رد مرزائیت کورس قسط 11

جب کوئی مرزائی اجرائے نبوت کے موضوع پر گفتگو کرے ، بحث شروع کرنے سے قبل یہ ضروری ہے کہ پہلے موضوع اور دعویٰ کو منقح کرلیں ، جب تک دعویٰ واضح نہ ہو جائے کسی قسم کی بحث کرنا بالکل بے سود ہے ۔ واضح ہوکہ مرزائی مطلق اجرائے نبوت کے قائل نہیں بلکہ ایک خاص قسم کی نبوت کے حضور ﷺ کے بعد جاری ہونے کے قائل ہیں لہذا ضروری ہے کہ پہلے اس خاص قسم کو واضح کیا جائے جو ان کے نزدیک جاری ہے پھر اس خاص دعویٰ کےمطابق اس قسم کی خاص دلیل کا مطالبہ کیا جائے کیونکہ دعویٰ اور دلیل میں مطابقت ضروری ہے ورنہ یہ کھلی بد دیانتی ہے کہ دعویٰ اور دلیل اس کیلئے کوئی عام پیش کی جائے ہم بلاخوف تردید دعویٰ کرتے ہیں کہ قادیانی اپنے خاص دعویٰ کے مطابق قرآن وحدیث سے ایک بھی صحیح دلیل پیش نہیں کرسکتے

جب کوئی مرزائی اجرائے نبوت کے موضوع پر گفتگو کرے ، بحث شروع کرنے سے قبل یہ ضروری ہے کہ پہلے موضوع اور دعویٰ کو منقح کرلیں ، جب تک دعویٰ واضح نہ ہو جائے کسی قسم کی بحث کرنا بالکل بے سود ہے ۔ واضح ہوکہ مرزائی مطلق اجرائے نبوت کے قائل نہیں بلکہ ایک خاص قسم کی نبوت کے حضور ﷺ کے بعد جاری ہونے کے قائل ہیں لہذا ضروری ہے کہ پہلے اس خاص قسم کو واضح کیا جائے جو ان کے نزدیک جاری ہے پھر اس خاص دعویٰ کےمطابق اس قسم کی خاص دلیل کا مطالبہ کیا جائے کیونکہ دعویٰ اور دلیل میں مطابقت ضروری ہے ورنہ یہ کھلی بد دیانتی ہے کہ دعویٰ اور دلیل اس کیلئے کوئی عام پیش کی جائے ہم بلاخوف تردید دعویٰ کرتے ہیں کہ قادیانی اپنے خاص دعویٰ کے مطابق قرآن وحدیث سے ایک بھی صحیح دلیل پیش نہیں کرسکتے

مسئلہ ختم نبوت واجرائے نبوت

تنقیح موضوع

جب کوئی مرزائی اجرائے نبوت کے موضوع پر گفتگو کرے ، بحث شروع کرنے سے قبل یہ ضروری ہے کہ پہلے موضوع اور دعویٰ کو منقح کرلیں ، جب تک دعویٰ واضح نہ ہو جائے کسی قسم کی بحث کرنا بالکل بے سود ہے ۔
واضح ہوکہ مرزائی مطلق اجرائے نبوت کے قائل نہیں بلکہ ایک خاص قسم کی نبوت کے حضور ﷺ کے بعد جاری ہونے کے قائل ہیں لہذا ضروری ہے کہ پہلے اس خاص قسم کو واضح کیا جائے جو ان کے نزدیک جاری ہے پھر اس خاص دعویٰ کےمطابق اس قسم کی خاص دلیل کا مطالبہ کیا جائے کیونکہ دعویٰ اور دلیل میں مطابقت ضروری ہے ورنہ یہ کھلی بد دیانتی ہے کہ دعویٰ اور دلیل اس کیلئے کوئی عام پیش کی جائے ہم بلاخوف تردید دعویٰ کرتے ہیں کہ قادیانی اپنے خاص دعویٰ کے مطابق قرآن وحدیث سے ایک بھی صحیح دلیل پیش نہیں کرسکتے ۔
قادیانیوں کے نزد یک نبوت کی اقسام
حوالہ نمبر ۱
’’ میں نبیوں کی تین اقسام مانتا ہوں ۔ایک جو شریعت لانے والے ہوں ،دوسرا جو شریعت نہیں لائے لیکن ان کو نبوت بلاواسطہ ملتی ہے اور کام وہ پہلی امت کا ہی کرتے ہیں جیسے سلیمان وزکریا اور یحیٰ علیہم السلام اور ایک جونہ شریعت لائے اور نہ ان کو بلاواسطہ نبوت ملتی ہے لیکن وہ پہلے نبی کی اتباع سے نبی ہوتے ہیں ۔‘‘ (قول فیصل ص۱۴ مصنفہ مرزا بشیر الدین محمود)
حوالہ نمبر ۲
’’ ا س جگہ یاد رہے کہ نبوت مختلف نوع پر ہے اور آج تک نبوت تین قسم پر ظاہر ہوچکی ہے
(۱) تشریعی نبوت :ایسی نبوت کو مسیح موعود نے حقیقی نبوت سے پکارا ہے
(۲) وہ نبوت جس کیلئے تشریعی یا حقیقی ہونا ضروری نہیں ، ایسی نبوت حضرت مسیح موعود کی اصطلاح میں مستقل نبوت ہے
(۳) ظلی اور امتی نبی : حضور ﷺ سے مستقل اور حقیقی نبوتوں کا دروازہ بند ہوگیا اور ظلی نبوت کا دروازہ کھولاگیا۔‘‘
(مسئلہ کفر واسلام کی حقیقت ص۳۱ مصنفہ مرزا بشیر احمد ایم اے)
حوالہ نمبر ۳
’’ انبیائے کرام علیہم السلام دو قسم کے ہوتے ہیں :(۱) تشریعی (۲) غیر تشریعی ۔ پھر غیر تشریعی بھی دو قسم کے ہوتے ہیں :(۱)براہ راست نبوت پانے والے ۔(۲) نبی تشریعی کی اتباع سے نبوت حاصل کرنے والے ۔ آنحضرت ﷺ کے پیشتر صفر پہلی دو قسم کے نبی آتے تھے ۔‘‘ (مباحثہ راولپنڈی ص۱۷۵)

