مرزا قادیانی
پاپی مسیح
(۱) بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ حضرت سناتے تھے کہ جب میں بچہ ہوتا تھا ایک دفعہ بعض بچوں نے مجھے کہا کہ جاؤ گھر سے میٹھا لاؤ میں گھر میں آیا اور بغیر کسی سے پوچھنے کے ایک برتن میں سے سفید بورا(چینی ) اپنی جیبوں میں بھر کر باہر لے گیا اور راستہ میں ایک مٹھی بھر کر منہ میں ڈال لی بس پھر کیاتھا میرا دم رک گیا اور بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ معلوم ہوا کہ جسے میں نے بورا سمجھ کر جیبوں میں بھرا تھا وہ بورا نہ تھا بلکہ پسا ہوا نمک تھا۔ (سیرۃ المہدی حصہ اول ص۲۴۴ روایت نمبر ۲۴۴)
(۲) براہین احمدیہ کی ابتدا میں مرزا کے ایک مرید معراج الدین عمر مرزائی نے مرزا صاحب کے حالات لکھے ہیں لکھتا ہے : ’’ اگر کبھی اتفاق سے ان سے (مرزا کے والد سے ) کوئی دریافت کرتا کہ مرزا غلام احمد کہاں ہے تو وہ یہ جواب دیتے کہ مسجد جاکر سقاوہ کی ٹونٹی میں تلاش کرو اگر وہاں نہ ملے تو مایوس ہو کر واپس مت آنا مسجد کے اندر چلے جانا اور وہاں کسی گوشہ میں تلاش کرنا اگر وہاں بھی نہ ملے تو پھر بھی ناامید ہو کر مت لوٹ آنا ۔ کسی صف میں دیکھنا کہ کوئی اسکو لپیٹ کر کھڑا کرگیا ہوگا کیونکہ وہ تو زندگی میں مرا ہوا ہے اور اگر کوئی اسے صف میں لپیٹ دے تو وہ آگے سے حرکت بھی نہیں کرے گا آپ کوشیرینی سے بہت پیار ہے اور مرض بول بھی عرصہ سے آپ کو لگا ہوا ہے اس زمانہ میں آپ مٹی کے ڈھیلے بعض وقت جیب میں رکھتے تھے اور اسی جیب میں گڑ کے ڈھیلے بھی رکھ لیا کرتے تھے اس قسم کی اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو اس بات پر شاہد ناطق ہیں کہ آپ کو اپنے یار ازل کی محبت میں ایسی محویت تھی کہ جس کے باعث سے اس دنیا سے بالک بے خبر ہورہے تھے ۔ (سیرۃ المہدی حصہ اول ۲۱۱ روایت۱۸۱)
(۳) ایک دفعہ کوئی شخص آپ کیلئے گرگابی لے آیا اور آپ نے پہن لی مگر اسکے الٹے سیدھے پاؤں کا پتہ نہیں چلتا تھا کئی دفعہ الٹا پہن لیتے تھے ۔ والدہ صاحبہ فرمایا کہ میں نے آپ کی سہولت کے واسطے الٹے سیدھے پاؤں کی شناخت کیلئے نشان لگادیے تھے باوجود اسکے آپ الٹے سیدھے پہن لیتے تھے ۔ (سیرۃ المہدی ص۶۷ حصہ اول روایت۸۸)
(۴) بارہا دیکھا گیا کہ بٹن اپنا کاج چھوڑ کر دوسرے ہی میں لگے ہوتے تھے بلکہ صدری کے بٹن کوٹ کے کاجوں میں لگائے گئے دیکھے گئے ۔(سیرۃ المہدی حصہ دوم ص۱۲۶ روایت ۴۴۴)
(۵) ڈاکٹر میر محمد اسماعیل نے مجھ سے بیان کیاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جسمانی عادات میں ایسے سادہ تھے کہ بعض دفعہ جب حضور جراب پہنتے تھے تو بے توجہی کے عالم میں اسکی ایڑی پاؤں کے تلوے کی بجائے اوپر کی طرف ہوجاتی تھی اور بار ہا ایک کاج کابٹن دوسرے کاج میں لگا ہوتا تھا آپ بسا اوقات دایاں پاؤں بائیں میں ڈال لیتے تھے اور بایاں پاؤں دائیں میں اسی طرح کھانا کھانے کا یہ حال تھاکہ خود فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں تو اس وقت پتہ لگتا ہے کہ کیا کھا رہے ہیں جب کھاتے کھاتے کوئی کنکر وغیرہ کا ریزہ دانت کے نیچے آجاتا ۔ (سیرۃ المہدی حصہ دوم ص۵۸ روایت ۳۷۵)
(۶) مگر بار ہا جراب اسطرح پہن لیتے کہ پیر پر سر آگے لٹکتا رہتا اور کبھی جراب کی ایڑی کی جگہ پیر کی پشت پر آجاتی کبھی ایک جراب سیدھی اور دوسری الٹی اگر ایک جراب کہیں سے پھٹ جاتی تو بھی مسح جائز رکھتے ، جوتی اگر تنگ ہوتی تو ایڑی پھٹا لیتے ۔(سیرۃ المہدی حصہ دوم ص۱۲۷ روایت۴۴۴)
مرزائی عذر
مرزائی ان روایات کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ ان کی سادگی پر دلالت کرتی ہیں۔
اب ذرا دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیں کہ وہ کس قد ر ماہر تھا۔
’’بیان کیا مجھ سے میاں عبداﷲ صاحب سنوری نے کہ مدت کی بات ہے کہ جب میاں ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کی پہلی بیوی فوت ہوگئی اور ان کو دوسری بیوی کی تلاش ہوئی تو ایک دفعہ حضرت صاحب نے ان کو کہا کہ ہمارے گھر میں دولڑکیاں رہتی ہیں میں ان کولاتا ہوں آپ ان کو دیکھ لیں پھر ان میں سے جو آپ کو پسند ہو اس سے آپ کی شادی کردی جائے ۔ چنانچہ حضرت صاحب گئے ان دولڑکیوں کو بلا کر کمرہ کے باہر کھڑا کردیا اور پھر اندر آکر کہا کہ وہ باہر کھڑی ہیں آپ چک کے اندر سے دیکھ لیں چنانچہ میاں ظفر احمد صاحب نے ان کو دیکھ لیا پھر حضر ت صاحب نے ان کو رخصت کردیا اس کے بعد میاں ظفر صاحب سے پوچھنے لگے کہ آپ کو کون سی لڑکی پسند ہے وہ نام تو کسی کا جانتے نہیں تھے اس لیے انہوں نے کہا کہ جس کا منہ لمبا ہے وہ اچھی ہے اس کے بعد حضرت صاحب نے میری رائے لی میں نے عرض کیا کہ حضور میں نے تو نہیں دیکھا پھر خود فرمانے لگے کہ میرے خیال میں تو دوسری لڑکی بہتر ہے جس کا منہ گول ہے پھر فرمایا جس شخص کا چہرہ لمبا ہوتا ہووہ بیماری وغیرہ کے بعد عموماً بدنما ہوجاتا ہے لیکن گول چہرہ کی خوبصورتی قائم رہتی ہے ۔(سیرۃ المہدی حصہ اول ص۲۵۹ روایت نمبر ۲۶۸)
