رد مرزائیت کورس قسط 10

یہ آیت اس بات کی صریح دلیل ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اگر ہم فوت شدہ تسلیم نہ کریں تو یہ اعتراض لازم آئے گا کہ اب جو عیسائی بگڑے ہوئے ہیں ان کے وہ ذمہ دار ہیں کیونکہ فرماتے ہیں کہ جب تک کہ میں ان میں زندہ تھا میں ذمہ دار تھا لیکن جب تو نے مجھے وفات دی تو میں ذمہ دار نہیں رہا اس جواب سے معلوم ہوا کہ وہ اب فوت ہوچکے ہیں ورنہ ماننا پڑے گا کہ وہ موجودہ بگڑے ہوئے تمام عیسائیوں کے ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ صاف صاف فرماتے ہیں کہ توفی سے پہلے کی زندگی کا میں ذمہ دار ہوں اور توفی کے بعد کا ذمہ دار نہیں ۔ نیز جب بقول تمہارے عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اپنی بگڑی ہوئی امت میں آئیں گے اور ان کو دیکھیں گے بگڑے ہوئے تو قیامت کے روز اﷲ کے سامنے کس طرح لاعلمی کا اظہار کرسکیں گے یہ تو نعوذ باﷲ جھوٹ بنتا ہے ۔

یہ آیت اس بات کی صریح دلیل ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اگر ہم فوت شدہ تسلیم نہ کریں تو یہ اعتراض لازم آئے گا کہ اب جو عیسائی بگڑے ہوئے ہیں ان کے وہ ذمہ دار ہیں کیونکہ فرماتے ہیں کہ جب تک کہ میں ان میں زندہ تھا میں ذمہ دار تھا لیکن جب تو نے مجھے وفات دی تو میں ذمہ دار نہیں رہا اس جواب سے معلوم ہوا کہ وہ اب فوت ہوچکے ہیں ورنہ ماننا پڑے گا کہ وہ موجودہ بگڑے ہوئے تمام عیسائیوں کے ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ صاف صاف فرماتے ہیں کہ توفی سے پہلے کی زندگی کا میں ذمہ دار ہوں اور توفی کے بعد کا ذمہ دار نہیں ۔ نیز جب بقول تمہارے عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اپنی بگڑی ہوئی امت میں آئیں گے اور ان کو دیکھیں گے بگڑے ہوئے تو قیامت کے روز اﷲ کے سامنے کس طرح لاعلمی کا اظہار کرسکیں گے یہ تو نعوذ باﷲ جھوٹ بنتا ہے ۔

تردید دلائل وفات مسیح علیہ السلام

﴾آیت نمبر۱
’’ فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم وانت علی کل شئی شہید ‘‘ پس جب تو نے مجھے قبض کیا(میری جان قبض کی) تو تو ہی ان پر نگہبان تھا اور ہر چیز پر گواہ ہے ۔ ﴿پارہ ۷ اَلمائدہ ۱۱۷ ﴾
مرزائی استدلال
یہ آیت اس بات کی صریح دلیل ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اگر ہم فوت شدہ تسلیم نہ کریں تو یہ اعتراض لازم آئے گا کہ اب جو عیسائی بگڑے ہوئے ہیں ان کے وہ ذمہ دار ہیں کیونکہ فرماتے ہیں کہ جب تک کہ میں ان میں زندہ تھا میں ذمہ دار تھا لیکن جب تو نے مجھے وفات دی تو میں ذمہ دار نہیں رہا اس جواب سے معلوم ہوا کہ وہ اب فوت ہوچکے ہیں ورنہ ماننا پڑے گا کہ وہ موجودہ بگڑے ہوئے تمام عیسائیوں کے ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ صاف صاف فرماتے ہیں کہ توفی سے پہلے کی زندگی کا میں ذمہ دار ہوں اور توفی کے بعد کا ذمہ دار نہیں ۔ نیز جب بقول تمہارے عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اپنی بگڑی ہوئی امت میں آئیں گے اور ان کو دیکھیں گے بگڑے ہوئے تو قیامت کے روز اﷲ کے سامنے کس طرح لاعلمی کا اظہار کرسکیں گے یہ تو نعوذ باﷲ جھوٹ بنتا ہے ۔
