رد مرزائیت کورس قسط 1

’’اب میرے سوانح اس طرح پر ہیں کہ میرا نام غلام احمد میرے والد کا نام غلام مرتضی اور دادا صاحب کا نام عطاء محمد اور میرے پرداد اصاحب کا نام گل محمد تھا اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے ہماری قوم مغل برلاس ہے اور میرے بزرگوں کے پرانے کاغذات سے جو اَب تک محفوظ ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں سمر قند سے آئے تھے ۔‘‘

’’اب میرے سوانح اس طرح پر ہیں کہ میرا نام غلام احمد میرے والد کا نام غلام مرتضی اور دادا صاحب کا نام عطاء محمد اور میرے پرداد اصاحب کا نام گل محمد تھا اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے ہماری قوم مغل برلاس ہے اور میرے بزرگوں کے پرانے کاغذات سے جو اَب تک محفوظ ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں سمر قند سے آئے تھے ۔‘‘

مرزا غلام احمد قادیانی کا مختصر تعارف

خاندانی پس منظر
’’ میں ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ (برطانیہ) کا پکا خیر خواہ ہے ۔ میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفاداراور خیر خواہ آدمی تھا جن کودربارگورنری میں کرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور۱۸۵۷ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھکر سرکار انگریزی کومدد دی تھی یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچاکر عین زمانہ غدر کے وقت سرکار انگریز ی کی امداد میں دیے تھے ان خدمات کی وجہ سے جو چھٹیات خوشنودی حکام ان کو ملی تھیں مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہوگئیں مگر تین چھٹیات جو مدت سے چھپ چکی ہیں ان کی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں پھر میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی مرزا غلام قادر خدمات سرکاری میں مصروف رہا اور جب تیموں کے گزر پر مفسدوں کا سرکار انگریزی کی فوج سے مقابلہ ہوا تو وہ سرکار انگریزی کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا ۔ پھر میں اپنے والد اور بھائی کی وفات کے بعد ایک گوشہ نشین آدمی تھا تاہم سترہ برس سے سرکار انگریزی کی امداد اور تائید میں اپنی قلم سے کام لیتا ہوں ۔‘‘

(کتاب البریہ مندرجہ روحانی خزائن جلد ۱۳ ص۴ تا ۶)

نام و نسب
’’اب میرے سوانح اس طرح پر ہیں کہ میرا نام غلام احمد میرے والد کا نام غلام مرتضی اور دادا صاحب کا نام عطاء محمد اور میرے پرداد اصاحب کا نام گل محمد تھا اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے ہماری قوم مغل برلاس ہے اور میرے بزرگوں کے پرانے کاغذات سے جو اَب تک محفوظ ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں سمر قند سے آئے تھے ۔‘‘
(کتاب البریہ ص۱۴۴ بر حاشیہ روحانی خزائن ص ۱۶۲،۱۶۳ ج ۱۳،مثلہ سیرۃ المہدی حصہ اول ج۱ ص۱۱۶)

تاریخ ومقام پیدائش

مرزا غلام احمد قادیانی بھارت کے مشرقی پنجاب ضلع گورداسپور تحصیل بٹالہ قصبہ قادیان میں پیدا ہوا ۔ اپنی تاریخ پیدائش کے بارے میں اس نے یہ وضاحت کی ہے :’’ اب میرے ذاتی سوانح یہ ہیں کہ میری پیدائش۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی ہے اور میں ۱۸۵۷ء میں سولہ برس کا یا سترھویں برس میں تھا۔‘‘
(کتاب البریہ ص۱۵۹ حاشیہ روحانی خزائن ص۱۷۷ ج۱۳)

ابتدائی تعلیم
مرزا قادیانی نے قادیان ہی میں رہ کر متعدد اساتذہ سے تعلیم حاصل کی جس کی تفصیل خوداس کی زبانی حسب ذیل ہے ۔
’’ بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا ۔جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الہی تھا ۔اور جب میری عمر تقریباً دس برس کی ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کیلئے مقرر کئے گئے جن کا نام فضل احمد تھا میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدائے تعالی کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لئے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ’ فضل‘ ہی تھا۔ مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صرَف کی بعض کتابیں او رکچھ قواعد نحو اِن سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔ان کا نا م گل علی شاہ تھا ان کو بھی میرے والد نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کیلئے مقرر کیا تھا اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خداتعالی نے چاہا حاصل کیا اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے ۔‘‘
(کتاب البریہ بر حاشیہ۶۱ ۱تا۱۶۳۔روحانی خزائن ج ۱۳ ص ۱۷۹ تا ۱۸۱)
جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی خود لکھتا ہے کہ ’’ تمام نفوس قدسیہ انبیاء کو بغیر کسی استاد یا اتالیق کے آپ ہی تعلیم اور تادیب فرما کر اپنے فیوض قدیم کا نشان ظاہر فرمایا۔‘‘
(دیباچہ براہین احمدیہ ص ۷، روحانی خزائن ص۱۶ج۱)