۔غیر محرم عورتیں اور مرزاقادیانی
تصویر کا ایک رخ
(۱)ہمارے سید مولیٰ افضل الانبیاء خیر الاصفیا ء محمد مصطفی ﷺ کا تقویٰ دیکھئے کہ وہ ان عورتوں کے ہاتھ سے ہاتھ نہیں ملاتے تھے جو پاک دامن اور نیک بخت ہوتی تھیں اور بیعت کیلئے آتی تھیں بلکہ دور ہی بٹھا کر تلقین توبہ کرتے تھے ۔(نورالقرآن ۲ ص۷۴ روحانی خزائن ص۴۴۹ ج۹)
(۲) بسم اﷲ الرحمن الرحیم مولوی شیرعلی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ڈاکٹر محمد اسماعیل خاں صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود سے عرض کیا کہ میرے ساتھ شفاخانہ میں ایک انگریز لیڈی کام کرتی ہے وہ ایک بوڑھی عورت ہے وہ کبھی کبھی میرے ساتھ مصافحۃ کرتی ہے اس کے متعلق کیا حکم ہے ۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ تو جائز نہیں ہے آپ کو عذر کردینا چاہیے کہ ہمارے مذہب میں یہ جائز نہیں۔(سیرۃ المہدی حصہ دوم ص۷۶ روایت ۴۰۱)
(۳) عورتوں کو چا ہیے کہ اپنے خاوندوں کا مال نہ چراویں اور نا محرم سے اپنے تئیں بچاویں اور یاد رکھناچاہیے کہ بغیر خاوند اور لوگوں کے جن کے ساتھ نکاح جائز نہیں اور جتنے مرد ہیں ان سے پردہ کرنا ضروری ہے ۔(تبلیغ رسالت ج۱ص۴۰ ، مجموعہ اشتہارات ص۶۹ج۱)
(۴) یہ اسلا م کی اعلیٰ تعلیم کا ایک نمونہ ہے کہ ہر گز قصداً کسی عورت کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھو کہ یہ بد نظری کا پیش خیمہ ہے ۔(نورالقرآن نمبر۲ص۷۲ مطبوعہ الشرکہ الاسلامیہ چناب نگر(ربوہ) روحانی خزائن ص۴۴۸ج۹)
تصویر کا دوسر ارخ
(۱) اس سلسلہ میں اس سے قبل ایک حوالہ گذر چکا ہے گول منہ والی اور لمبے منہ والی لڑکی ۔
(۲) ’’ مائی رسول بی بی صاحبہ بیوہ حامد علی صاحب مرحوم نے بواسطہ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ ایک زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں مَیں اور اہلیہ بابوشاہ دین رات کا پہرہ دیتی تھیں اور حضرت صاحب نے فرمایا ہوا تھا کہ اگر میں سوتے میں کوئی بات کیا کروں تو مجھے جگا دیا کرو ۔ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں نے آپ کی زبان پر کوئی لفظ جاری ہوتے ہوئے سنے اور آپ کو جگا دیا اس وقت رات کے بارہ بجے تھے ان ایام میں عام طور پر پہرہ پرمائی فجو منشیانی اہلیہ منشی محمد دین گوجرانوالہ اور اہلیہ بابو شاہ دین ہوتی تھیں ۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ سوم ص۲۱۳ روایت ۷۸۶)
(۳) بسم اﷲ الرحمن الرحیم ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مجھ سے میری لڑکی زینب نے بیان کیاکہ میں تین ما ہ کے قریب حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں رہی ہوں ۔ گرمیوں میں پنکھا وغیرہ اور اسی طرح کی خدمت کرتی تھی بسا اوقات ایسا ہوتا کہ نصف رات یا اس سے زیادہ مجھ کو پنکھا ہلاتے گزر جاتی تھی مجھ کو اس اثناء میں کسی قسم کی تھکان اور تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی بلکہ خوشی سے دل بھر جاتا تھا دو دفعہ ایسا موقع پیش آیا کہ عشاء کی نماز سے لے کر صبح کی اذان تک مجھے ساری رات خدمت کرنے کا موقع ملا پھر بھی اس حالت میں مجھ کو نہ نیند نہ غنودگی اور تھکان معلوم ہوتی بلکہ خوشی اور سرور پیدا ہوتا تھا ۔ حضور نے فرمایا کہ زینب اس قدر خدمت کرتی ہے کہ ہمیں اس سے شرمندہ ہونا پڑتا ہے ۔(سیرۃ المہدی حصہ سوم ص۲۷۲ روایت نمبر ۹۱۵)
(۴) بسم اﷲ الرحمن الرحیم ۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ حضرت ام المؤمنین نے ایک دن سنایا کہ حضرت صاحب کے ہاں ایک بوڑھی ملازمہ مسماۃ بھانو تھی وہ ایک رات جبکہ خوب سردی پڑرہی تھی حضور کو دبانے بیٹھی چونکہ وہ لحاف کے اوپر سے دباتی تھی اس لیے اسے یہ پتہ نہ لگا کہ جس چیز کو میں دبا رہی ہوں وہ حضور کی ٹانگیں نہیں بلکہ پلنگ کی پٹی ہے تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا بھانو آج بڑی سردی ہے ۔ بھانو کہنے لگی ’’ جی ہاں تدے تے تہاڈی لتاں لکڑی وانگوں ہویاں ہویاں نیں ‘‘ یعنی جبھی تو آپ کی لاتیں لکڑی کی طرح سخت ہورہی ہیں ۔(سیرۃ المہدی حصہ سوم ص۲۱۰ روایت ۷۸۰)
(۵) حضور کو مرحومہ کی خدمت(پاؤں دبانے کی ) بہت پسند تھی ۔ حضور نے ایک دفعہ مرحومہ کو دعا دے کر فرمایا اﷲ تجھے اولاد دے ۔ حضور کی دعاسے مرحومہ کے چھ بچے ہوئے ایک لڑکی اور پانچ لڑکے پیدا ہوئے ۔ (الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۲۸ء)
