مرزا کی تہذیب و شرافت
مرزا کی گالیوں کے مطالعہ سے پہلے گالیوں سے متعلق اس کے اپنے چند فتاویٰ لکھے جاتے ہیں جن میں اس نے گالی دینے کی سخت مذمت کی ہے۔
۱) ’’ اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو۔ ‘‘ (کشتی نوح ج۱۹ ص ۱۱)
۲) ’’ خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسو ل کو یعنی اس عاجز کو ہدایت اور دین حق اور تہذیب اخلاق کے ساتھ بھیجا۔‘‘ (اربعین ۳ص۳۶ ،روحانی خزائن ج۱۷ص۴۲۶)
۳) ’’ گالیاں اور بد زبانی کرنا طریق شرافت نہیں ہے ۔‘‘
(اربعین ۴ص۵،روحانی خزائن ج۱۷ص۴۷۱)
۴) ’’ گالیاں سن کردعا دو ، پا کے دکھ آرام دو
کبر کی عادت جو دیکھو ،تم دیکھاؤ انکسار ‘‘
(براہین احمدیہ ج۵ص۱۱۴، روحانی خزائن ج۲۱ص۱۴۴)
اب مرز اصاحب کی گالیوں کے چند نمونے ملاحظہ فرمالیں ۔
۱) ’’ تلک کتب ینظر الیہا کل مسلم بعین المحبۃ والمودۃ ویتنفع من معارفہا ویقبلنی ویصدق دعوتی الا ذریۃ البغایا الذین ختم اﷲعلی قلوبہم فہم لا یقبلون ۔ ‘‘
(ترجمہ:میری ان کتابوں کو ہر مسلمان محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور ان کے علوم سے فائدہ اٹھاتا ہے اور مجھے قبول کرتا ہے اور میرے دعویٰ کی تصدیق کرتا ہے مگر کنجریوں کی اولاد ،جن کے دلوں پر اﷲ نے مہر لگادی ہے پس وہ قبول نہیں کرتے ۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص ۵۴۷، ۵۴۸،روحانی خزائن ج۵ص۵۴۷،۵۴۸)
۲) مولوی سعداﷲ لدھیانوی کے متعلق چند اشعارملاحظہ فرمائیں
ومن اللئام اری رجیلا فاسقا غولا لعینا نطفۃ السفھاء
ترجمہ: اور لئیموں میں سے ایک فاسق معمولی آدمی کو دیکھتاہوں کہ ایک شیطان ملعون ہے ، سفیہوں کا نطفہ ہے ۔
شکس خبیث مفسد و مزور
نحس یسمی السعد فی الجہلاء
ترجمہ : یہ بدگو اور خبیث اور مفسد اور جھوٹ کو ملمع کرکے دکھانے والا منحوس ہے جس کا نام جاہلوں نے سعداﷲ رکھا ہے ۔
آذیتنی خبثا فلست بصادق ان لم تمت بالخزی یا ابن بغاء
ترجمہ : تو نے اپنی خباثت سے مجھے د کھ دیا ہے پس میں سچا نہیں ہوں گا اگر ذلت کے ساتھ تیری موت نہ ہو اے نسل بدکاراں ۔
(تتمہ حقیقت الوحی ص ۱۴،۱۵، روحانی خزائن ص۴۴۵،۴۴۶ج۲۲)(انجام آتھم ص۲۸۱،۲۸۲ روحانی خزائن ص۲۸۱،۲۸۲ ج ۱۱)
نوٹ: بغایا ،بغیہ کی جمع ہے جس کا معنی ہے بدکار عورت جیسا کہ قرآن کریم میں ہے :’ ’وماکانت امک بغیا‘‘ او رباغی جس کا معنی سرکش ہے اس کی جمع بغاۃ ہے ۔
فائدہ: ذریۃ البغایا کا ترجمہ خود مرزا نے خراب عورتوں کی نسل ، بازاری عورتیں اورکنجریوں کا بیٹا کیا ہے ۔ ( نورالحق حصہ اول ص۱۲۲، روحانی خزائن ص ۱۶۳ ج ۸، انجام آتھمج۱۱ ۲۸۲روحانی خزائن ص۲۸۲ ج۱۱ ، خطبہ الہامیہ ص ۱۶ روحانی خزائن ص۴۹ ج۱۶)