جواب نمبر ۱
آیت مذکورہ میں توفیتنی کا معنی وفات اور موت نہیں بلکہ رفعتنی و قبضتنی کے معنی ہیں اور تمام مفسرین نے آیت مذکور کے یہی معنی کئے ہیں کوئی ایک مفسر یا مجدد بھی ایسا نہیں ملتا جس نے اس آیت سے وفات مسیح ثابت کی ہو۔ ’’ ھاتو ا برھانکم ان کنتم صادقین
جواب نمبر ۲
آیت مذکورہ میں تقابل موت و حیات نہیں بلکہ موجودگی اور عدم موجودگی کا ہے جس پر ما دمت فیہم کے الفاظ صریح دلیل ہیں کہ مادمت حیا نہیں فرمایا ،معلوم ہوا کہ وہ اپنے زمانہ موجودگی کے ذمہ دار ہیں اور عدم موجودگی کے ذمہ دار نہین بلکہ یہ الفاظ اس بات پر مشعر ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کی حیات میں کوئی زمانہ ایسا بھی ہونا چاہیے کہ جس میں آپ ان کے اندر موجود نہ ہوں اور زندہ ہوں ۔
جواب نمبر ۳
یہ بات غلط ہے کہ بگاڑ میں حد فاصل موت ہے جیسا کہ مرزائی بتاتے ہیں بلکہ موجودگی اور عدم موجودگی ہے جیسا کہ مرزائی تحریرات اس پر شاہد ہیں کہ عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ہی میں ہجرت الیٰ کشمیر کے زمانہ میں جبکہ وہ ان کے اندر موجود نہ تھے بگڑ گئے تھے لہذا معلوم ہوا کہ بگاڑ او رعدم بگاڑ میں حد فاصل موجودگی اور عدم موجودگی ہے نہ موت و حیات۔ مرزا صاحب حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور یہود کا مکالمہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے خدا ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں ‘‘ (چشمہ معرفت ص۲۵۴حصہ۲روحانی خزائن ص۲۶۶ج۲۳) مرزا خود تسلیم کرتا ہے (دیکھو جنگ مقدس ص۴۸) کہ انجیل پر ابھی تیس برس بھی نہیں گذرے تھے کہ بجائے خدا کی پرستش کے ایک عاجز انسان کی پرستش نے جگہ لے لی یعنی عیسیٰ علیہ السلام خدا بنا ئے گئے اور تمام نیک اعمال کو چھوڑ کر ذریعہ معافی گناہ یہ ٹہرادیا گیا کہ ان کے مصلوب ہونے پر خدا کے بیٹے ہونے پر لایا جا ئے اب اس عبارت میں صاف طور پر معلوم ہورہا ہے کہ بگاڑ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا کیونکہ واقعہ صلیب تنتیس برس کی عمر میں ہوا ہے جیسا کہ مرزا صاحب لکھتے ہیں (تحفہ گولڑویہ ص۱۲۷ روحانی خزائن ص۳۱۱ ج۱۷) ’’ لیکن ہر ایک کو معلوم ہے کہ واقعہ صلیب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پیش آیا تھا جبکہ آپ کی عمر ۳۳ برس اور چھ ماہ تھی ۔‘‘ واقعہ صلیب کے بعد انجیل کا نازل ہونا کہیں بھی ثابت نہین تو ان دونوں حوالوں کے ملانے سے ثابت ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی تریسٹھ سال کی عمر میں ہی عیسائی بگڑ گئے تھے اور بقول مرز اآپ کی عمر ایک سو بیس سال ہوئی ہے جس سے معلوم ہوا کہ تقریباً ستاون سال کا طویل عرصہ آپ کی زندگی ہی میں عیسائی بگڑتے رہے ۔
نتیجہ یہ نکلا کہ بگاڑ میں حد فاصل موت نہ رہی بلکہ آپ کی زندگی ہی میں ان کی عدم موجودگی کے زمانہ میں عیسائی بگڑ گئے تھے ۔
فھوالمقصود
مرزائی اعتراض