﴿نوٹ ﴾
مرحومہ عائشہ نام کی ایک کنواری دوشیزہ تھی جو پندرہ سال کی عمر میں مرزا صاحب کی خدمت میں بھیجی گئی تقریباً دوسال مرزا صاحب کی خدمت میں رہی اور ان کے پاؤں دبایا کرتی تھی بعد میں مرزا صاحب نے اس کی شادی کردی لیکن یہ شرط لگادی کہ اسے قادیان سے باہر نہ لے جایا جائے۔ (الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۲۸ء)

مرزا غلا م احمد قادیانی اور اسکے پیروکاروں کے کفر میں کسی مسلمان کو شک نہیں رہا ۔ پاکستان سمیت دنیا کے تقریباً جمیع مسلم ممالک نے مرزائیوں کے کفر کے احکامات جاری کردیے ہیں اور مسلمان علماء ،فقہا ء تومرزا کے دَور سے مرزائیوں کے کفر کی قلعی کھولتے آرہے ہیں ۔قادیانی اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلا م کے نام پر اپنے باطل اور کفریہ عقائد کی تبلیغ اور اشاعت اور امت مسلمہ کے مفادات سے غداری کرتے ہیں اور عالم اسلام میں استعمار اور اسرائیل کی ایجنٹی کا کام سرانجام دیتے ہیں انکی انہی ناپاک سازشوں اور اسلام دشمنی کی بنا ء پر مکہ مکرمہ میں ۱۰ أپریل ۱۹۷۴ء کو پورے عالم اسلام کی ایک سو چار (۱۰۴) تنظیموں کا اجتماع ہوا جس میں دس أپریل ۱۹۷۴ء کو ان تمام تنظیموں کے اجتماع میں ایک مشترکہ قراردا د پا س کی گئی جس میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ۔چنانچہ حکومت پاکستان نے بھی ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء قومی اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر رابطہ عالم اسلا می کے فیصلہ کی تائید کی ۔ ذیل میں مختصراً قادیانیوں کے کفر کی چند وجوہات درج کی جاتی ہیں ۔
۱﴾ مرزا کا دعویٰ نبوت
امت مسلمہ کا اس بات پر عہد صحابہ سے آج تک اجتماع چلا آرہا ہے کہ آنحضرت ﷺ اﷲ کے آخری نبی ہیں اورآپ کے بعد مدعی نبوت کا فر ہے ۔ چنانچہ ملاعلی قاری (م۱۰۱۶ھ) شرح فقہ اکبر میں ص۲۰۲ پر لکھتے ہیں ’’ دعوی النبوۃ بعد نبینا ﷺ کفر بالاجماع ‘‘ یعنی اس بات پر امت کا کامل اجماع ہے کہ حضرت محمد ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنا کفر ہے ۔ اور مرزا نے جس وقت تک دعویٰ نبوت نہیں کیا تھا اس وقت وہ بھی مدعی نبوت کو کافرسمجھتا تھا چنانچہ اپنی کتاب حمامۃ البشریٰ ص۷۹ روحانی خزائن ص۲۹۷ ج۷ پر لکھتا ہے:
’’ وما کان لی ان ادعی النبوۃ واخراج من الاسلام والحق بقوم کفرین ‘‘ ترجمہ : میرا کیا حق ہے کہ میں نبوت کا دعویٰ کروں اور اسلام سے خارج ہوجاؤں اورکفارسے جاملوں ۔
مگر جب مرزا کو اس مقام پر فائز ہونے کا شوق ہوا تو اس وقت نہ اس نے اسلام اور اہل اسلام کا فتویٰ دیکھا اور نہ اپنے ہی گریبان میں جھانک کر دیکھا بلکہ فورا ً کہہ اٹھا کہ :
(۱) میں رسول اور نبی ہوں ۔ (نزول مسیح ص۷روحانی خزائن ص۳۸۱ج۱۸)
(۲) سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان مین اپنا رسول بھیجا۔(دافع البلا ء ص۱۱ روحانی خزائن ۲۳۱ ج۱۸)
(۳) محمد رسول اﷲ والذین معہ اس وحی میں میرا نام محمد رکھا گیا ہے ۔ رسول بھی رکھا گیا ہے ۔ (ایک غلطی کا ازالہ ص۳روحانی خزائن ص۲۰۷ج۱۸)
(۴) اور میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اسی نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے میرا نام نبی رکھا ہے ۔(حقیقت الوحی ص۶۸ روحانی خزائن ص۵۰۳ ج۲۲)
۲﴾توہین انبیاء کرام
انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین کفر ہے اور یہ کفر ایک بدیہی بات ہے کسی دلیل کا محتاج نہیں ۔ مرزا قادیانی ہی کی زبانی سنیے۔
(۱) اسلام میں کسی نبی کی تحقیر کرنا کفر اور سب پر ایمان لانا فرض ہے۔(چشمہ معرفت ص۱۸روحانی خزائن ص۳۹۰ ج۲۳)
(۲) وہ شخص بڑا ہی خبیث اور مطعون اور بد ذات ہے جو خدا کے برگزیدہ ومقدس لوگوں کو گالیاں دیتا ہے ۔ (البلاغ المبین ص۱۹)
اب مرزا کی طرف سے توہین انبیاء مختصراً ملاحظہ فرماویں ۔
(۱) شیطانی کلمہ کا دخل انبیاء اور رسولوں کی وحی میں بھی پایا جاتا ہے۔ (ازالہ اوہام ج۲ص۶۲۸ روحانی خزائن ۴۳۹ ج۳)
(۲) چار سو انبیا ء کی پیش گوئی جھوٹی نکلی (ازالہ اوہام ص۶۲۹ ج۳ سائیڈ والا ، روحانی خزائن ج ۳ ص ۴۳۹)
(۳) چوہڑہ ،بھنگی اور حرامزادہ بھی نبی اور رسول ہوسکتا ہے ۔(تریاق القلوب ۱۳۳روحانی خزائن ۲۷۹ ج۱۵)
(۴) سورۃ رو م کی پیش گوئی صاف صاف ظاہر کررہی ہے کہ جو کچھ آنحضرت ﷺ نے اپنے اجتہاد سے پیش گوئی کا محل و مصداق سمجھا تھاوہ غلط نکلا۔ (ازالہ اوہام ج۲ ص۶۸۹ ،روحانی خزائن ص۴۷۲ ج۳)
(۵) خداوند تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو چھپانے کیلئے ایک ایسی ذلیل جگہ تجویز کی جو نہایت متعفن اور تنگ اور تاریک اور حشرات الارض کی نجاست کی جگہ تھی ۔(تحفہ گولڑویہ ص۷۰ روحانی خزائن ص۲۰۵ ج۱۷)