مرزا قادیانی کے اپنے بیٹے نے اس کو نہیں مانا اور مرزا قادیانی کی حیات میں مرا۔ قادیانی بتائیں گے کہ کیا ان کی پہلی ام المومنین بھی “فاخشہ” تھی؟
’’ اے بدذات فرقہ مولویان تم کب تک حق چھپاؤ گے ، کب وہ وقت آئے گا کہ تم یہودیا نہ خصلت چھوڑ و گے اے ظالم مولویو تم پر افسوس کہ تم نے جس بے ایمانی کا پیالہ پیا وہی عوام کا لانعام کو بھی پلایا۔‘‘(انجام آتھم ص۱۹ برحاشیہ روحانی خزائن حاشیہ ص۲۱ ج۱۱)
۴) ’’ مگر کیا یہ لوگ قسم کھا لیں گے ہر گز نہیں کیونکہ یہ جھوٹے ہیں اور کتوں کی طرح جھوٹ کا مردار کھا رہے ہیں ۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص ۰ ۲۵ ، روحانی خزائن ص۳۰۹ج۱۱)
۵) ’’ بعض جاہل اور فقیری سجادہ نشین اور مولیت کے شتر مرغ‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص ۱۸۰، روحانی خزائن ص۳۰۲ج۱۱)
۶) ان العدا صاروا خنازیر الفلا
ونسائھم من دونھن الا کلب
ترجمہ : دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہوگئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں (نجم الہدیٰ ص ۵۳، روحانی خزائن ج ۱۴ ص۵۳)
یعنی میرے مخالف جنگلوں کے سؤر ہیں اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ کر ہیں ۔
مرزائی اگر مرزا قادیانی کے جھوٹوں کے جواب میں یہ کہیں کہ العیاذباﷲ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی تین جھوٹ بولے تھے جیسا کہ بخاری شریف میں ہے تو مرزا صاحب کے جھوٹ بھی اسی طرح کے ہیں تو اس کے دو جواب ہیں۔
﴾جو جھوٹ ہم نے مرزا قادیانی کے پیش کئے ہیں وہ واقعتاً جھوٹ ہیں جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کلام تو توریہ اور تعریض کے طور پر ہے وہ حقیقت میں جھوٹ ہے۔
ہے نہیں سمجھنے والوں کی غلطی ہے ورنہ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو کلام کیا ہے وہ مبنی پر حقیقت ہے جیسا کہ شراح حدیث نے اسکی وضاحت کردی ۔
﴾مرزا قادیانی نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی نسبت اس راویت کی رو سے جھوٹ کا الزام لگانے والوں کو خبیث شیطان پلید مادہ والاکہا ہے اس نے لکھا :
’’ حضرت ابراہیم کی نسبت یہ تحریر شائع کرے کہ مجھے جس قدر ان پر بد گمانی ہے اس کی وجہ ان کی دروغ گوئی ہے تو ایسے خبیث کی نسبت اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ اس کی فطرت ان پاک لوگوں کی فطرت سے مغائر پڑی ہوئی ہے اور شیطان کی فطرت کے موافق اس کا پلید مادہ اور خمیر ہے ۔‘‘
( مرزا کی کتاب آئینہ کمالات اسلام ص۵۹۸روحانی خزائن ج۵ص۵۹۸)
اس بحث سے قبل خود مرزا صاحب ہی کے قلم سے لکھے ہوئی چند ایک اصول ملاحظہ فرمائیں۔
اصول نمبر ۱
’’ بد خیال لوگوں کو واضح ہو کہ ہمارا صدق و کذب جانچنے کیلئے ہماری پیش گوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان نہیں ۔ ‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص ۲۸۸ ،روحانی خزائن ص ۲۸۸ ج۵)
