہوا ہے۔ اس لحاظ سے یہ بالاتفاق حصہ قرآن بھی ہے۔ ارشاد باری تعا لیٰ ہے۔

إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِO

(النمل، 27 : 30)

بے شک وہ (خط) سلیمان کی جانب سے (آیا) ہے اور وہ اللہ کے نام سے شروع (کیا گیا) ہے جو بے حد مہربان بڑا رحم فرمانے والا ہےO

آئمہ فقہ میں سے شوافع اسے سورۃ الفاتحہ کاجزو قرار دیتے ہیں۔ جب کہ بعض علماء ہر سورت سے پہلے بسم اﷲ وارد ہونے کی بناء پر سوائے سورۃ برات کے اسے ہر سورت کا جزو تسلیم کرتے ہیں۔ ان میں ابن عباس رضی اللہ عنہ، ابن عمر رضی اللہ عنہ، ابن زبیر رضی اللہ عنہ، ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ اور تابعین میں سے عطاء رحمۃ اللہ علیہ، طاؤس رحمۃ اللہ علیہ، سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ، مکحول رحمۃ اللہ علیہ اور زہری رحمۃ اللہ علیہ و غیرہم کے اسماء بیان کیے جاتے ہیں۔ امام عبداﷲ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایک قول اسیطرح منقول ہے۔ قول معروف اور مذہب مختار یہ ہے کہ بسم اﷲ قرآن کا حصہ ہے۔ لیکن سورۃ الفاتحہ یا دوسری سورتوں کا جزو نہیں بلکہ ہر سورت سے پہلے اسے محض امتیاز و انفصال اور تیمن و تبرک کے لیے بیان کیا گیا ہے۔ عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اسناد صحيح کے ساتھ مروی ہے :

کان المسلمون لايعرفون انقضاء السورة، (وفي رواية لايعرفون فصل السورة) حتي تنزل بسم اﷲ الرحمن الرحيم فاذا نزلت عرفوا ان السورة قد انقضت، وفي رواية ان السورة قد ختمت واستقبلت اوابتداء ت سورة اخري.

مسلمانوں دو سورتوں کے درمیان فرق و انفصال کا پتہ نہیں چلتا تھا۔ چنانچہ بسم اﷲ الرحمن الرحیم کے نازل ہونے سے ایسی حد فاصل قائم ہوئی کہ لوگوں کو اس کے ذریعے ہرایک سورت کے شروع ہونے یا ختم ہونے اور دوسری کے شروع ہونے کی معرفت حاصل ہوگئی۔

1. سنن ابی داؤد، 1 : 122، کتاب الصلاة، باب من جهربها، رقم : 788
2. السنن الکبری للبيهقی، 2 : 43
3. المستدرک للحاکم، 1 : 231، 232، رقم 845، 846

مدینہ، بصرہ اور شام کے قراء و فقہاء بھی اسی قول کے موید ہیں کہ ’’ بسم اﷲ،، ’’سورۃ النمل،، میں وارد ہونے کے اعتبار سے ایک مرتبہ تو قرآن کی مستقل آیت ہے۔ لیکن باقی تمام سورتوں سے اس کا ورود محض علامت فصل کے طور پر ہے تاکہ اس کے ذریعے دو متصل سورتوں کے درمیان واضح فرق کا پتہ چل جائے۔ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ، امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم کا مذہب بھی یہی ہے۔

نماز میں قراتِ تسمیہ کا حکم :
تسمیہ کی شرعی حیثیت کے تحت تسمیہ کا سورہ فاتحہ کا حصہ نہ ہونا اس امر سے بھی مترشح ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہر ی نمازوں میں قرات بالجہر کا آغاز ’’ الحمد ﷲ رب العالمین،، سے کرتے تھے۔ بسم اﷲ کی قرات جہراً نہ فرماتے تھے۔ اس سلسلے میں چند احادیث ملاحظہ ہوں۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :

ان النبی صلی اﷲ عليه وسلم وابابکر و عمر و عثمان کانوا يفتتحون القراة بالحمد ﷲ رب العلمين وزاد مسلم لايذکرون بسم اﷲ الرحمن الرحيم فی اول قرأة ولا فی آخرها

سنن دارمی میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جہری قرات کا آغاز الحمدﷲ سے فرمایا کرتے تھے صحيح مسلم کے مزید الفاظ یہ ہیں کہ پہلی اور دوسری مرتبہ دونوں قراتوں میں (جہرا) بسم اﷲ نہیں پڑھتے تھے۔

1. صحيح لمسلم، 1 : 172، کتاب الصلاة، رقم : 52
2. مسند احمد بن حنبل، 3 : 101، 114
3. سنن الدارمی، 1 : 300 مطبوعه، دارالقلم دمشق
4. سنن النساءی، 2 : 97، رقم : 902

سعید بن منصور سنن میں ابووائل رضی اللہ عنہ سے اسناد صحيح کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔

کانوا يسرون التعوذ والبسملة فی الصلٰوة.

