﴾آیت نمبر ۱
’’ ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظہر ہ علی الدین کلہ ‘‘(براہین احمدیہ ج۴ حاشیہ ص۴۵۹ ایڈیشن قدیم ۴۹۹ روحانی خزائن ج۱ص۵۹۳)
﴾آیت نمبر ۲
’’ عسی ربکم ان یرحم علیکم ‘‘
(براہین احمدیہ ج۴ روحانی خزائن ص۶۰۱ ج۱ قدیم ایڈیشن ص۵۰۵ حاشیہ )
﴾آیت نمبر ۳
’’ ومکروا ومکراﷲ واﷲ خیر الماکرین ‘‘ ﴿پ۳ سورۃ آل عمران ع۵آتی ۵۴﴾
ترجمہ : اور انہوں نے خفیہ تدبیر کی اور اﷲ نے بھی خفیہ تدبیر کی اور اﷲ تدبیر کرنے والوں میں بہتر تدبیر کرنیوالے ہیں ۔
طرز استدلال
یہود ونا مسعود کی تدبیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کی تھی او رانہوں نے آپ کو قتل کرنے کی پوری کوشش کی جس کا اﷲ تعالیٰ نے ومکروا میں ذکر فرمایا ان کے مقابلہ میں اﷲ تعالیٰ نے اپنی تدبیر کا ذکر فرمایا اور اپنی تدبیر کو بہتر بتایا ان کی تدبیر ناکام ہوگئی اور اﷲ تعالیٰ کی تدبیر غالب ہوگئی ، چنانچہ یہود ا اسکریوطی جو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے تھا تیس روپے لیکر حضرت عیسیٰ علیہالسلام کو پکڑوانے والے کیلئے اس مکان میں داخل ہوا اﷲ تعالیٰ نے اسے حضرت عیسیٰ کی شکل میں تبدیل کردیا اور عیسیٰ کو اپنی کمال قدرت سے آسمان پر اٹھا لیا ۔
مذکورہ بالا آیت کی تمام مفسرین نے یہی تفسیر بیان کی ہے اور اﷲ تعالیٰ کی اس تدبیر کا ذکر کیا ہے کوئی ایک مفسر ؍مجدد پیش نہیں کیا جاسکتا جس نے یہاں پر عیسائیوں اور مرزائیوں کی تدبیربیان کی ہو ۔
نکتہ ﴾
’’ مکر‘‘ کہتے ہیں لطیف خفیہ تدبیر کو ۔ اگر اچھے مقصد کیلئے ہو تو اچھا ہے اور برائی کیلئے ہو توبرا ہے ۔ اسی لئے ’’ ولا یحیق المکر السیئی الا باھلہ‘‘میں مکر کے ساتھ سیئی کی قید لگائی ہے اور یہاں خدا تعالیٰ کو خیر الماکرین کہا۔ مطلب یہ ہے کہ یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف طرح طرح کی سازشیں اور خفیہ تدبیریں شروع کردیں حتیٰ کہ بادشاہ کے کان بھر دیے کہ یہ شخص (معاذاﷲ )ملحد ہے تورات کوبدلنا چاہتا ہے ، سب کو بد دین بنا کر چھوڑے گا ۔ اس نے مسیح علیہ السلام کی گرفتاری کا حکم دے دیا ادھر یہ ہورہا تھا اور ادھر حق تعالیٰ کی لطیف اور خفیہ تدبیر ان کے توڑ میں اپنا کام کررہی تھی جس کا آگے ذکر آئے گا ۔ بے
شک خدا کی تدبیر سب سے بہتر اور مضبوط ہے جسے کوئی توڑ نہیں سکتا۔﴿تفسیر عثمانی از علامہ شبیر احمد عثمانی ص۷۱﴾
﴾آیت نمبر ۴
’’اذ قال اﷲ یا عیسی انی متوفیک……الخ‘‘ ﴿پ۳ آل عمران ع۶آیت ۵۵﴾
ترجمہ : اے عیسیٰ بیشک میں تجھے لینے والاہوں او ر تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں ‘‘
یہ آیت بھی عیسیٰ علیہ السلام کی حیاۃ اور فع جسمانی کی صریح دلیل ہے اس میں اﷲ تعالیٰ نے یہودیوں کی تدبیر کے بالمقابل عیسیٰ کو تسلی دیتے ہوئے ان سے چا ر وعدے فرمائے ہیں۔
۱) یہ کہ تجھے وفات دونگا ،یہودی قتل نہیں کرسکیں گے
۲) اس وقت تجھے اپنی طرف اٹھا لوں گا
۳) کفار یعنی یہود سے تجھے پاک کروں گا
۴) تیرے متبعین کو تیرے دشمنوں پر قیامت تک غالب رکھوں گا
یہ چا روعدے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اﷲ تعالیٰ نے اس وقت کئے جب یہود نامسعود آپ کے قتل کا منصوبہ تیار کرچکے تھے یہاں پر رافعک میں جو رفع کا وعدہ ہے وہ باتفاق تما م مجددین و مفسرین رفع جسمانی ہے مرزا غلام احمد قادیانی کذاب سے قبل جس قدر مجدد ین گذرے ہیں کوئی ایک مجدد بھی ایساپیش نہیں کیاجاسکتا جس نے یہاں رفع سے مراد رفع درجات یا رفع روحانی لیا ہوا لبتہ متوفیک کے معنی میں علما ء کرام کی د و رائے ہیں ۔اکثر علماء نے اس کا معنی پورا پورا لینے کا کیا ہے یعنی جسد مع الروح کیونکہ یہی توفی کا حقیقی معنی ہے۔
