رد مرزائیت کورس قسط 8

یہود ونا مسعود کی تدبیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کی تھی او رانہوں نے آپ کو قتل کرنے کی پوری کوشش کی جس کا اﷲ تعالیٰ نے ومکروا میں ذکر فرمایا ان کے مقابلہ میں اﷲ تعالیٰ نے اپنی تدبیر کا ذکر فرمایا اور اپنی تدبیر کو بہتر بتایا ان کی تدبیر ناکام ہوگئی اور اﷲ تعالیٰ کی تدبیر غالب ہوگئی ، چنانچہ یہود ا اسکریوطی جو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے تھا تیس روپے لیکر حضرت عیسیٰ علیہالسلام کو پکڑوانے والے کیلئے اس مکان میں داخل ہوا اﷲ تعالیٰ نے اسے حضرت عیسیٰ کی شکل میں تبدیل کردیا اور عیسیٰ کو اپنی کمال قدرت سے آسمان پر اٹھا لیا ۔

یہود ونا مسعود کی تدبیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کی تھی او رانہوں نے آپ کو قتل کرنے کی پوری کوشش کی جس کا اﷲ تعالیٰ نے ومکروا میں ذکر فرمایا ان کے مقابلہ میں اﷲ تعالیٰ نے اپنی تدبیر کا ذکر فرمایا اور اپنی تدبیر کو بہتر بتایا ان کی تدبیر ناکام ہوگئی اور اﷲ تعالیٰ کی تدبیر غالب ہوگئی ، چنانچہ یہود ا اسکریوطی جو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے تھا تیس روپے لیکر حضرت عیسیٰ علیہالسلام کو پکڑوانے والے کیلئے اس مکان میں داخل ہوا اﷲ تعالیٰ نے اسے حضرت عیسیٰ کی شکل میں تبدیل کردیا اور عیسیٰ کو اپنی کمال قدرت سے آسمان پر اٹھا لیا ۔

دلائل اثبات رفع ونزول ازروئے قرآن مجید

﴾آیت نمبر ۱
’’ ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظہر ہ علی الدین کلہ ‘‘(براہین احمدیہ ج۴ حاشیہ ص۴۵۹ ایڈیشن قدیم ۴۹۹ روحانی خزائن ج۱ص۵۹۳)
﴾آیت نمبر ۲
’’ عسی ربکم ان یرحم علیکم ‘‘
(براہین احمدیہ ج۴ روحانی خزائن ص۶۰۱ ج۱ قدیم ایڈیشن ص۵۰۵ حاشیہ )
﴾آیت نمبر ۳
’’ ومکروا ومکراﷲ واﷲ خیر الماکرین ‘‘ ﴿پ۳ سورۃ آل عمران ع۵آتی ۵۴﴾
ترجمہ : اور انہوں نے خفیہ تدبیر کی اور اﷲ نے بھی خفیہ تدبیر کی اور اﷲ تدبیر کرنے والوں میں بہتر تدبیر کرنیوالے ہیں ۔
طرز استدلال
یہود ونا مسعود کی تدبیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کی تھی او رانہوں نے آپ کو قتل کرنے کی پوری کوشش کی جس کا اﷲ تعالیٰ نے ومکروا میں ذکر فرمایا ان کے مقابلہ میں اﷲ تعالیٰ نے اپنی تدبیر کا ذکر فرمایا اور اپنی تدبیر کو بہتر بتایا ان کی تدبیر ناکام ہوگئی اور اﷲ تعالیٰ کی تدبیر غالب ہوگئی ، چنانچہ یہود ا اسکریوطی جو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے تھا تیس روپے لیکر حضرت عیسیٰ علیہالسلام کو پکڑوانے والے کیلئے اس مکان میں داخل ہوا اﷲ تعالیٰ نے اسے حضرت عیسیٰ کی شکل میں تبدیل کردیا اور عیسیٰ کو اپنی کمال قدرت سے آسمان پر اٹھا لیا ۔
مذکورہ بالا آیت کی تمام مفسرین نے یہی تفسیر بیان کی ہے اور اﷲ تعالیٰ کی اس تدبیر کا ذکر کیا ہے کوئی ایک مفسر ؍مجدد پیش نہیں کیا جاسکتا جس نے یہاں پر عیسائیوں اور مرزائیوں کی تدبیربیان کی ہو ۔
نکتہ ﴾
’’ مکر‘‘ کہتے ہیں لطیف خفیہ تدبیر کو ۔ اگر اچھے مقصد کیلئے ہو تو اچھا ہے اور برائی کیلئے ہو توبرا ہے ۔ اسی لئے ’’ ولا یحیق المکر السیئی الا باھلہ‘‘میں مکر کے ساتھ سیئی کی قید لگائی ہے اور یہاں خدا تعالیٰ کو خیر الماکرین کہا۔ مطلب یہ ہے کہ یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف طرح طرح کی سازشیں اور خفیہ تدبیریں شروع کردیں حتیٰ کہ بادشاہ کے کان بھر دیے کہ یہ شخص (معاذاﷲ )ملحد ہے تورات کوبدلنا چاہتا ہے ، سب کو بد دین بنا کر چھوڑے گا ۔ اس نے مسیح علیہ السلام کی گرفتاری کا حکم دے دیا ادھر یہ ہورہا تھا اور ادھر حق تعالیٰ کی لطیف اور خفیہ تدبیر ان کے توڑ میں اپنا کام کررہی تھی جس کا آگے ذکر آئے گا ۔ بے
شک خدا کی تدبیر سب سے بہتر اور مضبوط ہے جسے کوئی توڑ نہیں سکتا۔﴿تفسیر عثمانی از علامہ شبیر احمد عثمانی ص۷۱﴾
﴾آیت نمبر ۴
’’اذ قال اﷲ یا عیسی انی متوفیک……الخ‘‘ ﴿پ۳ آل عمران ع۶آیت ۵۵﴾
ترجمہ : اے عیسیٰ بیشک میں تجھے لینے والاہوں او ر تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں ‘‘
یہ آیت بھی عیسیٰ علیہ السلام کی حیاۃ اور فع جسمانی کی صریح دلیل ہے اس میں اﷲ تعالیٰ نے یہودیوں کی تدبیر کے بالمقابل عیسیٰ کو تسلی دیتے ہوئے ان سے چا ر وعدے فرمائے ہیں۔