صحابہ کرام نماز میں تعوذ اور تسمیہ آہستہ پڑھتے تھے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ اسنادِ صحيح کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔

قال صليت خلف رسول اﷲ صلي اﷲ عليه وسلم وابي بکر وعمر وعثمان (رضي الله عنهم) فلم أسمع أحدا منهم يجهرء بسم اﷲ الرحمن الرحيم.

انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ابوبکر رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔ میںنے ان میں سے کسی کو بھی جہراً بسم اﷲ پڑھتے نہیں سنا۔

(سنن نسائی، 2 : 99، رقم : 907)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکی دور میں ابتداًء دوران نماز بسم اﷲ جہراً پڑھتے تھے۔ اس پر مشرکین مکہ استہزاء کرتے کیونکہ وہ ’’مسلیمہ کذاب،، کو رحمن کہتے تھے اور بسم اﷲ الرحمن الرحیم سن کر وہ طعنہ دیتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل یمامہ کے معبود ’’مسلیمہ کذاب،، کی طرف بلاتے ہیں۔ اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو بسم اﷲ کی قرأت آہستہ کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔

فامر رسول اﷲ صلی اﷲ عليه وسلم باخفائها فما جهر بها حتٰی مات.

لہذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم صادر فرمایا کہ بسم اﷲ الرحمن الرحیم پوشیدہ پڑھا کرو، پھر تاوقتِ وفات کبھی نماز میں بسم اﷲ پکار کر نہیں پڑھی۔

(طبرانی)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔

فلما نزلت هذه الاية أمر رسول اﷲ صلی اﷲ عليه وسلم ان لايجهربها.

جب آیت بسم اﷲ نازل ہوئی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بسم اﷲ بلند آواز سے نہ پڑھی جائے۔

(طبرانی)

اسی طرح صحيح بخاری، صحيح مسلم اور طبرانی کے علاوہ مصنف ابن ابی شیبہ، ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، ابن خزیمہ، اور بیہقی وغیرہ متعدد کتب حدیث میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ تسمیہ کی قرات سورہ فاتحہ یا کسی اور سورت کے حصے کے طور پر نہیں بلکہ الگ حیثیت سے کی جاتی تھی۔ اگر یہ حصہ سورۃ فاتحہ ہوتی تو یقیناً اس کی قرات بھی اس کے ساتھ بلند آواز سے کی جاتی۔ جن روایات میں بسم اﷲ کی قرات کا دوران نماز بلند آواز سے ہونا مذکور ہے وہ مکی دورکے اوائل ایام سے متعلق ہیں۔ لیکن بعد میں صراحت کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پکار کر پڑھنے کی ممانعت فرما دی۔ لہذا تسمیہ کا نماز میں پڑھا جانا تلاوتِ قرآن کے آغاز و افتتاح کے طور پر ہے۔ کیونکہ حمد وثناء کے بعد جب سورہ فاتحہ کی قرات شروع ہوتی ہے تویہی دوران نماز تلاوت قرآن کا آغاز ہے اور یہاں بھی یہ حکم ہے کہ تلاوت قرآن کا آغاز پہلے تعوذ ( اعوذ باﷲ من الشیطن الرجیم ) اور پھر تسمیہ (بسم اﷲ الرحمن الرحیم) سے کیا جائے۔

تسمیہ سے ہرکام کے آغاز کا حکم (تاریخی پس منظر) :
شریعتِ اسلامیہ میں ہمیشہ سے یہی تعلیم دی جاتی رہی ہے کہ ہر جائز اور مشروع کام کا آغاز خدا کے نام سے کیا جائے۔

1۔ جب نوع علیہ السلام نے طوفان سے بچاؤ کے لیے اِذنِ الٰہی کے مطابق کشتی تیار کرلی اور اپنے ساتھیوں کو اس میں سوار کرلیا تو کشتی چلانے سے قبل فرمایا :

وَقَالَ ارْكَبُواْ فِيهَا بِسْمِ اللّهِ مَجْرِهَا وَمُرْسَاهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌO

(هود، 11 : 41)

اور نوح نے کہا تم لوگ اس میں سوار ہو جاؤ، اللہ ہی کے نام سے اسکا چلنا اور اسکا ٹھہرنا ہے بے شک میرا رب بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہےo

2۔ اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ صبا کو جو تبلیغی خط لکھا۔ اس کا آغاز بھی انہی مبارک کلمات سے کیا گیا تھا۔

إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِO

بے شک وہ(خط) سلیمان کی جانب سے (آیا) ہے اور وہ (اللہ کے نام سے شروع (کیا گیا) ہے جو بے حد مہربان بڑا رحم فرمانے والا ہےo

(النمل، 27 : 30)

3۔ عہد عیسوی میں بھی ان کلمات کی برکات و تاثیرات کا پتہ چلتا ہے۔ اسرائیلیات میں ایک روایت مذکور ہے کہ عیسٰے علیہ السلام کا ایک قبر پر گزر ہوا۔ آپ نے فرشتوں کو دیکھا کہ وہ صاحب قبر پر عذاب کررہے ہیں۔ جب دوسری مرتبہ گزر ہوا تو دیکھا کہ رحمت کے فرشتے نور کے طبق اس پر پیش کر رہے ہیں۔ آپ کو بہت تعجب ہوا، نماز پڑھی اور کشف حال کے لیے دعا کی۔

فاوحي اﷲ تعالٰي إليه : يا عيسٰي، کان هذا العبد عاصياً و مذمات کان محبوسا في عذابي، وکان قد ترک إمراة حبلٰي فولدت ولدا وربته حتٰي کبر، فسلمته الٰي الکتاب فلقنة المعلم بسم اﷲ الرحمن الرحيم فاستحييت من عبدي إن أعذبه بناري في بطن الأرض وولد يذکر إسمي علي وج الارض.

(التفسيرالکبير، 1 : 172)

پس اﷲ تعالیٰ نے وحی کی انکی طرف کہ اے عیسٰی علیہ السلام یہ بندہ گناہ گار تھا اور اپنی موت کے دن سے میرے عذاب میں گرفتار تھا۔ وقتِ مرگ اس کی بیوی حاملہ تھی۔ جس نے بعد میں ایک بچہ پیدا کیا۔ اس کی ماں نے اسے پالا اور معلمِ دین کے سپرد کر دیا۔ اس معلم نے جب اس بچے کو بسم اﷲ الرحمن الرحیم پڑھائی تو ہم کو شرم آگئی کہ اس کا باپ قبر میں عذاب میں مبتلا رہے اوراس کا بیٹا زمین پر ہمارے نام کا ذکر کرے پس ہم نے اس کو بخش دیا۔

4۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ہرکام سے پہلے بسم اﷲ پڑھنے کا حکم صادر فرمایا۔ چنانچہ یہ حکم بعض معاملات میں ’’واجب،، کا درجہ رکھتا ہے۔ بعض میں ’’سنت،، کا اور بعض میں ’’مستحب،، کا۔ قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا گیا :

فَکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اﷲِ عَلَيْهِ.

(الانعام، 6 : 118)

سوتم اس(ذبیحہ) سے کھایا کرو جس پر (ذبح کے وقت) اللہ کا نام لیا گیا ہو۔

اس سے آگے مزید حکم دیا گیا۔

وَمَالَکُمْ اَلَّا تَاکُلُوْا مِمَّا ذُکِرِاسْمُ اﷲِ عَلَيْهِ.

(الانعام، 6 : 119)

اور تمہیں کیا ہے کہ تم (ذبیحہ) سے نہیں کھاتے جس پر (ذبح کے وقت) اللہ کا نام لیا گیا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

کل أمر ذي بال لايبداء فيه بسم اﷲ الرحمن الرحيم فهو أجزم.

جو کام بسم اﷲ الرحمن الرحیم سے شروع نہ کیا جائے وہ ناقص رہتا ہے یعنی اپنے کمال کو نہیں پہنچ سکتا۔

1. سنن ابن ماجه، 1 : 610، رقم : 1894
2. المعجم الکبير، 19 : 68، رقم : 141
3. کنزالعمال، 1 : 555، رقم : 2491

اس حدیث کا مفہوم اس طرح سمجھیں جیسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لا وضوء لمن لم يذکر اسم اﷲ عليه.