تبصرہ

مذکورہ بالا حوالہ جات سے قادیانیوں کا دعویٰ واضح ہوگیا کہ ان کے نزدیک نبوت کی تین قسمیں ہیں جن میں دو بند ہیں ۔ ایک خاص قسم (ظلی بروزی) جو کہ نبی اکرم ﷺ کی اتباع سے حاصل ہوتی ہے وہ جاری ہے لہذا اب خاص دعویٰ کے مطابق ان سے خاص دلیل کا مطالبہ ہونا چاہیے اسی طرح ان حوالہ جات سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ یہ خاص قسم حضو ر ﷺ کے بعد جاری ہوئی ہے لہذا دلیل ایسی ہو جس سے یہ ثابت ہوجائے کہ حضور ﷺ کے بعد یہ خاص قسم جاری ہوئی ہے نیز اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نبوت وہبی نہیں ہوگی بلکہ کسبی ہوگی ۔ کیونکہ جب یہ اتباع سے حاصل ہوگی تو یہ کسبی ہوجائے گی نہ کہ وہبی ۔
اب ان تنقیحات ثلاثہ کے بعد جب کوئی قادیانی اپنے دعویٰ کے ثبوت میں کوئی دلیل پیش کرے تو دیکھو کہ کیایہ دعویٰ کے مطابق ہے یعنی کیااس سے ظلی بروزی خاص قسم کی نبوت جاری ہوتی ہے یا عام ۔ اور کیا اس میں حضور ﷺ کے بعد اس نبوت کا ذکر ہے یا مطلق اور کیا اس سے نبوت وہبی ثابت ہوتی ہے یا کسبی ۔ ہم بلاخوف تردید دعویٰ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان تنقیحات ثلاثہ کے مطابق وہ اپنے دعویٰ پر ایک دلیل بھی پیش نہیں کرسکتے ۔
٭ایک ضروری تنبیہ٭
قادیانیوں کی سب سے بڑی عیاری یہ ہے کہ دعویٰ تو اس خاص قسم کی نبوت کا ہے لیکن وہ عام موضوع اجرائے نبوت رکھ کر بحث شروع کردیتے ہیں اور ایسے عام دلائل پیش کرتے ہیں جوان کے خاص دعویٰ کے مطابق نہیں ہوتے بلکہ وہ دلائل ان کے اپنے مسلمات کے خلا ف ہوتے ہیں ۔
﴾نوٹ
اکثر اوقات مرزائی امکان نبوت کی بحث چھیڑ دیتے ہیں یہاں امکان کی بحث نہیں ہے وقوع کی بحث ہے اگر وہ امکان کی بحث چھیڑیں تو تریاق القلوب کی درج ذیل عبارت پیش کریں۔
’’ مثلاً ایک شخص جوقوم کا چوہڑا یعنی بھنگی ہے اور ایک گاؤں کے شریف مسلمانوں کی تیس چالیس سال سے یہ خدمت کرتاہے کہ دو وقت ان کے گھروں کی گندی نالیوں کو صاف کرنے آتا ہے اور ان کے پاخانوں کی نجاست اٹھا تا ہے اور ایک دو دفعہ چوری میں بھی پکڑا گیا اور چند دفعہ زنا میں گرفتار ہوکر اس کی رسوائی ہوچکی ہے اور چند سال جیل خانہ میں قید ہوچکا ہے اور چند دفعہ ایسے برے کاموں پر گاؤں کے نمبرداروں نے اسے جوتے بھی مارے ہیں اوراس کی ماں اور دادیاں اور نانیاں ہمیشہ سے ایسے ہی نجس کام میں مشغول رہی ہیں اور سب مردار کھاتے اور گوہ (پاخانہ) اٹھاتے ہیں اب خدا کی قدرت سے تائب ہوکر مسلمان ہوجائے اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا ایسا فضل اس پر ہو کہ وہ نبی اور رسول بھی بن جائے اور اس گاؤں کے شریف لوگوں کے پاس دعوت کا پیغام لے کرآوے اور کہے کہ جو شخص تم میں سے میری اطاعت نہیں کرے گا خدا اسے جہنم میں ڈالے گا لیکن باوجود اس امکان کے جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کبھی ایسا نہیں ہوا۔‘‘(تریاق القلوب ص۶۷ روحانی خزائن ص۲۷۹؍۲۸۰ج۱۵)
جب یہ عبارت پڑھیں تو ساری پڑھ دیں کیونکہ عموماً تھوڑی سی عبارت پڑھنے کے بعد مرزائی کہتے ہیں کہ آگے پڑھو اور مجمع پر برا اثر ڈالتے ہیں ۔

یہاں پر یہ واقعہ بھی ملحوظ خاطر رہے جب حضرت ابوسفیان زمانہ جاہلیت میں تجارتی سفر پر روم گئے تھے اور قیصر روم نے انہیں اپنے دربار میں بلاکر سوال پوچھے تھے جن میں سے ایک سوال حضور ﷺ کے خاندان کے بارے میں بھی تھا جس کا انہوں نے جواب دیا تھا کہ وہ ایک بلند مرتبہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور قیصر روم کا اس پر تبصرہ یہ تھا کہ انبیا ء عالی نسب قوموں سے ہی مبعوث کیے جاتے ہیں ۔﴿صحیح البخاری ج۱ص۴﴾

اجرائے نبوت پر مرزائیوں کے دلائل

﴾آیت نمبر ۱
’’ یا بنی آدم اما یاتینکم رسل منکم یقصون ……الخ ‘‘ ۔ اے بنی آدم اگر تمہارے پاس تم میں سے رسول آئیں بیان کریں ……الخ ۔﴿پارہ ۸ أعراف ۳۵﴾
جواب نمبر ۱
آپ کی دلیل دعوے کیمطابق نہیں کیونکہ رسول کا لفظ عام ہے ۔ مرزا صاحب خود تسلیم کرتے ہیں کہ : ’’ رسول کا لفظ عام ہے جس میں رسول اور نبی اور محدث داخل ہیں ۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن ص۳۲۲ج۵)
جواب نمبر ۲
اگر یہ اجرائے نبوت کی دلیل ہے تو اس میں تینوں قسمیں جاری ثابت ہوجائیں گی حالانکہ تم خود دوقسمیں بند مان چکے ہو، لہذا یہ آیت تمہارے بھی اسی طرح خلاف ہے جس طرح ہمارے خلاف ہے ۔ ماھوا جوابکم فھو جوابنا
جواب نمبر ۳
اگر یہ اجرائے نبوت کی دلیل ہے تو اس سے ثابت ہوگا کہ عیسائی ، ہندو،سکھ حتی کہ کوئی بھی مذہب ؍فرقہ یا قوم کا نبی ہوسکتا ہے کیونکہ بنی آدم میں سب شمار ہیں ۔
جواب نمبر ۴
اگر یہ آیت اجرائے نبوت کیلئے دلیل مان بھی لی جائے تو مرزا صاحب پھر بھی نبی نہیں بن سکتے کیونکہ بقول اپنے آدم کی اولاد ہی نہیں مرزا صاحب فرماتے ہیں :
؂کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانو ں کی عار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۹۷ روحانی خزائن ص۱۲۷ ج۲۱)
اگر وہ بنی آدم میں سے تھا جیسا کہ ظاہر ہے تو پھر اس نے یہ جھوٹ بولا اور جھوٹ بولنے والا بھی نبی نہیں ہوسکتا ۔ رہی کسر نفسی والی تاویل تو وہ بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ ایسی کسر نفسی کسی عقل مند انسان نے آج تک نہیں کی باقی اس کی کسر نفسی کی حقیقت اس کے دیگر دعاوی اور تعلیمات سے واضح ہے سنئے مرزا صاحب کی تعلیمات:
۱) ؂ ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام ا حمد ہے
(دافع البلا ء ص۲۰ روحانی خزائن ص۲۴۰ ج۱۸)
استاد محترم مولا محمد حیات رحمۃاﷲ علیہ نے فرمایا
؂ ابن ملجم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بد تر غلام احمد ہے
۲) ؂روضۂ آد م کہ جو تھا نامکمل اب تلک
میرے آنے سے ہو ا کامل بجملہ برگ و بار
(براہین احمدیہ روحانی خزائن ص۱۴۴ ج۲۱)
۳) ؂کر بلائے است سیر ہر آنم
صد حسین است در گریبانم
۴) ؂آ د مم نیز احمد مختار در برم جامہ ہمہ ابرار
۵) ؂آنچہ داد است ہر نبی را جام
د ا د آ ں جا م مرا بتما م
(نزول مسیح ص۹۶روحانی خزائن ص۴۷۷ ج۱۸)
۶) ؂انبیاء گرچہ بودہ اند بسے
من بعرفان نہ کمترم ز کسے
(نزول مسیح ص۹۹روحانی خزائن ص۴۷۷ج۱۸)
۔جواب نمبر ۵
یہ اجرائے نبوت کی دلیل ہے تو مرزا صاحب کو پیش کرنی چاہیے ،حالانکہ مرزا نے کسی کتاب میں بھی اس آیت کو پیش نہیں کیا ۔ کوئی مرزا ئی اگر مرزا کی کتاب
سے یہ دلیل ثابت کردے تو منہ مانگا انعام حاصل کرے ۔
۔جواب نمبر ۶
اصل تحقیقی جواب یہ کہ عبارت کا سیاق وسباق دیکھنے سے یہ بات روز روشن سے زیادہ واضح ہوگئی ہے کہ یہاں پر حکایت ماضی کی ہے چنانچہ یہاں سے دورکوع قبل حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہاالسلام کی پیدائش کا ذکر ہے تمام واقعہ بڑی تفصیل سے اﷲ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں اور اس ضمن میں یہ ارشاد ہوتاہے کہ جب ہم نے حضرت آدم علیہ السلام کو مع ان کے رفقاء کے زمین پر اتار دیا تو ان کو یہ خطاب کیا گیا ۔ اس صورت میں چار جگہوں پر بنی آدم سے خطاب کیا گیا ہے ۔
۱) ’’ یابنی آدم قد انزلنا علیکم لباسا……الخ‘‘ اے بنی آدم تحقیق ہم نے تم پر لباس نازل کیا ‘‘ ﴿پارہ ۸ أعراف ۲۶﴾
۲) ’’ یابنی آدم لا یفتننکم الشیطان ……الخ ‘‘ اے بنی آدم تمہیں شیطان نہ بہکاوے ۔ ﴿پارہ ۸ أعراف ۳۱﴾
۳) ’ ’ یابنی آدم اما یاتینکم ……الخ ‘‘اے بنی آدم اگر تمہارے پاس تم میں سے رسول آئیں ۔ ﴿پارہ ۸ أعراف ۵۵﴾
۴) ’’ یابنی آدم خذو زینتکم عند کل مسجد‘‘اے بنی آدم ہر نماز کے وقت اپنی زینت حاصل کر و۔ ﴿پارہ ۸ أعراف ۳۱﴾