بعض علماء نے متوفیک کا معنی ممیتک لیا ہے جیسا کہ بخاری شریف میں حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے منقول ہے لیکن یہ بھی ہمیں مضر نہیں ہے اس لئے کہ جن حضرات نے توفیٰ کا معنی موت کا لیا ہے وہ اس میں تقدیم و تاخیر کے قائل ہیں یعنی ممیتک عند انـقضاء اجلک ورافعک الآن۔میں تجھے ماروں گا جب تیری موت کا وقت مقرر ہوگا اور اب تجھے اٹھانے والاہوں ‘‘ ﴿تفسیر ابن عباس ﴾
جواب نمبر۱
تمام علماء نحو اس بات پر متفق ہیں کہ واؤ ترتیب کیلئے نہیں ہوتی بلکہ مطلق جمع کیلئے ہوتی ہے بخلاف ثم اور فاء کے ۔ شرح مائۃ عامل کا طالب علم بھی اس سے آگاہ ہے ۔
جواب نمبر ۲
قرآن مجید میں اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ واؤ ہمیشہ ترتیب کیلئے نہیں ہوتی جیسا کہ حضرت مریم کو فرمایا
’’ واسجدی وارکعی‘‘ اور سجدہ کیا کر اور رکوع کیا کر ۔﴿پ۳ آل عمران ۳۴ ع۵﴾
’’فاخذہ اﷲ نکال الآخرۃ والاولیٰ ‘‘ پس اﷲ تعالیٰ نے اس کو دنیا و آخرت کے عذاب میں پکڑا ۔ ﴿پ۳۰ اَلنازعات ۲۵ ع۱﴾
جواب نمبر ۳
اس پوری آیت میں مرزائیوں کے نزدیک بھی ترتیب ٹھیک نہیں ہے کیونکہ مرزائیوں کی تفسیر کے مطابق آیت کا معنی یوں ہوگا: ’’ اے عیسیٰ میں تجھے پہلے موت دینے والا ہوں اس کے بعد تیرا روحانی رفع یا رفع درجات کروں گا اس کے بعد تجھے کافروں سے پاک کروں گا اور اس کے بعد تیرے متبعین کو تیرے دشمنوں پر غالب کروں گا۔‘‘
اب مرزائیوں کے خیال کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام کی وفا ت کشمیر کی طرف ہجرت کرنے کے بعد واقعہ صلیب سے ستاسی سال بعد کشمیر میں ہوئی تو اب مطھرک من الذین کفروا (میں تجھے کافروں سے پاک کروں گا) پہلے ہوگیا اور وفات اور رفع ستاسی بر س بعد ہوا جس سے معلوم ہو اکہ ترتیب مرزائیوں کے نزدیک بھی قائم نہ رہی واقعہ کے طور پر تطہیر پہلے ہوئی او ر اس کے بعد وفات پھر رفع اور پھر غلبہ ۔
الجھا ہے پاؤں یا ر کا زلف درازمیں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
جواب نمبر ۴
کئی ایک مفسرین نے یہاں ترتیب کو الٹ کر تفسیر کی ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس کی تفسیر میں گذرچکا ہے ۔
جواب نمبر ۵
عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق افراط کا شکا رہوئے اور انہیں الٰہ تک بنا دیا اور یہود تفریط کے قائل ہوئے تو درجہ نبوت سے بھی نیچے گرادیا ۔ خدا تعالیٰ کو دونوں کی تردید کرنا مقصود تھی عیسائیوں نے شرک کیا تھا اور یہود نے گستاخی رسول ، چونکہ شرک بہرحال گستاخی رسول سے بڑا جرم ہے اس لئے اﷲ تعالیٰ نے پہلے اس کی تردید کی لفظ متوفیک سے کہ میں تجھے موت دوں گا ۔ مطلب صاف ظاہرہے کہ جس پر موت آتی ہے وہ الٰہ اور معبود نہیں ہوسکتا اس کے بعد یہود کی تردید ورافعک الی سے کی یعنی تم نے میرے رسول کی شان میں کمی کی میں نے تو ان کو اوپر اٹھا لیا او راوپر اٹھانے سے ان کی رفعت شان ظاہر ہوئی ۔

یہود ونا مسعود کی تدبیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کی تھی او رانہوں نے آپ کو قتل کرنے کی پوری کوشش کی جس کا اﷲ تعالیٰ نے ومکروا میں ذکر فرمایا ان کے مقابلہ میں اﷲ تعالیٰ نے اپنی تدبیر کا ذکر فرمایا اور اپنی تدبیر کو بہتر بتایا ان کی تدبیر ناکام ہوگئی اور اﷲ تعالیٰ کی تدبیر غالب ہوگئی ، چنانچہ یہود ا اسکریوطی جو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے تھا تیس روپے لیکر حضرت عیسیٰ علیہالسلام کو پکڑوانے والے کیلئے اس مکان میں داخل ہوا اﷲ تعالیٰ نے اسے حضرت عیسیٰ کی شکل میں تبدیل کردیا اور عیسیٰ کو اپنی کمال قدرت سے آسمان پر اٹھا لیا ۔
دلائل اثبات رفع ونزول ازروئے قرآن مجید
آپ کا رد عمل کیا ہے؟
Love0
Sad0
جواب دیں
تبصرہ کرنے سے پہلے آپ کا لاگ ان ہونا ضروری ہے۔
ریپلائی کیجیئے