بقول آپ کے جب عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں اپنی بگڑی ہوئی قوم کے اندر تشریف لائیں گے اور انکی زبوں حالی ملاحظہ فرمائیں گے تو وہ قیامت کے روز اﷲ تعالیٰ کے سامنے کس طرح لاعلمی کا اظہار کرسکیں گے یہ تو غلط بیانی اور صریح جھوٹ ہوگا جوان کی شان رفیع سے مستبعد ہے لہذا معلوم ہوا کہ وہ فوت ہوچکے ہیں اور انہیں اپنی بگڑی ہوئی امت کا کوئی علم نہیں ہوگا۔
جواب نمبر ۱
عیسیٰ علیہ السلام سے سوال علم یا لا علمی کا نہیں ہوگا بلکہ کہنے یانہ کہنے کا ہوگا یہ مرزائیوں کا صریح دھوکہ اور غلط بیانی ہے ذرا قرآن مجید ملاحظہ فرمائیں فرمایا
’’ ء انت قلت للناس اتخذونی وامی الھین من دون اﷲ قال سبحانک ما یکون لی ان اقول ما لیس لی بحق……الخ‘‘ ﴿پارہ ۷ اَلمائدہ ۱۱۶ع۶﴾
ترجمہ : کیا تو نے لوگوں کو کہاتھا کہ مجھے اور میری ماں کواﷲکے سوا دو(2) معبود بنالو ؟ کہے گا پا ک ہے تومیرے لائق نہیں کہ میں وہ چیز کہوں جو میرے لئے حق نہیں ۔
دیکھئے یہاں پر کیسی تصریح موجو د ہے کہ سوال کہنے کے متعلق ہے جواب میں بھی کہنے کی نفی ہے نہ یہاں علم کو سوال ہے اور نہ علم کی نفی ہے ہاں نفی یہاں مافی نفسک کے علم کی ہے نہ کہ ان کے بگاڑ کے علم کی نفی ۔
جواب نمبر ۲
اگر عیسیٰ علیہ السلام کے جواب میں علم کی نفی پائی جائے تو بھی کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے آپ ذرا اس مکالمے سے پہلے ذرا اس مکالمے کو ملاحظہ فرمائیں جو تمام انبیاء سے ہورہا ہے جبکہ تما م نبی اﷲ تعالیٰ کے حضور میں اپنی لاعلمی کا اظہار کررہے ہیں حالانکہ تمام نبی اچھی طرح جانتے ہیں کہ انکی امتوں نے انہیں کیا جواب دیا تھا ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’ یوم یجمع اﷲ الرسل فیقول ماذا اجبتم قالوا لا علم لنا انک انت علام الغیوب ‘‘ ترجمہ: جس دن اﷲ تعالیٰ تمام پیغمبروں کو اکٹھا فرمائیں گے پس فرمائیں گے تم کیاجواب دیے گئے تھے عرض کریں گے کہ ہمیں علم نہیں بے شک تو ہی غیبوں کا جاننے والا ہے ۔ ﴿پارہ ۷ اَلمائدہ ۱۰۹ ع۵﴾
جواب نمبر ۳
مرزا صاحب خود تسلیم کررہے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کو قیامت سے قبل ہی اپنی امت کے بگاڑ کا علم ہوچائے گا لہذا اب آپ بتائیں جب انہیں قیامت سے قبل علم ہوچکا توان کانفی علم کا جواب کیسے درست ہوگا ؟
فما ھو جوابکم فھو جوابنا (جو تمہارا جواب ہے وہی ہمارا جواب ہے )
حوالہ نمبر ۱: ’’ میرے پر یہ کشفاً ظاہر کیا گیا کہ یہ زہرناک ہوا جو عیسائی قوم سے دنیامیں پھیل گئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس کی خبر دی گئی ۔‘(آئینہ کمالا ت اسلام روحانی خزائن ص۲۵۴ ج۵)
حوالہ نمبر ۲: ’ ’خدائے تعالیٰ نے اس عیسائی فتنہ کے وقت میں یہ فتنہ حضرت مسیح کو دکھایا یعنی ان کو آسمان پر اس فتنہ کی اطلاع دے دی کہ تیری قوم او ر تیری امت نے اس طوفان کو برپا کیاہے ۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن ص۲۶۸ج۵ حاشیہ )
مرزائی اعتراض
یہاں توفیتنی کا معنی موت ہی ہے جیساکہ بخاری شریف میں آتا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ کے سامنے جب چند لوگوں کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا تو آپ نے فرمایامیں اس وقت کہوں گا جیسا کہ عبد صالح نے کہا تھا اقول کما قال العبد الصالح جب حضورﷺ توفیتنی کا لفظ بولیں گے تو یہاں بالاتفاق مراد موت ہے اسی سے معلوم ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے مقولہ میں بھی اس سے مراد موت ہے ۔
