جب کوئی مرزائی اجرائے نبوت کے موضوع پر گفتگو کرے ، بحث شروع کرنے سے قبل یہ ضروری ہے کہ پہلے موضوع اور دعویٰ کو منقح کرلیں ، جب تک دعویٰ واضح نہ ہو جائے کسی قسم کی بحث کرنا بالکل بے سود ہے ۔
واضح ہوکہ مرزائی مطلق اجرائے نبوت کے قائل نہیں بلکہ ایک خاص قسم کی نبوت کے حضور ﷺ کے بعد جاری ہونے کے قائل ہیں لہذا ضروری ہے کہ پہلے اس خاص قسم کو واضح کیا جائے جو ان کے نزدیک جاری ہے پھر اس خاص دعویٰ کےمطابق اس قسم کی خاص دلیل کا مطالبہ کیا جائے کیونکہ دعویٰ اور دلیل میں مطابقت ضروری ہے ورنہ یہ کھلی بد دیانتی ہے کہ دعویٰ اور دلیل اس کیلئے کوئی عام پیش کی جائے ہم بلاخوف تردید دعویٰ کرتے ہیں کہ قادیانی اپنے خاص دعویٰ کے مطابق قرآن وحدیث سے ایک بھی صحیح دلیل پیش نہیں کرسکتے ۔
قادیانیوں کے نزد یک نبوت کی اقسام
حوالہ نمبر ۱
’’ میں نبیوں کی تین اقسام مانتا ہوں ۔ایک جو شریعت لانے والے ہوں ،دوسرا جو شریعت نہیں لائے لیکن ان کو نبوت بلاواسطہ ملتی ہے اور کام وہ پہلی امت کا ہی کرتے ہیں جیسے سلیمان وزکریا اور یحیٰ علیہم السلام اور ایک جونہ شریعت لائے اور نہ ان کو بلاواسطہ نبوت ملتی ہے لیکن وہ پہلے نبی کی اتباع سے نبی ہوتے ہیں ۔‘‘ (قول فیصل ص۱۴ مصنفہ مرزا بشیر الدین محمود)
حوالہ نمبر ۲
’’ ا س جگہ یاد رہے کہ نبوت مختلف نوع پر ہے اور آج تک نبوت تین قسم پر ظاہر ہوچکی ہے
(۱) تشریعی نبوت :ایسی نبوت کو مسیح موعود نے حقیقی نبوت سے پکارا ہے
(۲) وہ نبوت جس کیلئے تشریعی یا حقیقی ہونا ضروری نہیں ، ایسی نبوت حضرت مسیح موعود کی اصطلاح میں مستقل نبوت ہے
(۳) ظلی اور امتی نبی : حضور ﷺ سے مستقل اور حقیقی نبوتوں کا دروازہ بند ہوگیا اور ظلی نبوت کا دروازہ کھولاگیا۔‘‘
(مسئلہ کفر واسلام کی حقیقت ص۳۱ مصنفہ مرزا بشیر احمد ایم اے)
حوالہ نمبر ۳
’’ انبیائے کرام علیہم السلام دو قسم کے ہوتے ہیں :(۱) تشریعی (۲) غیر تشریعی ۔ پھر غیر تشریعی بھی دو قسم کے ہوتے ہیں :(۱)براہ راست نبوت پانے والے ۔(۲) نبی تشریعی کی اتباع سے نبوت حاصل کرنے والے ۔ آنحضرت ﷺ کے پیشتر صفر پہلی دو قسم کے نبی آتے تھے ۔‘‘ (مباحثہ راولپنڈی ص۱۷۵)
تبصرہ
مذکورہ بالا حوالہ جات سے قادیانیوں کا دعویٰ واضح ہوگیا کہ ان کے نزدیک نبوت کی تین قسمیں ہیں جن میں دو بند ہیں ۔ ایک خاص قسم (ظلی بروزی) جو کہ نبی اکرم ﷺ کی اتباع سے حاصل ہوتی ہے وہ جاری ہے لہذا اب خاص دعویٰ کے مطابق ان سے خاص دلیل کا مطالبہ ہونا چاہیے اسی طرح ان حوالہ جات سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ یہ خاص قسم حضو ر ﷺ کے بعد جاری ہوئی ہے لہذا دلیل ایسی ہو جس سے یہ ثابت ہوجائے کہ حضور ﷺ کے بعد یہ خاص قسم جاری ہوئی ہے نیز اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نبوت وہبی نہیں ہوگی بلکہ کسبی ہوگی ۔ کیونکہ جب یہ اتباع سے حاصل ہوگی تو یہ کسبی ہوجائے گی نہ کہ وہبی ۔
