﴾آیت نمبر۱
’’ فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم وانت علی کل شئی شہید ‘‘ پس جب تو نے مجھے قبض کیا(میری جان قبض کی) تو تو ہی ان پر نگہبان تھا اور ہر چیز پر گواہ ہے ۔ ﴿پارہ ۷ اَلمائدہ ۱۱۷ ﴾
مرزائی استدلال
یہ آیت اس بات کی صریح دلیل ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اگر ہم فوت شدہ تسلیم نہ کریں تو یہ اعتراض لازم آئے گا کہ اب جو عیسائی بگڑے ہوئے ہیں ان کے وہ ذمہ دار ہیں کیونکہ فرماتے ہیں کہ جب تک کہ میں ان میں زندہ تھا میں ذمہ دار تھا لیکن جب تو نے مجھے وفات دی تو میں ذمہ دار نہیں رہا اس جواب سے معلوم ہوا کہ وہ اب فوت ہوچکے ہیں ورنہ ماننا پڑے گا کہ وہ موجودہ بگڑے ہوئے تمام عیسائیوں کے ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ صاف صاف فرماتے ہیں کہ توفی سے پہلے کی زندگی کا میں ذمہ دار ہوں اور توفی کے بعد کا ذمہ دار نہیں ۔ نیز جب بقول تمہارے عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اپنی بگڑی ہوئی امت میں آئیں گے اور ان کو دیکھیں گے بگڑے ہوئے تو قیامت کے روز اﷲ کے سامنے کس طرح لاعلمی کا اظہار کرسکیں گے یہ تو نعوذ باﷲ جھوٹ بنتا ہے ۔
جواب نمبر ۱
آیت مذکورہ میں توفیتنی کا معنی وفات اور موت نہیں بلکہ رفعتنی و قبضتنی کے معنی ہیں اور تمام مفسرین نے آیت مذکور کے یہی معنی کئے ہیں کوئی ایک مفسر یا مجدد بھی ایسا نہیں ملتا جس نے اس آیت سے وفات مسیح ثابت کی ہو۔ ’’ ھاتو ا برھانکم ان کنتم صادقین
جواب نمبر ۲
آیت مذکورہ میں تقابل موت و حیات نہیں بلکہ موجودگی اور عدم موجودگی کا ہے جس پر ما دمت فیہم کے الفاظ صریح دلیل ہیں کہ مادمت حیا نہیں فرمایا ،معلوم ہوا کہ وہ اپنے زمانہ موجودگی کے ذمہ دار ہیں اور عدم موجودگی کے ذمہ دار نہین بلکہ یہ الفاظ اس بات پر مشعر ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کی حیات میں کوئی زمانہ ایسا بھی ہونا چاہیے کہ جس میں آپ ان کے اندر موجود نہ ہوں اور زندہ ہوں ۔
جواب نمبر ۳
یہ بات غلط ہے کہ بگاڑ میں حد فاصل موت ہے جیسا کہ مرزائی بتاتے ہیں بلکہ موجودگی اور عدم موجودگی ہے جیسا کہ مرزائی تحریرات اس پر شاہد ہیں کہ عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ہی میں ہجرت الیٰ کشمیر کے زمانہ میں جبکہ وہ ان کے اندر موجود نہ تھے بگڑ گئے تھے لہذا معلوم ہوا کہ بگاڑ او رعدم بگاڑ میں حد فاصل موجودگی اور عدم موجودگی ہے نہ موت و حیات۔ مرزا صاحب حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور یہود کا مکالمہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے خدا ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں ‘‘ (چشمہ معرفت ص۲۵۴حصہ۲روحانی خزائن ص۲۶۶ج۲۳) مرزا خود تسلیم کرتا ہے (دیکھو جنگ مقدس ص۴۸) کہ انجیل پر ابھی تیس برس بھی نہیں گذرے تھے کہ بجائے خدا کی پرستش کے ایک عاجز انسان کی پرستش نے جگہ لے لی یعنی عیسیٰ علیہ السلام خدا بنا ئے