۱) یہ کہ تجھے وفات دونگا ،یہودی قتل نہیں کرسکیں گے
۲) اس وقت تجھے اپنی طرف اٹھا لوں گا
۳) کفار یعنی یہود سے تجھے پاک کروں گا
۴) تیرے متبعین کو تیرے دشمنوں پر قیامت تک غالب رکھوں گا
یہ چا روعدے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اﷲ تعالیٰ نے اس وقت کئے جب یہود نامسعود آپ کے قتل کا منصوبہ تیار کرچکے تھے یہاں پر رافعک میں جو رفع کا وعدہ ہے وہ باتفاق تما م مجددین و مفسرین رفع جسمانی ہے مرزا غلام احمد قادیانی کذاب سے قبل جس قدر مجدد ین گذرے ہیں کوئی ایک مجدد بھی ایساپیش نہیں کیاجاسکتا جس نے یہاں رفع سے مراد رفع درجات یا رفع روحانی لیا ہوا لبتہ متوفیک کے معنی میں علما ء کرام کی د و رائے ہیں ۔اکثر علماء نے اس کا معنی پورا پورا لینے کا کیا ہے یعنی جسد مع الروح کیونکہ یہی توفی کا حقیقی معنی ہے۔
بعض علماء نے متوفیک کا معنی ممیتک لیا ہے جیسا کہ بخاری شریف میں حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے منقول ہے لیکن یہ بھی ہمیں مضر نہیں ہے اس لئے کہ جن حضرات نے توفیٰ کا معنی موت کا لیا ہے وہ اس میں تقدیم و تاخیر کے قائل ہیں یعنی ممیتک عند انـقضاء اجلک ورافعک الآن۔میں تجھے ماروں گا جب تیری موت کا وقت مقرر ہوگا اور اب تجھے اٹھانے والاہوں ‘‘ ﴿تفسیر ابن عباس ﴾
جواب نمبر۱
تمام علماء نحو اس بات پر متفق ہیں کہ واؤ ترتیب کیلئے نہیں ہوتی بلکہ مطلق جمع کیلئے ہوتی ہے بخلاف ثم اور فاء کے ۔ شرح مائۃ عامل کا طالب علم بھی اس سے آگاہ ہے ۔
جواب نمبر ۲
قرآن مجید میں اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ واؤ ہمیشہ ترتیب کیلئے نہیں ہوتی جیسا کہ حضرت مریم کو فرمایا
’ واسجدی وارکعی‘‘ اور سجدہ کیا کر اور رکوع کیا کر ۔﴿پ۳ آل عمران ۳۴ ع۵﴾
’’فاخذہ اﷲ نکال الآخرۃ والاولیٰ ‘‘ پس اﷲ تعالیٰ نے اس کو دنیا و آخرت کے عذاب میں پکڑا ۔ ﴿پ۳۰ اَلنازعات ۲۵ ع۱﴾
جواب نمبر ۳
اس پوری آیت میں مرزائیوں کے نزدیک بھی ترتیب ٹھیک نہیں ہے کیونکہ مرزائیوں کی تفسیر کے مطابق آیت کا معنی یوں ہوگا: ’’ اے عیسیٰ میں تجھے پہلے موت دینے والا ہوں اس کے بعد تیرا روحانی رفع یا رفع درجات کروں گا اس کے بعد تجھے کافروں سے پاک کروں گا اور اس کے بعد تیرے متبعین کو تیرے دشمنوں پر غالب کروں گا۔‘‘
اب مرزائیوں کے خیال کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام کی وفا ت کشمیر کی طرف ہجرت کرنے کے بعد واقعہ صلیب سے ستاسی سال بعد کشمیر میں ہوئی تو اب مطھرک من الذین کفروا (میں تجھے کافروں سے پاک کروں گا) پہلے ہوگیا اور وفات اور رفع ستاسی بر س بعد ہوا جس سے معلوم ہو اکہ ترتیب مرزائیوں کے نزدیک بھی قائم نہ رہی واقعہ کے طور پر تطہیر پہلے ہوئی او ر اس کے بعد وفات پھر رفع اور پھر غلبہ ۔
؂ الجھا ہے پاؤں یا ر کا زلف درازمیں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
جواب نمبر ۴
کئی ایک مفسرین نے یہاں ترتیب کو الٹ کر تفسیر کی ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس کی تفسیر میں گذرچکا ہے ۔
جواب نمبر ۵
عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق افراط کا شکا رہوئے اور انہیں الٰہ تک بنا دیا اور یہود تفریط کے قائل ہوئے تو درجہ نبوت سے بھی نیچے گرادیا ۔ خدا تعالیٰ کو دونوں کی تردید کرنا مقصود تھی عیسائیوں نے شرک کیا تھا اور یہود نے گستاخی رسول ، چونکہ شرک بہرحال گستاخی رسول سے بڑا جرم ہے اس لئے اﷲ تعالیٰ نے پہلے اس کی تردید کی لفظ متوفیک سے کہ میں تجھے موت دوں گا ۔ مطلب صاف ظاہرہے کہ جس پر موت آتی ہے وہ الٰہ اور معبود نہیں ہوسکتا اس کے بعد یہود کی تردید ورافعک الی سے کی یعنی تم نے میرے رسول کی شان میں کمی کی میں نے تو ان کو اوپر اٹھا لیا او راوپر اٹھانے سے ان کی رفعت شان ظاہر ہوئی ۔

بحث لفظ ’توفیّٰ
اس لفظ کا مادہ ہے وفی یعنی جب یہ مادہ باب تفعل میں چلا جائے تو اس کے حقیقی معنی پورا پورا لینے کے ہوں گے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے
’’ اتوفیت الثمن ‘‘ ہاں موت اور نیند کے معنی میں بھی مجازاً استعمال ہوتا ہے جبکہ وہاں کوئی قرینہ موجود ہو جیسے ’ ھوالذی یتوفاکم بالیل‘(وہی ہے جو تمہیں رات کوموت دیتا ہے ) ﴿۷ اَلانعام ۱۳ ع۷﴾ اسی طرح ’ اﷲ یتوفی الانفس حین موتھا والتی لم تمت فی منامھا‘‘ (اﷲ تعالیٰ جانوں کو ان کی موت کے نزدیک قبض کر لیتا ہے او رجوابھی نہیں مرے ان کی جان نیند میں قبض کرلیتا ہے ) ﴿ پ۲۴ اَلزمر ۴۲ ع۵﴾
یہ آیات اس بات کی صریح دلیل ہیں کہ توفی کا حقیقی معنی موت نہیں ہے اگر اس کا حقیقی معنی موت ہوتا تو موت او ر توفی کا تقابل درست نہ تھا یہاں آیت میں توفی کے ساتھ موت او رعدم موت دونوں جمع ہورہی ہیں ۔
توفی کا معنی از کتب سلف
۱﴾ ’’ متوفیک ورافعک ای علی التقدیم والتاخیر وقد یکون الوفاۃ قبضا لیس بموت‘‘ (مجمع الابحر ص۴۵۴ج۲ ، منقول از عسل مصفی۱۷۵ ج۱)
۲﴾ ’’ فلما توفیتنی ……الخ اخذا لشئی وافیا والموت نوع منہ ‘‘(تفسیر صافی ج۱ عسل مصفی ج۱ص۱۸۷)
۳﴾ ’’ یستعمل التوفی فی اخذ الشئی وافیا ای کاملا والموت نوع منہ ‘‘ (حاشیہ شیخ احمد صاوی مالکی علی جلالین ص۳۱۵ منقول ازعسل مصفی ص۱۸۷)

توفّٰی‘ کے معنی پر مرزا قادیانی کا چیلنج
توفی کے لفظ میں جہاں خدا فاعل اور انسان مفعول بہ ہو ہمیشہ اس جگہ توفی کے معنی مارنے اور روح قبض کرنے کے آتے ہیں ۔(تحفہ گولڑویہ ۴۵ روحانی خزائن ص۱۶۲ ج۱۷)
جواب نمبر ۱
یہ محض مرزا کا من گھڑت قاعدہ ہے کسی اما م لغت نے یہ قاعدہ تحریر نہیں کیا اگر کوئی قادیانی کسی امام لغت سے یہ قاعدہ دکھا دے تو ہم اسے دس ہزار روپیہ انعام دیں گے۔
جواب نمبر ۲
مرزا کا یہ من گھڑت قاعدہ اسکی اپنی تحریر سے ٹوٹ رہا ہے ۔براہین احمدیہ حصہ ۴ ص۵۲۰ میں متوفیک کا معنی لکھا ہے ’’ میں تجھے پوری پوری نعمت دوں گا‘‘(روحانی خزائن ۶۲۰حاشیہ ج۱ )
حوالہ نمبر ۲
براہین احمدیہ کا وہ الہام یعنی یاعیسی انی متوفیک ……الخ جو سترہ برس سے شائع ہو چکا ہے اس کے اس وقت خوب معنی کھلے ہیں یعنی یہ الہام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اسوقت بطور تسلی ہوا تھا جب یہود ان کو مصلوب کرنے کی کوشش کررہے تھے اور اس جگہ بجائے یہود ، ہنود کوشش کرہے ہیں اور الہام کے یہ معنی ہیں کہ میں تجھے ایسی ذلیل اور لعنتی موتوں سے بچاؤں گا۔(سراج منیرحاشیہ ص۶۱ روحانی خزائن ص۲۳ ج۱۲)
جواب : ٭ انعامی حوالہ ٭
’’عن ابن عمر واذا رمی الجمار لا یدری احد ما لہ حتی یتوفاہ اﷲ یوم القیامۃ ‘‘(الترغیب والترہیب ص۲۰۵، باب ماء جا فی فضل الحج رواہ البزار والطبرانی وابن حبان واللفظ لہ )
اس حدیث شریف میں مرزائیوں کی تمام شرائط موجود ہیں مگر توفی کا معنی موت نہیں ہے ۔
﴿ہما راچیلنج﴾
ہمارا دعویٰ ہے کہ اگرتوفی باب تفعل سے ہو ،اﷲ اس میں فاعل ہو اور ذی روح اس کا مفعول ہو جو بن باپ پیدا ہوا ہو وہاں پر توفّٰی کا معنی پورا پورا لینا اور اٹھا نا ہوگا موت کا معنی نہیں ہے کوئی مرزائی مرد میدان ہے جو ہمارے اس قاعدے کو توڑ کر منہ مانگا انعام حاصل کرے۔
اگر مرزائی کہیں کہ آ پ کا یہ قاعدہ کہاں لکھا ہوا ہے تو جواب یہ ہے کہ علم النحو کی جس کتاب میں مرز ا کا قاعدہ لکھا ہوا ہے اسی کتاب میں ساتھ یہ بھی لکھا ہوا ہے ۔

﴾آیت نمبر ۵
’ وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ وکان اﷲ عزیزا حکیما‘‘ ﴿پارہ ۶ سورۃ النساء ۱۵۷،۱۵۸ ع۲۲﴾ ’’ اور انہوں نے اس (عیسیٰ)کو نہیں مارا یقینا بلکہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو اپنی طرف اٹھا لیا اور اﷲ تعالیٰ غالب حکمت والاہے ۔‘‘
حکیم نورالدین نے اس آیت کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ ’’ بلکہ اﷲ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا۔‘‘ (فصل الخطاب برحاشیہ ص۳۱۴)
یہ آیت بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی اور حیات کی صریح دلیل ہے ۔
٭نکتہ
یہودیوں کی طرف سے قتل کا فعل واقع نہیں ہوا تھا بلکہ یہ محض ان کا ایک جھوٹا دعویٰ تھا تو ا ﷲ تعالیٰ نے ان کے ملعون ہونے کے من جملہ اسباب میں سے ان کے اس قول کو لعنتی ہونے کا سبب بتایا ہے نہ کہ فعل کو اس لئے وقتلھم نہیں فرمایا بلکہ وقولھم فرمایا۔
مرزائی عذر
