مذکورہ بالاموضوع میں ہم مدعی ہوں گے مرزائی صاحبان اول تو اس موضوع کو تسلیم ہی نہیں کرتے اگر بامر مجبوری انہیں تسلیم کرنا پڑے تو وہ مدعی بن جاتے ہیں حالانکہ یہ اصول غلط ہے ، جو فریق جو موضوع پیش کرے اصولاً اس کو اس کا مدعی ہو نا چاہیے مرزا صاحب کی سیرت و کردار کا موضوع چونکہ ہماری طرف سے پیش ہوا ہے لہذا مدعی ہمیں ہونا چاہیے اور حیات ووفات کا موضوع عموماً مرزائیوں کی طرف سے پیش ہوتا ہے اور وہ اس پر مصر ہوتے ہیں لہذا وفات مسیح کے مسئلہ میں مدعی انہیں ہونا چاہیے ۔
کذبات مرزا
کذبات مرزا بیان کرنے سے قبل ان آیات کو بار بار دہرانا چاہیے ۔
’’لعنۃ اﷲ علی الکاذبین ، ومن اظلم ممن افتری علی اﷲ کذبا اوقال اوحی الی ولم یوح الیہ شیء‘‘ وغیرہ ،
نیز جھوٹ کے متعلق مرزا صاحب کے اپنے فتوے بھی بار بار بیان کرنے چاہیے ۔
﴾جھوٹ کے متعلق مرزا صاحب کے اپنے فتوے
۱) ’’ جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں ‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ حاشیہ ص۲۰، روحانی خزائن ص ۵۶ ج ۱۷)
۲) ’’ جھوٹ بولنے سے بد تر دنیا میں اور کوئی براکام نہیں ‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص ۲۶، روحانی خزائن ص۴۵۹ ج ۲۲)
۳) ’’ تکلّف سے جھوٹ بولنا گوہ(پاخانہ) کھانے کے مترادف ہے ‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۹ ، روحانی خزائن ص۳۴۳ج۱۱ ، حقیقت الوحی ص۲۰۶ج ۲۲ص ۲۱۵)
۴) ’’ جھوٹ کے مردار کو کسی طرح نہ چھوڑنا یہ کتو ں کا طریق ہے نہ انسانوں کا ۔‘‘
(انجام آتھم مطبع قادیان ص ۴۰، روحانی خزائن ص ۴۳ج ۱۱)
۵) ’ ’ ایسا آدمی جو ہر روز خدا پر جھوٹ بولتا ہے اور آپ ہی ایک بات تراشتا اور پھر کہتا ہے کہ یہ خدا کی طرف سے وحی ہے جو مجھ پر ہوئی ہے ایسا بد ذات انسان تو کتوں اور سوؤروں اور بندروں سے بد تر ہے ۔‘‘
(براہین احمدیہ ج۵ ص ۱۲۶،۱۲۷۔ روحانی خزائن ج۲۱ ص۲۹۲)
۶) ’’ وہ کنجر جو ولد الزنا کہلاتے ہیں وہ بھی جھوٹ بولتے ہوئے شرماتے ہیں ۔ ‘‘
(شحنہ حق ص۶۰، روحانی خزائن ج۲ ص ۳۸۶)
۷) ’’ جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہوجا ئے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا ۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۲۲۲،روحانی خزائن ص۲۳۱ ج۲۳)
اب ہم مرزا کے چند ایک جھوٹ پیش کرتے ہیں اس کے کذبات کا کما حقہ احاطہ کرنا کارے دارد ہے ۔ ہم نمونے کے طور پر چند اکاذیب مرزا بیان کریں گے۔
﴾جھوٹ نمبر ۱
’’ اولیاو گزشتہ کے کشوف نے اس بات پر قطعی مہر لگادی ہے کہ وہ (مسیح موعود۔ناقل) چودہویں صدی کے سر پر پیدا ہوگا اور نیزیہ کہ پنجاب میں ہوگا۔‘‘
(اربعین نمبر ۲ص۲۳ طبع چناب نگر(ربوہ) ، روحانی خزائن ج۱۷ ص۳۷۱)
