رد مرزائیت کورس قسط 9

’’ عن عبداﷲ بن عمر قال قال رسول اﷲ ﷺ ینزل عیسیٰ ابن مریم الی الارض فیتزوج ویولد لہ ویمکث خمسا واربعین سنۃ ثم یموت فیدفن معی فی قبری۔‘‘ (باب نزول عیسیٰ فصل ثالث مشکوٰۃ شریف ص۴۸۰)

’’ عن عبداﷲ بن عمر قال قال رسول اﷲ ﷺ ینزل عیسیٰ ابن مریم الی الارض فیتزوج ویولد لہ ویمکث خمسا واربعین سنۃ ثم یموت فیدفن معی فی قبری۔‘‘ (باب نزول عیسیٰ فصل ثالث مشکوٰۃ شریف ص۴۸۰)

﴿رفع و نزول کا اثبات احادیث نبویہ سے ﴾

﴾حدیث نمبر ۱
’’ عن عبداﷲ بن عمر قال قال رسول اﷲ ﷺ ینزل عیسیٰ ابن مریم الی الارض فیتزوج ویولد لہ ویمکث خمسا واربعین سنۃ ثم یموت فیدفن معی فی قبری۔‘‘ (باب نزول عیسیٰ فصل ثالث مشکوٰۃ شریف ص۴۸۰)
مرزا اس کی تائید میں لکھتا ہے کہ ظاہر حدیث پر عمل کریں تو ممکن ہے کہ کوئی مثیل مسیح ایسا بھی ہو جو حضور ﷺ کے روضہ کے پا س مدفون ہو۔(ازالہ اوہام حصہ دوم حاشیہ ۴۷۰،روحانی خزائن ص۳۵۲ ج۳)
مرزا کی اس عبارت سے واضح ہوگیا کہ قبر سے مراد یہاں پر روضہ ہے لہذا مرزائیوں کا اعتراض رفع ہوگیا دوسری بات یہ بھی واضح ہوگئی کہ مرزا نے اس حدیث کو صحیح بھی تسلیم کرلیا ہے ۔
نیز دیکھو اس میں یتزوج ویولد لہ کو صحیح تسلیم کررہا ہے ۔ ’’ اس پیش گوئی کی تصدیق کیلئے جناب رسول ﷺ نے بھی پہلے سے ایک پیش گوئی فرمائی ہے کہ یتزوج ویولد لہ یعنی وہ مسیح موعود بیوی کرے گا اور نیز وہ صاحب اولاد ہوگا۔(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳،روحانی خزائن ص۳۳ج۱۱ ، بر حاشیہ )
۔﴾حدیث نمبر ۲
’’ اذا بعث اﷲ عیسیٰ ابن مریم فینزل عند المنارۃ البیضاء الشرقی دمشق بین مھز ودتین واضعاکفیہ علی اجنحۃ ملکین ……فیطلبہ حتی یدرکہ بباب لد فیقتلہ ۔‘‘ (مشکوٰۃ باب علامات بین یدی الساعہ فصل اول)
مرزائی لد کا مطلب لدھیانہ لیتے ہیں یہاں پر مرزا صاحب نے خود لد سے مراد بیت المقدس کے دیہات سے ایک گاؤں تسلیم کیا ہے ۔(بحوالہ حمامۃ البشریٰ ص۲۴،ازالہ اوہام ۲۲۰ روحانی خزائن ص۲۰۹ ج۳)
۔﴾حدیث نمبر ۳
’’ عن جابر رضی اﷲ عنہ قال……فینزل عیسیٰ بن مریم فیقول امیرھم تعال صل لنا فیقول لا ان بعضکم علی بعض امراء تکرمۃ اﷲ ھذہ الامۃ ۔‘‘ (مشکوٰۃ باب نزول عیسیٰ علیہ السلام)
ترجمہ : عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے تو مسلمانوں کے امیر اُن سے کہیں گے کہ آئیے نماز پڑھائیے وہ فرمائیں گے نہیں تم میں سے بعض بعض پر امیر ہیں یہ اﷲ کا اس امت کیلئے اعزاز ہے ۔‘‘
اس حدیث نے مرزائیوں کی تمام تاویلات واہیہ اور خیالات باطلہ کا بخوبی قلع قمع کردیا اور روز روشن کی مانند واضح کردیا کہ مسیح آنے والاوہی اسرائیلی نبی ہے نہ کہ اس امت کا کوئی اور شخص نیز مہدی اور عیسیٰ دونوں علیحدہ علیحدہ شخصیتیں ہیں نہ کہ ایک جس طرح قادیانی کہتے ہیں ،مسیح او رمہدی ایک ہی شخص کے نام ہیں جو مرزا ہے اور دلیل یہ دیتے ہیں ’’ لامہدی الا عیسیٰ‘‘ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ابن ماجہ کی روایت ہے جو سندکے اعتبار بالکل ساقط اور غیرمعتبر ہے ۔
علاوہ ازیں خود مرزا نے لکھا ہے ’’ اس لیے ماننا پڑا کہ مسیح موعود اور مہدی اور دجال تینوں مشرق میں ہی ظاہر ہوں گے ۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۴۷ روحانی خزائن ص۱۶۷ج۱۷) لفظ تینوں سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں علیحدہ علیحدہ شخصیات ہیں اور سابقہ حدیث بذات خود اس با ت کا علیحدہ ثبوت ہے کہ یہ دونوں الگ الگ شخصیات ہیں ۔

