اصول ضروری برائے تسخیر ہمزاد
ياد رکھیں کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص اصول پر توجہ کئے بغیر اس پرخطر وادی میں سفر کرکے اپنی منزل تک پہنچ جائے ۔
جو حضرات واقعی علم کے طالب ہیں انہیں چاہئے کہ اس موضوع پر مزید کتب پڑھئے(فقیر غلام نبی نوری) کی کتاب میں بھئ ان شاء اللہ جامع مقدمہ پیش خدمت ہوگا ۔ اس کے بعد جا کر کوئی عملی قدم اٹھائیں ۔ زیر نظر تحریر میں ، میری کوشش ہے کہ قدم بہ قدم اس موضوع کو آگے بڑھاؤں تاکہ طالب علم تما م نشیب و فراز سے آگاہ رہے ۔
قوت انسانی
قدرت نے انسان کو کئی قوتوں کا مالک بنایا جو اپنی اپنی جگہ پر بہت بڑی اہمیت کی حامل ہے اگران میں سے ایک بھی قوت کسی بھی وجہ سے کمزور ہوجائے یا ناقص ہوجائے تو جسم انسانی اس حالت میں صحیح طور پر کام نہیں کر پائے گا۔ کیونکہ ان قوتوں میں سے جو بھی قوت کمزور ہوگی وہ اپنے فعل کی صحیح نمائندگی نہیں کر پائے گی اور یقینا ً اس طرح پورا جسم انسانی متاثر ہوگا ۔
مثلاً کسی کا ہاتھ اگر ناکارہ ہوجائے تو ایسے شخص کے بارے میں آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کس قدر محتاجی کا شکار ہوسکتاہے ۔ اعمال روحانی میں بھی چند خاص قوتوں کی ضرورت ہے ان قوتوں میں سے کوئی قوت ایسی نہیں ہے جس کا تعلق بالواسطہ یا بلا واسطہ عملیات، وظیفہ خوانی،اورریاضت سے نہ ہو لہٰذا علوم روحانی_خصوصاً تسخیر ہمزاد کے شائق کو چاہئےکہ وہ اپنی ان قوتوں کی مکمل حفاظت کرے اور ان کو ضائع ہونے سے بچائے اوراگر کسی وجہ سے ان قوتوں میں کمی پیدا ہو چکی ہو تو اس کو پورا کرنے کی کوشش کرے ، یہاں ہم عملیات_اور اس کی ریاضت میں نقص کے پیدا ہوجانے کی طرف مختصر سی مگر جامع دلیل دیتے ہیںیاد رکھیں کہ خصوصی توجہ قوت ہاضمہ پر دی جائی ،اگر عامل کا قوت ہاضمہ درست نہ رہا تو چلہ یا وظیفہ کے دوران دقت کے پیدا ہوجانے کے امکانات قوی ہوجاتے ہیں مثلاً عامل کا قوت ہاضمہ درست نہیں ہے وہ بیٹھا عمل خوانی کرے ، تعداد ورد ختم نہیں ہونے پائی تھی کہ درد شکم میں مبتلا ہوگیا یا حاجت اجابت ہوئی اور وہاں حکم ہے کہ ایک چلہ میں اتنی بار اس دعا کو ضرور پڑھنا چاہئے لیکن ضرورت حائلہ اجازت نہیں دیتی پس چلّہ نا تمام کو چھوڑ کر عامل کو اٹھنا پڑا، چلئے عامل کی محنت سابقہ برباد اب پھر سے عمل کیجئےیا پھر دست بردار ہوجائیے لہٰذا اس قوت کے استحکام پر خاص طور سے توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
قوت ارادی