(۶) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام ) نے خود اخلاقی تعلیم پر عمل نہیں کیا…… بدزبانی میں اس قدرآگے بڑھ گئے کہ یہودی بزرگوں کو ولد الحرام تک کہہ دیا ور ہر ایک وعظ میں ہے کہ یہود علماء کو سخت گالیاں دیں ۔ (چشمہ مسیحی ص۱۱ روحانی خزائن ص۳۴۶ ج۲۰)
(۷) یسوع (یعنی حضرت عیسیٰ ) اس لئے اپنے تئیں نیک نہیں کہہ سکا کہ لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص شرابی کبابی اور خراب چلن کا ہے ۔ (ست بچن ص۱۷۲ روحانی خزائن ص۲۹۶ ج۱۰)
(۸) حضرت عیسیٰ شراب پیا کرتے تھے شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی وجہ سے۔ (کشتی نوح ص۶۶ جدید ص۶۵ قدیم حاشیہ روحانی خزائن ص۷۱ ج۱۹)
(۹) آپ (حضرت عیسیٰ) کو گالیاں دینے اور بد زبانی کی اکثر عادت تھی آپ کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی ۔ (حاشیہ انجام آتھم ص۵روحانی خزائن ج ۱۱ ص ۲۸۹)
(۱۰) آپ (حضرت عیسیٰ) کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ،تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زنا کاراور کسبی عورتیں تھیں جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا۔(ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ ص۷ روحانی خزائن ص۲۹۱ ج۱۱)
(۱۱) لیکن مسیح کی راست بازی اپنے زمانے میں دوسرے راست بازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی بلکہ یحییٰ نبی کو اس پر ایک فضیلت ہے کیونکہ وہ شراب نہیں پیتاتھا اور کبھی نہیں سنا گیا کہ کسی فاحشہ عورت نے آکر اپنی کمائی کے مال سے اس کے سر پر عطر ملاتھا یا ہاتھوں اور سر کے بالوں سے اس کے بدن کو چھوا تھا یا کوئی بے تعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی تھی اسی وجہ سے خدا نے قرآن میں یحییٰ کانام حصور رکھا مگر مسیح کا یہ نام نہ رکھا کیونکہ ایسے قصے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے ۔(دافع البلا ء ص۴ روحانی خزائن ص۲۲۰ ج۱۸)
۳﴾حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع ونزول کا انکار
امت مسلمہ کا چوددہ سو برس سے اجماعی عقیدہ ہے کہ رب العزت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بجسدہ عنصری آسمان پر اٹھا لیا ہے اور قرب قیامت میں ان کا نزول ہوگا اور وہ دجال کو قتل کریں گے اور دین اسلام کی تائید کریں گے۔
چنانچہ تفسیر بحرالمحیط ج۲ص۴۷۳ پر مذکور ہے :’’ حیاۃ المسیح بجسمہ الی الیوم و نزولہ من السماء بجسمہ العنصری مما اجمع علیہ الامۃ وتواتر بہ الا احادیث‘‘۔ ’’ترجمہ : حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس وقت تک زندہ ہونے اور اسی جسم عنصری کے ساتھ نازل ہونے کا عقیدہ ایسا عقیدہ ہے جس پر امت کا اجماع ہے اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے۔ ‘‘چنانچہ ۱۸۹۲ء تک مرزا کا یہی عقیدہ تھا بلکہ اس نے آیات قرآنیہ سے استدلال کرکے اس عقیدہ کو ثابت کیا ہے مگر جب خود مسیح ابن مریم بننے کا شوق ہوا تو اس عقیقدہ سے منحرف ہو کر یوں گویاہوا:
(۱) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی واپسی اور ان کی حیات کا عقیدہ عیسائیوں کی عبارت آرائی اور ان کی اختراع پردازی ہے اور مسلمانوں میں سے جولوگ حضرت عیسیٰ کے اترنے کا گمان کرتے ہیں لاریب انہوں نے حق کی پیروی نہیں کی بلکہ وہ گمراہی کی وادیوں میں سرگرداں ہیں ۔ (تذکرہ ص۳۴۲،۳۴۳)
(۲) یہ کہنا کہ عیسیٰ نہیں مرے سوء ادبی اور شرک عظیم ہے جو عقل ورائے کے خلاف ہے اور نیکیوں کو کھا جانے والی چیز ہے بلکہ وہ اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح وفات پاگیا ہے اور اپنے اہل زمان کی طرح ہوگیا اور اسکی حیات کا عقیدہ عیسائیوں سے آیا ہو ا ہے (ملخص از ضمیمہ حقیقت الوحی باب الاستفتا ء اردو ترجمہ ص۳۹ روحانی خزائن ص۶۶۰ج۲۲)
(۳) حضرت عیسیٰ فوت ہوچکے ہیں اور ان کا زندہ مع جسم عنصری جانا اور اب تک زندہ ہونا اور پھر کسی وقت مع جسم عنصری زمین پر آنا یہ ان پر تہمتیں ہیں ۔(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ ۵ ص۲۳۰ قدیم ،جدید حصہ ۵ روحانی خزائن ۴۰۶ ج۲۱)
(۴) مگر یہ بات (رفع ونزول عیسیٰ بجسد عنصری ، ناقل) تو بالکل جھوٹا منصوبہ اور یا کسی مراقی عورت کا وہم تھا ۔ (کتاب البریہ حاشیہ ص۲۳۹ روحانی خزائن ص۲۷۴ج۱۳)
۴﴾ حرمت جہاد
آنحضرت ﷺکا فرمان ہے کہ ’’ الجھاد ماض الی یوم القیامۃ ‘‘ جہاد (قرب ) یوم قیامت تک جاری رہے گا۔ یعنی جس وقت تک دنیا میں طاغوتی طاقتیں موجود ہیں اس وقت تک جہاد جاری رہے گا اور جب عیسیٰ کے نزول کے بعد باطل اور طاغوتی قوتیں ختم ہوجائیں گی توپھر جہاد بھی ختم ہوجائے گا کیونکہ جہاد ہوتا ہے کفار اور اہل باطل سے جبکہ اس وقت کفار اور ہل باطل کا خاتمہ ہوجائے گا۔