ملازمت
مرزا غلام احمد قادیانی کا بیٹا لکھتا ہے۔
’’ بیان کیامجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تمہارے دادا کی پنشن وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین بھی چلا گیا جب آپ نے پنشن وصول کرلی تو وہ آپ کو پھسلا کر اور دھوکہ دے کر بجائے قادیان آنے کے باہر لے گیا اور ادھر اُدھر پھراتا رہا پھر اتارہاپھر جب آپ نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کردیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا ۔ حضرت مسیح موعود اس شرم سے واپس گھر نہیں آئے اور چونکہ تمہارے دادا کا منشاء رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہوجائیں اس لئے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازم ہوگئے ۔ ‘ ‘
(سیرۃ المہدی حصہ اول ص ۴۳ روایت نمبر ۴۹ ،مصنفہ صاحبزادہ بشیر احمد صاحب قادیانی )
واضح رہے کہ پنشن کی یہ رقم سات صد روپیہ تھی۔
(سیرۃ المہدی ج ۱ ص ۱۳۱ روایت نمبر ۱۲۲)

منکوحات مرزا

مرزا غلام احمد قادیانی کی تین بیویاں تھیں۔
پہلی بیوی جس کو ’ پھجے کی ماں‘ کہا جاتاہے اور اس کا نام حرمت بی بی تھا اس سے ۱۸۵۲ء یا ۱۸۵۳ ء میں شادی ہوئی ۔
دوسری بیوی جس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے اس سے نکاح ۱۸۸۴ء میں ہوا ۔
اس کی ایک او ربیوی بھی تھی جس کے ساتھ بقول اسکے اس کا نکاح آسمانوں پر ہوا تھا،جس کا نام محمدی بیگم تھامگر اس کے ساتھ اس کی شادی ساری زندگی نہ ہوسکی اس کا مفصل تذکرہ آئندہ آئے گا۔

اولاد

۱) مرزا سلطان احمد ۲) مرزا فضل احمد
(یہ دونوں مرزا پر ایمان نہ لائے تھے میرزا فضل احمد مرزا قادیانی کی زندگی میں مر گیا لیکن مرزا نے اس کا جنازہ نہ پڑھا( روزنامہ الفضل قادیان ۷ جولائی۱۹۴۳ء ص ۳ ) جبکہ مرزا سلطان احمدکو مرزا نے عاق کردیاتھا)
مرزا کی دوسری بیوی سے درج ذیل اولاد ہوئی۔
لڑکے﴾ مرزا محمود احمد ۔مرزا شوکت احمد۔ مرزا بشیر احمداول ۔ مرز اشریف احمد۔ مبارک احمد ۔بشیر احمد ایم اے۔
لڑکیاں ﴾ مبارکہ بیگم ۔ امۃالنصیر ۔ امۃ الحفیظ بیگم ۔عصمت
ان میں سے فضل احمد ، بشیر اول، شوکت احمد ،مبارک احمد ،عصمت اور امۃ النصیرکا مرزا کی زندگی میں ہی انتقال ہوگیا تھا جبکہ باقی اولاد( سلطان احمد ،محمود احمد ، بشیر احمد ،شریف احمد ،مبارک بیگم ،امۃ الحفیظ بیگم ) مرزا قادیانی کی موت کے بعد بھی زندہ رہی ۔
(دیکھئے نسب نامہ مرزا ،سیرۃ المہدی حصہ اول ص ۱۰۴ روایت ۱۲۸)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مرزا کے ہاں دونوں بیویوں سے آٹھ لڑکے اور چار لڑکیاں پیدا ہوئی تھیں ۔چارلڑکے اور دو لڑکیاں مرزا کی زندگی میں انتقال کر گئیں جبکہ چار لڑکے اور دو لڑکیاں زندہ رہیں ۔

مرزا کے دعوے

مرزا نے درجہ بدرجہ دعوے کئے تھے جس کا نقشہ حسب ذیل ہے۔
(ملہم من اﷲ ۔مجدد۔ مسیح موعود۔ مہدی ۔ظلی بروزی نبوت۔ مستقل نبوت)