جواب نمبر ۱
یہاں بھی مرزائیوں نے اپنی روایتی بے ایمانی ، دجل یا اپنی جہالت کا ثبوت دیا ہے یہاں عیسیٰ علیہ السلام اور حضور ﷺ دونوں غیر غیر ہیں جس پر کما کا لفظ تشبیہ دلالت کر رہا ہے کیونکہ مشبہ اور مشبہ بہ میں مغایرت ضروری ہے اگر حضور ﷺ کا مقولہ بھی وہی مقولہ ہوتا تو آپ کما کی بجائے ما کا لفظ استعمال فرماتے ، حضور ﷺ نے جو حدیث میں فلما توفیتنی پڑھا ہے وہ آپ کو مقولہ نہیں بلکہ عیسیٰ علیہ السلام کا مقولہ ہے ۔ کما کا لفظ تغایر چاہتا ہے ورنہ کما کا مفہوم باطل ہو جا تا ہے جیسے کما ارسلنا الی فرعون رسولا ……الخ ۔ترجمہ : جیسا کہ ہم نے فرعون کیطرف رسول بھیجا۔(تحفہ گولڑویہ ص۱۲۳روحانی خزائن ۳۰۵ ج۱۷)
جواب نمبر ۲
اگر عیسیٰ علیہ السلام اور حضور نبی اکرم ﷺ کا مقولہ ایک مان بھی لیاجائے تب بھی تشبیہ کی وجہ سے ان کے معنی میں مغایرت پیدا کرنی پڑے گی لہذا عیسیٰ علیہ السلام جب بولیں گے تو معنی رفع ہوگااور حضو ر ﷺ بولیں گے تو معنی موت ہوگا۔مرزا بھی یہ قاعدہ مانتا ہے کہ : ’’ مشبہ اور مشبہ بہ میں کچھ مغایرت ضروری ہے‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۶۳ روحانی خزائن ص۱۹۳ ج۱۷)
جواب نمبر۳
کیا یہ ضروری ہے کہ جب ایک لفظ دو مختلف شخصیتوں پر بولاگیا ہو تو اس کا معنی ایک ہی لیاجائے ؟ کیوں نہ دونوں شخصیتوں کیلئے علیحدہ علیحدہ ان کے مناسب معنی لیا جائے ایک ہی لفظ جب دو مختلف اشخاص پر بولاجائے تو حسب حیثیت و شخصیت اسکے جدا جدا معنی ہوسکتے ہیں ۔دیکھئے عیسیٰ علیہ السلام اپنے حق میں نفس کا لفظ بولتے ہیں اور خدا کیلئے بھی ’’ تعلم ما فی نفسی ولااعلم ما فی نفسک ‘‘ توکیا خدا او رمسیح کا نفس ایک طرح کا ہے ؟ ٹھیک اسی طرح حضرت مسیح کی توفی ، اخذالشئی وافیا ہے کیونکہ اگر موت مراد لی جائے تو نصوص صریحہ جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کا ذکر ہے ان کے خلاف ہوگا۔
جواب نمبر ۴
ہم پیچھے براہین احمدیہ اور سراج منیر کے حوالہ سے ثابت کرچکے ہیں کہ یہاں توفی کا معنی موت نہیں بلکہ پوری نعمت دینے یا ذلیل اور لعنتی موتوں سے بچانے کے ہیں تو مرز ا کے اس معنی کے مطابق آیت کا معنی یہ ہوگا کہ ’’ اے اﷲ جب تو نے مجھے اپنی غالب تدبیر سے ذلیل اور لعنتی موتوں سے بچا لیا اور انکی تدبیروں کو خاک میں ملا دیا یعنی مجھے آسمانوں پر اٹھالیا توپھر اس کے بعد تونگران ہے اور میں تو اس وقت تک نگران اور ذمہ دار ہوں جب تک ان میں موجود رہا ۔‘‘
دلیل از مرزا قادیانی بر نزول عیسیٰ علیہ السلام
’’ ان المسیح ینزل من السما ء بجمیع علومہ ولا یاخذ شیئا من الارض مالھم لا یشعرون ۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۴۰۹روحانی خزائن ص۴۰۹ ج۵)
اس عبارت سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے ہی شریعت محمدی اور تمام علوم اسلامیہ حاصل کرکے آئیں گے او ر زمین میں کسی کے شاگرد نہیں ہوں گے ۔ دیکھو مرزا کہتا ہے ’’ ما انا الا کالقرآن ‘‘( تذکرہ دوئم ص۶۶۸)
وما ینطق علن الھوی ان ھو الا وحی یوحی (تذکرہ دوئم ص۳۸۸)