تمام دیگر علوم کی طرح اس علم کے حاصل کرنے کے لئے بھی قوت ارادی کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے بہ الفاظ دیگر مخصوص طور پر اس عمل کی جان کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ اس لئے کہ یہی قوت اس علم کے حاصل کرنے میں ہر جگہ آپ کو کار فرما ہوتی ہوئی نظر آئے گی ۔ تحقیق و تجربہ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس قوت کو جس قدر استحکام ہوگا عامل اسی_قدر جلد سے جلد تر اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرتا جائے گا اور اگر عامل کی قوت کمزوررہی اور اس میں استحکام نہ پیدا ہو سکا تو پھر ایسے صاحب عمل کو ہر ہر قدم پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا اور یہ صورت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک کہ اس کی قوت ارادی مضبوط سے مضبوط تر نہیں ہوجاتی ۔ اس کے استحکام حاصل کرنے کے ئے ذیل میں چنز اصول سپرد قلم کئے جاتے ہیں اگر آپ ان اصولوں پر باضابطہ عمل کرتے رہے تو چندروز کے بعد آپ کی قوت ارادی میں ایسا استحکام پیدا ہوجائے گا کہ جو خود آپ کو محوِ حیرت کردے گا اسی قوت کو قوت اختیاری بھی کہتے ہیں ۔
مقناطیسی قوت
یہ بھی ایک قسم کی_نہایت اہم قوت ہے جو جسم انسانی میں ہر وقت کارفرما رہتی ہے تمام جسم انسانی پر اس کا قبضہ رہتا ہے آنکھیں ، دل و دماغ و چہرہ براہ راست اس سے متاثرہوتے رہتے ہیں اور انہیں ذریعو سے یہ اپنی_برقی رو خارج کرتے دوسروں کی قوت مقناطیسی پر بھرپور اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہے لیکن اصولی طور پر نشو نما نہ ہونے کے سبب سے اس کو کبھی کامیابی اور کبھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے لہٰذا نہایت ضروری ہے کہ آپ مناسب طریقہ پر اس قوت کی نشو و نما کیجئے اور اس طرف سے غفلت نہ برتئے اگر واقعی تسخیر ہمزاد کے عامل بننا چاہتے ہیں یہ بات_پایہ تحقیق پر پہنچ چکی ہے اور ہر ذی روح میں یکساں طریقہ پر موجود ہے اس قوت کی_تربیت اور نشو و نما کےلئے قوت ارادی اور خوداعتمادی کی معاونت اور ان کی حفاظت کہ ان میں کسی طرح کی کمزوری نہ پیدا ہونے پائے نہایت ضروری ہے یہاں یہ بات فراموش کرنے کے قابل_نہیں ہے کہ یہ لوم بھی ایک جداگانہ حیثیت کے مالک ہیں اور تحقیق کنندگان نے ان موضوعات پر حاصل سیر کتابیں سپرد قلم فرمائی ہیں ان کا مطالعہ کیجئے اور باضابطہ معلومات حاصل کیجئے تاکہ کامیابی و کامرانی آپ کے قدم کو بوستہ دیتی ہوئی نظر آئے۔
خود اعتمادی