اصول نمبر ۲
علاوہ اس کے جن پیش گوئیوں کو مخالف کے سامنے دعویٰ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے وہ ایک خاص طور کی روشنی او رہدایت اپنے اندر رکھتی ہیں اور ملہم لوگ حضرت احدیت میں خاص طور پر توجہ کرکے ان کا زیادہ تر انکشاف کرالیتے ہیں ۔(ازالہ اوہام ص۴۰۴،روحانی خزائن ص۳۰۹ ج۳)
ان دواصولو ں کے بعد ہم کہتے ہیں کہ کوئی ایک پیش گوئی مرزا صاحب کی پیش کرو جس کو دشمن کے سامنے بطور دعویٰ پیش کیا ہو اور پھر وہ پوری ہوئی ہو۔
ہمارا دعویٰ ہے کہ وہ ایک دعویٰ میں بھی سچا نہ ہوا اور بقول اپنے رسوا اور ذلیل ہوا۔
چنانچہ( تریاق القلوب ص۲۵۴ روحانی خزائن ص۳۸۲ ج۱۵) پر لکھا ہے۔
’’ اور باوجود میرے اس اقرار کے یہ بات بھی ظاہر ہے کہ کسی انسان کا اپنی پیش گوئی میں جھوٹا نکلنا خود تمام رسوائیوں سے بڑھ کررسوائی ہے ۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ اس کی رسوائی کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ کسی ایک پیش گوئی میں جھوٹا ثابت ہوجائے بفرض محال اس کی کچھ پیش گوئیاں سچی بھی نکلیں تو وہ اس کے دعویٰ کی صداقت کی دلیل نہیں بن سکتیں ایسے تو بہت سے منجموں کی پیش گوئیاں بھی سچی نکلتی رہتی ہیں ہاں کسی ایک پیش گوئی کا جھوٹا نکلنا اس کے کاذب ہونے کی صریح دلیل ہے ۔
﴿نوٹ﴾ مرزا صاحب کی جھوٹی پیش گوئیاں بیان کرنے سے قبل قرآن مجید کی یہ آیت بار بار پڑھنی چاہیے :
’’ فلا تحسبن اﷲ مخلف وعدہ رسلہ ان اﷲ عزیز ذوانتقام‘‘
یعنی خدا تعالیٰ کو اپنے رسولوں کے ساتھ وعدہ خلافی کرنے والاگمان نہ کر ، اﷲ غالب اور انتقام لینے والاہے ۔
’’ اور آج رات مجھ پر کھلا ہے وہ یہ کہ جب میں نے بہت تضرع سے جناب الٰہی میں دعا کی تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجزبندے ہیں تیرے فیصلے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے اس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طورپر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجزانسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک ماہ سے لیکر پندرہ ماہ تک ہا ویہ میں گرایا جائے گااور اس کو سخت ذلت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جوشخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی اور اس وقت جو پیش گوئی ظہور میں آئے گی بعض اندھے سجا کھے کیے جائیں گے اور بعض لنگڑے چلنے لگیں گے اور بعض بہرے سننے لگیں گے اس طرح اﷲ تعالیٰ نے جوارادہ فرمایا ہے سوالحمدﷲ والمنہ کہ اگر یہ پیش گوئی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ظہور نہ فرمائی توہمارے یہ پندرہ دن ضائع گئے تھے۔