اب ان تنقیحات ثلاثہ کے بعد جب کوئی قادیانی اپنے دعویٰ کے ثبوت میں کوئی دلیل پیش کرے تو دیکھو کہ کیایہ دعویٰ کے مطابق ہے یعنی کیااس سے ظلی بروزی خاص قسم کی نبوت جاری ہوتی ہے یا عام ۔ اور کیا اس میں حضور ﷺ کے بعد اس نبوت کا ذکر ہے یا مطلق اور کیا اس سے نبوت وہبی ثابت ہوتی ہے یا کسبی ۔ ہم بلاخوف تردید دعویٰ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان تنقیحات ثلاثہ کے مطابق وہ اپنے دعویٰ پر ایک دلیل بھی پیش نہیں کرسکتے ۔
٭ایک ضروری تنبیہ٭
قادیانیوں کی سب سے بڑی عیاری یہ ہے کہ دعویٰ تو اس خاص قسم کی نبوت کا ہے لیکن وہ عام موضوع اجرائے نبوت رکھ کر بحث شروع کردیتے ہیں اور ایسے عام دلائل پیش کرتے ہیں جوان کے خاص دعویٰ کے مطابق نہیں ہوتے بلکہ وہ دلائل ان کے اپنے مسلمات کے خلا ف ہوتے ہیں ۔
﴾نوٹ
اکثر اوقات مرزائی امکان نبوت کی بحث چھیڑ دیتے ہیں یہاں امکان کی بحث نہیں ہے وقوع کی بحث ہے اگر وہ امکان کی بحث چھیڑیں تو تریاق القلوب کی درج ذیل عبارت پیش کریں۔
’’ مثلاً ایک شخص جوقوم کا چوہڑا یعنی بھنگی ہے اور ایک گاؤں کے شریف مسلمانوں کی تیس چالیس سال سے یہ خدمت کرتاہے کہ دو وقت ان کے گھروں کی گندی نالیوں کو صاف کرنے آتا ہے اور ان کے پاخانوں کی نجاست اٹھا تا ہے اور ایک دو دفعہ چوری میں بھی پکڑا گیا اور چند دفعہ زنا میں گرفتار ہوکر اس کی رسوائی ہوچکی ہے اور چند سال جیل خانہ میں قید ہوچکا ہے اور چند دفعہ ایسے برے کاموں پر گاؤں کے نمبرداروں نے اسے جوتے بھی مارے ہیں اوراس کی ماں اور دادیاں اور نانیاں ہمیشہ سے ایسے ہی نجس کام میں مشغول رہی ہیں اور سب مردار کھاتے اور گوہ (پاخانہ) اٹھاتے ہیں اب خدا کی قدرت سے تائب ہوکر مسلمان ہوجائے اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا ایسا فضل اس پر ہو کہ وہ نبی اور رسول بھی بن جائے اور اس گاؤں کے شریف لوگوں کے پاس دعوت کا پیغام لے کرآوے اور کہے کہ جو شخص تم میں سے میری اطاعت نہیں کرے گا خدا اسے جہنم میں ڈالے گا لیکن باوجود اس امکان کے جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کبھی ایسا نہیں ہوا۔‘‘(تریاق القلوب ص۶۷ روحانی خزائن ص۲۷۹؍۲۸۰ج۱۵)
جب یہ عبارت پڑھیں تو ساری پڑھ دیں کیونکہ عموماً تھوڑی سی عبارت پڑھنے کے بعد مرزائی کہتے ہیں کہ آگے پڑھو اور مجمع پر برا اثر ڈالتے ہیں ۔
یہاں پر یہ واقعہ بھی ملحوظ خاطر رہے جب حضرت ابوسفیان زمانہ جاہلیت میں تجارتی سفر پر روم گئے تھے اور قیصر روم نے انہیں اپنے دربار میں بلاکر سوال پوچھے تھے جن میں سے ایک سوال حضور ﷺ کے خاندان کے بارے میں بھی تھا جس کا انہوں نے جواب دیا تھا کہ وہ ایک بلند مرتبہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور قیصر روم کا اس پر تبصرہ یہ تھا کہ انبیا ء عالی نسب قوموں سے ہی مبعوث کیے جاتے ہیں ۔﴿صحیح البخاری ج۱ص۴﴾
﴾آیت نمبر ۱
’’ یا بنی آدم اما یاتینکم رسل منکم یقصون ……الخ ‘‘ ۔ اے بنی آدم اگر تمہارے پاس تم میں سے رسول آئیں بیان کریں ……الخ ۔﴿پارہ ۸ أعراف ۳۵﴾
جواب نمبر ۱
آپ کی دلیل دعوے کیمطابق نہیں کیونکہ رسول کا لفظ عام ہے ۔ مرزا صاحب خود تسلیم کرتے ہیں کہ : ’’ رسول کا لفظ عام ہے جس میں رسول اور نبی اور محدث داخل ہیں ۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن ص۳۲۲ج۵)
جواب نمبر ۲