﴾حدیث نمبر ۴
’’ وعن الحسن البصری قال قال رسول اﷲ ﷺ للیھود ان عیسیٰ لم یمت وانہ راجع الیکم قبل یوم القیامۃ۔‘‘(در منثور ص ۳۶ ج۲)
ترجمہ : ’’ حسن بصری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے یہود کو فرمایا بے شک عیسیٰ علیہ السلام نہیں مرے او ربے شک وہ تمہاری طرف قیامت سے پہلے لوٹ کر آنے والے ہیں ۔‘‘
یہ حدیث حضر ت عیسیٰ علیہ السلام کی عدم موت او ر مراجعت کا قطعی ثبوت ہے ۔
اعتراض
یہ حدیث حسن بصری سے مروی ہے او ردرمیان میں کسی صحابی کا واسطہ نہیں ہے لہذا مرسل ہے اسلئے اس درجہ کی نہیں کہ استدلال کیا جاسکے ۔
جوا ب نمبر ۱
حضرت حسن بصری کی مرسلات حجت ہیں او ر حکم مرفوع متصل میں ہیں ان کے استاد حضرت علی رضی اﷲ عنہ ہیں ۔
جواب نمبر۲
تم اس کے مخالف کوئی مرفوع حدیث دکھادو جس میں ہوکہ حضور ﷺ نے فرمایا ہو ان عیسیٰ مات بلکہ ضعیف ہی دکھا دو جس میں موت کی تصریح موجود ہو۔
﴾حدیث نمبر۵
’’ الستم تعلمون ان ربنا حی لا یموت وان عیسیٰ یاتی علیہ الفناء۔‘‘ (صحیح مسلم جلد ۱ص۸۷،طبری ص۲۸۹ج۳)
ترجمہ : کیاتم نہیں جانتے یہ کہ ہمارا پروردگار زندہ ہے ، نہیں مرے گا اور بیشک عیسیٰ علیہ السلام پر فنا آنے والی ہے یا آئے گی ۔
یہ حضور ﷺ نے اسوقت فرمایا جبکہ عیسائیوں کے ساتھ مناظرہ ہوا آپ نے فرمایا کہ تم عیسیٰ کو کس طرح الوہیت کا درجہ دیتے ہوجبکہ ان پر فنا آئے گی اس میں آپ نے مضارع کا صیغہ استعمال فرمایا جو استقبال پر دال ہے اگر واقعی فو ت ہوچکے ہوتے تو حضور ﷺ فرماتے ’’ انی علیہ الفناء‘‘۔
﴾حدیث نمبر۶
’’ یحد ث ابو ھریرۃ عن النبی ﷺ قال والذی نفسی بیدہ لیھلن ابن مریم بفج روحاء حاجا او معتمرا او یثنیھما ۔‘‘(اخرجہ مسلم فی الصحیح ص۴۰۸، ج۱ کتاب الحج باب جواز التمتع فی الحج واحمد فی مسندہ ص۳۹۰، ج۲ والحاکم فی المستدرک ص۵۹۵،ج۲ والدر المنثور ص۲۴۵، ج۲ وعسل مصفی ص۱۵۲ ج۲)
ترجمہ : اس میں حضور ﷺ نے قسم کھا کر یہ مسئلہ بیان فرمایااور قسم کے متعلق مرزا صاحب کا حوالہ گذار چکا ہے کہ اس میں تاویل نہیں چل سکتی اور ظاہر محمول ہوتی ہے ۔
۔﴾حدیث نمبر۷
’’ ان اولی الناس بعیسی ابن مریم فی الاولی والآخرہ الانبیاء اخوۃ من العلات وامھا تھم شتی ودینھم واحد ولیس بیننا نبی فی روایۃ لانہ لم یکن بینی و بینہ نبی وانہ نازل واذا رایتموہ فاعرفوہ ……الخ ‘‘ (حقیقت نبوۃ مصنفہ مرزا محمود ص۱۸۸ ، ابوداؤد شریف ص۲۳۸ ج۲)
ترجمہ :بے شک دنیا اور آخرت میں میرے سب سے زیادہ قریب عیسیٰ علیہ السلام ہیں تما م انبیاء باپ شریک بھائی ہیں اور ان کی مائیں جدا جدا ہیں ،اور ان کا دین ایک ہے اور ہمارے درمیان کوئی نبی نہیں ہے اور ایک روایت میں ہے کہ میرے او رعیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے اور بے شک وہ نازل ہونے والے ہیں او ر جب تم ان کودیکھو گے تو پہچان لوگے۔