میں اس وقت اقرار کرتا ہوں اگر یہ پیش گوئی جھوٹی نکلی یعنی وہ فریق جو خدا تعالیٰ کے نزدیک جھوٹ پر ہے وہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے سزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہرایک سزا اٹھانے کیلئے تیار ہوں مجھ کو ذلیل کیاجائے ، روسیاہ کیا جائے ، میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جائے مجھ کو پھانسی دی جائے ہرایک بات کیلئے تیار ہوں اور میں اﷲ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا ضرور کرے گا ضرور کرے گا زمین وآسمان ٹل جائیں ، پر اس کی باتیں نہ ٹلیں اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لئے سولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں ، بدکاروں او رلعینوں سے مجھے زیادہ لعنتی قرار دو۔‘‘ (جنگ مقدس ص۲۰۹تا ۲۱۱ ، روحانی خزائن ص۲۹۱ تا ۲۹۳ ج۶)مرزا صاحب کی یہ پیش گوئی عبداﷲ آتھم پادری کے متعلق ہے ۔
مرزا نے اس سے ۱۸۹۳ء میں مناظرہ کیا ۔پندرہ دن برابر مناظرہ ہوتا رہا نتیجہ یہ ہوا کہ مرزا شکست کھا گیاپھر گھر آکر بتاریخ ۵ جون ۱۸۹۳ء اس کے متعلق یہ پیش گوئی گھڑ دی کہ وہ جتنے دن مناظرہ ہوتا رہا اتنے ماہ کے اندر اندر ہلاک ہوگا اگر ہلاک نہ ہوا تو میں جھوٹا ہوں گا ۔اس پر عبداللپ آتھم نے پندرہ ماہ خوب احتیاط سے گذارے اپنا کھانا وغیرہ خود پکاتا تھا ،آخر کار پندرہ ماہ ۵ ستمبر ۱۸۹۴ء کو مکمل ہوئے مگر آتھم پادری نہ مرا۔
اس کے بعد عیسائیوں نے بٹالہ کے مقام پر عبداﷲ آتھم کوہاتھی پر سوار کرکے ایک عظیم الشان جلوس نکالا ۔مرزا غلام احمد قادیانی کا پتلا بنا کر اس کا منہ کالا کرکے اس کے گلے میں رسہ ڈال کر اس کو پھانسی دی پھر جلا کر دفن کیا۔
اب ہم مرزائیوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ پیش گوئی پوری ہوئی اور پندرہ ماہ کے اندر عبداﷲ آتھم ہلاک ہوا ؟؟؟ ہر گزایسا نہیں ہوا، اور مرزا اپنی اس پیش گوئی میں دوسری پیش گوئیوں کی طرح ذلیل و رسوا ہوئے ۔
واضح رہے کہ عبداﷲ آتھم کا انتقال ۲۷ مئی۱۸۹۶ء کو ہوا جبکہ مرزا کی پیش گوئی کی مدت گذر چکی تھی ۔(نزول المسیح ص۱۶۸،روحانی خزائن ج۱۸ص۵۴۶)
مرزائی عذر
’’عبداﷲ آتھم نے اس مجلس میں ساٹھ ستر آدمیوں کے سامنے جناب نبی اکرم ﷺ کو دجال کہنے سے رجوع کرلیا تھا ۔‘‘ (خلاصہ عبارت حاشیہ حقیقت الوحی ص۲۰۷،روحانی خزائن ص ۲۱۶ج۲۲)
﴾جواب نمبر۱
اگر اسی وقت اس نے رجوع کرلیا تھا تو مرزا کو اسی وقت اسی مجلس میں اعلان کرنا چاہیے تھا کہ چونکہ اس نے رجوع کرلیا ہے لہذا میری پیش گوئی میں کوئی حرج نہیں آئے گا بلکہ میری پیش گوئی پوری ہوگئی حالانکہ مرزا صاحب کو بعد میں بھی یقین نہیں تھا کہ یہ پیش گوئی پوری ہوگئی یا نہیں ۔ اسی لئے تو مرزا صاحب نے اسکی ہلاکت کیلئے وظائف و دعائیں کیں اور واویلا کیا وغیرہ ۔چنانچہ دیکھیں