اگر یہ اجرائے نبوت کی دلیل ہے تو اس میں تینوں قسمیں جاری ثابت ہوجائیں گی حالانکہ تم خود دوقسمیں بند مان چکے ہو، لہذا یہ آیت تمہارے بھی اسی طرح خلاف ہے جس طرح ہمارے خلاف ہے ۔ ماھوا جوابکم فھو جوابنا
جواب نمبر ۳
اگر یہ اجرائے نبوت کی دلیل ہے تو اس سے ثابت ہوگا کہ عیسائی ، ہندو،سکھ حتی کہ کوئی بھی مذہب ؍فرقہ یا قوم کا نبی ہوسکتا ہے کیونکہ بنی آدم میں سب شمار ہیں ۔
جواب نمبر ۴
اگر یہ آیت اجرائے نبوت کیلئے دلیل مان بھی لی جائے تو مرزا صاحب پھر بھی نبی نہیں بن سکتے کیونکہ بقول اپنے آدم کی اولاد ہی نہیں مرزا صاحب فرماتے ہیں :
کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانو ں کی عار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۹۷ روحانی خزائن ص۱۲۷ ج۲۱)
اگر وہ بنی آدم میں سے تھا جیسا کہ ظاہر ہے تو پھر اس نے یہ جھوٹ بولا اور جھوٹ بولنے والا بھی نبی نہیں ہوسکتا ۔ رہی کسر نفسی والی تاویل تو وہ بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ ایسی کسر نفسی کسی عقل مند انسان نے آج تک نہیں کی باقی اس کی کسر نفسی کی حقیقت اس کے دیگر دعاوی اور تعلیمات سے واضح ہے سنئے مرزا صاحب کی تعلیمات:
۱) ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام ا حمد ہے
(دافع البلا ء ص۲۰ روحانی خزائن ص۲۴۰ ج۱۸)
استاد محترم مولا محمد حیات رحمۃاﷲ علیہ نے فرمایا
ابن ملجم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بد تر غلام احمد ہے
۲) روضۂ آد م کہ جو تھا نامکمل اب تلک
میرے آنے سے ہو ا کامل بجملہ برگ و بار
(براہین احمدیہ روحانی خزائن ص۱۴۴ ج۲۱)
۳) کر بلائے است سیر ہر آنم
صد حسین است در گریبانم
۴) آ د مم نیز احمد مختار در برم جامہ ہمہ ابرار
۵) آنچہ داد است ہر نبی را جام
د ا د آ ں جا م مرا بتما م
(نزول مسیح ص۹۶روحانی خزائن ص۴۷۷ ج۱۸)
۶) انبیاء گرچہ بودہ اند بسے
من بعرفان نہ کمترم ز کسے
(نزول مسیح ص۹۹روحانی خزائن ص۴۷۷ج۱۸)
۔جواب نمبر ۵
یہ اجرائے نبوت کی دلیل ہے تو مرزا صاحب کو پیش کرنی چاہیے ،حالانکہ مرزا نے کسی کتاب میں بھی اس آیت کو پیش نہیں کیا ۔ کوئی مرزا ئی اگر مرزا کی کتاب
سے یہ دلیل ثابت کردے تو منہ مانگا انعام حاصل کرے ۔
۔جواب نمبر ۶
اصل تحقیقی جواب یہ کہ عبارت کا سیاق وسباق دیکھنے سے یہ بات روز روشن سے زیادہ واضح ہوگئی ہے کہ یہاں پر حکایت ماضی کی ہے چنانچہ یہاں سے دورکوع قبل حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہاالسلام کی پیدائش کا ذکر ہے تمام واقعہ بڑی تفصیل سے اﷲ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں اور اس ضمن میں یہ ارشاد ہوتاہے کہ جب ہم نے حضرت آدم علیہ السلام کو مع ان کے رفقاء کے زمین پر اتار دیا تو ان کو یہ خطاب کیا گیا ۔ اس صورت میں چار جگہوں پر بنی آدم سے خطاب کیا گیا ہے ۔
۱) ’’ یابنی آدم قد انزلنا علیکم لباسا……الخ‘‘ اے بنی آدم تحقیق ہم نے تم پر لباس نازل کیا ‘‘ ﴿پارہ ۸ أعراف ۲۶﴾
۲) ’’ یابنی آدم لا یفتننکم الشیطان ……الخ ‘‘ اے بنی آدم تمہیں شیطان نہ بہکاوے ۔ ﴿پارہ ۸ أعراف ۳۱﴾
۳) ’ ’ یابنی آدم اما یاتینکم ……الخ ‘‘اے بنی آدم اگر تمہارے پاس تم میں سے رسول آئیں ۔ ﴿پارہ ۸ أعراف ۵۵﴾