﴿مطبع قادیان میں انبیاء کا لفظ ہے بعد کے ایک ایڈیشن میں یہ وضاحت کی گئی کہ یہ لفظ غلطی سے لکھا گیا اور اب نئے ایڈیشن میں یہ وضاحت بھی حذف کردی گئی ہے ﴾
اولیا ء جمع کثرت ہے او رجمع کثرت دس سے اوپر ہوتی ہے اس لئے کم از کم دس معتمد اولیاء کے نام پیش کرو جنہوں نے بذریعہ کشف مہرلگائی ہو اور ولی ایسا ہو جس کو دونوں فریق صحیح ولی مانیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ مرزا کا یہ سفید جھوٹ ہے کسی مسلمہ ولی نے اس بات کی تصریح نہیں کی کہ مہدی چودہویں صدی میں ہوگا اور نیزیہ کہ پنجاب میں ہوگا ۔ یہ تمام اولیاء کرام پر جھوٹ ہے ۔
﴾جھوٹ نمبر ۲
’’ اے عزیزو تم نے وہ وقت پا یا ہے جس کی بشارت تمام نبیوں نے دی ہے اور اس شخص کو یعنی مسیح موعود کو تم نے دیکھ لیا جس کے دیکھنے کیلئے بہت سے پیغمبروں نے بھی خواہش کی تھی ۔‘‘
(اربعین نمبر ۴ ص ۱۳،روحانی خزائن ص۴۴۲ ج۱۷)
یہ بھی بالکل صاف جھوٹ ہے کسی ایک پیغمبر سے یہ خواہش کرنا ثابت نہیں ہے ۔
ھاتوا برھانکم ان کنتم صدقین ۔
﴾جھوٹ نمبر ۳
’’ یہ بھی یاد رہے کہ قرآن شریف میں بلکہ توراۃ کے بعض صحیفوں میں بھی یہ خبر موجود ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں طاعون پڑے گی بلکہ مسیح علیہ السلام نے بھی انجیل میں یہ خبر دی ہے ۔‘‘
(کشتی نوح ص ۵، روحانی خزائن ص۵ ج۱۹)
اسی عبارت کے متعلق اسی صفحہ پر حاشیہ لکھا ’’ مسیح موعود کے وقت میں طاعون کا پڑنا بائبل کی ذیل کی کتابوں میں موجود ہے :زکریا باب ۱۴ آیت ۱۲بائبل ۸۹۱، انجیل متی باب ۲۴ آیت ۸، مکاشفات باب ۲۲ آیت ۸،عہد نامہ جدید ص۲۵۹۔‘‘
اس عبارت میں ایک جھوٹ نہیں بلکہ خدا تعالی کی چار آسمانی کتابوں پر چار عدد جھوٹ ہیں ۔ مذکورہ کتب کے مذکورہ صفحات پر ہر گز مسیح موعود کے وقت طاعون کے پڑنے کا ذکر نہیں ہے ۔
مرزا ئی عذر
جب مرزائیوں سے سوا ل کیا جا تا ہے کہ قرآن مجید میں مسیح موعود کے وقت طاعون پڑنے کا ذکر کہاں ہے تو مرزا ئی جواب دیتے ہیں کہ قرآن مجید کی اس آیت میں مسیح موعود کے وقت میں طاعون پڑنے کا ذکر ہے اور یہ آیت پڑھتے ہیں :
’’ واذا وقع القول علیہم اخرجنا لھم دابۃ من الارض تکلمہم ……الخ‘‘ (پ۲۰ ، سورۃ النمل آیت ۸۲)
اور کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے اپنی کتاب نزول مسیح ص۳۸،۳۹،۴۰روحانی خزائن ص۴۱۶تا ۴۱۸ ج ۱۸ میں اس ’’ دابۃ الارض ‘‘ سے مراد طاعون لیا ہے اور مرزائی اس آیت کو طاعون پر اس طرح چسپاں کرتے ہیں کہ دابۃ الارض سے مراد چوہا ہے جو زمین سے نکلے گا اور تکلمھم کا مطلب ہے کہ ان کو کاٹے گا۔
﴾جواب اول