’’ بسم اﷲ الرحمن الرحیم بیان کیا مجھ سے میاں عبداﷲ صاحب سنوری نے کہ جب آتھم کی میعادمیں صرف ایک دن باقی رہ گیا تو حضرت مسیح علیہ السلام نے مجھے اور میاں حامد علی مرحوم سے فرمایا کہ اتنے چنے (تعداد یا د نہیں رہی کہ کتنے چنے آپ نے بتائے) لے لو اور ان پر فلاں سورت کا وظیفہ اتنی تعداد میں پڑھو (مجھے وظیفہ کی تعداد بھی یاد نہیں رہی )میاں عبداﷲ بیان کرتے ہیں کہ مجھے وہ سورت یاد نہیں مگر مجھے اتنا یاد ہے کہ کوئی چھوٹی سی سورت تھی جیسے الم ترکیف ……الخ ۔ اور ہم نے یہ وظیفہ تقریباً ساری رات صرف کرکے ختم کیا۔‘‘ ( سیرۃ المہدی حصہ اول ص۱۷۸ و حصہ دوم ص ۱۲۱ حدیث نمبر ۱۶۰)
﴾جواب نمبر۲
مرزا بشیر الدین محمود اس اعتراض کے جواب میں کہ تیری دعائیں قبول نہیں ہوئیں لکھتا ہے کہ حضرت صاحب کی بھی قبول نہیں ہوئی تھیں۔
چنانچہ دیکھئے الفضل 20 جولائی 1940
’’ آتھم کے متعلق پیش گوئی کے وقت جماعت کی جوحالت تھی وہ ہم سے مخفی نہیں ۔ میں اس وقت چھوٹا سابچہ تھا اور میری عمر کوئی ساڑھے پانچ برس کی تھی مگر وہ نظارہ مجھے خوب یاد ہے کہ جب آتھم کی پیش گوئی کا آخری دن آیا تو کتنے کرب واضطرار سے دعائیں کی گئیں میں نے محرم کا ماتم بھی اتناسخت نہیں دیکھا ، حضرت مسیح موعود ایک طرف دعا میں مشغول تھے……الخ۔‘‘
مرزائی عذر نمبر۲
فریق سے مراد صرف عبدا ﷲ آتھم نہیں بلکہ تمام عیسائی ہیں جیسا کہ مرزا نے (انوار الاسلام ص ۲ روحانی خزائن ص۲ ج۹)میں لکھا ہے ۔
﴾جواب
مرزا صاحب نے خود مقدمہ میں تسلیم کیا ہے کہ فریق سے مراد صرف عبداﷲ آتھم ہے ، دیکھئے( کتاب البریہ ص۱۷۳ روحانی خزائن ص۲۰۶ ج۱۳)
’’ عبداﷲ آتھم کے متعلق ہم نے شرطیہ پیش گوئی کی تھی کہ اگر رجوع بحق نہ کرے گا تو مرجائے گا۔‘‘ (عبداﷲ آتھم کی درخواست پر پیش گوئی صرف اس کے واسطے کی تھی کل متعلقین مباحثہ کی بابت بحث نہ تھی)
مرزائی عذر نمبر ۳
’’عبداﷲ آتھم اس لئے نہیں مرا کہ وہ اندر سے مسلمان ہوگیا ……اگر وہ خوف زدہ نہیں ہوا اور رجوع بحق نہیں ہوا تھاتو مباہلہ کرے اور قسم اٹھائے ‘‘ (کتاب البریہ ۱۲۴ روحانی خزائن ج۱۳ ص ۱۹۶)
الجواب
اگر عبداﷲ آتھم نے رجوع کرلیا تھا توسوال پیدا ہوتا ہے کہ رجوع پندرہ ماہ کے اندر کیا تھا یا بعد میں ؟؟ اگر مدت کے اندر کیا تھاتو مرزا صاحب نے اعلان کیوں نہیں کیا تھا اگر پندرہ ماہ کے بعد رجوع کیا تھا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اسے تو پندرہ ماہ کے اندر مرنا تھا ۔ نیز اگر رجوع کرلیا تھا تو چنے کے دانے کیوں پڑھائے ، دعائیں کیوں کیں ، اور عیسائیوں نے فتح کا اتنا بھرپو ر جشن کیوں منایاتھا۔ رہی بات قسم کا نہ اٹھانا تو وہ اسلئے قسم نہیں اٹھا سکتا تھا کیونکہ عیسائی مذہب میں ہر قسم کی قَسم ناجائز ہے۔ دیکھئے