گئے اور تمام نیک اعمال کو چھوڑ کر ذریعہ معافی گناہ یہ ٹہرادیا گیا کہ ان کے مصلوب ہونے پر خدا کے بیٹے ہونے پر لایا جا ئے اب اس عبارت میں صاف طور پر معلوم ہورہا ہے کہ بگاڑ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا کیونکہ واقعہ صلیب تنتیس برس کی عمر میں ہوا ہے جیسا کہ مرزا صاحب لکھتے ہیں (تحفہ گولڑویہ ص۱۲۷ روحانی خزائن ص۳۱۱ ج۱۷) ’’ لیکن ہر ایک کو معلوم ہے کہ واقعہ صلیب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پیش آیا تھا جبکہ آپ کی عمر ۳۳ برس اور چھ ماہ تھی ۔‘‘ واقعہ صلیب کے بعد انجیل کا نازل ہونا کہیں بھی ثابت نہین تو ان دونوں حوالوں کے ملانے سے ثابت ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی تریسٹھ سال کی عمر میں ہی عیسائی بگڑ گئے تھے اور بقول مرز اآپ کی عمر ایک سو بیس سال ہوئی ہے جس سے معلوم ہوا کہ تقریباً ستاون سال کا طویل عرصہ آپ کی زندگی ہی میں عیسائی بگڑتے رہے ۔
نتیجہ یہ نکلا کہ بگاڑ میں حد فاصل موت نہ رہی بلکہ آپ کی زندگی ہی میں ان کی عدم موجودگی کے زمانہ میں عیسائی بگڑ گئے تھے ۔
فھوالمقصود
مرزائی اعتراض
بقول آپ کے جب عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں اپنی بگڑی ہوئی قوم کے اندر تشریف لائیں گے اور انکی زبوں حالی ملاحظہ فرمائیں گے تو وہ قیامت کے روز اﷲ تعالیٰ کے سامنے کس طرح لاعلمی کا اظہار کرسکیں گے یہ تو غلط بیانی اور صریح جھوٹ ہوگا جوان کی شان رفیع سے مستبعد ہے لہذا معلوم ہوا کہ وہ فوت ہوچکے ہیں اور انہیں اپنی بگڑی ہوئی امت کا کوئی علم نہیں ہوگا۔
جواب نمبر ۱
عیسیٰ علیہ السلام سے سوال علم یا لا علمی کا نہیں ہوگا بلکہ کہنے یانہ کہنے کا ہوگا یہ مرزائیوں کا صریح دھوکہ اور غلط بیانی ہے ذرا قرآن مجید ملاحظہ فرمائیں فرمایا
’’ ء انت قلت للناس اتخذونی وامی الھین من دون اﷲ قال سبحانک ما یکون لی ان اقول ما لیس لی بحق……الخ‘‘ ﴿پارہ ۷ اَلمائدہ ۱۱۶ع۶﴾
ترجمہ : کیا تو نے لوگوں کو کہاتھا کہ مجھے اور میری ماں کواﷲکے سوا دو(2) معبود بنالو ؟ کہے گا پا ک ہے تومیرے لائق نہیں کہ میں وہ چیز کہوں جو میرے لئے حق نہیں ۔
دیکھئے یہاں پر کیسی تصریح موجو د ہے کہ سوال کہنے کے متعلق ہے جواب میں بھی کہنے کی نفی ہے نہ یہاں علم کو سوال ہے اور نہ علم کی نفی ہے ہاں نفی یہاں مافی نفسک کے علم کی ہے نہ کہ ان کے بگاڑ کے علم کی نفی ۔
جواب نمبر ۲
اگر عیسیٰ علیہ السلام کے جواب میں علم کی نفی پائی جائے تو بھی کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے آپ ذرا اس مکالمے سے پہلے ذرا اس مکالمے کو ملاحظہ فرمائیں جو تمام انبیاء سے ہورہا ہے جبکہ تما م نبی اﷲ تعالیٰ کے حضور میں اپنی لاعلمی کا اظہار کررہے ہیں حالانکہ تمام نبی اچھی طرح جانتے ہیں کہ انکی امتوں نے انہیں کیا جواب دیا تھا ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’ یوم یجمع اﷲ الرسل فیقول ماذا اجبتم قالوا لا علم لنا انک انت علام الغیوب ‘‘ ترجمہ: جس دن اﷲ تعالیٰ تمام پیغمبروں کو اکٹھا فرمائیں گے پس فرمائیں گے تم کیاجواب دیے گئے تھے عرض کریں گے کہ ہمیں علم نہیں بے شک تو ہی غیبوں کا جاننے والا ہے ۔ ﴿پارہ ۷ اَلمائدہ ۱۰۹ ع۵﴾