ان چار جگہوں پر اس وقت اولاد آدم کو خطاب کیا گیا ہے اور یہ حضور ﷺ کے سامنے ماضی کی حکایت کی گئی ہے حضور ﷺ یا آپ کی امت کو خطاب نہیں ہو ا۔ کیونکہ آپ کی امت کو ’’ یا ایھاالناس ‘‘ سے خطاب کیا جاتاہے ۔ یا بنی آدم سے اس امت کو خطاب نہیں کیا گیا۔ ہاں اگر پہلے حکم کا نسخ نہ ہو اور اس حکم میں یہ امت بھی شامل ہوجائے تو یہ علیحدہ با ت ہے چنانچہ اس کے بعد اس وعدہ کے مطابق جو اﷲ تعالیٰ نے رسول بھیجے ہیں ان میں سے بعض کا تذکرہ تفصیلاً بیان کیا جیسے ’’ ولقد ارسلنا نوحا‘‘ وغیرہ اس سلسلہ کو بیان کرتے کرتے آگے چل کر فرمایا ’’ ثم بعثنا من بعدھم موسیٰ‘‘ پھر دور تک موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ چلا گیا ، حتی کہ نبی کریم ﷺ تک اس سلسلہ کوپہنچادیا اور پھر نبی کریم ﷺ کا تذکرہ یوں فرمایا ’’ قل یاایھاالناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا‘‘ اے نبی ﷺ فرمادیجئے میں تم سب کی طرف اﷲ کا رسول ہوں ۔﴿پارہ ۹ الاعراف آیت ۱۵۸﴾ اور اسی طرح مختلف مقامات میں اعلان کروائے وما ارسلنک الا کافۃ للناس ’’ اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تما م لوگوں کیلئے ‘‘ ﴿پارہ ۲۲ سورہ سباء آیت نمبر ۲۸﴾ وماارسلناک الا رحمۃ للعالمین ، ماکان محمدابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین ’’ محمد ﷺ تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں او ر لیکن اﷲ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں ۔‘‘ اور انہی آیا ت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ’’ ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی ‘‘ تواس سے معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو نازل کرنے کے بعد رسولوں کے بھیجنے کا وعدہ فرمایا تھا اور پھر اس کے بعد اپنے وعدے کے مطابق جن رسولوں کو بھیجا ان کی ایک مختصر تاریخ بیان کی حتی کہ اس رسالت کو حضور ﷺ تک پہنچا کر آپ پر نبوت و رسالت کے سلسلہ کو ختم فرمایا۔
۔جواب نمبر ۷
اگر اس آیت سے نبوت جاری ثابت ہوتی ہے تواس قسم کی یہ آیت بھی موجود ہے اما یاتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلا خوف علیہم ……الخ اس آیت میں بھی وہی یاتینکم ہے او راس کا سیاق وسباق بھی وہی ہے اگر اس آیت سے نبوت ورسالت جارے ہوتی ہے تو اس آیت سے شریعت جاری ہورہی ہے حالانکہ وہ تہارے نزدیک بھی بند ہے۔ما ھوا جوابکم فھو جوابنا۔
۔مرزا ئی اعتراض
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس آیت سے شریعت کا جاری ہونا ثابت ہو تا ہے لیکن الیوم اکملت لکم دینکم …… الخ اس آیت سے ثابت ہو گیا کہ دین اور شریعت مکمل ہوچکی ہے لہذا اب کسی قسم کی نئی شریعت کی ضرورت نہیں رہی ۔
۔الجواب
جیسے اس آیت سے یہ ثابت ہواکہ شریعت مکمل ہوگئی مزید شریعت کی ضرورت نہیں رہی اسی طرح آیت خاتم النبیین سے یہ ثابت ہوگیا کہ سلسلہ نبوت ورسالت بھی ختم ہوگیا۔