اس آیت میں رفع سے مراد رفع روحانی اور رفع درجات ہے کیونکہ یہودیوں کے نزدیک صلیب کی موت لعنتی شمار ہوتی ہے تو یہاں اﷲ تعالیٰ نے یہودیوں کے جواب میں فرمایا کہ وہ ان کو ذلیل نہیں کرسکے بلکہ ہم نے ان کے درجات بلند کردیے۔
جواب نمبر ۱
یہ غلط، بالکل غلط ہے ہم پورے دعویٰ سے کہتے ہیں بلکہ ہمارا امت مرزائیہ کو چیلنج ہے کہ مرزا قادیانی سے پہلے تیرہ صدیوں کے مسلمہ بین الفریقین جس قدر مجدد اور مفسر گذرے ہیں ان میں سے کسی ایک نے بھی یہاں رفع سے مراد رفع درجات یا روحانی رفع نہیں لیا سب نے بالاتفاق یہاں رفع سے مراد اسی جسم عنصری سے آسمانوں پر اٹھایا جانا مراد لیا ہے۔ ’’ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین ‘‘
جواب نمبر ۲
یہ تمہار امفروضہ کہ صلیب کی موت لعنتی موت ہوتی ہے سراسر غلط اور یہودیانہ نظریہ ہے اول یہ ہے کہ اس کا دارومدار بائبل پر ہے جو محرف ہے دوم اس لئے کہ انہوں نے اپنے رائج طریقہ سے کئی ایک انبیاء علیہم السلام کو قتل کیا ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں ویقتلون الانبیاء بغیر حق ’’ او روہ انبیاء کو ناحق مار ڈالتے تھے ‘‘ اور یہ ظاہر ہے کہ ان انبیاء کو جنہیں وہ بر حق نہیں مانتے تھے اپنے رائج طریقہ یعنی صلیب کے ذریعہ ختم کرتے تھے یعنی قتل کرتے تھے تو وہاں اﷲ تعالیٰ نے ان کا رفع کیوں نہیں بیان کیا بلکہ ان کے رفع کا ذکر تک بھی نہیں کیاجبکہ انکا قتل وقوع میں آچکا ہے اور یہ قتل وقوع میں بھی نہیں آیا محض یہودیوں کا قتل کا قول ہے ۔
جواب نمبر۳
یہاں رفع روحانی اس لئے بھی نہیں ہوسکتا کہ یہاں پر چار جگہ واحد مذکر غائب کی ضمیر آئی ہے جن میں تین ضمیروں کا مرجع بالاتفاق عیسیٰ بن مریم جسد مع الروح ہے ان ضمیروں کا مرجع نہ صرف جسد ہے او رنہ صرف روح کیونکہ قتل او رصلیب کا فعل تبھی واقع ہوسکتا ہے جب جسد اور روح اکٹھے ہوں تو لامحالہ رفع کی ضمیر کا مرجع بھی جسد مع الروح ہی ہوگا نہ کہ فقط روح نیز یہاں پر کان اﷲ عزیزاً حکیماً کاجملہ اس بات کی قوی دلیل ہے کہ یہاں رفع جسمانی ہی ہے ورنہ رفع روحانی کیلئے ان صفات کے لانے کی ضرورت نہیں تھی اور یہ اﷲ تعالیٰ کے کلام میں زائد جملہ ہوجائے گا۔
مرزائی عذر
عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر کیسے جاسکتے ہیں اول تواس میں کئی ناری کرّے ہیں ، دوم اسلئے کہ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مشرکین نے کہا کہ آپ آسمانوں پر جائیں تب ہم آپ پر ایمان لائیں گے……الخ توجناب نبی اکرم ﷺ نے جواب میں فرمایا ھل کنت الا بشرا رسولا (میں تو صرف بشر رسول ہوں )﴿پارہ ۱۵ بنی اسرائیل ۴ ع۱۰﴾
جواب
عیسیٰ علیہ السلام اسی طرح چلے گئے جیسے موسیٰ علیہ السلام چلے گئے ۔(بحوالہ نورالحق ص۵۱ روحانی خزائن ص۶۹ ج۸) ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ۔
٭٭ ایٹم بم نمبر 1 ٭٭
’’ ھذا ھو موسیٰ فتی اﷲ الذی اشاراﷲ فی کتابہ الی حیاتہ وفرض علینا ان نومن انہ حی فی السماء ولم یمت ولیس من المیتین ‘‘ (نورالحق ص۵۰ روحانی خزائن ص۶۸،۶۹ج۸)
مرزائی اعتراض
مرزائی عموماً اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہاں حی فی السماء سے مراد روحانی حیات ہے اور آگے لم یمت سے نفی روحانی موت کی ہورہی ہے ۔
جواب نمبر۱
کیا کوئی شخص ان کی روحانی موت کا قائل ہے کہ جب تم اس کو ثابت کر رہے ہو روحانی حیات تو کفار کو بھی حاصل ہے ۔
جواب نمبر۲
آگے اسی حوالہ میں مرزا نے حضرت موسیٰ کلیم اﷲ علیہ السلام کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے تقابل کیا ہے کہ موسیٰ تو بے شک زندہ ہیں مگر عیسیٰ کے بارے میں ہمیں آیات سے ثبوت ملتا ہے کہ وہ فوت ہوچکے ہیں جس طرح کہ آگے حوالہ میں مذکور ہے’’ ولا تجد مثل ھذہ الآیات فی شان عیسیٰ ‘‘ تو ہم پوچھتے ہیں کہ اس تقابل سے تو معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ پر روحانی موت آگئی حالانکہ روحانی موت کسی پر بھی واقع نہیں ہوتی تقابل تب ہی درست بن سکتا ہے جبکہ موسیٰ کی جسمانی حیات مراد لی جائے ۔
٭٭ ایٹم بم حوالہ نمبر 2 ٭٭
’’ بل حیاۃ کلیم اﷲ ثابت بنص القرآن الکریم الا تقرء فی القرآن ما قال اﷲ تعالیٰ عزو جل ’ ولا تکن فی مریۃ من لقاۂ ‘ وانت تعلم ان ھذہ الآیۃ نزلت فی موسیٰ فھی دلیل صریح علی حیاۃ موسیٰ علیہ السلام لانہ لقی رسول اﷲ ﷺ والاموات لایلاقون الا حیاء ولاتجد مثل ھذہ الآیات فی شان عیسیٰ علیہ السلام نعم جاء ذکر وفاتہ فی مقامات شئی فتدبر فان اﷲ یحب المتدبرین ۔‘‘ (حمامۃ البشریٰ ۳۵ روحانی خزائن ص۲۲۱ ج۷)