۴) ’’ یابنی آدم خذو زینتکم عند کل مسجد‘‘اے بنی آدم ہر نماز کے وقت اپنی زینت حاصل کر و۔ ﴿پارہ ۸ أعراف ۳۱﴾
ان چار جگہوں پر اس وقت اولاد آدم کو خطاب کیا گیا ہے اور یہ حضور ﷺ کے سامنے ماضی کی حکایت کی گئی ہے حضور ﷺ یا آپ کی امت کو خطاب نہیں ہو ا۔ کیونکہ آپ کی امت کو ’’ یا ایھاالناس ‘‘ سے خطاب کیا جاتاہے ۔ یا بنی آدم سے اس امت کو خطاب نہیں کیا گیا۔ ہاں اگر پہلے حکم کا نسخ نہ ہو اور اس حکم میں یہ امت بھی شامل ہوجائے تو یہ علیحدہ با ت ہے چنانچہ اس کے بعد اس وعدہ کے مطابق جو اﷲ تعالیٰ نے رسول بھیجے ہیں ان میں سے بعض کا تذکرہ تفصیلاً بیان کیا جیسے ’’ ولقد ارسلنا نوحا‘‘ وغیرہ اس سلسلہ کو بیان کرتے کرتے آگے چل کر فرمایا ’’ ثم بعثنا من بعدھم موسیٰ‘‘ پھر دور تک موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ چلا گیا ، حتی کہ نبی کریم ﷺ تک اس سلسلہ کوپہنچادیا اور پھر نبی کریم ﷺ کا تذکرہ یوں فرمایا ’’ قل یاایھاالناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا‘‘ اے نبی ﷺ فرمادیجئے میں تم سب کی طرف اﷲ کا رسول ہوں ۔﴿پارہ ۹ الاعراف آیت ۱۵۸﴾ اور اسی طرح مختلف مقامات میں اعلان کروائے وما ارسلنک الا کافۃ للناس ’’ اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تما م لوگوں کیلئے ‘‘ ﴿پارہ ۲۲ سورہ سباء آیت نمبر ۲۸﴾ وماارسلناک الا رحمۃ للعالمین ، ماکان محمدابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین ’’ محمد ﷺ تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں او ر لیکن اﷲ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں ۔‘‘ اور انہی آیا ت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ’’ ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی ‘‘ تواس سے معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو نازل کرنے کے بعد رسولوں کے بھیجنے کا وعدہ فرمایا تھا اور پھر اس کے بعد اپنے وعدے کے مطابق جن رسولوں کو بھیجا ان کی ایک مختصر تاریخ بیان کی حتی کہ اس رسالت کو حضور ﷺ تک پہنچا کر آپ پر نبوت و رسالت کے سلسلہ کو ختم فرمایا۔
۔جواب نمبر ۷
اگر اس آیت سے نبوت جاری ثابت ہوتی ہے تواس قسم کی یہ آیت بھی موجود ہے اما یاتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلا خوف علیہم ……الخ اس آیت میں بھی وہی یاتینکم ہے او راس کا سیاق وسباق بھی وہی ہے اگر اس آیت سے نبوت ورسالت جارے ہوتی ہے تو اس آیت سے شریعت جاری ہورہی ہے حالانکہ وہ تہارے نزدیک بھی بند ہے۔ما ھوا جوابکم فھو جوابنا۔
۔مرزا ئی اعتراض
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس آیت سے شریعت کا جاری ہونا ثابت ہو تا ہے لیکن الیوم اکملت لکم دینکم …… الخ اس آیت سے ثابت ہو گیا کہ دین اور شریعت مکمل ہوچکی ہے لہذا اب کسی قسم کی نئی شریعت کی ضرورت نہیں رہی ۔
۔الجواب
جیسے اس آیت سے یہ ثابت ہواکہ شریعت مکمل ہوگئی مزید شریعت کی ضرورت نہیں رہی اسی طرح آیت خاتم النبیین سے یہ ثابت ہوگیا کہ سلسلہ نبوت ورسالت بھی ختم ہوگیا۔
ریپلائی کیجیئے