مرزا نے اپنی صداقت میں قصیدہ اعجاز یہ پیش کیا اسکے علاوہ مرز ا کا اوربے شمار منظوم کلام بھی ہے جس کو ’’ در ثمین ‘‘ عربی اردو اور فارسی تین حصوں میں علیحدہ علیحدہ جمع کیا گیا ہے۔ حالانکہ شعر نبی کیلئے لائق نہیں بلکہ نبی کیلئے تہمت ہے اور کفار نا ہنجار نے رسول اﷲ ﷺ پر یہ تہمت لگائی
’’أئنالتارکوا الھتنا لشاعر مجنون‘‘ (پ۲۳سورۃ۲۷ آیت ۳۶ع۲)
اور خدا تعالیٰ نے اس کا جواب دیا :’’ وما علمناہ الشعر وما ینبغی لہ ‘‘ (پ۲۳،سورۃ یس آیت۶۹)
مرزاچونکہ جناب نبی اکرم ﷺ کے ظل اور بروز ہونے کا مدعی ہے ، لہذا اس کو بھی شعر کہنا زیب نہیں دیتا ۔ مرز ا کو کیا معلوم تھا کہ جس شاعری کووہ اپنا کمال سمجھ رہاہے وہی اس کے جھوٹے ہونے کا کھلا نشان بن جائے گا۔
باقی رسول اﷲ ﷺ سے جو موزوں کلام منقول ہے وہ شعر نہیں ہے وہ کلام اتفاقیہ موزوں ہوگیا ، جیسے ’’ ھل انت الااصبع دمیت وفیی سبیل اﷲ مالقیت ‘‘ یا جیسے ’’ اللھم لاعیش ال عیش الاخرۃ فاغفرالانصار والمھاجر ۃ ‘‘
ان کو اصطلاحاً شعرکہنا مناسب نہیں ہے ۔
شعر کی تعریف یہ ہے
’’ ھو کلام موزون یقصد بہ قال الشیخ السمعانی النظم ھو الکلام المقفی الموزون قصداً‘‘
یعنی شعر میں قصد اورارادہ شرط ہے جو بلا ارادہ و بلا قصد کلام موزوں ہوجائے اس کو شعر نہیں کہتے ۔
علاوہ ازیں مرز اصاحب نے اپنے اس قصیدے کو اعجازیہ کہا یعنی اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا مگر مولوی منت اﷲ مونگیری نے اس قصیدے کا جواب لکھ کراس کے اعجاز کو خاک میں ملادیا تھااورپیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی نے بھی اس قصیدہ کی اغلاط اور چوریاں بیان کیں تھیں لیکن اگر اس کا مقابلہ کوئی بھی نہ کرسکتا تو پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ وہ بجائے خود مرزا صاحب کے کذاب ہونے کی کھلی نشانی تھی ۔ جو چیز اصل (حضرت محمد مصطفیﷺ) میں ہونا عیب ہو ،وہ بروز (مرزا غلام احمد ) میں ہوناکمال کیسے ہوسکتی ہے؟ فافہم و تدبر۔
قرآنی اصول
قرآن مجید میں ہے’’ وما ارسلنا من رسول الابلسان قومہ ‘‘ (پ۱۳ سورۃ ابراہیم آیت ۴ ) کہ ہم نے ہر رسول کو اس کی زبان کے اندر وحی کی اور یہ اصول حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت محمد ﷺ تک قائم رہا ۔
اب سوچئے اگر مرز اخدا کا نبی تھا تو اس کی وحی بھی اس کی قوم کی زبان کے مطابق یعنی پنجابی یا اردو میں ہونی چاہیے تھی۔ مگر مرزائیوں کے قرآن (تذکرہ) کے اندر جو وحی مذکور ہے اس میں تقریباً د س زبانیں ہیں یہ تعدد السنۃ ہی مرزا کے کذاب ہونے کی صریح دلیل ہے علاوہ ازیں بھی مرزا پر بعض ایسی زبانوں میں بھی وحی ہوئی جن کو وہ خود بھی نہ جانتا تھا اور اپنی وحیوں کے ترجمے دوسروں سے سمجھتا تھا یہ بھی اس کے جھوٹا ہونے کی صریح دلیل ہے ۔