جواب نمبر ۲
یہاں پر بحث جانے کی نہیں بلکہ لیجانے کی ہے ہم بھی مانتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام تو کیا کوئی نبی بھی آسمانوں پر نہیں جاسکتا ، سوال یہ ہے کہ کیا اﷲ تعالیٰ لے جاسکتے ہیں یا نہیں ۔ جناب نبی کریم ﷺ نے زیادہ سے زیادہ اس جواب میں اپنی بشریت کے اقرار میں خود جانے کی نفی کی ہے نہ کہ اﷲ تعالیٰ کے لے جانے کی ۔ دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ حضور اکرم ﷺ کے لے جانے کا ذکر فرماتے ہیں سبحان الذی اسری بعبدہ ……الخ یہاں بھی رفع میں فاعل اﷲ تعالیٰ ہے ۔
مرزائی اعتراض
آیت مذکورہ میں بل ابطالیہ مراد لینا بالکل غلط ہے کیونکہ قرآن مجید کلام اﷲ ہے اور اﷲ تعالیٰ کے کلام میں بل ابطالیہ نہیں آسکتا۔
جواب
جن نحویوں نے یہ بات کہی ہے انہوں نے اس بات کی بھی تصریح کر دی ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ کفار کا قول نقل کریں تو ان کی تردید میں بل ابطالیہ آتا ہے جیسا کہ احمدیہ پاکٹ بک والے مرزائی نے خودص۳۷۳ پر نقل کیا ہے :
قرآن مجید میں کئی مقامات پر بل ابطالیہ استعمال کیا گیا ہے:
مثلا ً ’’وقالوا اتخذاﷲ ولدا سبحانہ بل لہ مافی السموات والارض کل لہ قانتون ‘ ‘ ﴿پارہ ۱ آیت ۱۱۶ ع ۱۳﴾ ’’ اور انہوں نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے اولاد پکڑی ،پاکی ہے اس کو بلکہ اسی کیلئے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب کچھ اسی کے فرمانبردار ہیں ۔‘‘
’’وقالوا اتخذ الرحمن ولدا سبحانہ بل عبادمکرمون ۔ ‘‘(پارہ ۱۷ الانبیاء آیت۲۹) ’’ اور انہوں نے کہا کہ ر حمن نے اولاد پکڑی وہ اولاد سے پاک ہے بلکہ جن کو تم اولاد بتاتے ہو ، وہ مکرم بندے ہیں ‘‘
’’ام یقولون افتری بل ھوالحق من ربک ‘‘ ’’ کیا وہ کہتے ہیں کہ جھوٹ باندھ لیا ہے بلکہ وہ تیرے پروردگار کی طرف سے حق ہے ‘‘۔
٭فائدہ
بل ابطالیہ یا اضرابیہ جس کلام میں آتا ہے اس میں بل کے ماقبل اور مابعد والے مضمون میں منافات ہوتی ہے ورنہ بل ابطالیہ بے سود ہے اب متنازعہ فیہ آیت میں اس کے مابعدسے اگر رفع درجات مراد لیا جائے تو اس کی ماقبل سے منافات نہیں ہاں رفع حیاً اور قتل میں منافات ہے۔
مرزائی اعتراض
یہ ضروری نہیں کہ رفعہ میں ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ علیہ السلام جسد مع الروح ہوں جیسا کہ قرآن مجید میں وارد ہے ثم اماتہ فاقبرہ یہاں دو ضمیریں آئی ہیں جو انسان کیطرف لوٹتی ہیں پہلی ضمیر جسد مع الروح کی طرف اور دوسری ضمیر صرف جسد یا روح کی طرف۔
جواب نمبر۱
آپ مندرجہ بالا آیت میں موت واقع ہونے کے بعد جبکہ جسد اور روح میں انفصال ہوگیا تو لامحالہ دوسری ضمیر کا مرجع یاجسد ہوگا یا فقط روح دونوں نہیں بن سکتے بخلاف متنازعہ فیہ آیت کے کہ اس میں قتل اور صلیب یعنی موت کی نفی کے بعد رفع کے ساتھ ضمیر آرہی ہے تو لامحالہ یہاں رفع جسد مع الروح ہوگا نہ کہ فقط روح کا لہذا یہ قیاس ،قیاس مع الفارق ہے ۔
جواب نمبر۲
یہاں اقبرہ میں ضمیر جسد مع الروح انسان کی طرف لوٹ رہی ہے او ر
یہاں پر انسان کے مختلف حالات ذکر ہورہے ہیں ۔
مرزائی اعتراض
رفعہ میں ضمیرکا مرجع صنعت استخدام ہے
جواب
یہ مرزائیوں کی جہالت او رکور علمی کا بین ثبوت ہے اگر انہیں صنعت استخدام کی تعریف معلوم ہوتی تو وہ اس قسم کی جہالت کا ثبوت نہ دیتے۔
صنعت استخدام اسے کہتے ہیں کہ ایک لفظ جس کے دو معنی ہوں ، لفظ سے ایک معنی مراد لیا جائے اور جب اس لفظ کی طرف کوئی ضمیر لوٹائی جائے تو اس سے دوسرا معنی مرادا لیا جائے یا ایک لفظ کے دو معنی ہوں اس کی طرف دو ضمیریں لوٹائی جائیں ایک ضمیر سے ایک معنی اور دوسری ضمیر سے دوسرا معنی مراد لیا جائے (دیکھو مختصر المعانی وغیرہ ص۴۵۷) یہاں پر عیسیٰ بن مریم کے دومعنی نہیں کہ صنعت استخدام بن سکے ۔
مرزائی اعتراض