کسی مفسر ، کسی محدث،کسی مجدد نے یہاں دابۃ سے مراد طاعون اور طاعون کا چوہا نہیں لیا ، یہ مرزا کا اپنا افترا ء ہے ہم بلا خوف تردید قادیانی امت کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ تیرہ صدیوں کے کسی مجدد کا نام پیش کریں جس نے اس آیت میں دابۃ الارض سے مراد طاعون لیا ہو ۔
﴾جواب ثانی
اگر بالفرض تمہاری یہ من گھڑت تفسیر مان بھی لی جائے تو اس میں یہ کہاں لکھا ہے کہ یہ طاعون مسیح موعود کے وقت میں پڑے گا؟ تقریب تام نہیں ہے ۔
﴾جواب ثالث
خود مرزا غلام احمد قادیانی نے اس آیت کی متعدد تفسیریں بیان کی ہیں۔ اپنی کتاب(ازالہ اوہام ج۲ ص۲۰۹ ، روحانی خزائن ص۳۷۰ ج۳) پر لکھتا ہے :
’’ واذا وقع القول علیہم اخرجنا لھم دابۃ من الارض……الخ‘‘ ﴿ پ۲ اَلنمل ۸۲﴾یعنی جب ایسے دن آئیں گے جب کفار پر عذاب نازل ہواور ان کا وقت مقرر قریب آجائے تو ایک گروہ دابۃ الارض کا زمین سے نکالیں گے وہ گروہ متکلمین کا ہوگا جو اسلام کی حمایت میں تمام ادیان باطلہ پر حملہ کرے گا یعنی وہ علما ء ظاہر ہوں گے جن کو علم کلام اور فلسفہ میں ید طولیٰ ہوگا۔‘‘
اس عبارت میں خود مرزا نے دابۃ الارض سے مراد متکلمین و علماء ظاہر لئے ہیں ۔ معلوم ہوا دابۃ الارض سے مراد طاعون و طاعون کا چوہا نہیں ہے ۔
اسی طرح اپنی کتاب’ حمامۃ البشریٰ ‘ میں دابۃ الارض سے مراد علماء سوء لیا ہے :
’’ ان المراد من دابۃ الارض علماء سوء الذین یشھدون باقوالھم ان الرسول حق والقرآن حق ثم یعملون الخبائث ویخدمون الدجال کان وجودھم من الجزئین جزء مع الاسلام وجزء مع الکفر اقوالھم کاقوال المومنین وافعالھم کافعال الکافرین فاخبر رسول اﷲ ﷺ عن ان ھم یکثرون فی آخر الزمان وسموا دابۃ الارض لانہم اخلدو الی الارص وما ارادوان یرفعوا الی السماء ……الخ ‘‘
(حمامۃ البشریٰ ص۸۶، روحانی خزائن ص۳۰۸ج۷ )
یہاں مرز اصاحب نے دابۃ الارض سے مراد علماء سوء یعنی منافقین کو لیا ہے پھر اس سے مراد طاعون کا چوہا کیسے ہوگیا ، کہاں علماء سوء کہاں علماء متکلمین اور کہاں طاعون کا چوہا، اوریہ تین اقوال آپس میں متضاد ہیں ۔ ایک ہی آیت کی تین تفسیریں مرز اصاحب کے کذاب اور منافق ہونے کی واضح دلیل ہیں اور مرزا خود تسلیم کرتاہے کہ
جاہل ، پاگل ، مجنون منافق کے کلام میں تضاد ہوتا ہے ۔( ست بچن ص۳۱، روحانی خزائن ص ۱۴۳ج۱۰) معلوم ہوا کہ خود مرزا صاحب جاہل ، پاگل ، مجنون اور منافق ہیں۔
مذکورۃ الصدر حمامۃ البشریٰ کی عبارت میں ایک او رجھوٹ بھی ہے کہ یہ ’’فاخبر رسول اﷲ ﷺ ‘‘ سے شروع ہوتا ہے ہم پوچھتے ہیں کہ حضو ر ﷺ نے یہ کس حدیث میں خبر دی ہے وہ حدیث پیش کریں ۔ یہ حضور ﷺ پر صریح افتراء اور بہتان ہے۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا :’’ من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعد ہ من النار ‘‘
