جلالی و جمالی پرہیز کی لاجک

جلالی و جمالی پرہیز کی لاجک

                    ضدین اسلام میں جو شے حلال ہے وہ حلال ہے اور جو حرام وہ حرام، حلال شئے کو خود پر حرام کرنا بغیر کسی عذر شرعی یا طبی جائز نہیں۔ احادیث سے ثابت ہے کہ جنات کی غذا انسانوں کی چھوڑی ہوئی ہڈیاں ہیں تو جب جنات خود ترک حیوانات پر قائم نہیں تو دوران عملیات انسان کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ وہ ترک حیوانات کرے، تاہم اقوال آئمہ کے مطابق مومن کے لئے نصیحت ہے کہ اپنے شکم کو حیوانات کا قبرستان مت بناو، قول آئمہ حکمت سے خالی نہیں ہوتا لہذاء دوران عمل بلکہ روز مرہ کی زندگی میں بھی گوشت کا استعمال کم رکھیں۔ وہ خوراک جو اسلام کے آغاز یعنی دعوت ذوالعشیرہ کے دستر خوان کی زینت بنی ہو کہ جسکی تیاری مولی علی رضی اللہ عنہ نے اور میزبانی رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہو اسکو خود پر حرام کر کے آج کا مسلمان کونسی روحانیت حاصل کرنا چاہتا ہے، میری سمجھ سے تو یہ مسئلہ باہر ہے۔

                    ضباقی جہاں تک ملائک یا مؤکلین کا سوال ہے تو وہ خوراک کا استعمال سرے سے نہیں کرتے نیز کیونکہ وہ معصوم ہوتے ہیں لہٰذاء امر ربی کے برخلاف عمل نہیں کر سکتے۔کیونکہ احادیث میں گوشت کو کھانوں کا سردار قرار دیا گیا ہے اور قرآن پاک نے اسکو حلال جانا ہے تو ممکن ہی نہیں کہ ملائک ان کے استعمال کرنے والوں کو زک پہنچائیں۔

                    ضلہذاء پرہیز وغیرہ خوراک کی حد تک بس اتنا ہے کہ گوشت کم کھائیں اور شکم سیری سے بھی اجتناب فرمائیں، گناہ کبیرہ سے ختمی طور پر پرہیز کریں، انسان غلطیوں کا پتلہ ہے اگر گناہ نا کرے تو معصوم کہلائے جو صرف انبیاء اور اللہ کے مقربین ملائکہ بلافصل کا وصف ہے، تاہم کم سے کم گناہ کریں اور احساس گناہ کو ختم مت ہونے دیں۔ غلطی ہوتے ہیں فوراً توبہ کریں اور استغفار کریں۔ سورہ تو بہ اور سورہ نور کی تلاوت کو معمول بنائیں۔ مولی علی رضی اللہ عنہ کی ولایت و نگاہ شفقت و کرم اور سلسلہ محبت پر کامل اعتماد رکھیں۔ اور حضور ﷺ کی ذات پر درود پاک کی کثرت کریں کوئی وجہ نہیں کہ آپ ناکام ہوں۔

subconscious mind to conscious mind

                    ضشعور، لاشعور اور تحت الشعور انسانی دماغ کے تین مختلف افعال ہیں۔ شعور ظاہری اور لاشعور باطنی فعل ہے۔ شعور کی مثال کمپیوٹر سی پی یو کی ہے جو معلومات کو پروسیس کرتا ہے۔ لیکن معلومات کو سٹور نہیں کر سکتا یعنی اس میں معلومات کا ذخیرہ وقتی طور پرہوتا ہے۔ لاشعور معلومات کو پروسس بھی کرتا ہے اور سٹور بھی کرتاہے۔ جبکہ تحت الشعور صرف اور صرف معلومات کو سٹور کرتا ہے۔

               ضاب ہوتا یہ ہے کہ ہمارے اردگرد جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ ہمارے حواس خمسہ کے ذریعے سے ہمارے شعور میں جاتا ہے جو ہمارے کلچر، مذہب، ایمان، تربیت، رہن سہن کے فلٹرز سے چھن کر شعور کی سطح پر اجاگر ہوتا ہے اور شعور اسکا کوئی مطلب اخذ کرتا ہے۔

                    ضشعور اور لاشعور کے فنکشن کو سمجھنے کے لئے ایک مثال ملاحظہ فرمائیں۔ آپ کسی جگہ پہلی دفعہ جاتے ہیں تو آپکو راستہ کھلی آنکھوں اور پورےہوش و حواس سے طے کرنا ہوتا ہے لیکن جب آپ متعدد بار کسی ایک ہی جگہ جاتے ہیں تو آپکا شعور اس سارے پروسس سے لاپرواہ ہو کر اسے لاشعور کے حوالے کر کے لاتعلق ہو جاتا ہے پھر آپکا لاشعور آپکو بتاتا ہے کہ آگے سے مڑ جاؤ اور 1 کلومیٹر کے بعد بایاں موڑ لے لو وغیرہ۔

                    ضلاشعور اور شعور میں وہی فرق ہے جو ایک کیلکولیٹر اور سپر کمپیوٹر میں ہوتا ہے۔ لاشعور آپکے تمام جسم کو چلاتا ہے جیسے دل کا دھڑکنا، پھیپھڑوں کا پھیلنا اور سکڑنا، بھوک کا وقت پر لگنا، نیند آنا ہر فعل لاشعور کے ذمہ ہے اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ لاشعور کی طاقت کیا ہے۔

                    ضہماری یاداشت شعور سے لاشعور میں محفوظ ہو جاتی ہے اسکے بعد جب وہ کافی عرصے تک استعمال نہیں ہوتی تو بالآخر تحت الشعور میں چلی جاتی ہے۔ یادداشت محفوظ ہوتے وقت دماغ اس یادداشت یا واقع سے متعلق انسانی جذبات کی شدت کے مطابق یادداشت کو محفوظ کرتا ہے جذبات جتنے شدید ہوں یاداشت اتنی ہی آسانی سے بوقت ضرورت شعور کی سطح پر آجاتی ہے۔

بالکل ویسے جیسے ہارڈ ڈرائیو سے ڈیٹا ریم میں لوڈ ہوتا ہے۔ اور سی پی یو اسکو پروسیس کرتا ہے۔

                    ضشعور سے کیا گیا فیصلہ اتنا درست نہیں ہوتا کیونکہ شعور کمزور ہے لاشعورمضبوط لاشعور کو دل کی آواز بھی کہہ سکتے ہیں یا الہام سے بھی تشبیح دی جا سکتی ہے کیونکہ لاشعور کا تعلق ہماری ہائر سیلف سے ہوتا ہے۔

                    ضلاشعور کی طاقت کا اندازہ آپ اپنے خوابوں سے لگا سکتے ہیں خواب کتنے creative ہوتے ہیں آپ جاگتے ہیں ایسا خواب نہیں بن سکتے۔ شاعر کو آمد ہونا لاشعوری کوشش ہے ایجادات لاشعور کی کارستانیاں ہیں۔

                    یہ ایک چھوٹا سے تعارف تھا جو شاید میں تقریر کی صورت میں بہتر طریقے سے گوش گزار کر سکتا۔

از استاد محترم غلام نبی قادری نوری صاحب