انگریزوں نے جب ہندوستان پر اپنا طاغوتی قدم رکھا تو مسلم مجاہدین نے ان کا بھر پور مقابلہ کیا جس کے باعث اس کا مستقبل ہندوستان میں خطرے میں پڑ گیا چنانچہ مسلمانوں کے ازلی غدار مرزا غلام مرتضیٰ نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ۶۴ گھوڑے اور ۶۴ شہسوار بھیج کر مسلمانوں کے خلاف انگریزوں کی مدد کی او رپھر بھی جب کچھ نہ بنا اور مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہاد ختم نہ ہوا تو اس خاندان کے ایک چشم وچراغ نے اسلام اور مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر اپنے آقاؤں کے مستقبل کو پر امید اور خالی از خطرات بنانے کے لئے جہاد کے منسوخ ہونے کا اعلان کردیا مگر الحمدﷲ پھر بھی نہ تو وہ انگریزہی یہاں قرار پاسکا اور نہ اس کا خود کاشتہ پودا۔چنانچہ مرزا غلام احمد خود رقمطراز ہے :
(۱) آج سے دین کیلئے لڑنا حرام کیا گیا اب اس کے بعد جو دین کے لئے تلوار اٹھاتا ہے اور غازی نام رکھ کر کافروں کوقتل کرتاہے وہ خدا اور اس کے رسول کا نافرمان ہے۔ (اشتہار چندہ منارۃ المسیح ص :ب،ت ضمیمہ خطبہ الہامیہ روحانی خزائن ص۱۷ج۱۶)
(۲) میں نے بیسیوں کتابیں عربی ،فارسی اور اردو میں اس غرض سے تالیف کی ہیں کہ اس گورنمنٹ محسنہ (برطانیہ ،ناقل)سے ہرگز جہاد درست نہیں۔(تبلیغ رسالت ج۶ص۶۵ مجموعہ اشتہارات ج۲ص۳۶۶)
(۳) ہر شخص جو میری بیعت کرتا ہے اور مجھ کو مسیح موعود مانتا ہے اسی روز سے اسکو یہ عقیدہ رکھنا پڑتا ہے کہ اس زمانے میں جہاد قطعاً حرام ہے ۔(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد ضمیمہ ص۷ روحانی خزائن ص۲۸ ج۱۷)
(۴) اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دین کیلئے حرام ہے ا ب جنگ او ر قتال
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد
منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۶،۲۸ وروحانی خزائن ج۱۷ ص۷۷)
۵﴾ انکار معجزات
اﷲ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں کو ان کی تصدیق کیلئے خاص نشان عطافرماتے ہیں، اگر انبیا ء کو یہ نشانا ت دیے جائیں تو معجزات کہلاتے ہین اور اگر امت میں سے کسی نیک شخص سے یہ نشانا ت ظاہر ہوں تو کرامات کہلاتے ہیں ۔ مرز اغلام احمد قادیانی انبیاء کرام کے معجزا ت کو بھی تسلیم نہیں کرتا ہے خصوصاً حضرت عیسیٰ کے معجزات کا منکر ہے جن کی بابت ارشاد ربانی ہے کہ ’’ انی قد جئتکم بایۃ من ربکم انی اخلق لکم من الطین کھیئۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیراً باذن اﷲ وابری الاکمہ والابرص واحی الموتی باذن اﷲ وانبئکم بما تاکلون وما تدخرون فی بیوتکم ان فی ذلک لایۃ لکم ان کنتم مومنین ۔‘‘ ﴿پارہ ۳ آل عمران ۴۹﴾
ترجمہ :میں تمہارے پاس تمہارے ر ب کی نشا نیا ں لایاہوں کہ میں تمہارے لیے مٹی کے پرندے کی صورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو اﷲ تعالیٰ کے حکم سے اڑتا ہوا جانور ہوجا تا ہے اور میں اﷲ تعالیٰ کے حکم سے مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو تندرست کرتا ہوں اور مردوں کو ز ندہ کرتا ہوں ا و رجو کچھ تم کھا تے ہوا ور جو کچھ تم اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو اس کی تمہیں خبر دیتاہوں اگر تم مومن ہو تو یقینا اس میں تمہارے لیے نشانی موجود ہے ۔اب معجزات مسیح اور مرزا غلام احمد قادیانی کی بے ایمانی واضح ہو۔
(۱) عیسائیوں نے بہت سے آپ کے معجزات لکھے ہیں مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا۔ (ضمیمہ انجام آتھم ص۶روحانی خزائن ص۲۹۰ج۱۱حاشیہ )
(۲) مسیح کے معجزات تو اس تالاب کی وجہ سے بے رونق اور بے قدر تھے جو مسیح کی ولادت سے بھی پہلے مظہرعجائبات تھا جس میں ہر قسم کے بیمار اور تمام مجذوم مفلوج وغیرہ ایک ہی غوطہ مار کر اچھے ہوجاتے تھے ۔(ازالہ اوہام ص۳۲ روحانی خزائن ۲۶۳ ج۳حاشیہ )
(۳) یہ اعتقاد بالکل غلط اور فاسد اور مشرکانہ خیال ہے کہ مسیح مٹی کے پرندے بناکر ان میں پھونکے مار کر انہیں سچ مچ جانور بنا دیتا تھا نہیں بلکہ صرف عمل التراب تھا جو روح کی قوت سے ترقی پذیر ہوگیا تھا۔ (ازالہ اوہام ص۳۲۲ حاشیہ روحانی خزائن ،ص۲۶۳ج۳)
(۴) موسوا اس کے پھر بھی قرین قیاس ہے کہ ایسے ایسے اعجاز عمل التراب یعنی مسمریزی طریق سے بطور لہو لعب نہ بطور حقیقت ظہور میں آسکیں کیونکہ عمل التراب میں جس کو زمانہ حال میں مسمریزم کہتے ہیں ایسے ایسے عجائبات ہیں کہ اس میں پوری پوری مشق کرانے والے بھی اپنی روح کی گرمی دوسری چیزوں پر ڈال کر ان چیزوں کو زندہ کے موافق کر دکھاتے ہیں۔ (ازالہ اوہام ص۳۰۵ حاشیہ روحانی خزائن ص۲۵۵،۲۵۶ ج۳)