﴾آیت نمبر ۲
’’ ماالمسیح ابن مریم الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل ‘‘﴿پارہ ۶ ع۱۴﴾ مسیح ابن مریم صرف رسول ہیں اور آپ سے پہلے رسول گذر چکے ۔
﴾آیت نمبر ۳
’’ وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل ‘‘ ﴿پارہ ۴ آیت ۱۳۴ ع۶﴾
ان دونوں آیتوں سے ثابت ہوا کہ جس طرح عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے تمام رسول فوت ہوچکے ہیں اسی طرح نبی اکرم ﷺ سے پہلے بھی تمام رسول فوت ہوچکے ہیں جس سے نتیجہ نکلا کہ عیسیٰ علیہ السلام بھی فوت ہوچکے ہیں۔
جواب نمبر ۱
کسی مفسر یامجدد نے یہ معنی مراد نہیں لئے کہ حضور ﷺ سے پہلے تمام نبی فو ت ہوچکے ہیں او رعیسیٰ علیہ السلام بھی فوت ہوچکے ہیں اگر ہمت ہے تو کسی ایک مجدد کا نام پیش کرو جس نے اس آیت کا مطلب یہ لکھا ہو کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں۔
جواب نمبر۲
یہاں خلت کے معنی مضت ہیں جیسا کہ تمام مفسرین نے اس کے یہی معنی کئے ہیں ۔ قرآن میں اس کے نظائر موجو دہیں جن میں معنی موت کے نہیں مثلاً ’’ واذا خلوا عضوا علیکم الانامل من الغیظ قل موتوا بغیظکم ‘‘﴿پارہ ۴ آل عمران ع۱۲﴾ اور جب علیحدہ ہوتے ہیں تو اپنی انگلیاں غصے سے کاٹتے ہیں آپ فرمادیجئے کہ اپنے غصے میں مرجاؤ۔ کذلک ارسلناک فی امۃ قد خلت من قبلھا امم ﴿آیت ۱۱۹﴾ حالانکہ اس وقت بھی بگڑی ہوئی امتیں موجود تھیں۔
اعتراض
ہم مانتے ہیں کہ خلت کا معنی مضت ہے لیکن قرآ ن مجید نے خود اس کی تصریح کردی ہے فرمایا فان مات او قتل اس میں موت اورقتل میں حصر کیا ۔ معلوم ہوا کہ حضور ﷺ سے قبل بھی تمام انبیاء علیہم السلام کاان دوافراد ہی میں حصر ہے یعنی وہ قتل ہوئے ہیں یا مرگئے ہیں نیز حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے بھی حضور نبی کریم ﷺ کی وفات کے موقع پر خطبہ پڑھ کر متعین فرمادیاکہ یہاں خلت کا معنی موت ہے ۔ فرمایا ’’من کان منکم بعد محمداً فان محمدا قد مات ومن کان منکم بعبداﷲ فھو حی لایموت‘‘۔
جواب
ہم کہتے ہیں کہ معنی بحال ہے کیونکہ جوخطبہ اس وقت پڑھا گیا ہے اس میں تورفع مسیح کا ذکر ہے مرزا لکھتا ہے :
’’ الملل والنحل لعلامہ شہر ستانیج۳ص۵ میں اس قصہ کے متعلق یہ عبارت ہے ’ قال عمر بن الخطاب (رضی اﷲ عنہ) من قال ان محمدا مات فقتلتہ بسیفی ھذا وانما رفع الی السماء کما رفع عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام ۔ (تحفہ غزنویہ ص۴۸ روحانی خزائن ص۵۸۰تا۵۸۱ ج۱۵)
٭طریق استدلال
حضرت عمر نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کو مقیس علیہ بنایا ہے جو کہ مسلم تھا اور حضور ﷺ کے رفع کو مقیس بنایا اب جواب میں حضرت ابوبکرصدیق نے تردید صرف مقیس کی ہے حالانکہ اگر مقیس علیہ غلط ہوتاتو پہلے اس کی تردید کرتے مقیس کی خود بخود تردید ہوجاتی ہے ابوبکرصدیق کا مقیس علیہ کی تردید نہ کرنا اورتمام صحابہ کا اس پر سکوت کرنا اس سے رفع عیسیٰ پر تمام صحابہ کا اجتماع ہوگیا ۔ نیز یہاں پر اختلاف بھی ر فع جسمانی میں تھا کیونکہ حضور ﷺ کا روحانی رفع تو ابوبکر صدیق بھی مانتے تھے کیوں کہ حضرت عمرتو حضور ﷺ کی وفات کے ہی منکر تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع پر قیاس کررہے تھے تو معلو م ہوا کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بھی منکر تھے تو وفات کے انکار سے رفع جسمانی ہوا نہ کہ روحانی باقی رہا یہ اعتراض کہ جسد اطہر کے موجود ہوتے ہوئے حضرت عمر نے یہ بات کیوں کہی ۔(تحفہ غزنویہ ص۵۵ روحانی خزائن ۵۸۸ج۱۵)