جواب نمبر ۳
مرزا صاحب خود تسلیم کررہے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کو قیامت سے قبل ہی اپنی امت کے بگاڑ کا علم ہوچائے گا لہذا اب آپ بتائیں جب انہیں قیامت سے قبل علم ہوچکا توان کانفی علم کا جواب کیسے درست ہوگا ؟
فما ھو جوابکم فھو جوابنا (جو تمہارا جواب ہے وہی ہمارا جواب ہے )
حوالہ نمبر ۱: ’’ میرے پر یہ کشفاً ظاہر کیا گیا کہ یہ زہرناک ہوا جو عیسائی قوم سے دنیامیں پھیل گئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس کی خبر دی گئی ۔‘(آئینہ کمالا ت اسلام روحانی خزائن ص۲۵۴ ج۵)
حوالہ نمبر ۲: ’ ’خدائے تعالیٰ نے اس عیسائی فتنہ کے وقت میں یہ فتنہ حضرت مسیح کو دکھایا یعنی ان کو آسمان پر اس فتنہ کی اطلاع دے دی کہ تیری قوم او ر تیری امت نے اس طوفان کو برپا کیاہے ۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن ص۲۶۸ج۵ حاشیہ )
مرزائی اعتراض
یہاں توفیتنی کا معنی موت ہی ہے جیساکہ بخاری شریف میں آتا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ کے سامنے جب چند لوگوں کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا تو آپ نے فرمایامیں اس وقت کہوں گا جیسا کہ عبد صالح نے کہا تھا اقول کما قال العبد الصالح جب حضورﷺ توفیتنی کا لفظ بولیں گے تو یہاں بالاتفاق مراد موت ہے اسی سے معلوم ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے مقولہ میں بھی اس سے مراد موت ہے ۔
جواب نمبر ۱
یہاں بھی مرزائیوں نے اپنی روایتی بے ایمانی ، دجل یا اپنی جہالت کا ثبوت دیا ہے یہاں عیسیٰ علیہ السلام اور حضور ﷺ دونوں غیر غیر ہیں جس پر کما کا لفظ تشبیہ دلالت کر رہا ہے کیونکہ مشبہ اور مشبہ بہ میں مغایرت ضروری ہے اگر حضور ﷺ کا مقولہ بھی وہی مقولہ ہوتا تو آپ کما کی بجائے ما کا لفظ استعمال فرماتے ، حضور ﷺ نے جو حدیث میں فلما توفیتنی پڑھا ہے وہ آپ کو مقولہ نہیں بلکہ عیسیٰ علیہ السلام کا مقولہ ہے ۔ کما کا لفظ تغایر چاہتا ہے ورنہ کما کا مفہوم باطل ہو جا تا ہے جیسے کما ارسلنا الی فرعون رسولا ……الخ ۔ترجمہ : جیسا کہ ہم نے فرعون کیطرف رسول بھیجا۔(تحفہ گولڑویہ ص۱۲۳روحانی خزائن ۳۰۵ ج۱۷)
جواب نمبر ۲
اگر عیسیٰ علیہ السلام اور حضور نبی اکرم ﷺ کا مقولہ ایک مان بھی لیاجائے تب بھی تشبیہ کی وجہ سے ان کے معنی میں مغایرت پیدا کرنی پڑے گی لہذا عیسیٰ علیہ السلام جب بولیں گے تو معنی رفع ہوگااور حضو ر ﷺ بولیں گے تو معنی موت ہوگا۔مرزا بھی یہ قاعدہ مانتا ہے کہ : ’’ مشبہ اور مشبہ بہ میں کچھ مغایرت ضروری ہے‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۶۳ روحانی خزائن ص۱۹۳ ج۱۷)
جواب نمبر۳