(۵) مگر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ عمل (عمل الترب ) ایسا قدر کے لائق نہیں جیسا کہ عوام الناس اسکو خیال کرتے ہیں اگر یہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خدائے تعالیٰ کے فضل و توفیق سے امید قوی رکھتا ہے کہ ان عجوبہ نمائیوں میں حضرت مسیح ابن مریم سے کم نہ رہتا۔ (ازالہ اوہام ص۳۰۹حاشیہ روحانی خزائن ص۲۵۷ج۳)
(۶) اور چونکہ قرآن شریف اکثر استعارات سے بھرا ہوا ہے اس لیے ان آیات کے روحانی طور پر معنی بھی کرسکتے ہیں کہ مٹی کی چڑیوں سے مراد وہ اُمّی اور نادان لوگ ہیں جن کو حضرت عیسیٰ نے اپنا رفیق بنایا ،،گویا اپنی صحبت میں لے کر پرندوں کی صورت کا خاکہ کھینچا پھر ہدایت کی روح ان میں پھونک دی جس سے وہ پرواز کرنے لگے ۔(ازالہ اوہام ص۳۰۴ حاشیہ روحانی خزائن ص۲۵۵ج۳)
(۷) سو کچھ تعجب کی جگہ نہیں کہ خدا تعالی نے حضرت مسیح کو عقلی طور پر سے اپنے طریق پر اطلاع دے دی ہو جو ایک مٹی کا کھلونا کسی کل کے دبانے یا کسی پھونک مارنے کے طور پر ایسا پرواز کرتا ہو جیسے پرندہ پرواز کرتا ہے یا اگر پرواز نہیں تو پیروں سے چلتا ہو کیونکہ حضرت مسیح ابن مریم اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس برس کی مدت تک نجاری کاکام بھی کرتے رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ بڑھئی کاکام درحقیقت ایک ایسا کام ہے جس میں کلوں کے ایجاد کرنے اور طرح طرح کی صنعتوں کے بنانے میں عقل تیز ہوجاتی ہے ۔ (ازالہ اوہام حاشیہ ص۳۰۳ روحانی خزائن ص۲۵۴ج۳)
(۸) یہ بھی ممکن ہے کہ مسیح ایسے کام کیلئے اس تالاب کی مٹی لاتا تھا جس میں روح القدس کی تاثیر رکھی گئی تھی بہرحال یہ معجزہ (پرندے بناکر اڑانے کا ، ناقل) صرف ایک کھیل کی قسم میں سے تھا۔ (ازالہ اوہام حاشیہ ص۳۲۲ روحانی خزائن ص۲۶۳ج۳)
کیا عجیب ہے قادیانی عقل ودانش کہ اگر روح القدس کی تاثیر تالاب میں ہو تو عین توحید ہے اس سے شرک کا واہمہ بھی نہیں ہوسکتا لیکن اگر وہی خارق عادت فعل معجزانہ طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے صادر ہو تو شرک ہوجاتا ہے ، بئس للظالمین بدلا معجزہ کو کھیل سمجھنا صرف اسی کا کام ہو سکتا ہے جس کی عقل ودانش اس سے روٹھ گئی ہواور وہ ارتداد کی تپتی ہوئی صحرا میں بھٹک رہا ہو کیونکہ ان معجزات کا ثبوت قرآن سے ملتا ہے اورمنکر قرآن مرتد ، زندیق اور کافر ہے۔
۶﴾ عیسیٰ علیہ السلام کے بن باپ پیدا ہونے سے انکار
آیات قرآنیہ ، احادیث صحیحہ اور اجماع امت سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے متولد ہوئے چنانچہ جب آپ کی والدہ کو جبرئیل نے حضرت عیسیٰ کی پیدائش کی خوشخبری سنائی تو وہ فرمانے لگیں قرآن کے الفاظ میں :
’’ قالت رب انی یکون لی ولد ولم یمسسنی بشر قال کذلک اﷲ یخلق ما یشاء ‘‘ یعنی انہوں نے کہا اے میرے پروردگار ،مجھے بچہ کیسے ہوگا حالانکہ مجھے کسی بھی بشر نے نہیں چھوا ہے ۔ فرمایا کہ اﷲ کا کام ایسا ہی ہوتا ہے وہ جوچاہتا ہے پیدا کرتا ہے ۔
مگر قادیانی ہیں کہ نہ تو قرآن کو دیکھا اور نہ احادیث نبویہ کو اور نہ اجماع امت کی پرواہ کی ۔ کافر بننے کے شوق میں ان سب باتوں کو بھلا کر حضرت عیسیٰ کو یوسف نجار کا بیٹا (اور وہ بھی ناجائز حمل سے )نعوذباﷲ قرار دیا ۔ مختصراً ملاحظہ ہو:
(۱) وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا بلکہ مسیح تو مسیح میں تو اس کے چاروں بھائیوں کی بھی عزت کرتا ہوں کیونکہ پانچوں ایک ہی ماں کے بیٹے ہیں نہ صرف اسی قدر بلکہ میں حضرت مسیح کی دونوں حقیقی ہمشیروں کو بھی مقدس سمجھتا ہوں کہ یہ سب بزرگ مریم بتول کے پیٹ سے ہیں اور مریم وہ نشان ہے جس نے ایک مدت تک اپنے تئیں نکاح سے روکا پھر بزرگان قوم کے نہایت اصرار سے بوجہ حمل کے نکاح کرلیا ۔ (کشتی نوح ص۱۶ روحانی خزائن ص۱۸ج۱۹)
(۲) حضرت مسیح ابن مریم اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس برس کی مدت تک نجاری کاکا م بھی کرتے رہے ۔ (ازالہ اوہام ص۳۰۳روحانی خزائن ص۲۵۴حاشیہ ج۳)
(۳) یسوع مسیح کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں یہ سب یسوع کے حقیقی بھائی اور حقیقی بہنیں تھیں یعنی سب یوسف اور مریم کی اولاد تھیں ۔(کشتی نوح ص۱۶ روحانی خزائن ۱۸ج۱۹حاشیہ )
(۴) آپ کی انہی حرکات سے آپ کے حقیقی بھائی آپ سے سخت ناراض رہتے تھے ۔(ضمیمہ انجام آتھم ص۶روحانی خزائن ص۲۹۰ج۱۱)
۷﴾ مسلمانان عالم قادیانیوں کی چشم کور میں
