در حقیقت عامل کون ہوتا ہے؟

در حقیقت عامل کون ہوتا ہے؟

                    ض بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ عامل کی تعریف کیا ہے۔ ہر وہ شخص جو کسی بھی عمل کو سرانجام دیتا ہے، عامل ہے۔ نماز پڑھنا ایک عمل ہے تو نمازی عامل نماز ہے اور اس عمل کے رد عمل میں جنت میں محلات اور باغات کی تخلیق کی علت قرار پاتا ہے بشرطیکہ نماز کی تمام شرائط کو بطریق احسن اور اللہ کی قربت کی نیت سے سر انجام دے، نماز پڑھنے سے پہلے وضو کرنا ایک عمل ہے اور اس عمل کے نتیجے میں وضو کے پانی کے قطروں سے فرشتوں کی تخلیق ایک ردعمل ہے، عمل نیک تو مثبت انرجی میں اضافہ، عمل بد تو منفی انرجی میں اضافہ، آپ نے جھوٹ بولا، غیبت کی تو نا صرف شیاطین خوش ہو کر آپکے قریب آیا بلکہ دوزخ میں ایک سانپ یا بچھو آپکی آؤ بھگت اور خدمت گزاری کے لئے خلق ہوگیا، گویا آپکا ہر عمل آپکی نیت کے مطابق مثبت یا منفی قوتوں کو نا صرف اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے بلکہ مشیت الہٰی کے تحت عدم سے تخلیق بھی کر رہا ہے۔

                    اس تمھید سے پتہ چلا کہ جو کوئی بھی شخص کسی بھی قسم کے نورانی یا سفلی ورد یا منترکا جاپ کرتا ہے، عامل ہے، اور ہر عمل کا ردعمل تمھید بالاسے ثابت ہے، احباب کا یہ کہنا کہ بھائی ہمارے پاس تو کوئی مؤکل نہیں ہم تو سیدھے سادھے بندے ہیں، جہالت ہے۔ ان اندھوں کو معلوم ہی نہیں کہ ہر منتر کے جاپ سے یہ سفلی مؤکلین کی ایک ٹڈی دل فوج کو اپنے ناپاک مقاصد کے حصول کے لئے اپنے ساتھ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اور بظاہر سمجھ رہے ہیں کہ یہ اکیلے ہیں۔

                    ضاسی طریق سے احادیث سے ثابت ہے کہ قرانی آیات کی تلاوت سے اللہ تعالیٰ فوری فرشتوں کو انسانوں کی مدد اور نصرت کے لئے معمور کر دیتا ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں ہے، سب جانتے ہیں۔ تو موکل ہر شخص کے پاس ہے، اسے علم ہو یا نا ہو۔ کیونکہ جب شمع روشن ہوتی ہے تو پروانے آ ہی جاتے ہیں۔ آپ قرانی اعمال کریں تو ملائک آپکو گھیرے میں لے لیتے ہیں اور شیطانی اعمال کریں تو شیاطین، یہ بہت ہی آسان فہم بات ہے جسے میں نے بہت ہی سلیس اردو میں قارئین کے لئے بیان کر دیا ہے۔ اب بھی کوئی نا سمجھے تو وہ اپنی عقل کا علاج کروائے، کیونکہ اس سے زیادہ سہل انداز میں میرے لئے ان پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانا ممکن نا ہو گا۔

از استاد محترم غلام نبی قادری نوری