جواب نمبر ۳
مرز انے خلت کا معنی یہاں موت نہیں کیایعنی مسیح ابن مریم میں اس سے زیادہ کوئی بات نہیں کہ وہ صرف ایک رسول ہے اور اس سے پہلے بھی رسول ہی آتے رہے ہیں (جنگ مقدس ص۷ روحانی خزائن ۸۹ج۶)
جواب نمبر۴
اگر خلت کے عموم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی داخل ہیں تو مرزائی صاحبان بتائیں ولقد ارسلنا رسلا من قبلک وجعلنا ازواجا وذریۃ ……الخ کیا اس آیت کے مطابق جبکہ تمام رسولوں کیلئے ان کی بیویاں اور اولاد ثابت ہورہے ہیں کیا اس عموم میں عیسیٰ علیہ السلام بھی داخل ہیں اور ان کیلئے بھی اولاد ہے اگر وہ اس عموم سے خارج ہیں تو اسی طرح آیت متنازعہ فیہ میں بھی سمجھ لیں ۔اسی طرح ہر انسان کیلئے کہا گیا کہ اس کو جوڑے سے ہم نے پیدا کیا اور نطفے سے پیدا کیا ہے ۔ عیسیٰ علیہ السلام بھی انسان ہیں اور وہ اس عموم سے خارج ہیں اسی طرح متنازعہ فیہ آیت میں سمجھ لیں۔
جواب نمبر ۵
اگر اس آیت سے عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت ہوتی ہے تو موسیٰ علیہ السلام کیسے زندہ ہیں ۔ ماھو جوابکم فھو جوابنا۔

﴾آیت نمبر۴
’ کانا یاکلان الطعام ‘‘ اور وہ دونوں کھانا کھاتے تھے ۔﴿ پارہ ۶ اَلمائدہ ۷۵﴾
جب حضرت مریم علیہا السلام کا طعام موت سے بند ہے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بھی موت سے بند ہے اگر زندہ ہیں تو بتلایا جائے کہ وہ کیا کھاتے ہیں یا پیتے ہیں ۔
جواب نمبر ۱
جو کھانا حضرت موسیٰ علیہ السلام کھاتے ہیں وہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کھاتے ہیں ۔
جواب نمبر ۲
اس ظاہری کھانے کے علاوہ بھی اﷲ کے نیک بندے زندہ رہ سکتے ہیں جن کا طعام یا د الٰہی ہوتا ہے ۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں : ’’ اس درجہ پر مومن کی روٹی خدا ہوتا ہے جس کے کھانے پر اس کی زندگی موقوف ہے اور مومن کا پانی بھی خدا ہوتا ہے جس کے پینے سے وہ موت سے بچ جاتا ہے اور اسکی ٹھنڈی ہو ا بھی خدا ہوتا ہے اور وہ طعام یاد الٰہی ہے ۔‘‘ ( براہین احمدیہ حصہ ۵ ص۵۷ روحانی خزائن ۲۱۶ج۲۱)
جواب نمبر۳
’’ قال العلامۃ الشعرانی فی الیواقیت والجواھر : ’ فان قیل فما الجواب استغناۂ عن الطعام والشراب مدۃ رفعہ فان اﷲ تعالیٰ قال وما جعلنا ھم جسدا لایاکلون الطعام فالجواب ان الطعام انما جعل قوۃ لمن یعیش فی الارض لانہ مسلط علیہ الھواء الہار والبارد فیدخل بدنہ فاذا انحل عوضہ اﷲ تعالیٰ بالغداء اجرا ‘ لعادتہ فی ھذہ الخطۃ الغبراء واما من رفعہ اﷲ الی السماء فانہ یلطف بقدرتہ و یقیہ عن الطعام والشراب کما اغنی الملائکۃ عنھا فیکون حینئذ طعامہ التسبیح وشرابہ التھلیل کما قال رسول اﷲ ﷺ انی ابیت عند ربی یطعمنی ویسقینی ۔‘‘ ﴿الیواقیت ولجواھر ج۲ ص۱۴۶﴾
جواب نمبر ۵