’’ یعنی جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا پس وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے ‘‘ لہذا یہ جھوٹ بول کر بھی مرزا جہنمی ہوا۔
﴾جھوٹ نمبر ۴
’’ ہمارے نبی اکرم ﷺ نے اور نبیوں کیطرح ظاہری علم کسی استاد سے نہیں پڑھا مگر عیسی علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام مکتبوں میں بیٹھے تھے اور حضرت عیسیٰ نے ایک یہودی استاد سے تمام توراۃ پڑھی تھی ……۔ سو آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا سو اس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا اور قرآن و حدیث میں کسی استاد کا شاگرد نہیں ہو گا سو میں یہ حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی حال ہے کوئی ثابت نہیں کرسکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن وحدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہویا کسی مفسر یا محدث کی شاگردی اختیا ر کی ہو۔‘‘
(ایام صلح ص۱۴۷، روحانی خزائن ص۳۹۴ ج ۱۴)
یہ صریح جھوٹ ہے ۔ حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہماالسلام نے کون سے مکتبوں میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کی ؟ یہ ان انبیا ء پر صریح الزام ہے ، قرآن و احادیث صحیحہ سے ثابت کرو کہ حضرت عیسیٰ نے کون سے یہودی عالم سے توراۃ پڑھی تھی ۔ حالانکہ قرآن پاک میں ہے ’’ ویعلمہم الکتاب والحکمۃ والتوراۃ والانجیل ‘‘ یعنی میں خود ان کو تعلیم دوں گا اسی طرح قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے۔
’’ واذاعلمتک الکتاب والحکمۃ والتوراۃ والانجیل ‘‘ اور جب میں
نے کتاب اور حکمت توراۃ وانجیل سکھائی۔ (پ۷ سورۃ المائدۃ آیت ۱۱۰ رکوع ۱۰)
اس میں بھی تعلیم کی نسبت خدا تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے آگے جو اپنے بارے میں لکھا ہے کہ میرا یہی حال ہے ……الخ ۔یہ بھی صاف جھوٹ ہے ہم ثابت کرتے ہیں کہ مرزا کے متعدد اساتذہ تھے۔کتاب البریۃ ص۱۶۱ تا ۱۶۳،روحانی خزائن ص۱۸۰ ۔ ۱۸۱ ج۱۳ کے حاشیہ پر اس کے اپنے ہاتھوں سے اس کی تعلیم کا حال موجود ہے جیسا کہ شروع میں گذر چکا ہے۔
مرزائی عذر
مرزائی ان ہر دوحوالوں میں تاویل کرکے تطبیق کرتے ہیں کہ یہ سفید جھوٹ نہیں ہے جو پڑھا ہے اس سے مراد قرآن کے ظاہری الفاظ ہیں اور جہاں لکھا کہ نہیں پڑھا اس سے مراد معارف ومعانی ہیں۔
﴾جواب
یہ تاویل درج ذیل متعدد وجوہ سے غلط ہے۔
وجہ اول
مرزا غلام احمد نے اپنے حال کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے حال سے تشبیہ دی ہے کیا حضور ﷺ نے بھی ظاہری الفاظ کسی استاد سے پڑھے تھے؟ یہ اس کا تشبیہ دینا بتارہا ہے کہ وہ خود یہاں ظاہری الفاظ ومعانی وغیرہ کا فرق مراد نہیں لے رہا ۔
وجہ ثانی