الیہ سے مراد آسمانوں پر لینا درست نہیں کیونکہ اﷲ تعالیٰ تو ہر جگہ موجود ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں فاینما تولوا فثم وجہ اﷲ یعنی پس جدھر کو منہ کرو اُدھر ہی اﷲ تعالیٰ کی ذا ت ہے﴿پارہ ۱ ع۱۴ اَلبقرہ ۱۱۵﴾ وھو اﷲ فی السماء الہ وفی الارض الہ ’’ اوراﷲ ہی کی ذات ہے جوزمینوں میں بھی معبود ہے اور آسمانوں میں بھی معبو دہے ‘‘ ﴿پارہ ۲۵ ع۱۳ آیت۸۴﴾
جواب نمبر ۱
الیہ سے مرادا الی السماء ہے جیسا کہ مرزا صاحب خود تسلیم کرتے ہیں کہ : ’’ ہرایک اپنے درجہ کے موافق آسمانوں کی طرف اٹھایا جاتا ہے اور اپنے قرب کے انداز کے موافق رفع سے حصہ لیتا ہے اورانبیاء واولیاء کی روح اگرچہ دنیوی حیات کے زمانہ میں زمین پر ہو مگر پھر بھی اس آسمان سے اسکاتعلق ہوتا ہے جو اس کی روح کیلئے حد رفع ٹہرایا گیا ہے اور موت کے بعد وہ روح اس آسمان جا میں ٹہر تی ہے جو اس کیلئے حد رفع مقرر کیا گیا ہے ‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۴۵روحانی خزائن ص۲۷۶ج۳)
اب اس حوالہ سے ثابت ہوگیا کہ الیہ سے مراد آسمان ہے لہذا حد رفع میں قادیانیوں اور ہمارا کوئی احتلاف نہ ہوا بلکہ اختلاف مرفوع شے میں ہے کہ اٹھائی کون سی چیز گئی ہے فقط روح یا جسد مع الروح ۔اس کا جواب بل ابطالیہ میں موجود ہے کیونکہ بل کے ماقبل اور مابعد میں ضدیت ہے اور ضدیت کیلئے وحدت زمانی ضروری ہے لہذا عدم موت او ررفع کا زمانہ بھی ایک ہونا چاہیے اور آپ کے نزدیک عدم موت او ررفع کے درمیان ۸۷ برس کا طویل فاصلہ ہے ۔
جواب نمبر۲
اصل بات یہ ہے کہ بلندی کی نسبت اﷲ تعالیٰ اپنی طرف کرتے ہیں چونکہ اﷲ تعالیٰ کی ذات بلند اور رفع ہے جیسا کہ فرمایا ’’ الیہ یصعد الکلم الطیب ‘‘ یہاں بھی الیہ سے مراد آسمان ہی ہے ۔
جواب نمبر ۳
قرآن خود گواہی دے رہا ہے کہ اﷲ تعالیٰ آسمانوں میں ہے ’’ أء منتم من فی السماء ان یخسف بکم الارض ……الخ‘‘ کیا تم نڈر ہواس ذات سے جو آسمان میں ہے کہ تم سب کوزمین میں دھنسا دے۔ ﴿پارہ ۲۹ اَلملک ۱۶﴾
جواب نمبر ۴
مرزا کا الہام ہے۔
۱) ’’ فرزند دل بند گرامی وارجمند مظہر الحق والعلاکانّ اﷲ نزل من السماء ‘‘(تذکرہ ص۱۴۴،۱۸۴طبع دوم مثلہ ازالہ اوہام ص ۱۵۶ روحانی خزائن ج۳ ص۱۸۰)
۲) ’’ جری اﷲ فی حلل الانبیاء کان اﷲ نزل من السماء ‘‘(تبلیغ رسالت اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶،مندرجہ مجموعہ اشتہارات ج ۱ ص۱۰۱ وایضاً تذکرہ ص۸۱ ؍۶۴۶)
اس الہام سے معلوم ہوا کہ مرز اصاحب کے نزدیک اﷲ تعالیٰ آسمانوں پر ہے۔
جواب نمبر۵
خو دمرزا کا قول ہے ’’ الا یعلمون اَنَّ المسیح ینزل من السماء یجمیع علومہ ولا یاخذ شیئا من الارض مالھم لا یشعرون ‘‘ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن ج۵ص۴۰۹)
مرزائی اعتراض
’’ اذا تواضع العبد رفعہ اﷲ الی السماء السابعۃ‘‘ دیکھئے اس میں رفع جسمانی مراد نہیں بلکہ روحانی مراد ہے حالانکہ یہ حدیث بعینہ بل رفعہ اﷲ کی طرح ہے ۔
۔جواب نمبر ۱
یہاں رفع سے پہلے تواضع کا قرینہ موجود ہے لہذا یہاں پر رفع درجات ہی مراد ہوگا نیز یہ قیاس مع الفارق ہے کیونکہ یہ آیت کے مشابہ نہیں کیونکہ آیت میں تو پہلے قتل کی نفی موجود ہے قتل کی نفی کے بعد تو رفع جسمانی ہوگا بخلاف اس کے کہ یہاں نہ قتل کا ذکر ہے اور نہ بل ابطالیہ موجو دہے اسی طرح باقی تمام جگہوں میں سمجھیں جہاں جہاں رفع درجات مراد ہوگا وہاں کوئی نہ کوئی قرینہ ضرور موجود ہوگا۔
جواب نمبر ۲
کسی مقام میں رفع سے رفع درجات یا رفع روحانی پائے جانے سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ متنازع فیہ آیات میں بھی رفع سے مراد روحانی رفع ہے ہم بلا خوف تردید یہ کہہ چکے ہیں کہ اس آیت میں کسی ایک مسلم مفسر یا مجدد نے رفع روحانی مراد نہیں لیا اگر ہمت ہے تو مرزاکے علاوہ اس سے قبل کسی مجدد کا نام پیش کرو۔

﴾آیت نمبر۶
’’ وان من اھل الکتاب الالیومنن بہ قبل موتہ ……الخ۔‘‘ اور اہل کتاب میں سے ہر ایک اس(عیسیٰ پر یعنی آپ کے زندہ ہونے ) پر ایمان لائے گا آپ (عیسیٰ) کی موت سے پہلے اور آپ قیامت کے دن ان پر گواہ ہوں گے۔‘‘ ﴿پارہ ۶ النساء ۱۵۹ ع۲۲﴾
آیت مذکورہ میں بہ اور موتہ دونوں ضمیروں کا مرجع عیسیٰ علیہ السلام ہیں اور آیت کا مطلب ہے کہ آئندہ زمانہ میں جس قدر اہل کتاب موجود ہونگے تمام کے تمام عیسیٰ علیہ السلام پر ان کی موت سے قبل ان پرایمان لائیں گے یہ آیت اس بات کی صریح دلیل ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اب تک فوت نہیں ہوئے اور وہ قیامت کے قریب دوبارہ تشریف لائیں گے ۔ تمام مفسرین نے آیت مذکورہ کا یہی معنی بیان کیا ہے۔