جوخوراک آدم علیہ السلام کی تھی وہی عیسیٰ علیہ السلام کی ہے ۔ کما قال اﷲ تعالیٰ ان مثل عیسیٰ عنداﷲ کمثل آدم ۔ ’’ بے شک اﷲ تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی مثال کی طرح ہے ۔ ﴿پارہ ۲ آل عمران ۵۹﴾
جواب نمبر۶
اصل بات یہ ہے کہ یہ آیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مریم علیہا السلام کی الوہیت توڑنے کیلئے بطور دلیل پیش کی گئی ہے کہ جو کہ کھانے پینے ک امحتاج ہو وہ الٰہ کیسے بن سکتاہے تو الوہیت کی تردید کیلئے ایک دو دفعہ کا کھانا بھی کافی ہے اگر ہم کہیں کہ مرزا صاحب اور اسکی بیوی اکٹھے کھانا کھایا کرتے تھے توکیا اس سے یہ بھی ثابت ہوجائے گا کہ اس کی بیوی بھی مر گئی ہے حالانکہ وہ اس کے بعد بڑی مدت تک زندہ رہی۔
﴾آیت نمبر ۵
’’ واوصانی بالصلوٰۃ والزکوٰۃ ما دمت حیا ‘‘ ﴿پارہ ۱۶ مریم ۳۱﴾
اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اگر وہ زندہ ہیں تو بتائیے کہ وہ زکوۃ کس کو دیتے ہیں اور نماز کس طرف منہ کرکے پڑھتے ہیں ۔
جواب نمبر ۱
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نماز پڑھتے ہیں تو ساتھ ساتھ عیسیٰ علیہ السلام بھی پڑھ لیتے ہیں اور جن غریبوں اور مسکینوں کو زکوٰۃ حضرت موسیٰ علیہ السلام دیتے ہوں گے انہیں عیسیٰ علیہ السلام بھی دیتے ہوں گے۔
جواب نمبر ۲
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیلئے نصاب آپ ثابت کردیں غرباء فقراء ہم بتائیں گے ۔ نیز یہ بتائیے کہ بچپن میں وہ کیسے نماز پڑھتے تھے اور کن لوگوں کو زکوٰۃ دیتے تھے ۔ کیونکہ وہ تو بچپن سے کہہ رہے ہیں واوصانی بالصلوٰۃ والزکوٰۃ ۔
جواب نمبر۳
اصل بات یہ ہے کہ نماز کی فرضیت چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے ۔ جب تک وہ شرائط نہ پائی جائیں تب تک نماز اور زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی ۔ کیا ہرمسلمان پر ہر وقت نماز اور زکوٰۃ فرض ہے ؟ نماز فرض ہوتی ہے جب وقت ہو، جب عاقل بالغ ہو اور زکوٰۃ فرض ہوتی ہے جب صاحب نصاب ہو ۔ حولان حول ہو۔ کیا عیسیٰ علیہ السلام نے یہاں دنیا میں رہتے ہوئے کبھی زکوٰۃ دی تھی ؟ انہوں نے نہایت غربت اور عاجزی کی زندگی گذاری ہے ان کے پاس اتنا مال ہی جمع نہیں ہوتا تھا کہ وہ زکوٰۃ دیں ۔

تردید دلائل وفات عیسیٰ علیہ السلام از احادیث

﴾حدیث نمبر ۱
مرزائی عموماً وفات مسیح علیہ السلام پر یہ دلیل بڑے زور شور سے پیش کرتے ہیں کہ ’’ عن عائشۃ رضی اﷲ عنہا ان عیسیٰ بن مریم عاش عشرین ومائۃ سنۃ ‘‘ ﴿رواہ الحاکم فی المستدرک﴾
جواب نمبر ۱
یہ حدیث شریف قابل استنا دنہیں ہے کیونکہ اس میں ابن لہیعہ ایک راوی ہے جو بالاتفاق ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے ۔
جواب نمبر۲
یہ حدیث عقلاً اور روایتاً درایۃ محال ہے کیونکہ اس حدیث کے شروع میں یہ مضمون ہے کہ ہربعد میں آنے والا نبی پہلے نبی سے آدھی عمر پاتا ہے اب اگر عیسیٰ سے دس بیس انبیاء اوپر شمار کئے جائیں تو ان کی عمر لاکھوں کروڑوں سال تک پہنچ جائے گی اگر آدم علیہ السلام تک چلیں تو آدم علیہ السلام کی عمر اس حساب سے اتنی بنے گی کہ موجودہ دور میں حساب کرنے والے تمام کمپیوٹر اور کیلکولیٹر سب فیل ہوجائیں گے ۔ حساب کرنے سے معلوم ہوا کہ اس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اوپر بیسویں نبی کی عمر ۶ کروڑ ۲۹ لاکھ ۱۴ ہزار ۵ سو ۶۰ سال بنتی ہے جو عقلاً اور نقلاً محال ہے۔