﴾آیت نمبر ۲
’’ اﷲ یصطفی من الملائکتہ وسلاً ومن الناس ‘‘ بیشک اﷲ تعالیٰ فرشتوں اور آدمیوں میں سے پیغام پہچانے والوں کو چن لیتا ہے ۔‘‘﴿پارہ ۱۷ ألحج ۷۵ ع۱۰﴾
٭طرز استدلال
اس آیت سے واضح طور پر معلو م ہورہا ہے کہ نبوت اور رسالت کا سلسلہ جاری ہے ۔ یصطفی مضارع کا صیغہ ہے جوحال اور استقبال پر دلالت کرتا ے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرشتوں اور لوگوں سے رسول چنتا رہے گا لہذا ہمارا مدعا ثابت ہوا۔
جواب نمبر۱
یہ دلیل بھی دعویٰ کے مطابق نہیں مطابقت ثابت کیجئے دعویٰ خاص ہے اور دلیل عام ہے کیونکہ رسول کا لفظ مرز اصاحب کے نزدیک عام ہے ۔(آئینہ کمالات اسلام ۳۲۲روحانی خزائن ص۳۲۲ ج۵،ایام الصلح ۱۷۱ ص۱۷۸ روحانی خزائن ص۴۱۹ ج۱۴ )یہاں عام لفظ کو کسی خاص معنی میں محدود کرنا صریح شرارت ہے ، مرزا صاحب خود تسلیم کرتے ہیں ، ’’ ایک عام لفظ کو سکی خاص معنی میں محدود کرناصریح شرارت ہے ۔‘‘ (نورالقرآن ص۶۹ج ۲ روحانی ص۴۴۴ج۹)
جواب نمبر۲
یہاں پر اﷲتعالیٰ نے یصطفی فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ چنے گا حالانکہ تم جس نبوت کے اجراء کے قائل ہو وہ اﷲ تعالیٰ کی اصطفاء سے نہیں بلکہ اطاعت سے (کسبی) ہوگی۔
جواب نمبر ۳
آپ کا دعویٰ حضور ﷺ کے بعد نبوت جاری ہونے کا ہے اس میں حضور کا کوئی ذکر نہیں بلکہ مطلق ہے لہذا اس اعتبار سے دعویٰ آپ کی دلیل کے مطابق نہیں رہا۔