اس شخص کا وضو نہیں جس نے اس پر بسم اﷲ نہ پڑھی۔

مسند احمدبن حنبل، 2 : 418
مسند احمدبن حنبل، 3 : 41
مسند احمدبن حنبل، 4 : 70
مسند احمدبن حنبل، 5 : 381
مسند احمدبن حنبل، 6 : 397

اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ بسم اﷲ کے نہ پڑھنے سے وضو کی فرضیت ہی ناقص رہ جاتی ہے بلکہ فرض توادا ہو جاتا ہے۔ لیکن سنن و مستحبات کی شمولیت سے جوکمال نصیب ہوتا ہے اس سے محروم رہ جاتا ہے۔ اسی طرح ہر فعل جو بغیر بسم اﷲ کے شروع کیا جائے۔ ممکن ہے کہ دینوی لحاظ سے مطلوبہ نتائج کے حصول میں تو ناکام نہ ہو لیکن اپنے اجرو ثواب کے اعتبار سے عنداﷲ کامل نہ ہوگا۔ اسی روحانی کمال اور نقص کی طرف متذکرہ بالا حدیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔

آپ غور فرمائیں کہ کلام الٰہی جو سراسر خیر وبرکت ہے۔ جب اس کے پڑھنے سے بھی پہلے بسم اﷲ کا پڑھنا بطور شرط لازم ہے تو دیگر امور حیات سے قبل تسمیہ کا پڑھا جانا کس قدر ضروری ہوگا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی عملی مداومت بھی اسی اصول پر تھی۔

5۔ حتی کہ باری تعالیٰ نے خود اپنے کلام مبارک کے نزول کے آغاز و افتتاح کے لیے جو کلمات منتخب فرمائے وہ بھی ’’تسمیہ،، کی نوعیت کے تھے۔ غارحرا میں گونجنے والی سب سے پہلی قرآنی صدا بھی یہ تھی۔

اِقْرَأ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَO

اے محمد آپ پڑھیے اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے آپ کو اور سب کو پیدا کیاo

(العلق، 96 : 1)

گویا آداب قرات میں سب سے پہلا قرینہ بسم اﷲ سے شروع کرنا تھا اور اسی قرینہ کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرات کا آغاز کرایا گیا۔ مفسرین عام طور پر بسم اﷲ کو معنوی وسعت کے اعتبار سے تمام قرآنی علوم کی جامع قرار دیتے ہیں۔ امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

کل العلوم مندرج فی الکتب الاربعة وعلومها فی القرآن، وعلوم القرآن فی الفاتحة وعلوم الفاتحة فی (بسم اﷲ الرحمن الرحيم) و علومها فی الباء من بسم اﷲ

تمام علوم و معارف چار الہامی کتابوں میں درج کیے گئے ہیں اور ان کے تمام علوم قرآن میں اور قرآن کے تمام علوم سورۃ الفاتحہ میں اور سورۃ الفاتحہ کے تمام علوم بسم اﷲ الرحمن الرحیم میں، اور اس کے تمام علوم بائے بسم اﷲ میں۔

(تفيسر کبير، 1 : 99)

چنانچہ تسمیہ کی ہمہ پہلو تفسیر اسی طرح ناممکن ہے جیسے پورے قرآن کی۔ تاہم یہاں اس کے چند گوشوں پر کچھ روشنی ڈالی جاتی ہے۔

حذفِ فعل کی حکمت :
قرآن میں تسمیہ کا بیان اس طرح ہے بسم اﷲ الرحمن الرحیم۔ اﷲ کے نام سے (شروع کرتا ہوں) جونہایت مہربان رحمت والا ہے۔ یہاں ایک خاص امر قابل توجہ ہے کہ قرآنی عبارت میں ’’شروع کرتاہوں،، کے لیے کوئی لفظ یا کلمہ استعمال نہیں ہوا۔ ترجمے میں یہ الفاظ معنوی طور پر از خود تصور کیے جاتے ہیں۔ درحقیقت قرآن کے اس انداز میں خاص حکمت پنہاں ہے۔

اگر قرآن ’’شروع کرتا ہوں،، کے الفاظ اپنی عبارت میں استعمال کرتا تو اس کی صورت یہ ہوتی أبداء. . . أشرع يا أبداء (میں آغاز کرتا ہوں)۔ ان میں ہر لفظ فعل اور فاعل دونوں کا جامع ہوتا۔ عام طور پر یہی عربی ادب کا اسلوب ہے کہ فعل اور فاعل اکٹھے ہوا کرتے ہیں۔ اب اس کی دو ہی صورتیں ممکن تھیں۔

1۔ ایک یہ کہ ابداء وغیرہ کا لفظ بسم اﷲ سے پہلے استعمال کیا جاتا۔

2۔ دوسری یہ کہ ایسا لفظ بسم اﷲ کے بعد استعمال ہوتا۔ لیکن قرآن نے اسے ہر صورت میں ہی محذوف اور مضمر کردیا۔ اس کی چند حکمتیں ہیں۔ ان حکمتوں کے بیان سے قبل یہ اصول ذہن نشین ہوجانا چاہیے کہ بعض اوقات عربی عبارت میں ایسے حروف استعمال ہوتے ہیں جن سے پہلے کوئی فعل محذوف تصورکیا جاتا ہے یعنی اس کا شمار معنی میں تو ہوتا ہے لیکن عبارت میں نہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اس کی مثال واضح ہے :

اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَآ ئِکَة.

اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا۔

(البقرة، 2 : 30)

یہاں قاعدہ نحو کے مطابق اذ سے پہلے اُذْکَرْ فعل محذوف ہے۔ جس کا معنی ہے ’’یاد کرو،، جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا۔ اسی طرح حرف باء جس سے تسمیہ کا آغاز ہو رہا ہے، سے بھی پہلے ایک فعل محذوف ہے جس کا ذکر اوپر کیا جاچکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس فعل کو محذوف رکھنے میں کیا حکمت پوشیدہ ہے۔

پہلی حکمت :
اگر ابداء یا اس جیسا کوئی لفظ بسم اﷲ سے پہلے وارد ہوتا تو یہ امر واضح تھا کہ اس کا فاعل وہ شخص خود ہی ہوتا جو قرآن کی تلاوت یا کسی دوسرے کام کا آغاز کررہا تھا۔ ابداء کا فاعل اﷲ تعالیٰ کسی لحاظ سے بھی نہ ہوسکتا تھا۔ باری تعالیٰ چونکہ تعلیم یہ دینا چاہتے تھے کہ قرآن کی تلاوت ہویا کوئی اور جائز کام، اس کا آغاز اﷲ کے نام سے ہی ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس مخصوص ادب معاشرت کی تعلیم کلمات تسمیہ کے ذریعے دی جا رہی تھی۔ اس لیے یہ ہرگز مناسب نہ تھا کہ خود ان ہی کلمات کا آغاز اﷲ کے نام کے علاوہ کسی دوسرے کے ذکر سے ہوتا۔ چنانچہ اس مخصوص ادب اور ضابطہ عمل کی تعلیم بھی اسی انداز سے دی گئی کہ اظہار مدعا کا آغاز بھی براہ راست اﷲ ہی کے ذکر سے ہو۔ کسی اور کے ذکر سے نہیں۔ کیونکہ اسی طرح کمال برکت کاحصول ممکن ہے۔

دوسری حکمت :
صیغہ متکلم واحد کا استعمال ہوتا یا جمع کا، دونوں صورتوں میں قائل اپنا اور اپنے فعل کا ذکر اسم باری تعالیٰ پر مقدم کرتا۔ یہ امر ادب واحترام کی اعلٰی منزلوں کے منافی تھا۔ یہ لحاظ عام گفتگو میں بھی رکھا جاتا ہے کہ اگر قائل کسی کام کے ضمن میں اپنے علاوہ دوسرے افراد کا ذکر بھی مشترکہ طور پر کرنا چاہتا ہوتو پہلے دوسروں کا نام لیا جاتا ہے اور آخر میں متکلم اپنا نام لیتا ہے کیونکہ یہ آداب تہذیب کلام کا حصہ ہیں۔ اپنا نام لینا معیارِ لطافت کے خلاف ہے۔ اسی طرح کسی کام میں افضل پر مفضول کی سبقت بھی خلاف ادب تصورکی جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال قرآن حکیم سے بیان کی جاتی ہے کہ بعض لوگوں نے عہد رسالت میں عیدالاضحی کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے قربانی کردی اس پر یہ آیت نازل ہوئی :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌO

اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول سے (کسی معاملہ میں) سبقت نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ سننے والا اور خوب جاننے والا ہےo

(الحجرات، 49 : 1)