اس سے معارف و معانی مراد لینا غلط ہے کیونکہ اس نے خود تین چیزیں بیان کیں : ۱) قرآن ۲) حدیث ۳) تفیسر معارف ومعانی تو تفسیر میں ہوتے ہیں یہ اس کا علیحدہ علیحدہ بیان کرنا یعنی ایک جگہ قرآن بولنا اور آگے تفسیر بولنا اس پر دال ہے کہ وہ ظاہری الفاظ و معارف دونوں کی نفی کر رہا ہے کہ دونوں میں میرا استاد کوئی نہیں ۔
وجہ ثالث
اس عبار ت میں یہ تاویل کرنا کہ اس سے مراد معارف و معانی ہیں ٹھیک نہیں ہے کیونکہ اس میں اس نے قسم اٹھائی ہے ’’ سو میں یہ حلفاً کہہ سکتا ہوں ……الخ‘‘ او رقسم میں ظاہر معنی مراد ہوتا ہے وہاں تاویل استثناء وغیرہ نہیں چل سکتے مرزا صاحب نے خود قسم کے متعلق اصول بیان کیا ہے ،یہ بڑا اہم اصول ہے جو ہمیں نزول مسیح کی احادیث میں بھی کام دے گا ۔ جہاں نبی کریم ﷺ نے قسم اٹھا کر ایک مضمون بیان فرما یا ہے اسی طرح یہاں بھی یہ اصول کام دے گا۔
اور ایک جگہ مرزا کا ایک مرید مرزا کی صفت میں یہ شعر کہتاہے :
خدا سے تو خدا تجھ سے ہے واﷲ
تیرا رتبہ نہیں آتا بیاں میں
مرزائی اس کی تاویل کرتے ہیں مگر چونکہ یہاں اس نے واﷲ کے لفظ سے قسم اٹھا دی اس لے تاویل نہیں چل سکے گی اس طرح یہ اصول بیشمار مواقع میں کام دے گا اصول یہ ہے ۔
’’ والقسم یدل علی ان الخبر محمول علی الظاھر لاتاویل فیہ ولا استثناء والا فای فائدۃ کانت فی ذکر القسم ‘‘
(حمامۃ البشریٰ ص۲۶ حاشیہ روحانی خزائن ص۱۹۲ج۷)
علاوہ ازیں خود مرزا صاحب نے تسلیم کیا ہے کہ تمام انبیا ء کا کوئی استاد اور اتالیق نہیں ہوتا ۔
’’اور تمام نفوس قدسیہ انبیاء کوبغیر کسی استاد اور اتالیق کے آپ ہی تعلیم اور تادیب فرما کر اپنے فیوض قدیمہ کا نشان ظاہر فرمایا۔‘‘
( دیباچہ براہین احمدیہ ص ۷ روحانی خزائن ج۱ ص۱۶)
﴾جھوٹ نمبر ۵
’’ احادیث صحیحہ میں آیاتھا کہ مسیح موعود صدی کے سر پر آئے گا اور چودہویں صدی کا مجدد ہوگا۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص ۱۸۸،روحانی خزائن ج۲۱ ص ۳۵۹)
جبکہ (کتاب البریہ ص ۱۸۷۔۱۸۸ بر حاشیہ روحانی خزائن ج۱۳ ص۲۰۵۔۲۰۶ )کی عبارت یہ ہے۔
’’ بہت سے اہل کشف نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر خبر دی تھی کہ وہ مسیح موعود چودہویں صدی کے سر پر ظہور کرے گا اور یہ پیش گوئی اگرچہ قرآن شریف میں صرف اجمالی طورپر پائی جاتی ہے مگر احادیث کی رو سے اس قدر تواتر تک پہنچی ہے کہ جس کا کذب عندالعقل ممتنع ہے ۔‘‘
احادیث جمع کثر ت ہے اس لئے کم ازکم دس احادیث صحیحہ متواترہ دکھاؤ جن میں مسیح موعود کے چودھویں صدی کے سر پر آنے کے الفاظ وغیرہ موجود ہوں مگر ہمارا دعویٰ ہے کہ مرزائی امت تا قیامت کوئی ایک بھی صحیح حدیث نہیں دکھا سکتی ۔
﴾جھوٹ نمبر ۶