﴾آیت نمبر ۳
’’ من یطع اﷲ والرسول فاولئک مع الذین انعم اﷲ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین ‘‘جو کوئی اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے پس یہ لوگ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اﷲ تعالیٰ نے نعمت کی پیغمبروں اور صدیقین اور شہداء اور صالحین ۔ ﴿پارہ ۵ ألنساء ۶۵ ع۸﴾
طرز استدلال
اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کی امت کوآپ کی اطاعت سے نبوت حاصل ہوتی ہے جس طرح آپ کی اطاعت سے امت مین صالح شہید اور صدیق ہوتے ہیں اسی طرح آپ کی اطاعت سے نبی بھی ہوتے ہیں اوریہی ہمارا دعویٰ ہے کہ آپ کی اطاعت والی نبوت جاری ہے لہذا ہمارے دعویٰ کیلئے یہ صریح دلیل ہے کیونکہ بالاتفاق حضور ﷺ کی اطاعت سے تین درجے ہوتے ہیں ۔اس لئے آیت کا یوں معنی کرنا درست نہیں ہوگا کہ اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے ان چار قسم کے لوگوں کے ساتھ ہونگے اور انہیں ان کی رفاقت حاصل ہوگی بلکہ جب تین درجہ اطاعت سے حاصل ہوتے ہیں تو چوتھا درجہ بھی اطاعت سے حاصل ہوگا وہ نبوت کا درجہ ہے اور یہاں پر مع کا معنی وہی ہے جو توفنا مع الابرار میں ہے۔
جواب نمبر۱
کسی ایک مجدد یا مفسر سے اپنے معنی کی توثیق پیش کریں ۔
جواب نمبر ۲
دلیل دعویٰ کے مطابق نہیں کیونکہ النبیین کا لفظ نبیوں کی تمام اقسام کو شامل ہے اگر اطاعت سے نبوت حاصل ہورہی ہے تو وہ ہر قسم کی ہوگی اور یہ تمہارے اپنے عقیدے اور دعویٰ کے خلاف ہے ۔
جواب نمبر۳
آیت کے شان نزول سے آیت کا مطلب بخوبی واضح ہو رہا ہے شان نزول یہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ کے ایک غلام حضرت ثوبان رضی اﷲ عنہ نے عرض کی کہ یارسول اﷲ ﷺ قیامت کے روز آپ بہت بلند مقام پر ہوں گے اور ہم خدا جانے کہاں ہونگے کیا ہماری آپ سے ملاقات ہوسکے گی اور ہم اپنی آنکھوں کو آپ کے دیدار سے ٹھنڈا کرسکیں گے دنیا میں تو جب تھوڑی دیر بھی ہم آپ سے جدا ہوتے ہیں تو آپ کی جدائی قابل برداشت نہیں ہوتی اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والوں کو ان نیک لوگوں کی رفاقت حاصل ہوگی اس سے معلوم ہوا کہ یہاں درجات کا ذکر نہیں ہے بلکہ محض رفاقت کا ذکر ہے۔
جواب نمبر ۴
بخاری اور مسلم میں ایک حدیث ہے جو بعینہ اس آیت کی طرح ہے فرمایا: التاجر الصدوق مع النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین۔تو کیا یہاں پر یہ مطلب ہوگا کہ سچا تاجر بھی نبی اور صدیق بن جائے گا یا یہ مطلب ہے کہ سچے تاجروں کو ان لوگوں کی رفاقت نصیب ہوگی۔
مرزائی اعتراض
اگر آیت میں درجات کا ذکر نہیں اور محض رفاقت کا ذکر ہے تو آپ نے تین درجے صدیق ،شہید اور صالح سے نکا ل لیے کیونکہ بقول آپ کے اس آیت کا معنی یوں ہوگا کہ جو اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ نبیوں کے ساتھ ہوگا وہ خود نبی نہیں ہوگا اور اسی طرح وہ صدیقوں کے ساتھ ہوگاخود صدیق نہیں بنے گا حالانکہ اس طرح تمہارے نزدیک بھی نہیں ۔
جواب نمبر۱
اس آیت میں اس بات کا قطعاً ذکر نہیں ہے کہ کوئی شخص اطاعت کر کے نبی یا صدیق یا شہید ہوگا یا نہیں بلکہ یہاں مقصود صرف اطاعت کا نتیجہ بیان کرنا ہے کہ جو اطاعت کرے گا اس کو ان حضرات کے ساتھ رفاقت فی المکان حاصل ہوگی ۔
جواب نمبر۲
ہم جو یہ سمجھتے ہیں کہ اطاعت کرنے سے نبی نہیں ہوگا یہ مقدمہ اس آیت سے نہیں بلکہ دوسری آیتوں کی بنا ء پر ہے جیسے خاتم النبیین والی آیت کیونکہ خاتم الصدیقین اور خاتم الشہداء اور خاتم الصالحین کی کوئی آیت نہیں ہے اگر اس طرح خاتم النبیین کی آیت بھی نہ ہوتی تو ہم نبوت بھی مان لیتے لیکن نبوت کا درجہ ماننے سے یہ آیت اور اس جیسی اور نصوص صریحہ اور احادیث صحیہ مانع ہیں ۔
جواب نمبر۳:
اطاعت سے تین درجے جو ہم مانتے ہیں وہ اس آیت سے نہیں مانتے کیونکہ اس آیت میں درجات کا ذکر ہی نہیں وہ دوسری آیتوں سے مانتے ہیں جن میں درجات کا ذکر ہے اور جن آیات میں درجات بیان کئے گئے ہیں وہاں نبوت کا درجہ نہیں دیکھتے اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’ والذین آمنوا باﷲورسلہ اولئک ھم الصدیقون والشھدا ء عند ربھم ‘‘ اور جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لائے یہ لوگ ہیں صدیق اور شہداء اپنے رب کے نزدیک ﴿پارہ ۲۷ ألحدید ۱۹ ع۲﴾ دیکھئے یہاں درجوں کا ذکر ہورہا ہے رفاقت او رمعیت کا ذکر نہیں ہے تو یہاں اولئک ھم النبیون نہیں فرمایا بلکہ صدیقون اور شہداء فرمایا۔
جواب نمبر۴
اگر بقول آپ کے اطاعت سے یہ درجات حاصل ہوتے ہیں توہم سوال کرتے ہیں کہ یہ درجات کیسے ہیں کیا حقیقی یا ظلی یا بروزی ۔ اگر اطاعت سے نبی ظلی اور بروزی بنتے ہیں تو صدیق ،شہید اور صالح بھی ظلی اور بروزی ہونے چاہیےں اور اگر وہ تین درجے حقیقی ہیں تو نبی بھی حقیقی ہونا چاہیے یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جب اطاعت کرنے سے یہ چار درجے حاصل ہوتے ہیں ان میں سے تین تو حقیقی ہوں اور ایک ظلی ؍بروزی ہو ،یا چاروں حقیقی مانو یا چاروں ظلی ؍بروزی اور اگر کہو کہ ظلی ؍بروزی صدیق، شہیدنہیں ہوتے اول تو یہ مسلّم نہیں اگر مان بھی لیا جائے توہم کہتے ہیں کہ ظلی بروزی نبی بھی کوئی نہیں یہ بھی تمہاری جدیداصطلاح ہے اور اگر کہوکہ ظلی شہید ہوتے ہیں تو ہم پوچھتے ہیں کیا ظلی حقیقی اور شہید کا حکم ایک ہے ؟ اور یہ ظاہر ہے کہ حکم ایک نہیں کیونکہ مبطون اور غریق وغیرہ شہداء کو غسل دیا جا تا ہے حالانکہ حقیقی شہید کو غسل نہیں دیا جاتا معلوم ہوا کہ حکم ایک نہیں اورتمہارے نزدیک ظلی نبی کے احکام وہی ہیں جو حقیقی نبی کے ہیں کیونکہ تمہارے نزدیک ظلی نبی کا منکر کافر ہے۔(حقیقت الوحی ص۱۶۳ روحانی خزائن ص۱۷۶ ج۲۲ آئینہ کمالات اسلام ص۳۵ رواحانی خزائن ص۳۵ج۵)
مرزائی اعتراض
یہاں مع بہ معنی من ہے۔
جواب نمبر ۱
اول تو ہم یہ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ مع بمعنی من کے ہوتا ہے کیونکہ کلام عرب میں مع؍من کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا اگر یہ من کے معنی میں ہوتا تو مع پر من داخل نہ ہوسکتا حالانکہ کلام عرب میں اس کا ثبوت ملتا ہے دیکھو لغت کی مشہور کتاب ’’ المصباح المنیر :ودخول من نحو جئت من معہ ‘‘ یعنی عرب جئت من مع القوم بولتے ہیں پس مع پر من کا داخل ہونا اس بات کا مشعرہے کہ مع کبھی من کے معنی میں نہیں آتا ۔ باقی رہی وہ آیات جو قادیانیوں نے مغالطہ دیتے ہوئے پیش کی ہیں ان میں سے کسی ایک آیت میں بھی مع؍من کے معنوں میں نہیں ہے ۔ دیکھئے وتوفنا مع الابرار کی تفسیر میں مشہور مفسر امام رازی کیا معنی کرتے ہیں :’’وفاتھم معھم ھی ان تموتوا علی مثلھم اعمالھم حتی یکونوا فی درجاتھم یوم القیامۃ قد یقول الرجل انا مع الشافعی فی ھذہ المسئلۃ ویرید بہ کونہ مساویا لہ فی ذالک الاعتقاد ‘‘ ﴿تفسیر کبیر ص۱۸۱ج۳﴾