مرزائیو! کوئی نبی ایسا بتاؤ جسکے اوپر دوتین زبانوں میں وحی آئی ہو اور کوئی نبی بتاؤ جو اپنی وحی کا ترجمہ نہ جانتا ہو۔
مرزائی عذر نمبر ۱
یہ متعدد زبانوں کے اندر وحی ہونا مرزا صاحب کے کمال کی دلیل ہے نہ کہ ان کے جھوٹا ہونے کی ۔ جتنی زیادہ زبانوں میں وحی ہوگی وہ اس نبی کا کمال ہوگا۔
جواب
اول تو قرآنی ر وسے یہ کمال ہی نہیں کمال یہی ہے کہ اس کی اپنی قومی زبان کے اندر وحی ہو بفرض محال اگرکمال مانیں بھی تو اس وحی کو سمجھنا بھی کمال ہے اور مرزا اپنی بعض وحیوں کو سمجھ ہی نہیں سکتا تھا بلکہ دوسرے لوگوں سے ترجمہ پوچھتا تھا اور پھر اگر یہ کمال ہے تو گویا مرزا تمام انبیاء سے اس کمال میں سبقت لے گیا کیونکہ دیگر انبیاء کو تو صرف ایک ہی زبان میں وحی ہوتی تھی ۔
مرزائی عذر
مرزا صاحب چونکہ انٹرنیشنل نبی تھے اس لیے ان کے اوپر متعدد زبانوں میں وحی آئی ۔
جواب نمبر ۱
حضرت محمد مصطفی ﷺ انٹرنیشنل نبی تھے ان کے اوپر کیوں نہ متعدد زبانوں میں وحی آئی اور مرزا صاحب کا دعویٰ ہے کہ میں ان کا ظل اور بروز ہوں تو نبی ﷺ پر اتنی زبانوں میں کیوں نہ وحی آئی ؟ عجب بات ہے کہ اصل سے ظل اور بروز بڑھ جائے۔
جواب نمبر ۲
اس وقت دنیا میں تقریباً ساڑھے چار ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں اگر مرزا انٹرنیشنل نبی تھا تو پھر اس کو ساڑھے چار ہزار زبانوں میں وحی ہونی چاہیے تھی۔ مزید لطف کی بات یہ ہے کہ مرز ا صاحب پر بعض وحی ایسی بھی آئی جو لفظاً ولغۃً ٹھیک نہ تھی یہ بھی اس کے جھوٹا ہونے دلیل ہے۔
اس کے بارے میں مکمل تفصیلات (محمدی پاکٹ بک ص۶۴۹) پر ملاحظہ فرمائیں ۔
’ بخدمت جناب مولوی ثناء اﷲ صاحب السلام علی من ا تبع الھدیٰ۔ مدت سے آپ کے پرچہ اہل حدیث میں میری تکذیب وتفسیق کا سلسلہ جاری ہے ہمیشہ آپ مجھے اس پرچہ میں کذاب و دجال ، مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں ۔ میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایااو رصبر کرتا رہا اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہلاک ہوجاؤں گا اور اگر میں کذاب ومفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ اورمخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ آپ سنت اﷲکے موافق مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے جیسے طاعون ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں ، آپ پر میری زندگی میں وارد نہ ہویں تو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں۔ یہ کسی وحی یا الہام کی بنا ء پر پیش گوئی نہیں بلکہ محض دعا کے طور پر میں نے خدا تعالیٰ سے فیصلہ چاہا ہے ۔ اے میرے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اﷲ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کوخوش کردے ۔آمین!
بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ وہ میرے اس مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جوچاہیں اس کے نیچے لکھ دیں اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے ۔‘‘
الراقم عبدالصمد مرزا غلام احمد مسیح موعود
مرقومہ یکم ربیع الاوّل ۱۳۲۵ھ ،۱۵ ؍اپریل ۱۹۰۷ء
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸)
خدائی فیصلہ
اﷲ تعالیٰ کی نظروں میں چونکہ مرزا قادیانی کذاب و دجال اور جھوٹا تھا اس لیے اس دعاء کے پورے ایک سال ایک ماہ گیارہ دن بعد یعنی ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو مرزا ہیضہ کی مو ت سے لاہور میں مرگیا اور اﷲ تعالیٰ نے مولوی ثناء اﷲ صاحب اور ان کی جماعت اور تمام مسلمانوں کو خوش کردیا۔ مرزا کے مرنے کے بعد چالیس سال تک مولوی صاحب زندہ رہے اور ۱۹۴۸ء میں سرگودہا میں وفات پائی ۔
مرزا صاحب کا ہیضہ سے مرنا
حوالہ نمبر ۱
’’والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعودکو پہلا دست کھانا کھانے کے وقت آیا تھا مگر اس کے بعد تھوڑی دیر تک ہم لوگ آپ کے پاؤں دباتے رہے اور آپ آرام سے لیٹ کر سوگئے اور میں بھی سوگئی لیکن کچھ دیر کے بعد آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور غالباً ایک یا دودفعہ رفع حاجت کیلئے آپ پاخانہ تشریف لے گئے اس کے بعد آ پ نے زیادہ ضعف محسوس کیا آپ نے ہاتھ سے مجھے جگایا میں اٹھی تو آپ کو اتنا ضعف تھا کہ آپ میری چارپائی پرہی لیٹ گئے اور میں آپ کے پاؤں دبانے کیلئے بیٹھ گئی تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا تم اب سوجاؤ میں نے کہا نہیں میں دباتی ہوں اتنے میں آپ کو ایک او ردست آیا مگر اب اس قدر ضعف تھا کہ آپ پاخانہ نہ جاسکتے تھے اس لیے میں نے چارپائی کے پاس ہی انتظام کردیا اور آپ وہیں بیٹھ کر فارغ ہوئے اور پھر اٹھ کرلیٹ گئے اور میں پاؤں دباتی رہی مگر ضعف بہت ہوگیا تھا اس کے بعد ایک او ردست آیا اور پھر آپ کو قے آئی جب آپ قے سے فارغ ہو کر لیٹنے لگے تو اتنا ضعف تھا کہ آپ لیٹتے لیٹتے پشت کے بل چارپائی پر گر گئے اور آپ کاسر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا او ر حالت دگر گوں ہوگئی ۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ اول ص۱۱ حدیث ۱۲)
اس حوالہ سے مرزا قادیانی کا ہیضہ سے مرنا روز روشن کی طرح واضح ہے کیونکہ دست اور قے جب دونوں اکٹھے ہوجائیں اس کو ہیضہ کہتے ہیں نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ مرزا قادیانی اپنے پاخانہ پر مرا تھا۔
مرزائی عذر
مرزا صاحب ہیضہ کی مرض سے نہیں مرے اگر وہ ہیضہ سے مرتے تو ریل گاڑی میں انکی میت لے جانے کی اجازت ہر گز نہ ہوتی کیونکہ یہ قانونا منع ہے حالانکہ مرز اکی لاش کو ریل گاڑی پرلادکر قادیان لے جایا گیا ۔