’’ اگر احادیث کے بیان پر اعتبار ہے تو پہلے ان حدیثوں پر عمل کرنا چاہیے جو صحت اور وثوق میں اس حدیث پر کئی درجہ بڑھی ہوئی ہیں مثلاً صحیح بخاری کی وہ حدیثیں جن میں آخری زمانہ میں بعض خلیفوں کی نسبت خبر دی گئی ہے خاص کر وہ خلیفہ جس کی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کیلئے آواز آئے گی کہ:’’ ھذا خلیفۃ اﷲ المہدی‘‘ اب سوچو کہ یہ حدیث کس پایہ اور مرتبہ کی ہے جو ایسی کتاب میں درج ہے جو اصح الکتب بعد کتاب اﷲ ہے ۔‘‘ (شہادۃ القرآ ن ص ۴۱،روحانی خزائن ص۳۳۷ج۶)
جھوٹ بالکل جھوٹ ! بخاری شریف میں اس قسم کی کوئی حدیث نہیں ۔ ھاتوا برہانکم ان کنتم صادقین ۔
قادیانی عذر اور ان کے جواب
۱) ا سکے متعلق قادیانی جواب دیتے ہیں کہ یہ حدیث کنزالعمال میں موجود ہے مگر ہمارا سوال یہ ہے کہ بخاری شریف سے دکھاؤ۔کیونکہ مرزا نے بخاری شریف کا حوالہ دیا ہے
۲) بعض دفعہ وہ ہمارے بعض علماء کے اس قسم کے حوالہ جات پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے بھی غلط حوالہ دیا ۔ جواب یہ ہے کہ کیاان کے غلط حوالہ دینے سے مرزا کی بات سچی بن جائیگی ؟ہر گز نہیں ۔
۳)ہمارے کسی عالم نے بطور استدلال اتنے زور سے غلط حوالہ نہیں دیا، عام حوالہ کا غلط ہوجانا اور بات ہے مگر اتنی تحدی اور زور شور سے حوالہ دینا اور پھر غلط دینا یہ دھوکہ اور فریب ہے ۔
۴) اگر وہ کہیں کہ نسیاناً لکھا گیا تو پھر اس کی معذرت ہونی چاہیے ۔ مرزا صاحب سے اس کی معذرت دکھاؤ اور کوئی سچا نبی نسیان پر قائم رہ نہیں سکتا۔ نسیان کا وقوع اور چیز ہے اس پر استقلال اور چیز ہے ۔
۵) اگر وہ چالاکی سے کہیں کہ مرزا صاحب کی غلطی نہیں بلکہ کاتب کی غلطی ہے تو جواب یہ کہ آگے آئے الفاظ ’’ اصح الکتب بعد کتاب اﷲ ‘‘ وغیرہ اس کی تردید کرتے ہیں ۔
﴾جھوٹ نمبر ۷
’’ تین شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآن شریف میں درج کیا گیا ہے ۔ مکہ ، مدینہ اور قادیان ۔‘‘ (ازالہ اوہام بر حاشیہ ص۳۴، روحانی خزائن ص ۱۴۰ ج۳)
لعنۃ اللہ علی الکاذبین۔ یاد رہے مرزا قادیانی کو بھی ہی مسلم ہے کہ کشف و رؤیا انبیاء وحی ہوتے ہیں۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ ص۱۵، ج۵ و روحانی ص۱۶۹، ج۲۱ و آئینہ کمالات اسلام ص۹۲)
﴾جھوٹ نمبر ۸
’’ وقد سبونی بکل سب فمارددت علیہم جوابہم ‘‘
ترجمہ:مجھ کو گالی دی گئی میں نے جواب نہیں دیا
(مواہب الرحمن ص۱۸ طبع اول ص۲۰ طبع دوم۔ روحانی خزائن ص۲۳۶ ج۱۹)
یہ بالکل جھوٹ ہے کہ میں نے لوگوں کی گالیوں کا جواب نہیں دیا بلکہ خود مرزا صاحب نے تسلیم کیا ہے کہ میرے سخت الفاظ جوابی طور پر ہیں ابتدا سختی کی مخالفوں کی طرف سے ہے ۔
(کتاب البریۃ دیباچہ ص۱۰، روحانی خزائن ص ۱۱ ج۱۳)
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از قلم غلام نبی قادری نوری
ریپلائی کیجیئے