دجال قادیان نے جہاں پر سکھوں اور ہنددؤں کو گالیا ں دی ہیں وہاں علمائے اسلا م ،صوفیائے کرام ،صحابہ کرام اور انبیائے کرام کوبھی فحش گالیاں دی ہیں او ر طرفہ یہ کہ مرزا کی ان فحش گالیوں سے پورے عالم میں کوئی مسلمان بھی نہ بچ سکاہے ۔
مزید بر آں یہ کہ اس نے اور اسکے پیروکاروں نے مسلمانوں کو کافرکہہ کہ آنحضرت ﷺ کے فرمان عالی شان کے مطابق اپنے کفر کی تاکید ی مہر ثبت کردی ہے ۔ملاحظہ ہو
۱) ’’تلک کتب ینظر الیھا کل مسلم بعین المحبۃ والمودۃ ویتنفع عن معارفھا و یقلبنی ویصدق دعوتی الاذریۃ البغایا الذین ختم اﷲ علی قلوبھم فھم لایقبلون ‘‘ ترجمہ : یہ میری کتابیں ہیں جن کو ہر مسلمان محبت اور دوستی کی نظر سے دیکھتا ہے اور ان کتابوں میں ، مَیں نے جو معرفت کی باتیں لکھی ہیں ان سے نفع اٹھاتا ہے مجھے قبول کرتا ہے او رمیری دعوت کی تصدیق کرتا ہے مگر کنجریوں کی اولاد کہ جن کے دلوں پر اﷲ نے مہر لگادی ہے او ررہ نہیں مانتے ۔ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن ص۵۴۷ ج۵)
۲) اب ظاہر ہے کہ ان الہامات میں میری نسبت بار بار بیان کیا گیاہے کہ یہ خدا کا فرستادہ ،خدا کا مامور ،خدا کا امین اور خدا کی طرف سے آیا ہے جو کچھ کہتا ہے اس پر ایمان لاؤ اور اس کا دشمن جہنمی ہے ۔ (انجام آتھم ص۶۲روحانی خزائن ص۶۳ج۱۱)
(۳) (مجھے خدا کا الہام ہے کہ ) جو شخص تیری پیروی نہ کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہ ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدا ورسول کی نافرمانی کرنے والاجہنمی ہے ۔(اشتہار معیار الاخیار از مرزا قادیانی ص۸ مجموعہ اشتہارات ص۲۷۵ ج۳)
(۴) خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور ا س نے مجھے قبول نہیں کیا مسلمان نہیں ۔(مرزا قادیانی کا خط بنام ڈاکٹر عبدالحکیم خان تذکرہ طبع دوم ص۶۰۰)
(۵) ہمارا یہ فرض ہے کہ غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اوران کے پیچھے نماز نہ پڑھیں کیونکہ وہ ہمارے نزدیک خدا تعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں یہ دین کا معاملہ ہے اس میں کسی کا اپنا اختیار نہیں کہ کچھ کرسکے ۔ (انوار خلافت ص۹۰ اَزمرزا محمود احمد قادیانی )
(۶) کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا وہ کافر اور دائرہ اسلا م سے خارج ہیں میں تسلیم کرتا ہوں کہ میرے یہ عقائد ہیں ۔ (آئینہ صداقت ص۳۵ اَزمرزا محمود احمد خلیفہ قادیان)
(۷) ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ علیہ السلام کو مانتا ہے مگر عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتا یا عیسیٰ علیہ السلام کو مانتا ہے مگر محمد ﷺ کو نہیں مانتا یا محمد ﷺ کو مانتا ہے مگر مسیح موعود (دجال قادیان) کو نہیں مانتا وہ نہ صر ف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ (کلمۃ فصل ص۱۱۰،مرزا بشیر احمد ایم اے پسر مرزا قادیانی )
مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروؤں کے کفر کی صرف چند وجوہات اور وہ بھی مختصراً تحریر کی ہیں اﷲ تعالیٰ قفس ارتداد کے ان اسیروں کو راہ ہدایت نصیب فرمائے اور اس مختصر سی محنت کو ان کیلئے ذریعہ ہدایت اور راقم کیلئے ذریعہ نجات بنائے۔واﷲ المستعان و علیہ التکلان
یوں تو بے شمار دلائل عقلیہ مرزا کے جھوٹا ہونے پر شاہد ہیں مگرصرف چند عقلی دلائل کذب مرز اپر پیش کئے جاتے ہیں :
مرزا قادیانی کے شیطانی الہامات
مرزا قادیانی لکھتا ہے :”ایک خدا کا قول ہے اور ایک خدا کا فعل ہے اور جب تک خدا کے قول پر خدا کا فعل شہادت نہ دے ایسا الہام شیطانی کہلائے گا اور شہادت سے مُراد ایسے آسمانی نشان ہیں کہ جو انسانوں کی معمولی حالتوں سے بہت بڑھ کر ہیں۔“( روحانی خزائن جلد ۲۲ حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 578)
مرزا قادیانی کی مندرجہ بالا تحریر کو مدنظر رکھتے ہوئے مرزا قادیانی کے صرف کچھ الہامات کا تجزیہ کیا جاے مثلاً
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پٹی پٹی گئی (تذکرہ صفحہ681)
سوال : اس الہام میں خدا کا فعل کیا ہے ؟ اور خدا کی شہادت کیا ہے ؟ اس سے اسلام کو کیا فائدہ ہوا ؟ قوم کو کیا فائدہ ہوا ؟
جے توں میرا ہورہیں سب جگ تیرا ہو(تذکرہ صفحہ390)
سوال : اس الہام میں خدا کا فعل کیا ہے ؟ اور خدا کی شہادت کیا ہے ؟ اس سے اسلام کو کیا فائدہ ہوا ؟ قوم کو کیا فائدہ ہوا ؟
واللہ واللہ سدھا ہویا اولا(تذکرہ صفحہ631)
سوال : اس الہام میں خدا کا فعل کیا ہے ؟ اور خدا کی شہادت کیا ہے ؟ اس سے اسلام کو کیا فائدہ ہوا ؟ قوم کو کیا فائدہ ہوا ؟
ہن اسدالیکھا خدا نال جا پیا اے(تذکرہ صفحہ599)
سوال : اس الہام میں خدا کا فعل کیا ہے ؟ اور خدا کی شہادت کیا ہے ؟ اس سے اسلام کو کیا فائدہ ہوا ؟ قوم کو کیا فائدہ ہوا ؟
