خیالات کیا ہیں؟
ضکائنات کی سب سے تیز رفتار چیز خیال ہے، جی خیال، روشنی سے بھی زیادہ تیز رفتار کا حامل جو ایک لمحہ کے ہزارویں حصے میں دنیا کہ ایک کونے سے دوسرے کونے میں پہنچ جاتا ہے۔ دنیا تو دنیا نظام شمسی کے سیاروں یا اس سے بھی آگے کی گلیکسیز اور اس میں موجود گردش کرتے اجسام تک پہنچنا خیال کے لئے انتہائی سہل ہے۔
ضخیال کی تیز رفتاری کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ یہ جس ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ اس کو گرفت میں لینے سے قاصر ہے۔ انسانی دماغ ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں لاکھوں خیالات کو پیدا اور مربوط کر سکتا ہے۔ دماغ جو انسان کو دیگر مخلوقات سے افضل بناتا ہے اسکی اصل در اصل نور ہے یہ محدود نہیں بلکہ لامحدود قوتوں کا حامل ہے وہ الگ بات کہ انسان ابھی تک صرف اور صرف انسانی ذہن کا زیادہ سے زیادہ سات یا آٹھ فیصد حصہ ہی اپنے استعمال میں لاسکا ہے۔ اور اس پر سائنس کی ترقی کا یہ عالم ہے کہ دنیا تقریباً تباہی کے دھانے پر کھڑی ہے۔
ضمحدود اور لامحدود کی بحث میں اس بات کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ جس بھی شئے کی حدود معین نا ہوں وہی لا محدود کہلاتی ہے۔ یعنی وہ چیز جو ابھی کسی بھی زاویہ سے مسلسل پھیل رہی ہو اور جمود کا شکار نا ہو لامحدود کہلائے گی۔ جیسے کائنات، کیونکہ یہ مسلسل پھیل رہی ہے لہٰذاء محدود ہوتے ہوئے بھی لامحدود ہے کہ اسکے پھیلاؤ کے عمل میں فی الوقت ٹھراؤ پیدا نہیں ہوا۔
ضیہ خیال ہی ہے کے جس کہ دوش پر سوارہو کے نظر بد ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں دنیا کہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچ کر پتھر کے جگر کو پارہ پارہ کرتی ہے۔
ضخیال کی قوت کا اندازہ لگانا ناممکن ہے اگر انسان اس پر مکمل گرفت کر لے تو یہ Laser سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ خیال ہی کی قوت ہے جو دعاؤں اور عبادات میں اثر پیدا کرتی ہے۔ اعمال و نقوش میں کامیابی و ناکامی کا دارومدار بھی خیال کی اسی قوت کا محتاج ہے۔ خیالات کا مسلسل بہاؤ کسی خاص سمت میں ناممکن کو ممکن میں بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔ خیال دراصل توانائی کی ایک انتہائی لطیف قسم ہے جو اپنی لطافت کے باوجود زبردست قوت کی حامل ہے۔ یہ آپکی زندگی میں خوشیاں بھر سکتی ہے یا آپکی زندگی کو برباد کر سکتی ہے۔ یہ کمان سے نکلا ایک ایسا تیر ہے جو کبھی خطا نہیں جاتا۔
از غلام نبی قادری نوری صاحب زیدہ مجدہُ
ریپلائی کیجیئے