تعین موضوع
مرزائیوں اور مسلمانوں کے مابین متنازع فیہ مسائل تین ہیں۔
۱﴾ اجرائے نبوت و ختم نبوت
۲﴾ حیات ووفات عیسیٰ علیہ السلام
۳﴾ صدق وکذب مرز ا یعنی سیرت وکردار مرزا
مرزائی عموماً کوشش کرتے ہیں کہ پہلے دو موضوعات پر بحث کی جائے تیسرے موضوع پر بحث کرنا انہیں موت نظر آتی ہے ۔ حتیٰ کہ بعض اوقات اس موضوع سے گھبراتے ہوئے وہ مناظرہ ہی کو خیر باد کہہ دیتے ہیں وہ عموماً حیات عیسیٰ یا اجرائے نبوت کے متعلق مناظرہ کرتے ہیں۔ مگر ہمیں چاہیے کہ سب سے پہلے انہیں مجبور کریں کہ وہ سیرت مرزا پر مناظرہ کریں کیونکہ اصل بحث کسی مدعی ماموریت کی سیرت وکردار پر ہی ہونی چاہیے اگر اس کی سیرت وکردار بے داغ ہو تو پھر دوسرے مسائل کی طرف رجوع کرنا چاہیے ۔
ہر مدعی پہلے اپنی سیرت قوم کے سامنے پیش کرتا ہے جیسا کہ نبی اکرم خاتم النبیین ﷺ نے اہل مکہ کے سامنے صفا پہاڑی پر چڑھ کر اپنی چالیس سالہ زندگی پیش کی ۔ قرآن مجید میں ہے۔
’’ فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون ‘‘
اس لئے ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہم سب سے پہلے مرزا صاحب کی زندگی اور کردار کو ان کی اپنی تحریروں کے آئینہ میں دیکھیں اگر وہ اپنی تحریروں کی رو سے ایک پاکیزہ سیرت ، شریف ، دیانتدار اور سچا انسان ثابت ہوجائے توا سکے تمام مسائل دعاوی کوبلا حیل و حجت مان لیں گے او ردوسرے مسائل میں بحث کرنے اور وقت ضائع کرنے کی ضرورت ہی نہ ہوگی اور اگر وہ کسی ایک بات میں جھوٹا ثابت ہوجائے تو بقول خود مرزا کے اس کی کسی بات کا اعتبار نہیں رہے گا چنانچہ مرزا صاحب خود تحریر کرتے ہیں کہ :
’’ ظاہر ہے کہ جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہوجائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا ۔ ‘‘ (چشمہ معرفت ج۲ ص۲۲۳، روحانی خزائن ص ۲۳۱ ج۲۳)
لہذا پہلے ہم مرزا صاحب کی سیرت وکردار دیکھتے ہیں ۔
ہم بلا خوف تردید کہہ سکتے ہیں کہ کسی مرزائی کے اند ر یہ جرأت نہیں ہے کہ وہ مرز اکو اس کی اپنی تحریروں کی رو سے ایک سچا اور شریف انسان ثابت کرسکے ۔ ہم آگے چل کر مشت نمونہ از خروارے اس کے کذاب ہونے کے چند دلائل پیش کریں گے لیکن اس بحث سے قبل ہم اپنی تائید میں مرز اصاحب کے دونو ں خلفاء کی تحریریں پیش کرتے ہیں ۔
حوالہ نمبر ۱﴾ ’’ جب یہ ثابت ہو جائے کہ ایک شخص فی الواقع مامور من اﷲ ہے تو پھر اجمالاً اس کے تمام دعاوی پر ایمان لانا واجب ہوجاتا ہے ……الغرض اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ مدعی ماموریت فی الواقع سچا ہے یا نہیں اگر اس کی صداقت ثابت ہوجائے تو اسکے تمام دعاوی کی صداقت بھی ساتھ ہی ثابت ہوجاتی ہے اگر اس کی سچائی ہی ثابت نہ ہو تو اس کے متعلق تفصیلات میں پڑنا وقت کو ضائع کرنا ہوتا ہے ۔‘‘
(دعوۃ الامیر مصنفہ بشیرالدین محمود ص ۴۹،۵۰)
حوالہ نمبر۲﴾ ’’ خاکسار (بشیر احمد ایم ۔اے) عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ اول (حکیم نورالدین) فرماتے ہیں کہ ایک شخص میرے پا س آیا اور کہنے لگا کہ مولوی صاحب کیا نبی کریم ﷺ کے بعد بھی کوئی نبی ہو سکتا ہے ؟ میں نے کہا نہیں ۔ اس نے کہا کہ اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو پھر ؟ میں نے کہا پھر ہم دیکھیں گے کہ کیا وہ صادق اور راست باز ہے یا نہیں ۔ اگر صادق ہے تو بہر حال اس کی بات کو قبول کریں گے ۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ اول ص ۹۸ حدیث نمبر ۱۰۹)