خود اعتمادی دراصل اپنے آپ پر بھروسہ کرنے کو کہتے ہیں عامل تسخیر ہمزاد کو ضرورت شدید اس امر کی ہے کہ وہ اپنے اندرخود اعتمادی پیدا کرنے کی کوشش بلیغ کرےیعنی اپنی ذات پر ، اپنے قول و فعل پر ، اپنی حرکات و سکنات پر اپے طرز تکلم پر بھروسہ کرنا سیکھے جب تک و اپن ذات پر اپنے اقوال و افعال و طور و طریقہ پر بھروسہ نہ کرے گا اس وقت تک دوسرے افراد نہ تو اس کی ذات پر دلچسپی لے سکتے ہیں اور نہ اس پر کسی معنوں سے بھروسہ کر سکتے ہیں یہ بات بے محلو بے موقع نہ ہوگی کہ شک و شبہ خود اعتمادی کے زبردست دشمن ہیں۔ اور یہ امر بھی لازمی ہے کہ جہاں شک و شبہ نے کسی شخص کے دل میں جگہ پائی اسی وقت خود اعتمادی اس سے رخصت ہوگئی لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ خود اعتمادی پیدا کرنے سے پہلے اگر شک و شبہ نے دل میں جگہ کرلی ہے تو اس کو قطعی طور پر رخصت کردینا چاہئے اسی وقت خود اعتمادی پروان چڑھ سکتی ہے ۔ اگر آپ میں جوہر خود اعتمادی کا فقدان ہے تو آپ یہ یقین کرلیں کہ آپ قوت مقناطیسی ایسی نعمت سے محروم ہیں اور جب آپ میں قوت مقناطیسی یا بہ الفاظ دیگر کشش شخصی موجود نہیں ہے تو آپ اپنی مرضی سے خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔ اب یہ بات دوسری ہے کہ اگر کسی موقعپر اندھے کے ہاتھ بٹیر لگ جائے تو یہ ایک اتفاقی امر ہوگا اور میں اس کو خاطر خواہ کامیابی کا درجہ نہ دوں گا لہٰذا قوت مقناطیسی کی جلا اور اس کو مستکم کرنے کے لئے آپ کو اپنی قوت ارادی اور خود اعتمادی میں سے پہلےریاضت کرنی پڑے گی_قوت ارادی کا تذکرہ گزشتہ سطور میں کیا جا چکا ہے ۔
خود اعتمادی پیدا کرنےکے لئے چند آسان طریقے
اگر آپ اپنے اندر جوہر خود اعتمادی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو اپنے آپ پر بھروسہ کیجئے ۔
اپنے کسی فعل کو شک و شبہ کی نگاہ سے نہ دیکھئے ۔
اپنی بات میں وزن پیدا کیجئے ۔
وعدہ وفائی کی عادت ڈالیں خواہ کسی موقع پر آپ کو نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔لیکن یاد رکھئے کہ اقرار کے بعد قدم میں لغزش نہ ہونے پائے ۔
جس بات کو نہ کرنےکا ایک مرتبہ عزم کرلیں اس پر قائم رہنے کی_کوشش کیجئے خواہ آپ کا نفس امارہ اس کام کے کرنے کی کیسی ہی ترغیب کیوںنہ دے اور اس کام کے چھوڑنے میں آپ کو نفسانی تکلیف کا کسی قدر احساس کیوں نہ ہو مثلاً آپ کثرت سے سگریٹ نوشی کے عادی ہوچکے ہیں اور آپ کی یہ عادت آپ کی فطرت کا حصہ بن چکی ہے اب اسے چھوڑنا آپ کے لئے نا ممکن ہو چکا ہے آپ نے اک دن اس کے نقصان پر غور فرمایا ، بات دل کو لگی اور اسی وقت آپ نے تہیہ کرلیا کہ اب سگریٹ نہ پئیں گے ظاہر ہے سگریٹ کا ہر کش اس ارادہ کرنےسے پہلے باعث فرحت ہوتا تھا اس کے دھوئیں سے آپ لطف اندوز ہوتے تھے، اس کا نشہ آپ کے لئے کیف و سرور پیداکرتا تھا ، طبیعت اس قسم کے لطف کی_عادی ہو چکی تھی ایک وقت میں آپ اس کے نقصانات سے جب آگاہ ہوئے ، تمباکو کے نکوٹین نے آپ کی آنکھیں کھولیں ، انگلیوں پر امراض گنوائے ، عشق عمل خوانی نے ہوشیار کیا کہ عمل کرنا چاہتے ہو تو سگریٹ چھوڑو اس لئے کہ تمہارے منہ سے تمباکو کی بو آرہی ہے اور بوئے ناگوار آرہی ہے اور ایسی بُو سے موکلین پریشان ہوتے ہیں انگی ناخوشی کا باعث ہوگا ۔ چانچہ آپ نے تہیہ کیا کہ آج سے سگریٹ نوشی ترک اورآپ نے واقعی اس منہ لگی چیر کو اسی جذبہ کے تحت چھوڑ بھی دیا اب ہوئی تکلیف اور اس کا احساس لمحہ بہ لمحہ شدت اختیار کرتا گیا ، خواہش نے زور پکڑا ،نفس نے سرکشی کی ۔۔۔۔۔ جمائی پر جمائی آرہی ہے لیکن آپ کا تہیہ اپنی جگہ پر کہ نہ پئیں گے ، چھوڑ دیا تو چھوڑ دیااور واقعی لہر پیدا ہونے کے باوجود بھی آپ اپنے ارادے پر قائم رہے او ساری تکالیف کا مقابلہ کرتےہوئے آپ نے سگریٹ نوشی ترک کردی اور اسی طرح ہر معاملات میں آپ اپنے فیصلہ پر قائم رہے تو آپنے خود اعتمادی پیدا کرلی اب اس میں اسی طرح استحکام پیدا کرتے چلے جائیے خود اعتمادی کو مستحکم بنانے کے لئے آپ کوشک و شبہ کو دور کرتے ہوئے اپنے یقین مکمل اور اپنے تہیہ کو پورے طور سے اپنانا پڑے گا اور جب آپ اس منزل میں کامیاب ہوجائیں گے تو قوت مقناطیسی یا کشش شخصی میں خود بخود اضافہ ہوتا ہوجائے گا ۔ جس سے آپ اپنے اندر ایک ایسی طاقت کو روا دوا پائیں گے جو خود آپ کو محو حیرت کردیگی اس لئے کہ اس چھپی ہوئی طاقت_کے وجود سے پہلے آپ لا علم تھے اس کے علاوہ خود اعتمادی کے استحکام کے ذہنی مشق کے سلسلےمیں آپ کو مزید فائدےبھی ہونگے
نمبر۱۔ بُری باتوں سے پرہیز اور بُری عادتوں سے چھٹکارا حاصل ہوجائے گا۔
نمبر ۲۔ آپ کے قدم تیزی سے سچائی کی طرف بڑھنے لگیں گے ۔
نمبر ۳۔ جھوٹ کی عادت جاتی رہے گی ۔
نمبر ۴۔ لالچ سے پرہیز ہوگا ۔
نمبر ۵۔ مخلوق خدا کی خدمت کا سچا جذبہ آپکے دل میں پیدا ہوگا ۔
نمبر ۶۔ طبیعت نیکی کی جانب مائل ہوگی ، عبادت میں لطف آئےگا۔
نمبر ۷۔ وظیفہ و وظائف سے اسباب نحوست دور ہوں گے نیز اور بہتسی ایسی ہی باتیں خیر و برکت کی پیدا ہونگی۔
مذید طریقوں پرفقیر غلام نبی قادری نوری کی کتاب میں جامع گفتگو ہوگی ان شاء اللہ
قوتوں کا اجتماع اور ان کا تحفظ
جن قوتوں کا فقیر مضامین گزشتہ میں ذکر کر چکا ہے اب وہ مقرر محتاج بیاں نہیں رہیں اس مقام پر اگر ان قوتوں کا اجتماعی تذکرہ اور یکجائی طورپر ان کے تحفظ کا ذکر قلمبند نہ کیا جاتا تو پھر یہ عنوانات تشنہ رہ جاتے لہٰذا معلوم ہونا چاہئے کہ ان قوتوں کا براہ راست تعلق دل و دماغ دونوں سے ہے اور یہ دونوں اعضائے رئیسہ جو جسم انسانی کے اندر بادشاہ و وزیر کا درجہ رکھتےہیں ان قوتوں کے عروج و زوال پذیر اثرات سے ہمہ وقت متاثر ہوتے رہتے ہیں ۔ عروج پر تقویت اور زوال پر نقاہت کے مضر اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتے اور جب ان دونوں اعضائے رئیسہ پر ناقص اثرات نے اپنا قبضہ کرلیا تو پھر انسان کے ہر افعال میں کمزوری کا پیدا ہوجانا تعجب خیز عمل نہیں ہے۔ نہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت باقی رہ جاتی ہے اور نہ مشکلات پر قابو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ پھر اس موقع پر ااپ کو کیا کرنا چاہئے یااس موقع پر آپ کو کیا کرنا ہوگا اس کا جواب خود آپ کو آپ کا ضمیر دے گا ۔ فقیر نے گزشتہ مضامین و سطور میں تحریر کر دیا ہے یہاں پر آپ کوایک لفظ “خواہش ” سے جس کا مفصل تذکرہ اب تک ہم نے کہیں نہیں کیا ، روشناس کروانا مد نظر ہے ۔
خواہش ایک ایسی رغبت کا نام ہے جو ایک قسم کی برقی رو کی صورت میں نہ معلوم طریقے پر انسان کے دل سے خارج ہوتی ہے ۔ اس وقت جبکہ دل انسان کو کسی ایسی چیز کی طرف اس کے حاصل کرنے کے لئےمتوجہ کرتا ہے جس کی یہ برقی رو یا بالفاظ دیگر لہر متمنی رہتی ہے تو کمال احتیاط سے اس لہر کی آرزو کو پورا ہونے سے روک دیا جائے اور اس کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دیا جائے ۔اس سے دو فائدے ہونگے اول تو ان تمام قوتوں کا نظام درہم برہم نہ ہوگا جن کا تذکرہ کیا جا چکا ہے اور دوسرا یہ کہ قوت مقناطیسی کو مزید تقویت حاصل ہوگی اور قوت مقناطیسی کی حاصل کردہ اس قوت سے قوت ارادی یا قوت اختیاری کے استحکام میں بھی کافی مدد ملے گی چنانچہ انسان کو اپنی خواہش پر قابوحاصل کرکے اس کی طاقت کو زائل ہونے سے بچا لینا ہی ایک ایسا راز ہے جس کی پوری پوری عکاسی یہاں پر نہیں کی جا سکتی ۔ چونکہ راز کا تذکرہ اس جگہ پر آگیا ہے لہٰذا یہ بھی ظاہر کرتے چلیں کے انسان کی تخلیق بھی پردہ راز ہی میں ہوئی اس کے تمام اعضاء کی پرورش بھی راز ہی کی مرہون منت ہے ۔ اس کی ابتدائی غذا بھی راز ہی راز تھی کوئی نہیں جانتا کہ شیر مادر کا صحیح خزانہ کہاں ہے کس مقام سےکن کن صورتوں میں اکٹھاہوکر مقام اخراج سے باہر ہوتا ہے اور پھر یہ بھی تو راز ہی رہا کہ بچے نے اپنی بھوک مٹانے کے لئے شکم سیر ہونے کے واسطے پستان مادرسے ایک تولہ دودھ حاصل کیا یا ایک سیر ۔ بچہ تو درکنار خود اس کی ماں کو بھی یہ علم نہیں کہ آج اس کے نونہال نے اس سے کتنی مقدار میں غذا حاصل کی ہے۔
قطع نظر اس کے کہ خود آپ کو بھی یہ علم نہیں ہوپاتا کہ آپ کے اعضاء نے آپ ہی کے جسم کے اندر سےکب اور کتنی مقدار میں ( جس سے کہ اس کی پرورش ہوتی رہتی ہے ) اپنی خوراک حاصل کی ۔
تو آپ خود جب بمنشاء قدرت ایک راز ہیں تو پھر آپ اپنے ان رازوں کو جن سے کہ آپ بذات خود آگاہ ہوتے ہیں تو پھر دوسروں پر منکشف کرکے اپنی ان قوتوں کو جو کہ آپ کی سرمایہ حیات ہیں کیوں درہم برہم کرتےہیں ؟؟۔
منجانب فقیر مدینہ غلام نبی قادری نوری
ریپلائی کیجیئے