اﷲ تعالیٰ نے باوجود اس کے کہ ان کا عمل حکم الٰہی کی اطاعت پر مشتمل تھا اور وہ خون بھی محض رضائے الٰہی کی خاطر بہایا گیا تھا جو کہ خالصتاً عبادت تھا۔ لیکن ان سے خطا صرف یہ سرزد ہوئی کہ وہ عمل میں وقتی طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تقدم کر بیٹھے تھے۔ یہی بات اﷲ تعالیٰ کو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم وادب کے منافی معلوم ہوئی۔ انہیں قربانیاں پھر سے کرنے کا حکم صادر کیا گیا اور آئندہ کے لیے حکماً اس اقدام کے امکان کو بھی ختم کردیا گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض لوگ رمضان المبارک سے ایک دن قبل روزہ رکھنا شروع کردیتے تھے اور اس طرح وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تقدم کر بیھٹتے تھے۔ چنانچہ اس آیت کے ذریعے اﷲ تعالیٰ نے ان کو حکماً منع فرما دیا۔ اس مثال کے ذریعے درحقیقت یہ بات واضح کرنا مقصود تھی کہ بعض اوقات تقدم خلافِ ادب تصور کیا جاتا ہے چنانچہ بسم اﷲ میں جوکہ خود ہی سراسر ادب کی تعلیم ہے، اسی اصول کو لفظاً بھی ملحوظ رکھا گیا ہے تاکہ کلام میں بھی ادبِ الوہیت نظر انداز نہ ہوکیونکہ یہی کمالِ ایمان کی علامت ہے۔ ادب سے محروم شخص علم و عمل کی بے پناہ دولتوں کے باوجود لذت ایمان سے محروم رہتا ہے۔ اسی لیے ہر سطح پر جس قدر بھی ملحوظ رہے بہتر ہے۔ کلام میں اس قدر لفظی احتیاط اورحکمت و مصلحت انسانی کوشش کے باوجود پیش نظر نہیں رہ سکتی۔ یہ صرف کلام الٰہی کا اعجاز ہے جو بغیر تصنع کے ان حکمتوں پر دلالت کررہا ہے۔

تیسری حکمت :
یہ حکمتیں تو ابداء وغیرہ کے الفاظ بسم اﷲ پر مقدم نہ کرنے میں مضمر تھیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اﷲ کے نام سے پہلے کسی اور کا ذکر تو خلاف ادب تھا۔ اس لیے اسے محذوف رکھا گیا۔ مگر بعد میں بیان نہ کرنے میں کیا مصلحت پوشیدہ ہے۔ یہ امر ذہن نشین رہے کہ صاحب حکمت کا کوئی فعل حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔ جب ابداء یا اشراع کی صورت میں کسی کام کے شروع کرنے کا ذکر آئے گا تو اس میں فاعل خود متکلم کی ذات ہوگی۔ گویا متکلم تسمیہ کے ذریعے کسی نہ کسی فعل میں اپنے فاعل ہونے کا ذکر بھی ساتھ ہی کر رہا ہوگا کہ ’’ اﷲ کے نام سے میں (فلاں کام) شروع کرتا ہوں،،۔ اس طرح فعل کی نسبت متکلم کی طرف ہوجاتی ہے اور اسی کا فاعل ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔ یہاں مصلحت یہ تھی کہ انسان خود کو باری تعالیٰ کے لطف وکرم کا اس حد تک محتاج سمجھے کہ تمام امو رکی نسبت اسی ذات کاملہ کی طرف کردے۔ ہرچند کہ افعال کا صدور انسان ہی سے ہوتا ہے۔ لیکن ہر فعل کے صادر کرنے کی قوت وہمت اور طاقت وصلاحیت انسان کو بارگہ رب ذوالجلال سے نصیب ہوتی ہے کیونکہ تمام قوتوں اور طاقتوں کا مبداء و سرچشمہ وہی ذات ہے۔ چونکہ تسمیہ میں بسم اﷲ کے ذریعے خدا کی مدد اور اس کے فعلِ عنایت کا ذکر آگیا تھا۔ اس کے بعد متکلم کا اپنا فاعل ہونا بیان کرنا اﷲ تعالیٰ کی شانِ الوہیت کے منافی تھا۔ گویا یہ تعلیم دی گئی کہ اے انسان تو ہرکام شروع کرتے ہوئے خدا کا نام لے اور ا س کام کی توفیق بھی اسی ذات کی طرف منسوب کر۔ کبھی بھی اس فعل کو اپنا کمال نہ سمجھ، کیونکر فاعل حقیقی تو نہیں اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ یہاں انسانی فکر کو کبر ونخوت کی تباہ کاریوں سے بچنے کی صورت بتائی گئی ہے کہ اگر انسان زبان سے ذات حق کا نام لے کر دل میں یقین بھی اسی کی طاقت کی کارفرمائی پر رکھے گا تو سوچ کا یہ اندازا سے کبھی بھٹکنے نہ دے گا۔ یہ فکر ایمانی آداب کا لازمہ ہے سورۃ نساء میں اسی کی تلقین کی گئی ہے۔

قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللّهِ فَمَا لِهَـؤُلاَءِ الْقَوْمِ لاَ يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًاO

فرما دیجیئے سب کچھ اﷲ کی طرف سے ہی ہے تو ان لوگوں کو کیا ہوا۔ کوئی بات سمجھتے معلوم نہیں ہوتے۔

(النساء، 4 : 78)