ان دعووں پر چند حوالہ جات

(۱) ’’ جب تیرھویں صدی کا آخیر ہوا اور چودہویں صدی کا ظہور ہونے لگا تو خدا نے الہام کے ذریعہ مجھے خبر دی کہ تو اس صدی کا مجد د ہے ‘‘
(کتاب البریہ حاشیہ ۱۸۳ ،روحانی خزائن ج۱۳ ص ۲۰۱)
(۲) ’’ میں خدا تعالی کی طرف سے مامور ہوکر آیا ہوں ‘‘
(کتاب البریۃص ۱۸۴، روحانی خزائن ج ۱۳ ص۲۰۲)
(۳) ”انی فضلتک علی العالمین قل ارسلت الیکم جمیعا“
(ترجمہ: میں نے تجھ کو تمام جہانوں پر فضیلت دی تو کہ دے کہ میں تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں ) ۔
(تذکرہ ص ۱۲۹ طبع دوم)
(۴) ’’ اﷲ جل شانہ کی وحی اورالہام سے میں نے مثیل موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے ‘‘
(تذکر ہ ص ۱۷۷ طبع دوئم)
(۵) ’’جعلنا ک المسیح ابن مریم ‘‘ ہم نے تجھے مسیح ابن مریم بنایا۔
(ازالہ اوہام ص۵۷۳ ، روحانی خزائن ج ۳ ص۴۰۹،تذکرہ ص ۱۹۱،۲۱۹،۲۲۳ طبع دوم )
(۶) ’’ خدا نے مجھے بشارت دی او رکہا کہ وہ مسیح موعود اور مہدی مسعود جس کا لوگ انتظار کرتے ہیں تو ہے ۔ ‘‘
(اتمام الحجۃ ص۳ ، روحانی خزائن ج ۸ ص ۲۷۵)
(۷) ’’ جبکہ میں بروزی طور پر آنحضرت ﷺ ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمد ی مع نبوت محمدیہ میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں تو پھر کون ساالگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا ۔‘‘
(ایک غلطی کاا زالہ ص۸ ، روحانی خزائین ج۱۸ ص۲۱۲ )
(۸) ”انا انزلنہ قریباً من القادیان“ ہم نے اس کو قادیان کے قریب اتاراہے ۔
(براہین احمدیہ ص۴۹۸ حاشیہ ، روحانی خزائن ج ۱ ص ۵۹۳،تذکرہ ص۶۳۷طبع دوم)
(۹) ’’ سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا‘‘
( دافع البلا ء ص ۱۱، روحانی خزائن ج۸ ۱ص ۲۳۱)
(۱۰) ”قل یا ایھا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا ای مرسل من اﷲ“ اور کہہ کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف خدا تعالی کا رسول ہو کر آیا ہوں۔
(تذکرہ ص ۳۶۰)
(۱۱) ”یٰس انک لمن المرسلین علی صراط مستقیم“
اے سردار تو خدا کا مرسل ہے راہ راست پر ۔
( حقیقت الوحی ص ۱۰۷ ، روحانی خزائن ج۲۲ ص۱۱۰،تذکرہ ص۶۵۸،۶۵۹)
(۱۲) ’’ شریعت کی تعریف یہ ہے کہ جس میں امر اور نہی پا یا جائے اور یہ دونوں میری وحی میں بھی پائے جاتے ہیں ‘‘
(خلاصہ عبارت اربعین نمبر۴ص ۶، روحانی خزائن ص ۴۳۵ ج ۱۷)
(۱۳)’’اور مجھے بتلایا گیا تھا کہ تیری خبر قرآن و حدیث میں موجود ہے ۔اور تو ہی اس آیت کا مصداق ہے ۔”ھوالذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ“۔
(اعجاز احمدی ص۷۔ روحانی خزائن ص۱۱۳ ج ۱۹)