 ٭٭ ہمارا چیلنچ ٭٭
مزکورہ بالا حدیث سے عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بڑی صراحت سے یہ چند الفاظ ثابت ہوتے ہیں : ’ینزل، یموت، یدفن،یاتی علیہ الفناء ‘ یہ تمام مضارع کے صیغے ہیں جو عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی اور عدم موت پر صریح دلیل ہیں اگر یہ درست نہیں تو ہم روئے زمین کے تمام مرزائیوں کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ ان الفاظ کے برعکس ان کی نفی او رضد ثابت کریں ،جیسے ینزل کے بجائے لا ینزل ، یموت کے بجائے مات ، یدفن کی جگہ دفن ، یاتی علیہ الفنا ء کی جگہ اتی علیہ الفنا ء ، لم یمت کی جگہ مات ، رفعہ کی جگہ ما رفعہ یا لم یرفع ، ان الفاظ میں سے کوئی ایک لفظ بھی حضور ﷺ کی صحیح حدیث سے کوئی مرزائی ثابت کرے اور منہ مانگا انعام حاصل کرے ۔ اور حدیث سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ عیسیٰ ہی نازل ہوں گے یعنی ابن مریم ہی نازل ہوں گے جبکہ مرزا تو ابن چراغ بی بی ہے کیونکہ یہ حدیث قسم سے بیا ن ہورہی ہے اور مرزا قادیانی کے اصول کے مطابق اس میں کسی قسم کی تاویل نہیں ہوسکتی ۔ (حمامۃالبشریٰ ص۲۱ روحانی خزائن ج۷ص۱۹۲)

…………………………………………..جاری ہے 

از قلم غلام نبی قادری نوری