دیکھئے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نے جب یہ حدیث بیان کی’’والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ……الخ‘‘تو اس کے بعد فرمایا ’’ وان شئتم فاقرؤا’ وان من اھل الکتاب الا لیومنن بہ‘ ……الخ‘‘ حضرت ابوہریرہ ؓ صحابی رسول نے حدیث رسول بیان کرنے کے بعد یہ آیت بطور استشہاد پیش کی جس سے آیت کی تفسیر واضح ہوگئی صحابی رسول ﷺ کی اس تفسیر کے بعد کسی انسان کی تفسیر جو اس کے خلاف ہو اس کی کوئی وقعت نہیں اور درحقیقت یہ تفسیر حضرت ابوہریرہؓ کی نہیں بلکہ یہ حضور ﷺ کی تفسیر ہے کیونکہ ایسے مقامات میں ابوہریرہ ؓ اپنے قیاس سے کچھ نہیں کہہ سکتے ان کی اکثر عادت شریفہ یہ تھی کہ کسی حدیث کے بیان کرنے کے بعد وہ استشہاد کے طور پر کبھی تو فرماتے ’’قال رسول اﷲ ﷺ وان شئتم فاقرؤا ‘ ‘ او رکبھی ’’ قال رسول اﷲ ‘‘ نہیں کہتے تھے صرف ’’ ان شئتم ‘‘ کہہ دیتے تھے ۔نیز دیکھئے اکابرین سلف نے نزول عیسیٰ علیہ السلام پر آیت مذکورہ کو ہی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے ۔
حوالہ نمبر ۱
’’ فان قیل فما الدلیل علی نزول عیسیٰ علیہ السلام من القرآن فالجواب الدلیل علی نزولہ قولہ تعالیٰ ’وان من اھل الکتاب الالیومنن بہ قبل موتہ‘ ۔‘‘ (الیواقیت والجواہر ج۲ ص۱۴۶ للعلامہ شعرانی مطبوعہ مصر)
حوالہ نمبر ۲
’’ ونزول عیسیٰ من السماء کماقال اﷲ تعالیٰ وانہ ای عیسیٰ لعلم للساعۃ ای علامۃ القیامۃ وقال اﷲ تعالیٰ وان من اھل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ ای قبل موت عیسیٰ بعد نزولہ عند قیام الساعۃ فیصر الملل ملۃ واحدۃ‘‘ (شرح فقہ اکبر ص۱۳۶ ملا علی قاری )
مرزائی اعتراض
بعض مفسرین نے قبل موتہ کی ضمیر کا مرجع اہل کتاب کو بنایا ہے اور یہ قرا ء ۃ شاذہ کے موافق بھی ہے ۔ قراء ۃ شاذہ’ قبل موتھم ‘ ہے ۔
جواب نمبر ۱
حضرت ابوہریرہ ؓ کی تفسیر کے بعد کسی اور تفسیر کی کوئی حاجت نہیں اور نہ کسی پر اعتما دہے ۔
جواب نمبر ۲
جن حضرات نے ضمیر کا مرجع اہل کتاب کو بنا یا ہے وہ اس کے باوجود عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی اور آمد ثانی کے تمام امت کیطرح قائل ہیں لہذا ان کا اہل کتاب کو مرجع بنانا ہمیں مضر نہیں ہے ۔
جواب نمبر ۳
حکیم نورالدین بھیروی نے متنازعہ فیہ آیت کا ترجمہ اپنی کتاب’فصل الخطاب بمقدمہ اہل الکتاب‘ حصہ دوم ص۳۱۴ میں یوں کیا ہے : ’’ اور نہیں کوئی اہل کتاب سے مگر البتہ ایمان لائے گا ساتھ اس کے پہلے موت اس کی کے اور دن قیامت کے ہوگا اوپر ان کے گواہ ۔‘‘ ملاحظہ فرمایئے ان دونوں جگہوں میں کس صراحت کے ساتھ مرجع حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بنایا گیا ہے ۔
(کتاب فصل الخطاب کی تعریف و توثیق مرزا صاحب کی زبانی مرز اصاحب کی کتاب آئینہ کمالات اسلام ص۵۸۴ میں ملاحظہ فرمائیں نیز کتاب فصل الخطاب کے مقدمہ ص۶ میں بھی ملاحظہ فرمائیں۔)

﴾آیت نمبر۷
’’ وانہ لعلم للساعۃ فلا تمترن بہا……الخ ‘‘ او ربے شک وہ قیامت کی نشانی ہے پس اس میں شک مت کرو ۔ ﴿پارہ۲۵ زخرف ۶۱ ع۶﴾
یہ آیت بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قرب قیامت کے وقت نازل ہونے کی صریح دلیل ہے جیسا کہ تمام مفسرین نے انہ کی ضمیر کا مرجع عیسیٰ علیہ السلام بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ آنا ہے اور اسطرح شاہ عبدالقادر صاحب نے جو مرزا کے نزدیک تیرھویں صدی کے مجدد ہیں یہ ترجمہ کیا کہ حضرت عیسیٰ کاآنا نشان قیامت ہے اور اسطرح ملا علی قاری نے فقہ اکبر ص۱۴۶ پر اس آیت کو نزول عیسیٰ علیہ السلام پر بطور دلیل پیش کیا ہے اور مرزا قادیانی نے بھی اپنی کتاب اعجاز احمدی میں ضمیر کا مرجع عیسیٰ علیہ السلام کو بنایا ہے۔(اعجاز احمدی بنام ضمیمہ نزول مسیح ص۲۱ روحانی خزائن ج۱۹ ص۱۳۰)
﴾آیت نمبر ۸
’ ویکلم الناس فی المہد وکہلا……الخ ‘‘ اور وہ (عیسیٰ) لوگوں سے کلام کریں گے گود میں بھی اور بڑھاپے میں بھی ۔ ﴿سورہ مریم ﴾