جواب نمبر۲
اگر ہم تسلیم بھی کرلیں کہ مع؍من کے معنی میں بھی کسی جگہ استعمال ہوتا ہے تو اس سے یہ کیسے لازم آگیا کہ اس آیت میں بھی مع؍من کے معنی میں ہے یہاں پرکسی ایک مفسر نے بھی یہ معنی نہیں لئے ۔
جواب نمبر ۳
جب کوئی لفظ دو معنوں میں مستعمل ہوتو دیکھا جاتا ہے کہ حقیقت کس میں ہے اور مجاز کس میں جب تک حقیقت متعذر نہ ہوتو مجاز کی طرف رجوع نہیں کیا جاتا۔ مع معیت اور رفاقت کے معنی میں حقیقت ہے اور یہاں حقیقت متعذر نہیں ہے بلکہ وحسن اولئک رفیقا کا جملہ صاف اور صریح دلالت کررہا ہے کہ یہاں معیت کے معنی میں ہے ورنہ یہ جملہ کلام الٰہی میں بالکل بے فائدہ اور زائد ہوگا کیونکہ جب اطاعت کرنے سے وہ لوگ خود نبی او رصدیق بن گئے تو پھر یہ کہنے کی کیا ضرورت کہ ان لوگوں کی رفاقت اچھی ہوگی۔
جواب نمبر ۴
اگر مع کامعنی من لیاجائے تو درج ذیل آیات کا کیا معنی ہوگا:محمد رسول اﷲ والذین معہ…… الخ اور ان اﷲ مع الصابرین
جواب نمبر ۵
مشہور مفسر اما م رازی جو مرزا کے نزدیک چھٹی صدی کے مجدد ہیں انہوں نے تمہارے معنی کی صریح اور واضح تردید کی ہے :’’ ومعلوم انہ لیس المراد من کون ھولاء معھم ھو انھم یکونون فی عین تلک الدرجات لان ھذا ممتنع ‘‘ (تفسیر کبیر ص۲۶۳)
جواب نمبر ۶
مرزانے خود اقرار کیا کہ اطاعت کرنے سے اور فنا فی الرسول ہوجانے سے نبوت نہیں ملتی بلکہ زیادہ سے زیادہ محدثیت کا درجہ حاصل ہوسکتا ہے اس سے نہیں بڑھ سکتا۔
حوالہ نمبر ۱: ’’ جب کسی کی حالت اس نوبت تک پہنچ جائے (جو اس سے قبل مذکور ہوچکی ہے ) تو اس کا معاملہ اس عالم سے واراء الورا ء ہوجاتا ہے اوران تما م ہدایتوں اور مقامات عالیہ کو ظلی طور پر پالیتا ہے جو اس سے پہلے نبیوں اور رسولوں کو ملے تھے اورانبیاء اور رسل کا وارث اور نائب ہوجاتا ہے ۔وہ حقیقت جو انبیاء میں معجزہ کے نام سے موسوم ہوتی ہے وہ اس میں کرامت کے نام سے ظاہر ہوتی ہے اور وہی حقیقت جو انبیاء میں عصمت کے نام سے نامزد کی جاتی ہے اس میں محفوظیت کے نام سے پکاری جاتی ہے اور وہی حقیقت جو انبیاء میں نبوت کے نام سے بولی جاتی ہے اس میں محدثیت کے پیرایہ میں ظہور پکڑتی ہے حقیقت ایک ہی ہے لیکن بباعث شدت اور ضعف رنگ کے ان کے نام مختلف رکھے جاتے ہیں ۔ اس لئے آنحضرت ﷺ کے ملفوظات مبارکہ ارشاد فرمارہے ہیں کہ محدث نبی بالقوہ ہوتا ہے اگر باب نبوت مسدود نہ ہوتا تو ہر ایک محدث اپنے وجود میں قوت استعداد نبی ہونے کی رکھتا ہے اور اس قوت اور استعداد کے لحاظ سے محدث کا حمل نبی پر جائز ہے یعنی کہہ سکتے ہیں المحدث نبی جیسا کہ کہہ سکتے ہیں :العنب خمر نظر اعلی القوۃ والاستعداد ومثل ھذا الحمل شائع متعارف فی عبارات القوم وقد جرت المحاورات علی ذالک کما لایخفی علی کل ذکی عالم مطلع علی کتب الادب ‘‘ (ریویو آف ریلجنز أپریل ۱۹۰۴ بعنوان اسلام کی برکات ،آئینہ کمالا ت اسلام ص۲۳۷؍۲۳۸ج ۵ ۔ روحانی خزائن ۲۳۷ ؍۲۳۸)
اس عبارت سے واضح ہوگیا کہ ظلی نبوت بھی درحقیقت محدثیت ہی ہے اور ظلی نبی جو کامل اتباع سے بنتا ہے وہ حقیقت میں محدث ہے لہذا قادیانیوں کا یہ کہنا کہ اتباع اور اطاعت سے نبوت حاصل ہوجاتی ہے غلط ٹہرا۔ یہاں پر مرزا محدث کا حمل جو نبی پر کررہے ہیں اور المحدث نبی کہہ رہے ہیں وہ محض اس کی قوۃ اور استعداد کے لحاظ سے ہے ۔
جیسا کہ عنب کا حمل قوت اور استعداد کے لحاظ سے خمر پر ہوتا ہے تو اب ظاہر ہے کہ یہ حمل اگرچہ جائز ہے لیکن ان کے احکام مختلف ہیں جیسا کہ عنب اور خمر کے احکام مختلف ہیں اسی طرح محدث جس کو بالقوۃ ہم نبی کہہ رہے ہیں اس کے احکام نبی سے مختلف ہونے چاہئیں۔ لہذا یہ بات ثابت ہوگئی کہ اطاعت کرنے سے مرز ا کے نزدیک جو نبوت حاصل ہوتی ہے وہ محدثیت ہی ہے جس کا انکار کفر نہیں اور اطاعت سے اس مقام کے حاصل ہونے میں کوئی نزاع نہیں ہے ۔
حوالہ نمبر۲: ’’ حضرت عمر کا وجود ظلی طور پر گویا آنحضرت ﷺ کا وجود ہی تھا۔(ایام الصلح ص۳۴،۳۵ روحانی خزائن ص۲۶۵ج۱۴)
حوالہ نمبر ۳: ’’ صدہا ایسے لوگ گذرے ہیں جن میں حقیقت محمدیہ متحقق تھی اور عنداﷲ ظلی طور پر ان کا نام محمد یا احمد تھا ‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ج۵ص۳۴۶،روحانی خزائن ص۳۴۶ج۵)
٭نتیجہ
مذکورہ بالا حوالوں سے بھی یہ بات واضح ہوگئی کہ اتباع اور اطاعت سے نبی نہیں ہوسکتے جبکہ بقول ان کے صدہا شخص ایسے گذر چکے ہیں جن کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد تھا اور حضرت عمر کا وجود بھی ظلی طور پر حضور کا ہی وجود تھا۔ تو کیا ان میں سے کسی ایک نے بھی نبوت کا دعویٰ کیااور کوئی اپنی علیحدہ جماعت یاامت بنائی یا اپنے منکرین کو کافر یا جہنمی کہا۔ فعلیکم البیان بالبرھان
جواب نمبر۷
امت میں سے سب سے اونچا مقام صد یقیقت کا ہے شہید اور صالح اس سے نیچے کے مقام ہیں اطاطت کرنے سے یہ امت والے ہی مراتب حاصل ہوسکتے ہیں نہ کہ وہ خود نبی بن جائے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام کی جماعت جو حضور ﷺ کی پوری پوری متبع اور مطیع ہے جن کو دنیا ہی میں اﷲ تعالیٰ نے راضی ہوکر جنت کے سر ٹیفکیٹ عطا فرمادیے اور ایسی اتباع کا نمونہ پیش کیا کہ قیامت تک امت میں اس کی نظیر نہیں پائی جاسکتی اور بقول مرزا ان میں حقیقت محمدیہ متحقق ہوچکی تھی اور حضور بھی ان کے متعلق ارشاد فرمارہے ہیں ۔ لوکان بعدی نبی لکان عمر اور حضرت ابوبکر صدیق کے بارے میں فرمایا ابوبکر خیر الناس بعدی الاان یکون نبی لیکن اس کے باوجود صحابہ کرام میں سے کوئی بھی نبوت کے مقام پر فائز نہ ہوا اور کسی نے نبوت کا دعویٰ نہ کیا بلکہ حضرت ابوبکرجیسے صدیق رہے اور عمر جیسے شہید اور محدث بنے نبی تو کوئی بھی نہ بن سکااب امت میں کون دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس نے ان حضرات سے بڑھ کر اتباع کی ہے اور نبوت کے مقام پر پہنچ گیاہے۔
جواب نمبر۸
اگر اطاعت سے نبوت ملتی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمرکوکیوں نہیں ملی کیا وہ قیامت کے روزا ﷲ تعالیٰ سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب نہیں ہونگے کہ اے اﷲ تو نے اطاعت سے نبوت عطا کرنی تھی تو ہم نے جبکہ تیرے رسول پر اپنی جانیں ،مال او راولاد ہر چیز قربان کردی تھی ،کیا قصور کِیاتھا کہ نبوت کے بلند اور اعلیٰ ترین منصب پر ہمیں سرفراز نہ فرمایا؟ کیا تیرے انصاف کا یہی تقاضا تھا کہ ایک انسان کہ جس کا ایمان بھی محل نزاع میں ہے اور انگریزوں کا جاسوس اور ایجنٹ بھی تھا اور بجائے حضو ر ﷺ کی اطاعت کے انگریز٭ کی اطاعت کو فرض سمجھتا تھا اس کو یہ مقام عطا کردیا ؟
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے
٭مرزاصاحب اور اطاعت انگریز
’’ سو میرا مذہب جس کو میں بار بار ظاہر کرتا ہوں یہی ہے کہ اسلا م کے دو حصے ہیں ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کریں اور دوسراے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہوجس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو وہ سلطنت برطانیہ ہے ۔‘‘ (شہادۃ القرآن ص۸۴روحانی خزائن ص۳۸۰ج۶)
مرزائی اعتراض
ہم نے جو معنی کیاہے امام راغب ہمارے معنی کی تائیدکرتے ہیں کیونکہ وہ فرماتے ہیں : ’’ قال الراغب ممن انعم علیھم من الفرق الاربع فی المنزلۃ والثواب النبی بالنبی والصدیق بالصدیق والشھید بالشھید والصالح بالصالح واجاز الراغب ان یتعلق من النبیین لقولہ ومن یطع اﷲ والرسول ای من النبیین ومن بعدھم ‘‘﴿البحر محیط ج۳ص ۲۸۷﴾
دیکھئے ا س عبارت سے صاف واضح ہورہا ہے کہ جبکہ من النبیین کو من یطع اﷲ کے متعلق کریں گے تو معنی یہ ہوگا کہ نبیوں میں سے جو اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ ایسا ہوگا۔ تو معلوم ہوا کہ اس امت میں بھی کچھ نبی ہونے چاہیےں جو رسول کی اطاعت کرنے والے ہوں اگر نبوت کادروازہ بند ہے تو اس آیت کے مطابق وہ کون سانبی ہوگا جو رسول اﷲ کی طاعت کرے گا۔
جواب نمبر۱
یہ عبارت اما م راغب کی کسی کتاب میں نہیں ہے اگر ہمت ہے توا مام راغب کی وہ کتاب پیش کرو جس میں یہ عبارت درج ہے۔
جواب نمبر ۲
یہ قادیونیوں کا صریح دجل ہے اور اس حوالہ کے پیش کرنے میں بھی انہوں نے اپنے روایتی دجل و فریب سے کام لیا ہے حوالہ ہذا تفسیر بحر محیط علامہ اندلسی کی کتاب سے پیش کیا ہے حالانکہ علامہ اندلسی نے یہ قول نقل کرکے اس کی سخت ترین الفاظ میں تردید فرمائی ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں : ’’ وھذا الوجہ الذی ھو عندہ ظاھر فاسد من جھۃ المعنی او من جھۃ النحو ‘‘ ﴿البحر محیط ص۲۸۷ ج۳﴾ یعنی نحوی غلطی یہ ہے کہ من النبیین جزا کا جزء ہے اور یہاں اسے شرط کا جزء قرار دیا جارہا ہے او رمعنوی غلطی یہ ہے کہ یہ عبارت ختم نبوت کے خلاف ہے ۔‘‘ ظاہرہے کہ علامہ راغب جیسا فاضل شخص یہ غلطی نہیں کرسکتا یہ عبارت ان کی طرف غلط منسوب ہے ۔
جواب نمبر ۳
اما م راغب کے قول کوصحیح بھی تسلیم کرلیا جائے توبھی ہمارے مخالف نہیں ہے کیونکہ تمام انبیاء حضور ﷺ کے امتی اور متبع ہیں دیکھئے شب معراج میں تمام انبیاء علیہم السلام نے آپ کی اتباع اور اقتدا کی اور بیت المقدس میں آپ کی امامت میں نماز ادا کی اس کے علاوہ انبیا ء سابقین اور بنی اسرائیل سلسلہ کے آخری نبی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام آیات قرآنی اور احادیث نبویہ کی رو سے قیامت سے قبل اس امت مین تشریف لائیں گے اور آپ ﷺ کی شریعت کی اتباع اور اطاعت کریں گے ۔ لہذا انبیاء میں سے ایک فرد کا مل ایسا مل گیا جو آپ کی اتباع اور اقتدا کرے گا۔
﴿ہمارا سوال ﴾
کیا نبوت وہبی ہے یا کسبی ؟ اگر کہو کہ نبوت وہبی ہے تو تمہارا استدلال ختم ، کیونکہ تم جس نبوت کے قائل ہو (یعنی کہ وہ اطاعت سے حاصل ہوتی ہے )وہ تو کسبی ہے اور اگر کہو کہ ہے تووہبی لیکن کسب کو دخل ہے جیسا کہ یھب لمن یشاء اناثا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول توجب اس میں کسب کادخل ہے تو وہ کسبی بھی ہوگئی صرف وہبی نہیں اور کسبی نبوت غلط ہے جیسا کہ آئندہ واضح کیا جاتا ہے ۔باقی جو آیت آپ نے پیش کی ہے اول تو وہ قیاس قیاس مع الفارق ہے ۔ کہاں اولاد کا پیدا ہونا اور کہاں نبوت کا عطا ہونا دوسرے یہ بھی غلط ہے کہ یہاں کسب کو دخل ہے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ یہاں کسب کو کوئی دخل نہیں ہے بلکہ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ محض ہبہ ہے کیونکہ اگر وہ نہ چاہتے تو زوجین ساری عمر کسب کرتے رہیں اوران کو کوئی چیز نہ دے اور اگر چاہے توجہاں مطلقاً کسب نہ ہووہاں دیدے جیسا کہ حوا علیہاالسلام اور عیسیٰ علیہ السلام ۔
جواب نمبر۲
اگر نبوت کسبی مانی جائے تو عصمت باقی نہیں رہتی ۔
جواب نمبر۳
حوالہ نمبر ۱: علامہ شعران فرماتے ہیں کہ ’’ فان قلت فعل النبوۃ مکتسبۃ او موھوبۃ فالجواب لیست النبوۃ مکتسبۃ حتی یتوصل الیھا بالنسک والریاضات کما ظنہ جماعۃ من الحمقاء (کالقادیانیۃ) وقد افتی الما لکیہ وغیرھم بکفر من قال ان النبوۃ مکتسبۃ ‘‘﴿الیواقیت والجواہر ص۱۶۴ ج۱﴾
حوالہ نمبر۲: ’’ من ادعی نبوۃ احد مع نبینا ﷺ او بعدہ وداعی النبوۃ لنفسہ او جوز اکتسابھا او البلوغ بصفاء القلب الی مرتبتھا وکذلک من ادعی منھم انما یوحی الیہ وان لم یدعی النبوۃ فھولاء کلھم کفار مکذبون للنبی ﷺ لانہ اخبر ﷺ انا خاتم النبیین لانبی بعدی ۔‘‘ ﴿شرح شفاء للقاضی عیاض ص۲۷۰؍۲۷۱﴾
اما م رازی ؒ کی تفسیر:’’ ومعلوم انہ لیس المراد من کون ھولاو معھم ھو انھم یکونون فی عین تلک الدرجات لان ھذا ممتنع ‘‘ ﴿تفسیر کبیر ص۲۶۳﴾
امام رازی ؒ مرزا کے نزدیک چھٹی صدی کے ایک مشہور اور مسلّم مجدد ہیں ۔دیکھئے کس صراحت سے انہوں نے مرزائیوں کی تفسیر کی تردید کی ہے کہ فاؤلئک مع الذین سے مراد یہ نہیں کہ اطاعت کرنے سے ان کو وہ درجات حاصل ہوں گے کیونکہ یہ ممتنع ہے بلکہ اس سے مراد صرف ان کی صحبت ہے جیسا کہ ہم کہتے ہیں ۔
جواب نمبر۴
’ ان رسول اﷲ ﷺ کان یدعو قرب وفاتہ اللھم بالرفیق الاعلیٰ مع الذین انعمت علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین ھل مراد منہ ان یصیر من النبیین الخ وھو نبی ورسول عظیم من قبل بل معناہ ان الرسول کان یطلب عن ربہ الرؤف الرحیم یتقلہ من دارالدنیا الی جوار ہ حیث یحصل لہ رفقہ الانبیاء والصدیقین ۔‘‘
جواب نمبر۵
اس آیت میں ہے من یطع اﷲ ورسولہ اور من عام ہے جو کہ مذکر مؤنث دونوں کو شامل ہے اس آیت سے کوئی عورت بھی نبی ہونے پر استدلال کرسکتی ہے حالانکہ قادیانی بھی اس کے قائل نہیں ۔ ما ھوا جوابکم فھو جوابنا
نبوت کے کسبی نہ ہونے کے بارے میں مرزا کا اعتراف
حوالہ نمبر۱: ’’ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ محدثیت محض وہبی ہے کسب سے حاصل نہیں ہوسکتی جیسا کہ نبوت کسب سے حاصل نہیں ہوسکتی ۔‘‘(اردو ترجمہ حمامۃ البشریٰ ل۸۲ روحانی خزائن ص۳۰۱ ج۷)
حوالہ نمبر۲: ’’صراط الذین انعمت علیھماس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص کو یہ مرتبہ ملا انعام کے طور پر ملا یعنی محض فضل سے نہ کسی عمل کا جر ۔‘‘(چشمہ مسیحی ص۴۲روحانی خزائن ص۳۶۵ج۲۰)
﴿فائدہ ﴾