کیا یہ ضروری ہے کہ جب ایک لفظ دو مختلف شخصیتوں پر بولاگیا ہو تو اس کا معنی ایک ہی لیاجائے ؟ کیوں نہ دونوں شخصیتوں کیلئے علیحدہ علیحدہ ان کے مناسب معنی لیا جائے ایک ہی لفظ جب دو مختلف اشخاص پر بولاجائے تو حسب حیثیت و شخصیت اسکے جدا جدا معنی ہوسکتے ہیں ۔دیکھئے عیسیٰ علیہ السلام اپنے حق میں نفس کا لفظ بولتے ہیں اور خدا کیلئے بھی ’’ تعلم ما فی نفسی ولااعلم ما فی نفسک ‘‘ توکیا خدا او رمسیح کا نفس ایک طرح کا ہے ؟ ٹھیک اسی طرح حضرت مسیح کی توفی ، اخذالشئی وافیا ہے کیونکہ اگر موت مراد لی جائے تو نصوص صریحہ جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کا ذکر ہے ان کے خلاف ہوگا۔
جواب نمبر ۴
ہم پیچھے براہین احمدیہ اور سراج منیر کے حوالہ سے ثابت کرچکے ہیں کہ یہاں توفی کا معنی موت نہیں بلکہ پوری نعمت دینے یا ذلیل اور لعنتی موتوں سے بچانے کے ہیں تو مرز ا کے اس معنی کے مطابق آیت کا معنی یہ ہوگا کہ ’’ اے اﷲ جب تو نے مجھے اپنی غالب تدبیر سے ذلیل اور لعنتی موتوں سے بچا لیا اور انکی تدبیروں کو خاک میں ملا دیا یعنی مجھے آسمانوں پر اٹھالیا توپھر اس کے بعد تونگران ہے اور میں تو اس وقت تک نگران اور ذمہ دار ہوں جب تک ان میں موجود رہا ۔‘‘
دلیل از مرزا قادیانی بر نزول عیسیٰ علیہ السلام
’’ ان المسیح ینزل من السما ء بجمیع علومہ ولا یاخذ شیئا من الارض مالھم لا یشعرون ۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۴۰۹روحانی خزائن ص۴۰۹ ج۵)
اس عبارت سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے ہی شریعت محمدی اور تمام علوم اسلامیہ حاصل کرکے آئیں گے او ر زمین میں کسی کے شاگرد نہیں ہوں گے ۔ دیکھو مرزا کہتا ہے ’’ ما انا الا کالقرآن ‘‘( تذکرہ دوئم ص۶۶۸)
وما ینطق علن الھوی ان ھو الا وحی یوحی (تذکرہ دوئم ص۳۸۸)
![](https://tajalliat.pk/wp-content/uploads/2020/05/CollegeOfSpiritualityLogo-18mvvxq.png)
یہ آیت اس بات کی صریح دلیل ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اگر ہم فوت شدہ تسلیم نہ کریں تو یہ اعتراض لازم آئے گا کہ اب جو عیسائی بگڑے ہوئے ہیں ان کے وہ ذمہ دار ہیں کیونکہ فرماتے ہیں کہ جب تک کہ میں ان میں زندہ تھا میں ذمہ دار تھا لیکن جب تو نے مجھے وفات دی تو میں ذمہ دار نہیں رہا اس جواب سے معلوم ہوا کہ وہ اب فوت ہوچکے ہیں ورنہ ماننا پڑے گا کہ وہ موجودہ بگڑے ہوئے تمام عیسائیوں کے ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ صاف صاف فرماتے ہیں کہ توفی سے پہلے کی زندگی کا میں ذمہ دار ہوں اور توفی کے بعد کا ذمہ دار نہیں ۔ نیز جب بقول تمہارے عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اپنی بگڑی ہوئی امت میں آئیں گے اور ان کو دیکھیں گے بگڑے ہوئے تو قیامت کے روز اﷲ کے سامنے کس طرح لاعلمی کا اظہار کرسکیں گے یہ تو نعوذ باﷲ جھوٹ بنتا ہے ۔
تردید دلائل وفات مسیح علیہ السلام
آپ کا رد عمل کیا ہے؟
Love0
Sad0
جواب دیں
تبصرہ کرنے سے پہلے آپ کا لاگ ان ہونا ضروری ہے۔
ریپلائی کیجیئے