واقعہ رفع یا صلیب یا قتل بالاتفاق قبل الکہولت عالم جوانی میں ہوا ہے پس ضروری ہے کہ وہ دوبارہ نازل ہوں تاکہ زمانہ کہولت کی گفتگو بھی صحیح ہو جائے اب مہد میں کلا م کرنا خارق عادت ہے جیسا کہ مرزا صاحب نے تریاق القلوب ص۸۰ حاشیہ ص ۴۱ روحانی خزائن ص ۲۱۷ ،۲۱۸ ج ۱۵ میں تسلیم کیاہے اور کہاہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے مہد میں کلام کی تو میرے بیٹے نے دو مرتبہ ماں کے پیٹ میں باتیں کیں تو مہد کی طرح ز مانہ کہولت کی کلام بھی خار ق عادت ہونی چاہیے اور وہ تب ہی ہوسکتا ہے جب ان کا دوبارہ نزول مانا جائے ورنہ زمانہ کہولت میں ہر ایک بات کرتا ہے تو پھر احسان کیسے ہوا ۔’’ ھو قول الحسین بن الفضل البجلی ان المراد بقولہ وکھلاان یکون کھلا بعد ان ینزل من السماء فی آخر الزمان ویکلم الناس ویقتل الدجال قال الحسین بن الفضل وفی ھذہ الآیۃ نص فی انہ علیہ السلام سنزل الی الارض۔‘‘(رازی۲ص۴۵۶،خازن ج۱ص۲۹۳)
کماقیل دندان تو جملہ در د ہانند
چشمان تو زیر آبرو ہا نند
یہ کلام کسی نے اپنے محبوب کی تعریف میں کہا تھا کہ تیرے سارے دانت منہ کہ اندر ہیں اور تیری آنکھیں ابروؤں کے نیچے ہیں تو یہ کوئی خاص تعریف کی بات نہیں ہے اور جس طرح یہ کلام تعریف نہیں بن سکتا اسی طرح اگر ویکلم الناس فی المہد وکہلا کو خار ق عادت نہ مانا جائے تو وہ بھی اسی طرح بے معنی ہوجائے گا کیونکہ کہولت اگر پہلے کی مراد لی جائے تو پھر توہر ایک کہولت کے زمانہ میں کلام کرتا ہے پھر یہ احسان خدا نے کاہے کو جتلایا احسان تب ہی بنتا ہے جبکہ اسے خارق عادت مانا جائے اور خارق عادت تب ہی ہوسکتا ہے جبکہ دوبارہ نزول کے بعد کہولت کے زمانہ میں ان کا کلام مانا جائے جیسا کہ مفسرین نے صراحت کردی ہے ۔
﴾آیت نمبر۹
’’ اذکففت بنی اسرئیل عنک ……الخ‘‘ او رجب ہم نے بنی اسرائیل کو تجھے( نقصان پہنچانے ) سے روک دیا ۔ ﴿پارہ ۷ اَلمائدہ ۱۱۰ع۱۵﴾
یہ بھی قیامت کے روز اﷲ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کو اپنے احسانات گنواتے ہوئے فرمائیں گے اگر رفع اور نزول نہ مانا جائے تو کف نہیں ہوسکتا کیا کف ایسا ہوا کہ ان کو اتنامارا کہ وہ بے ہوش ہوگئے پسلی چھیدی گئی ، کانٹوں کا تاج پہنایاگیا حتیٰ کہ سولی پر چڑہادیا گیا لہذا ماننا پڑے گا کہ ان کو بالکل دشمنوں سے محفوظ رکھ کر آسمانوں پر اٹھاکر بنی اسرائیل سے بچالیا۔
﴾آیت نمبر ۱۰
’’ واذعلمتک الکتاب والحکمۃ……الخ ‘‘ اور جب (اے عیسیٰ) میں نے تجھے کتاب اور حکمت کی تعلیم دی ۔ ﴿پارہ ۷ اَلمائدہ ۱۱۰ ع۱۵﴾
یہاں بھی اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن احسان جتلاتے ہوئے یہ احسان یا د دلائیں گے کہ میں نے تجھے قرآن کریم اور سنت کی تعلیم د ی بلکہ عیسیٰ علیہ السلام سے پیدا ہونے سے پہلے ہی ان کی والدہ کو بطور بشارت یہ بات فرما دی تھی کہ تیرے بیٹے کو قرآن کریم کی تعلیم دوں گا اگرانہوں نے دوبارہ اس وقت میں نہیں آنا تھا تو انہیں قرآن سکھانے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا انبیاء سابقین میں سے کسی او رنبی کو بھی قرآن کی تعلیم دی گئی ہے ؟ لہذا اس سے صاف واضح طور پر معلوم ہوگیا کہ عیسیٰ علیہ السلام نے دوبارہ اس امت محمدیہ میں تشریف لانی ہے اور حضور ﷺ کی شریعت کی تابعداری کرنی ہے اس لئے خصوصیت سے آپ کو قرآن کی تعلیم دی او رپھر قیامت کے روز بطور احسان کے ذکر فرمائیں گے بلکہ پیدا ہونے سے پہلے بھی اس احسان عظیم کو ان کی والدہ کے سامنے بطور پیش گوئی بیان فرمایا۔
٭فائدہ عظیمہ
اس آیت سے قادیانیوں کے ایک وسوسہ اورشبہ کا ازالہ ہوگیا جو وہ کہا کرتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام بقول تمہارے اس امت میں دوبارہ تشریف لائیں گے تو کیا وہ کسی مولوی کے پا س قرآن پڑھنے بیٹھیں گے یا ان کیلئے جبرائیل امین نازل ہوں گے کیونکہ انہوں نے زمین پر تو قرآن پڑھا نہیں تو یہ آیت مذکورہ میں اس شبہ کا ازالہ ہو گیا کہ اﷲ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلا م کو قرآن مجید کی تعلیم دیں گے جیسا کہ تورات وانجیل کی خود اﷲ تعالیٰ نے تعلیم دی ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

از قلم غلام نبی قادری نوری