ایلی ایلی لما سبقتانی(تذکرہ صفحہ71،79،199،509،518)
سوال : اس الہام میں خدا کا فعل کیا ہے ؟ اور خدا کی شہادت کیا ہے ؟ اس سے اسلام کو کیا فائدہ ہوا ؟ قوم کو کیا فائدہ ہوا ؟
عنموائیل(تذکرہ صفحہ110،120)
سوال : اس الہام میں خدا کا فعل کیا ہے ؟ اور خدا کی شہادت کیا ہے ؟ اس سے اسلام کو کیا فائدہ ہوا ؟ قوم کو کیا فائدہ ہوا ؟
ھو شعنا نعسا (تذکرہ صفحہ80،91)
سوال : اس الہام میں خدا کا فعل کیا ہے ؟ اور خدا کی شہادت کیا ہے ؟ اس سے اسلام کو کیا فائدہ ہوا ؟ قوم کو کیا فائدہ ہوا ؟
پریشن(تذکرہ صفحہ91)
سوال : اس الہام میں خدا کا فعل کیا ہے ؟ اور خدا کی شہادت کیا ہے ؟ اس سے اسلام کو کیا فائدہ ہوا ؟ قوم کو کیا فائدہ ہوا ؟
توپہ یا طوپہ (تذکرہ صفحہ658)
سوال : اس الہام میں خدا کا فعل کیا ہے ؟ اور خدا کی شہادت کیا ہے ؟ اس سے اسلام کو کیا فائدہ ہوا ؟ قوم کو کیا فائدہ ہوا ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو صاف پتا چلتا ہے کہ یہ الہاماتِ خداوندی نہیں ہو سکتے بلکہ یہ مرزا صاحب کے خدا یعنی یلاش کے ہیں۔
۲) نبی کا دینی علوم میں کوئی بشر استاد نہیں ہوتا ہے جبکہ مرز اکے کئی استاد ہیں جن میں سے فضل الٰہی ،فضل احمد اور گل علی شاہ خاص طور پر قابل ذکر ہین جن سے قرآن مجید و دیگر علوم پڑھے ۔ (کتاب البریہ ص۱۶۱ قدیم حاشیہ ،ص۱۷۷ جدید روحانی خزائن ص۱۷۹ج۱۳)
۳) جس ملک او رشہر میں نبی ہوتا ہے اس میں عذاب الٰہی نہیں نازل ہوتا’’ ماکان لیعذبہم وانت فیھم‘‘ جبکہ مرز اکی زندگی میں قادیان مین سخت زلزلہ آیا اور طاعون جیسی موذی مرض نے قادیان والوں کو آپکڑا ۔(حقیقت الوحی ص۲۴۴ ج۲۲ روحانی خزائن ص۸۷ )
۴) نبی کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔ جبکہ مرزانے وعدہ خلافی کی وہ مثالیں قائم کیں کہ اذا وعدا خلف کا عظیم مصداق ٹہرا ہے مثلاً براہین احمدیہ کی پچاس جلدوں کی قیمت وصول کرکے صرف پانچ جلدیں لکھیں او ریہ کہنے لگا کہ اول پچاس جلدیں لکھنے کا ارادہ تھا مگر اب صرف پانچ پر اکتفا کیا ہے کیونکہ پچاس اور پانچ میں صرف صفر کا فرق ہے۔
۵) نبی کسی پر لعنت نہیں کرتا ۔ آنحضرت ‘ کا فرمان ہے ’’ انی لم ابعث لعانا ولکن بعثت داعیا ورحمۃ اللھم اھد قومی فانھم لا یعلمون ‘‘ جبکہ مرزا لعنتوں کی مشین گن تھا اور کئی شخصیات پر اس نے اپنی لعنتی مشین گن سے لعنتوں کی بوچھاڑ کی ہے مثلاً اس نے اپنی کتاب نورالحق ص۱۵۸ روحانی خزائن ۱۵۸ ج۸ میں ایک ہزار مرتبہ گن کر لعنت کا لفظ لکھا ہے (ممکن ہے یہ مرزائیوں کا درود ہزاروی ہو)
۶)مرزا کہتا ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی عمر ۱۲۰ برس تھی اور آنحضر ت کی عمر آپ کی عمر کے تقریباً نصف یعنی ۶۳ سال ہوئی اب اس قانون کے تحت مرزا قادیانی کی عمر آنحضرت ﷺ کی عمر کے نصف یعنی ۳۲ سال ہونی چاہیے مگر اسکی عمر ۶۹ برس ہوئی۔
۷) ہجرت بھی انبیاء کرام کی سنت ہے۔(سیرۃ المہدی ص۱۳۹ حصہ اول روایت ۱۳۵)
مگر مرزا نے کبھی ہجرت نہیں کی بلکہ اپنے وقت کے کافر ظالم انگریز حکمران کے قصیدے لکھتا رہا ہے ۔
۸) نبی امی ہوتا ہے ،لکھنا پڑھنا نہیں جانتا ۔ کتابیں تصنیف نہیں کرتا بلکہ اس پر خدا تعالیٰ کی طرف سے کتابیں نازل ہوتی ہیں مرزا قادیانی پڑھتا لکھتا رہا ہے اس کی چوراسی تصنیفات ہیں جن پر قادیانی اپنی جہالت سے فخر کرتے ہیں،الٹی مت ماری گئی۔
۹) نبی شاعر نہیں ہوتا ۔ جبکہ مرزا قادیانی نے سینکڑوں شعر لکھے اور کہے ہیں بطور نمونہ اس کا ایک شعر ملاحظہ ہو :
کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بش رکی جائے نفرت اور انسانوں کی عار
(در ثمین ص۹۴ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن ص۱۲۷ج۲۱)
۱۰) نبی اپنے ارادہ اور وعدہ میں کبھی ناکام نہیں ہوتا کیونکہ نصرت ایزدی اس کے ساتھ ہوتی ہے مگر مرزا اپنے سینکڑوں ارادوں اور وعدوں میں ناکام ونامراد ہوا۔بطور مثال محمدی بیگم کے ساتھ نکاح کا ارادہ بزعم مرزا خدائی وعدہ آسمانوں پر نکاح یا د رکھنے کے قابل ہے ۔
۱۱) نبی جس جگہ فوت ہوتا ہے اسے اسی مقام میں دفن کیاجاتا ہے
’’ فاذا توفیٰ اﷲ عزو وجل نبیا قط حیث یقبض روحہ الا دفن حیث یقبض روحہ ‘‘ (کنزالعمال ص۱۱۹ ج۶)
’’ ما قبض اﷲ تعالیٰ نبیا الا فی موضع الذی یجب ان یدفن فیہ ‘‘ (ترمذی )
مگر مرزا کے ساتھ اسکے الٹ ہوا کہ لاہور میں ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء بروز منگل بمرض ہیضہ فوت ہوا اور پھر مال گاڑی میں (جس میں گدھے،کتے اور خنزیر ،پتھر ،اور کوئلہ وغیرہ لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں ) لاد کر قادیان میں دفن کیا گیا ۔بالآخر
ریپلائی کیجیئے