جواب نمبر ۱
مرزا قادیانی بقول اپنے ’’ انگریز کا خود کاشتہ پودا‘‘ تھااسلئے اس کی لاش کو ریل گاڑی پر لے جانا کچھ مشکل بات نہ تھی۔
جواب نمبر ۲
اس جواب کے دو مقدمے ہیں
۱) ریل گاڑی مرزا قادیانی کے بقول دجال کا گدھا ہے
۲) مرزا نے ۱۹۰۸ ء میں مولانا ثناء اﷲ امرتسری کے بالمقابل ایک اشتہار شائع کیا تھا جس میں کہا تھا کہ اگر میں مولانا ثناء اﷲ کی زندگی میں مرجاؤں تو میں کذاب ودجال ٹہروں گا اور عملاً یہی ہوا کہ ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو مرزا کا مولانا ثناء اﷲ کی زندگی میں انتقال ہوگیا ۔ جس سے مرزا کا اپنے قول کیمطابق دجال ہونا ثابت ہوا ۔ اب ہم کہتے ہیں کہ جب مرزا دجال اور ریل گاڑی دجال کا گدھا ہے (بقول مرزا کے ) تو قدرت الٰہی نے دجال کیلئے اس کے گدھے پر سوار ہونے کا انتظام کردیا اور انگریزی پولیس اپنی نگرانی میں اس کی لاش لاہور سے قادیان لے گئی۔
حوالہ نمبر ۲
مرزا قادیانی نے اپنے سسر میر ناصر نواب کو بلا کر کہا :
’’ میر صاحب مجھے وبائی ہیضہ ہوگیاہے ‘‘ (حیات ناصر ص۱۴)
مرزا صاحب کے اس اعتراف کے بعد کہ مجھے وبائی ہیضہ ہوگیا ہے اب کسی تاویل یا انکار کی گنجائش نہیں ہے واضح ہوکہ مرزا صاحب نے طب کی کتب بھی پڑھی ہوئی تھیں لہذا ان کا یہ کہنا قابل اعتبار ہوگا ۔
مرزائیوں کا ایک اور عذر
مرزا قادیانی نے اس آخری فیصلہ کے ذریعے مولوی ثناء اﷲ کو مباہلہ کی دعوت دی تھی کیونکہ مولوی ثناء اﷲ بالمقابل مباہلہ کیلئے تیار نہ ہو ا اس لیئے مرزا صاحب کا اسکی زندگی میں مرنا جھوٹے ہونے کی دلیل نہیں ۔
جواب
یہ سراسر جھوٹ ہے مرزا کے اس آخری فیصلہ میں کوئی مباہلہ کا لفظ نہیں ہے نہ ہی اس میں یہ موجود ہے کہ مولوی ثناء اﷲ بھی اس قسم کی دعا کریں یہ محض یکطرفہ دعا تھی جو مرزا قادیانی نے اﷲ تعالیٰ کی بار گاہ میں مانگی جس کو خدا تعالیٰ نے قبول فرما کر فیصلہ کردیا اسی بات پر کہ مرزا صاحب کا یہ اشتہار محض یکطرفہ دعا ہے یامباہلہ ہے ؟ مولوی ثنا ء اﷲ صاحب امرتسری اور میرقاسم علی قادیانی کا لدھیانہ میں ۱۹۱۲ء میں تحریری مناظرہ ہوا تھا جس میں سردا ربچن سنگھ وکیل کو سرپنچ مقرر کیاگیاتھا ۔ اور دونوں حضرات نے تین تین صد روپیہ اس کے پاس جمع کرادیا کہ جو اپنا دعویٰ ثابت کرے اسکو یہ چھ صد روپیہ دے ۔ بالآخر سردار بچن سنگھ نے فیصلہ مولوی ثناء اﷲ کے حق میں کردیا او رچھ صدر وپیہ بھی انکے حوالے کردیا اس رقم سے مولوی صاحب نے اس مناظرہ کو ’’ فاتح قادیان ‘‘ کے نام سے شائع کیا جو کہ آج بھی سرگودہا سے دستیاب ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از قلم غلام نبی قادری نوری
ریپلائی کیجیئے