’’ پھر تم سن چکے ہوکہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ تم جھوٹی قسمیں نہ کھانا بلکہ اپنی قسمیں خداوند کیلئے پور ی کرنالیکن میں تم سے کہتاہوں کہ بالکل قسم نہ کھانا نہ تو آسمان کی کیونکہ وہ خدا کا تخت ہے ، نہ زمین کی کیونکہ وہ اس کے پاؤں کی چوکی ہے نہ یروشلم کی کیونکہ وہ بزرگ بادشاہ کا شہر ہے نہ اپنے سر کی قسم کھانا کیونکہ تو ایک بال کوبھی سفید یا کالا نہیں کرسکتا بلکہ تمہارا بھرم ہاں ہاں یا نہیں نہیں ہو کیونکہ جو اس سے زیادہ ہے وہ بدی ہے ۔‘‘(انجیل متی باب ۵ص۸،آیت نمبر ۳۴،۳۵ )
علاوہ ازیں خود مرزا صاحب کو بھی اس حقیقت سے مفرنہیں کہ مذہب عیسائیت میں ہر قسم کی قَسم کی ممانعت ہے چنانچہ خود مرزا صاحب ا س حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’ قرآن تمہیں انجیل کی طرح نہیں کہتا کہ ہر گز قسم نہ کھاؤ بلکہ بے ہودہ قسموں سے تمہیں روکتا ہے ۔‘‘ (کشتی نوح ص۲۷ روحانی خزائن ص۲۹ ج ۱۹)
معلوم ہوا عبداﷲ آتھم کا قسم سے انکار اپنے مذہب کی بنا پر تھا ۔جیسا کہ مرزا کا سؤر خوری سے انکار اپنے مذہب کی بنا پر تھا۔ (کتاب البریہ ص۱۶۳ ، روحانی خزائن ج۱۳ ص۱۹۶)
مرزا نے اشتہار جاری کئے کہ اگر وہ خوف زدہ نہیں ہوا اور رجوع بحق نہیں ہوا تو مباہلہ کرے اور قسم اٹھائے عبداﷲ آتھم نے قسم اٹھانے سے انکار کیا کہ مسیحی مذہب میں قسم کھانا منع ہے تب ہم نے اس اشتہار حرف ’ Q‘جاری کیا تھا کہ مرزا خو ک (خنزیر)کا گوشت کھا کر ثابت کرے کہ وہ مسلمان ہے کیونکہ اور مسلمان اس کو مسلمان نہیں مانتے تب عبداﷲ آتھم کو یہ کہنا اس کے برابر ہوگا۔
مرز اصاحب اپنی موت کے متعلق پیش گوئی کرتے ہیں ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں (البشریٰ ص۱۵۵،تذکرہ جدیدص۵۹۱،تذکرہ قدیم نسخہ ص۵۸۴) ہمارا دعویٰ ہے کہ مکہ میں مرنا تو درکنا مرزا صاحب کو مکہ مدینہ دیکھنا نصیب نہ ہوا اور اس پیش گوئی میں بھی ذلیل و رسوا ہوا ۔ثبوت کیلئے دیکھیں (سیرۃ المہدی حصہ۳ ص۱۱۹) لکھا ہے۔
’’ ڈاکٹرمیر محمد اسماعیل نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود نے حج نہیں کیا اور نہ اعتکاف کیا اور زکواۃ نہیں دی ، تسبیح نہیں رکھی ، میرے سامنے ضب یعنی گوہ کھانے سے انکار کیا ۔‘‘
اس حوالہ سے معلوم ہوا کہ مرز اصاحب کو مکہ میں جانا نصیب نہ ہوابلکہ اسکی وفات لاہور میں بمرض ہیضہ لیٹرین کی جگہ پر ہوئی ۔(سیرۃ المہدی حصہ اول ص۱۱) کہاں مکہ اور مدینہ اور کہاں جائے حاجت(لیٹرین)
ببیں تفاوت راہ از کجا است تا بکجا
ریپلائی کیجیئے