ان دو حوالہ جات سے بخوبی معلوم ہوگیا کہ اصل بحث صدق و کذب پر ہونی چاہیے اگر وہ ہوہی جھوٹا تو پھر اس کے دعاوی وغیرہ پر بحث کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔
اب ہم اس بات پر دلیل دیں گے کہ وفات وحیات مسیح پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں ۔
حوالہ نمبر ۱﴾ ’’ اول تو یہ جاننا چاہیے کہ مسیح کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے جو ہمارے ایمانیات کی کوئی جزو یا ہمارے دین کے رکنوں میں سے کوئی رکن ہو بلکہ صدہا پیش گوئیوں میں سے یہ ایک پیش گوئی ہے جس کو حقیقت اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں جس زمانہ تک یہ پیش گوئی بیان نہیں کی گئی تھی اس زمانہ تک اسلام کچھ ناقص نہیں تھا اور جب بیان کی گئی تو اس سے اسلام کچھ کامل نہیں ہوگیا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۴۰، روحانی خزائن ص ۳ ص ۱۷۱)
اس حوالہ سے چند امور واضح ہوئے :
۱) عقیدہ نزول مسیح ؑ ہمارے ایمانیات کی جز نہیں ہے ۔
۲) یہ مسئلہ دین کے ارکان میں سے کوئی رکن نہ ہے ۔
۳) یہ ایک پیش گوئی ہے اس اس کاحقیقت اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں ۔
۴) اس کے بیان نہ کرنے سے اسلام ناقص نہیں ہوتا اور بیان کرنے سے کامل نہیں ہوتا۔
حوالہ ۲﴾ ’’ کل میں نے سنا تھا کہ ایک شخص نے کہا کہ اس فرقہ میں اور دوسرے لوگوں میں سوائے اس کے کچھ فرق نہیں کہ یہ لوگ وفات مسیح کے قائل ہیں اور وہ لوگ وفات مسیح کے قائل نہیں باقی سب عملی حالت مثلاً نماز، روزہ،اور زکوٰۃ اور حج وہی ہے سوسمجھنا چاہیے کہ یہ بات صحیح نہیں کہ میرا دنیا میں آنا صرف حیات مسیح کی غلطی کو دور کرنے کے واسطے ہے اگر مسلمانوں کے درمیان صرف یہی غلطی ہوتی تو اتنے کے واسطے ضرورت نہ تھی کہ ایک شخص خاص مبعوث کیا جاتا اور الگ جماعت بنائی جاتی اور ایک بڑا شور بپا کیا جاتا یہ غلطی دراصل آج نہیں پڑی بلکہ میں جانتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کے تھوڑے ہی عرصہ بعد یہ غلطی پھیل گئی تھی اور کئی خواص او راولیاء اور اہل اﷲ کا یہی خیال تھا اگر یہ کوئی ایسااہم امر ہوتا تو خدا تعالی اسی زمانہ میں اس کا ازالہ کردیتا۔‘‘
(احمدی اور غیر احمد ی میں فرق ص۲ از مرزا غلام احمد قادیانی)
اس حوالہ سے چند امور واضح ہوئے ۔
۱) حیا ت عیسیٰ ؑ کا عقیدہ آنحضرت کے تھوڑے ہی عرصہ بعد پھیل گیاتھا ۔
۲) کئی خواص ، اولیاء ، اہل اﷲ کا یہی عقیدہ تھا ۔
۳) یہ کوئی ایسا اہم امر نہیں ہے جس کاازالہ خدا تعالیٰ نے ضروری سمجھا ہو ۔
حوالہ نمبر ۳﴾ ’’ اور مسیح موعود کے ظہور سے پہلے اگر امت میں سے کسی نے خیال بھی کیا کہ حضرت عیسیٰ ؑ دوبارہ دنیا میں آئیں گے توان پر کوئی گناہ نہیں صرف اجتہادی خطا ہے جو اسرائیلی نبیوں سے بھی بعض پیش گوئیوں کے سمجھنے میں ہوتی رہی ہے ۔‘‘
(حاشیہ حقیقت الوحی ص ۳۰، روحانی خزائن ج۲۲ ص ۳۲)
اس حوالہ سے جو امور واضح ہوئے وہ یہ ہیں ۔
۱) نزول عیسیٰ ؑ کے معتقد پر کوئی گناہ نہیں ہے ۔
۲) یہ محض اجتہادی خطا ہے اور اس قسم کی خطا اسرائیلی نبیوں سے بھی ہوتی رہی ۔
حوالہ نمبر ۴﴾ ’’ ہماری یہ غرض ہر گز نہیں کہ مسیح علیہ السلام کی وفات و حیات پر جھگڑے اور مباحثے کرتے پھرو یہ ایک ادنیٰ سی بات ہے ۔‘‘
(ملفوظات احمدیہ ج۲ص۷۲ جدید)
اس حوالہ سے یہ واضح ہوا کہ :
۱) مرزائیوں کی غرض یہ نہیں ہونی چاہیے کہ وفات و حیات مسیح پر مباحثے و جھگڑے کریں ۔
۲) یہ ایک ادنیٰ سی بات ہے