یہاں ہرکام کی توفیق کا اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہونا مذکور ہے۔ اسی انداز سخن اور طرز فکر کی تلقین تسمیتہ کے ذریعے کی جارہی ہے۔ یہاں ایک اور لطیف نکتہ قابل غور ہے کہ بسم اﷲ میں چونکہ ذکر صرف اﷲ تعالیٰ کا ہے اور ابتداء فعل یا ارتکابِ فعل کی نسبت انسان کی طرف مذکور نہیں ہے۔ اس لیے حکم ہے کہ بسم اﷲ محض جائز کاموں کے آغاز میں پڑھی جائے۔ ناجائز اور خلاف شرع امور نہیں۔ کیونکہ غلط کاموں میں توفیق فعل کے حوالے سے ان کی نسبت باری تعالیٰ کی طرف کرنا خلاف تقاضائے بندگی ہے۔ بندے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو اپنے آقا کی طرف منسوب کرتا پھرے۔ ارشاد فرمایاگیا ہے۔

مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَة فَمِنَ اﷲِ وَمَا اَصَابَکَ مِنْ سَيِّئَة فَمِنْ نَّفْسِکَ.

(اے انسان اپنی تربیت یوں کرکہ) جب تجھے کوئی بھلائی پہنچے تو (سمجھو کہ) وہ اللہ کی طرف سے ہے (اسے اپنے حسنِ تدبیر کی طرف منسوب نہ کر) اور جب تجھے کوئی برائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ تیری اپنی طرف سے ہے (یعنی اسے اپنی خرابی نفس کی طرف منسوب کر)۔

(النساء، 4 : 79)

مذکورہ بالا دو آیات میں حقیقت حال بھی واضح کردی گئی ہے اور آداب فکر و قول بھی کہ توفیق اور طاقت ہرکام کی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے منسوب ہوتی ہے۔ لیکن نیکی صادر ہوتو بندگی یہ ہے کہ انسان اسے اپنے آقا کی رحمت سمجھ کر اسی کی طرف منسوب کردے اور بدی صادر ہوتو اسے اپنی سوچ اور کاوش کا نتیجہ سمجھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسی انداز فکر سے انسان کی اپنے عیبوں اور کوتاہیوں پر نظر رہتی ہے اور وہ خود تنقیدی کے ذریعے اپنی اصلاح کا طالب و خوگر ہوسکتا ہے اور دوسری طرف وہ بعض اچھائیوں کو محض اپنی صلاحیت کا ثمرہ سمجھ کر پیکرِ رعونت بھی نہیں بننے پاتا۔ چونکہ ہر کام کی توفیق اور ہمت و قدرت کا مبداء و منبع اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس لیے تسمیہ میں اسی کے مجرد ذکر پر اکتفا کیا گیا اور انسان کے فعل یا اس کے فاعل ہونے کا ذکر محذوف کردیا گیا۔ گویا حقیقت کو عیاں رکھا اور جو کچھ محض ظاہر تھا اسے پوشیدہ کردیا۔

آیت الحمد سے استدلال :
سورۃ الفاتحہ کا آغاز بھی اسی فلسفے کی نشاندہی کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا گیا ہے۔

اَلْحَمْدُلِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ O

سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہےo

(الفاتحه، 1 : 1)

یہ بات بڑی واضح ہے کہ جب کسی کی خوبی یا تعریف ہوگی تو یقیناً کوئی نہ کوئی تعریف کرنے والا بھی ہوگا۔ کیونکہ زبانِ حمد کھولے بغیر بیانِ حمد نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہاں حمد کا ذکر ہے حامد یا فعلِ حمد کا بیان نہیں ہے۔ محض اس لیے کہ اگر حمد کرنے والے کا ذکر کردیا جاتا تو ممکن ہے وہ یہ سمجھتا کہ محمود میری حمد کا محتاج ہے یا میری تحمید نے اسے عظمت دی ہے۔ حالانکہ حمد کسی کا کارنامہ نہیں۔ یہ حسنِ الوہیت کا اپنا استحقاق ہے۔ لہذا اﷲ تعالیٰ نے اپنا محمود ہونا بیان کردیا۔ مگر کسی کا حامد ہونا صراحت سے بیان نہیں کیا۔

اسی طرح تسمیہ میں فعل اور فاعل کو مضمر اور محذوف رکھنے میں حکمت یہ تھی کہ یقیناً وہ کام جس کے آعاز میں بسم اﷲ پڑھی جارہی ہے تو کوئی نہ کوئی شخص ہی کرے گا۔ لیکن کہیں وہ اپنی فاعلیت پر ایسا گمان نہ کرنے لگے کہ یہ کام میں اپنی ہمت و توفیق سے کر رہا ہوں۔ چنانچہ خدا کا نام محض برکت کی غرض سے نہیں بلکہ اس یقین و اعتماد سے لیا جائے کہ اس کام کی توفیق بھی محض اﷲ تعالیٰ کی عطا سے ہے۔