جواب نمبر ۳
اگر اس حدیث کو صحیح تسلیم کیا جائے تو اس حدیث کا معنی اور مفہوم ایسا لیناہوگا جو دوسری احادیث صحیحہ متواترہ کے خلاف نہ ہو چنانچہ ملا علی قاری ؒ نے اس حدیث کی دوسری احادیث صحیحہ سے یوں تطبیق دی ہے کہ آپ نبوت سے قبل کی عمر چالیس سال نبوت کی عمر تنتیس سال دوبارہ دنیا میں تشریف لانے کے بعد پنتالیس سال اس اعتبار سے مجموعی عمر۱۱۸ سال ہوئی اور کسر والے سال ملا کر ۱۲۰ سال بن جائے گی اور جس روایت میں آتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام سات سال زندہ رہیں گے اس سے مراد دجال کے قتل کے بعد سات سال ہیں ۔
جواب نمبر ۴
اگر یہ حدیث صحیح ہے تو مرزا قادیانی جھوٹا ہے اس حدیث کی روشنی میں اس کی عمر ۳۱ ؍۳۲ سال ہونی چاہیے جبکہ اس کی عمر ۷۰ سال کے قریب بنتی ہے ۔
﴾حدیث نمبر ۲
’’ لوکان موسیٰ و عیسیٰ حیےن لما وسعھا الا اتباعی ‘‘
جواب نمبر۱
یہ حدیث درست ہے تو آپ کے بھی خلاف ہوئی کیونکہ اس سے معلوم ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام زندہ نہیں ہیں اور مرزا قادیانی موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کا قائل ہے ۔ (حوالہ گذر چکا ہے )
جواب نمبر۲
اس حدیث کی کوئی سند نہیں یہ ایک بے سند مردود قول ہے اگر کچھ طاقت ہے تو اس کی سند پیش کریں۔
جواب نمبر۳
صحیح روایت جو سند کے اعتبار سے مشکوٰۃ میں موجو دہے اس میں صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نام ہے ’’ لو کان موسیٰ حیا لما وسعہ الا اتباعی ‘‘ ﴿مشکوٰۃ ص۲۰﴾
﴾حدیث نمبر۳
شرح فقہ اکبر کی روایت پیش کی جاتی ہے جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام آتا ہے ’’ لو کان عیسیٰ حیالما وسعہ الا اتباعی‘
٭جواب
یہ کاتب کی غلطی ہے ۔ ہندوستانی نسخوں میں عیسیٰ علیہ السلام کی جگہ موسیٰ علیہ السلام کا نام ہے اس غلطی پر فقہ اکبر کی اندرونی شہادتیں موجود ہیں ، خاص کر مصنف شرح اکبر ملا علی قاری حیات مسیح کے قائل ہیں۔(شرح شفاء اور تذکرہ الموضوعات) میں حوالہ ہے ۔
٭تین جواب ٭
۱) ؂غیرت کی جاہے موسیٰ زندہ ہو آسمان پر
مدفون ہو زمین میں شاہ جہاں ہمارا
۲) ؂مصطفی زیر زمین عیسیٰ نہاں بر آسماں
زیر دریا د ر شور بالا حباب ناتواں
۳) ؂ ا م تری البحر یعلوا فوقہ حبب
و تستقر با قصی قعرہ الدرر

!!!مرزائیوں کی حالت زار!!!

مرزا ئی عموماً ایک معمولی سے بات لے کر اس میں رکیک تاویلیں کر کے اپنا الو سیدھا کرنیکی کوشش کرتے ہیں کسی نے سچ کہا ’ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘ ۔ مرزائیوں کی اس حالت زار پریہ رباعی بالکل فٹ ہے جو اخبار جنگ ۲۱ مارچ ۱۹۶۵ء سے ماخوذ ہے۔
یہ سب آثار ہیں جہل و جنوں کے یہ سب اطوار ہیں زار و زبوں کے
یہ چاروں لفظ ہیں مکر و فسوں کے ا گر ، لیکن ، چنا نچہ ا ور چو نکہ

 

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

از قلم غلام نبی قادری نوری