مرزا کے جانشین

مرز اغلام احمد قادیانی کی وفات ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء بروز منگل لاہور میں ہوئی اس کا پہلا خلیفہ حکیم نورالدین ہو اجو بھیرہ کا تھا یہ بڑا اجل طبیب تھا اور عالم تھا یہ کشمیر کے راجہ کے پاس رہتا تھا ، راجہ کشمیرنے اسے انگریز کی جاسوسی کے الزام میں نکال دیا تھا اس کا چونکہ مرز اقادیانی سے پہلے سے رابطہ اور تعلق تھا اس لئے دونوں اکٹھے ہوگئے پھر دونوں نے مل کر اس دھندے کو چلایا یہ اس کا دست راست تھا اور علم میں اس سے بہت اونچا تھا حکیم نورالدین کی خلافت ۱۹۱۴ء تک رہی۔
حکیم نور الدین کی خلافت کے بعد خلافت کے دوامیدوار تھے۔
(۱) مولوی محمد علی لاہوری (۲) مرزا محموداحمد
مولوی محمد علی لاہوری
 ،مرزا کا بڑا قریبی مرید تھا اور بہت پڑھا لکھا آدمی تھا قابلیت کے لحاظ سے واقعی وہ خلافت کا حقدار تھا مگر مقابلہ میں چونکہ خود مرزا کا بیٹا تھا ، اس لئے اس کو کامیابی نہ ہوئی اور چونکہ مرزا بشیر الدین کے حق میں اس کی والدہ کا ووٹ بھی تھا جس کو مرزائی ام المؤمنین کہتے ہیں اس لئے مرزا بشیر الدین خلیفہ بن گیا ۔ بوقت خلافت مرزا بشیر الدین کی عمر ۲۴ سال تھی اس کی شہزادوں کی سی زندگی تھی اور خوب عیاش تھا ۔ ۱۹۶۵ء تک یہ خلیفہ رہا اس نے اپنے والد کی سیرت پر کتاب بھی لکھی جس کا نا م ’’ سیرت مسیح موعود ‘‘ ہے اس کے علاوہ بھی اس نے متعدد کتب لکھیں ۔
مولوی محمد علی لاہوری ۱۹۱۴ء سے ۱۹۲۰ء تک قادیان میں رہا اگرچہ جماعت کا کام کرتا رہا مگر اس نے بیعت نہ کی اور نہ اس کی پارٹی نے بیعت کی ان کو غیر مبایعین کہا جاتا تھا اس نے ۱۹۲۰ء میں باقاعدہ علیحدہ دکان بنانا چاہی چنانچہ اس نے لاہور آکر ایک تنظیم بنائی جس کا نام ’’ انجمن اشاعت الاسلام احمدیہ‘‘ رکھااور خود اس جماعت کا پہلا امیر بنا ۔ چونکہ مرکز ان کے پاس نہ تھا اس لئے اس کا کام زیادہ نہ چلا لیکن بڑا سمجھدار تھا اپنی تنظیم کو خوب مضبوط کیا اور غیر ممالک میں پھیلایا اور غیر ممالک میں اس کی جماعت کو بڑی کامیابی ہوئی ۔یہ مرزا کو نبی نہیں مانتے بلکہ محض مصلح یا مجدد مانتے ہیں اور نبوت کو ختم مانتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں یہ محض ان کی منافقت ہے اگر ان کا اختلاف حقیقی ہے تو لاہوری جماعت والوں کا چاہیے کہ وہ قادیانیوں کوکافر کہیں کیونکہ وہ ایک غیر نبی کو نبی مانتے ہیں اور سلسلہ نبوت جاری مانتے ہیں اسی طرح قادیانیوں کو بھی چاہیے کہ وہ لاہوریوں کو کافر کہیں کیونکہ وہ ایک سچے نبی کی نبوت کے منکر ہیں ۔ محمد علی لاہوری کے مرنے کے بعد جماعت کا امیر صدرالدین بنا اور اب ڈاکٹر نصیر احمد ہے۔
ان دوپارٹیوں کے علاوہ مرزائیوں کی چند اور پارٹیاں بھی ہیں مگر یہ دونوں پارٹیاں زیادہ مشہور ہیں ۔ ان دو پارٹیوں کا مباحثہ چا رنکات پر راولپنڈی میں ہو ا تھا ،جو کہ درج ذیل ہے۔
۱)مرز اغلام احمد قادیانی کی پیش گوئی متعلقہ مصلح موعود کا مصداق کون ہے ؟
۲) مرزا قادیانی کی جانشین انجمن ہے یا خلیفہ ؟
۳) مرزا نبی ہے یا مجدد؟
۴) مرزا کا منکر کافر ہے یا نہیں ؟
یہ مباحثہ بصورت رسالہ ’’مباحثہ راولپنڈی ‘‘ کے نام سے شائع ہو ا، یہ ایک نہایت اہم رسالہ ہے اس میں دونوں پارٹیوں کے دلائل خود مرزا کی تحریرات سے موجود ہیں ۔
مرزا بشیر الدین کی وفات کے بعد اس کا بیٹا مرزا ناصر احمد خلیفہ بنا ، یہ برابر ۱۹۸۲ء تک خلیفہ رہا ۔بروز بدھ مورخہ ۸ اور ۹ جون ۱۹۸۲ء کی درمیانی شب ہارٹ اٹیک سے ہلاک ہوکر واصل جہنم ہوا ۔ اس کی موت کے بعد خلافت کے بارے میں جھگڑا ہوا بعض کی رائے تھی کہ مرزا بشیر الدین کے بیٹے مرزا رفیع احمد کو خلیفہ بنایا جائے جبکہ بعض مرزا طاہر احمد کے حق میں تھے ۔ بہرحال اسی کشمکش میں مرزا رفیع احمد کو اغوا کرلیاگیا اور یوں مرزا طاہر احمد جو مرزا ناصر احمد کا بھائی ہے خلیفہ بن گیا۔ اور ان دنوں ان کا خلیفہ مرزا مسرور احمد ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

از قلم غلام نبی قادری نوری