لفظ خاتم کا معنی


قادیانی حضرات لفظ خاتم کے مختلف معنی کرتے ہیں کبھی تو اس کا معنی مہر لگانے کا اور کبھی خاتم المحدثین والشعراء کی طرح افضل النبیین معنی کرتے ہیں ۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ مرز انے یہی خاتم کا لفظ اپنی متعدد کتابوں میں استعمال کیا ہے اور تمام جگہوں میں اس کا معنی آخری ہی لیا ہے ۔ مثلاً
(۱) ’’ خدا کی کتابوں میں مسیح موعود کے کئی نام ہیں من جملہ ایک نام اس کا خاتم الخلفاء ہے یعنی ایسا خلیفہ جو سب سے آخر آنے والا ہے ۔‘‘ (چشمہ معرفت بر حاشیہ ص۳۱۸ روحانی خزائن ص۳۳۳ج۲۳)
(۲) ’’ میں اس رسول پر دلی صدق سے ایمان لایا ہوں اور جانتا ہوں کہ تمام نبوتیں اس پر ختم ہیں اس کی شریعت خاتم الشرائع ہے۔ ‘ ‘ (چشمہ معرفت ص۳۲۴ برحاشیہ روحانی خزائن ص۳۴۰ ج۲۳)
(۳) ’’ ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے ۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۳۶ روحانی خزائن ص۱۷۰ ج۳)
(۴) ’’ وہ اس امت کا خاتم الاولیاء ہے جیسا کہ سلسلہ موسویہ کے خلیفوں میں حضرت عیسیٰ خاتم الانبیاء ہے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۲۵روحانی خزائن ص۱۲۷ ج۱۷)
مرزا صاحب نے مذکورہ بالاتمام جگہوں میں خاتم کا معنی آخری لیا ہے جوواضح طور پر ہماری تائید کرتا ہے ۔
(۵) مرزا صاحب اپنی پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ میں اور میری بہن جنت اکٹھے پیدا ہوئے تھے پہلے وہ لڑکی پیٹ میں سے نکلی تھی اور بعد اس کے پھر میں نکلا تھا اور میں اپنے والدین کے ہاں خاتم الاولاد تھا میرے بعد کوئی لڑکا یا لڑکی نہیں پیدا ہوا۔‘‘(تریاق القلوب ص۱۵۷ ص۳۰۰روحانی خزائن ج۱۵ ص۴۷۹ ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۸۶ روحانی خزائن ص۱۱۳ ج۲۱)
۶) ’’ اور نیز یہ راز بھی کہ آخر پر بنی اسرائیل کے خاتم الانبیاء کانام جوعیسیٰ ہے اور اسلام کے خاتم الانبیاء کا نام جواحمد اور محمد ہے ۔‘‘ (ضمیمہ خاتمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص ،روحانی خزائن ص۴۱۲ج۲۱)
یہاں بھی مرزا نے خاتم الاولاد اور خاتم الانبیاء سے مراد آخری کے لئے ہیں اور خاتم الاولاد کا معنی یہ کِیا ہے کہ میرے بعد میرے ماں باپ کے ہاں اورکوئی لڑکا یا لڑکی پیدا نہیں ہوا جس کا صاف معنی یہ ہے کہ یہ اپنے ماں باپ کا آخری لڑکا ہے اس طرح خاتم النبیین میں بھی یہی معنی ہوگا کہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا جیسا کہ مرزا صاحب کی پیدائش کے بعدمرزا کے والدین کے ہاں کوئی لڑکا ؍لڑکی نہیں ہوا اس سے ان کے ایک اور شبہ کا ازالہ بھی ہوگیا۔
شبہ
اگر حضور ﷺ آخری نبی ہیں تو پھر عیسیٰ علیہ السلام کیسے آئیں گے جب وہ آئیں گے تو آخری نبی وہ بن جائیں گے اس سے ثابت ہواکہ یا تو عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں یا حضور ﷺ خاتم النبیین یعنی آخری نبی نہیں ہیں۔
جواب
مذکورہ بالا حوالہ سے قادیانیوں کا یہ شبہ بھی ھبا ء منثورا ہوگیا کہ حضورﷺ کے آخری نبی ہونے سے یہ کیسے لازم آگیا کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں اور اگر وہ فوت نہیں ہوئے تو حضور ﷺ آخری نبی نہیں ، دیکھئے مرزا صاحب خاتم الاولاد ہیں اور اس کا بڑا بھائی غلام قادر زندہ موجود تھا مرزا غلام احمد اپنے ماں باپ کا آخری لڑکا بھی ہے اور اس کا بڑا بھائی زندہ موجود بھی ہے نہ تو اس کے آخری ہونے سے یہ لازم آیا کہ اس کا بڑا بھائی ضرور مر ہی چکا ہے اور نہ بڑے بھائی کے زندہ ہونے سے مرزا کے آخری ہونے میں کوئی فرق پڑا ۔ اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کو بھی سمجھ لیجئے ان کے زندہ رہنے سے حضور ﷺ کی خاتمیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا اگر کسی والد کے چا ربیٹے یا کسی استاد کے کئی شاگرد یا پیر کے کئی مرید ہوں ان کاپہلا بیٹا زندہ ہواور آخری مرجائے تو اس کے زندہ رہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ آخری مرجانے والابیٹا آخری نہ ہو۔
ایک نہایت ضروری حوالہ
متنازع فیہ آیت کا ترجمہ مرزا نے ’’ نبیوں کا ختم کرنے والا‘‘ کیا ہے نہ کہ مہر یا افضل ’’ یعنی محمد ﷺ تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں ہے مگر وہ رسول اﷲ ہے اور ختم کرنے والا ہے نبیوں کا ۔‘‘(ازالہ اوہام ص۲۵۲ آیت نمبر ۲۱ روحانی خزائن ص۴۳۱ج۳ ،ازالہ اوہام حصہ دومص۶۱۴)یہ آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت کا اعجاز ہے کہ مرزا اپنے ہی مسلمات کے خلاف لکھ گیا اسی لیے کہاگیا ہے کہ ’’ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے ‘‘

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

از قلم غلام نبی قادری نوری