سو ہم کہتے ہیں کہ جب یہ مسئلہ ہمارے ایمانیات کی جز نہیں ہے ،جب یہ دین کے رکنوں میں سے رکن نہیں ، جب اسلام کی حقیقت سے اس کا کچھ تعلق نہیں ، جب اس کے بیان کرنے یا نہ کرنے سے اسلام میں کچھ فرق نہیں پڑتا ، جب یہ مسئلہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ کے بعد جلد ہی پھیل گیا تھا ، جب یہ عقیدہ خواص کا تھا ، اولیاء کا تھا، اہل اﷲ کاتھا ، اور جب یہ کوئی خاص امر نہیں ہے ، جب اس کا ازالہ خدا نے ضروری نہیں سمجھا ،جب اس کے عقیدہ رکھنے والے پر کوئی گناہ نہیں ، جب یہ محض اجتہادی غلطی ہے ، جب اس قسم کی خطائیں سابقہ انبیاء سے بھی ہوتی رہیں ، جب آپ کی غرض اس پر مباحثہ کرنے کی نہیں اور جب یہ ادنیٰ سی بات ہے تو اس مسئلہ پر بحث کرنے کی کوئی ضرورت و اہمیت باقی نہ رہی لہذا ہم سب سے پہلے مرزا کی سیرت و کردار پر بحث کریں گے جو انتہائی اہم اور ضروری ہے ۔
تعین موضوع نہایت اہم اور کٹھن معاملہ ہے مسلمان مناظر کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ سیرت مرزا کا موضوع طے کیاجائے اور مرزائی مناظر کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ حیات ووفات مسیح ، اجرائے نبوت جیسے موضوعات میں وقت ضائع کیا جائے ۔ اس لئے اس مرحلہ میں ہمارے مناظر کو انتہائی سمجھداری سے کام لینا چاہیے ۔ ہمارے مناظر کے اندر اتنی قوت ہونی چاہیے کہ وہ اپنا موضوع منوالے اگر کسی صورت میں بھی مرزائی مناظر یہ موضوع نہ مانے تو پھر بے شک مناظرہ نہ کرو ۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ اگران کاایک موضوع مانو ، تو اپنا بھی ایک موضوع منوا لو اگر ان کے دو موضوع مانو ، تو پھر اپنے بھی دو موضوع منوالویعنی سیرت مرزا غلام احمد قادیانی و سیرت بشیر الدین محمود
مرزائی حربہ
مرزائی مناظر موضوع طے ہونے سے قبل ہی ہمارے مناظر کے سامنے چالاکی سے کوئی نہ کوئی آیت یا حدیث وفات مسیح پربطور دلیل پیش کر دیتے ہیں حالانکہ ابھی موضوع بحث طے نہیں ہوچکا ہوتا او رہمارا مناظر ان کی دلیل کو معمولی سمجھتے ہوئے اس کے پرخچے اڑانا شروع کردیتا ہے اور یوں خود بخود مرزائیوں کا من بھاتا موضوع وفات مسیح شروع ہوجا تا ہے اس لیے ہمارے مناظرکو چاہیے کہ جب تک موضوع طے نہ ہو ،جواب نہ دے بلکہ یہی چالاکی اور یہی حربہ ان سے کرنا چاہیے کہ بات چیت کے دوران ہی مرزا کا کوئی جھوٹ کوئی بدمعاشی وغیرہ انتہائی رعب سے بیان کرنا چاہیے اور اس طرح دباؤ ڈالنا چاہیے کہ تمہارا نبی ایسا تھا اگرایسا نہ ہو تو گویا میں ہار گیا وغیرہ تو اس طرح کرنے سے مرزائی مناظر جب اس کا جواب دے گا تو خود بخود سیرت مرزا کا موضوع شروع ہوجائے گا اور میدان ان شا ء اﷲ آپ کے ہاتھ میں ہوگا۔
ایک اہم نکتہ
اگر کوئی شخص حضرت عیسیٰ ؑ کو فوت شدہ مانے مگر مرزا کو نبی نہ مانے تو مرزائیوں کے نزدیک وہ پھر بھی کافر ہے معلوم ہوا اصل مدار مرزا کی ذات ہے اس لیے سب سے پہلے مرزا کی سیرت پر بحث ہونی چاہیے اسی طرح اگر کوئی شخص عیسیٰ ؑ کی وفات مانے اور نبوت کو بھی جاری مانے مگر مرزا کو نبی نہ مانے تب بھی وہ مرزائیوں کے نزدیک مسلمان نہیں معلوم ہوا کہ اصل مدار مرزاکی ذات ہے اسی لئے سب سے پہلے مرزا کی ذات و سیرت پر بحث ہوگی جیسا کہ بہائی فرقہ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا بھی قائل ہے اور نبوت بھی جاری مانتا ہے مگر مرزائیوں کے نزدیک وہ پھر بھی کافرہے کیونکہ وہ مرزا کو نبی نہیں مانتا ۔ اس لیے معلوم ہوا کہ اصل محل نزاع مرزا کی ذات ہے اور اسی پر ہم بحث کرنا چاہتے ہیں ۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از قلم غلام نبی قادری نوری
ریپلائی کیجیئے