چوتھی حکمت :
اولاً یا آخراً کسی صورت میں بھی خدا کے ماسوا کے ذکر کا تسمیہ میں نہ ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ واجب الوجود صرف اسی کی ذات ہے اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ ممکن ہے اور اس وجہ سے ھالک و معدوم۔ تسمیہ چونکہ تمام معارف قرآنی کا خلاصہ ہے اس لیے اس کا اندازِ بیان بھی دین حق کے جملہ مقاصد و مطالب کا خلاصہ ہوگا۔ بسم اﷲ الرحمن الرحیم کا آغاز و انجام صرف خدا ہی کی ذات و صفات کے ذکر پر مبنی ہے اس کے علاوہ اس میں نہ کسی فعل کا بیان ہے نہ کسی فاعل کا۔ گویا یہ الفاظ خدا کی وحدانیت کو اسی طرح اجاگر کررہے ہیں کہ اس کائنات میں اس کے بغیر نہ تو کسی فعل کا صدور ممکن ہے اور نہ کسی فاعل کا وجود۔ بلکہ دوامِ حقیقی اور ثباتِ ابدی اگر کسی کو حاصل ہے تو وہ صرف خلاّق عالم ہی کی ذات و صفات ہے۔ وہی اول تھا اور وہی آخر بھی ہوگا۔ اس لیے نہ اس سے پہلے کسی فعل کا ذکر ممکن ہے اور نہ اس کے بعد ارشاد ربانی ہے۔

1. هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌO

(الحديد، 57 : 3)

2. لِلَّهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ.

وہ (سب سے) پہلا تھا اور (سب سے) آخر اور(اپنی قدرت کے اعتبار سے) ظاہر اور (اپنی ذات کے اعتبار سے) پوشیدہ ہے وہ سب کچھ خوب جانتا ہےo

(الروم، 30 : 4)

حکم اﷲ ہی کا ہے، پہلے بھی اور بعد میں بھی۔

اسی امر کا بیان ایک اور مقام پر اس طرح ہے۔

3. لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ.

اس کے سوا کوئی معبود نہیں (لوگو! خوب یاد رکھو فانی شے معبود نہیں ہوا کرتی) ہر شے اللہ کی ذات کے سوا فانی ہے۔

(القصص، 28 : 88)

چنانچہ تسمیہ کے کلمات میں خدا کے سوا ہر قسم کے فعل اور فاعل کے ذکر کا محذوف و معدوم ہونا انسان کو پوری کائنات اور ا سکے نظام کی بے ثباتی کی یاد دلاتا ہے۔ یہ کلام پکا رپکار کر دنیا کی بے حقیقت رنگینیوں میں محو و مستغرق انسانوں کو حقیقتِ ابدی کی طرف متوجہ کررہا ہے تاکہ لوگ خواب غفلت سے بیدار ہوکر بے کم و کاست اسی احکم الحاکمین کی قدرتوں اور قوتوں پر کامل ایمان لے آئیں اوراس سراب حیات کو ہی آخری منزل نہ سمجھ لیں۔

تسمیہ سے چونکہ قرآن کا آغاز ہورہا ہے۔ اس موقع پر جامع و مانع انداز سے خدا کی ہستی اور اس کی صفات کا ذکر اور اس کے ماسوا کا حذف واضمار انسان کویہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ دل و دماغ سے غیر کا خیال نکال دے اور ہر لمحہ ذات حق پر نظر رکھے۔ یہ معراج عبدیت ہے اور قرآن کا پہلا سبق بھی یہی ہے جیسا کہ ارشاد ایزدی ہے۔

وَلِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اﷲِ.

اور مشرق ومغرب (سب) اﷲ ہی کا ہے پس تم جدھر بھی رخ کرو ادھر ہی اللہ کی توجہ ہے۔

(البقره، 2 : 115)

مزید برآں وہ ایسا موجود حقیقی ہے کہ ہر وجود کا مبداء بھی وہی ہے اور مرجع بھی۔ بلکہ دوسرے لفظوں میں ہر وجود کائنات کا جواز بھی اسی کے وجود سے ہے۔ وہ حقیقت ہے اور اس کے ماسوا جو کچھ ہے مجاز ہے۔ اس لیے تسمیہ میں حقیقت کا ذکر کیا گیا اور مجاز کو ترک کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے