زندگی کی ابتدا حصہ اول

یہ کائی اپنی خوراک تیار کرنے کے ساتھ ساتھ غیرمعمولی مقدار میں آکسیجن بھی پیدا کر رہی تھی اس زمانے میں صرف کائی ہی نہیں بلکہ خلیات قدیمہ کی بہت سی دیگر نسلیں بھی وجود میں آ چکی تھیں لیکن کائی کے برعکس یہ نسلیں بھی صرف کیمیائی مرکبات کھا کر زندہ رہنے کی عادی تھیں

یہ کائی اپنی خوراک تیار کرنے کے ساتھ ساتھ غیرمعمولی مقدار میں آکسیجن بھی پیدا کر رہی تھی اس زمانے میں صرف کائی ہی نہیں بلکہ خلیات قدیمہ کی بہت سی دیگر نسلیں بھی وجود میں آ چکی تھیں لیکن کائی کے برعکس یہ نسلیں بھی صرف کیمیائی مرکبات کھا کر زندہ رہنے کی عادی تھیں

زندگی کی ابتدا
حصہ اول
__

سائنسی اصطلاح میں زندہ جسم اسے کہتے ہیں جسےماحول سے توانائی حاصل کر کے اسے استعمال کرنے کی صلاحیت ورثے میں ملی ہو
قدرتی طور پر پائے جانے والے تمام زندہ اجسام کی ایک اور خصوصیت نسل خیزی ہے
یعنی زندہ اجسام اپنے جیسے دیگر زندہ اجسام پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں

زمین پر زندگی کب، کیوں اور کیسے شروع ہوئی یہ بات سائنسدان ابھی تک مکمل تفصیل سے نہیں جان سکے
اب تک دریافت ہونے والے آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر سادہ جاندار آج سے کم از کم 343 کروڑ سال پہلے ضرور موجود تھے
بعض مشکوک شواہد سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ شاید زندگی کی ابتدا آج سے 380 کروڑ سال قبل ہو چکی تھی

زمین کے خدوخال کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان دونوں زمانوں میں زمیں کی حالت میں زیادہ فرق نہ تھا
زمین پر سمندر کی تشکیل ہو چکی تھی (اسے ایک ہی سمندر اس لئے لکھا گیا ہے کہ اس زمانے میں ابھی تک خشکی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں موجود تھی اور ابتدائی سمندر خشکی کی وجہ سے ابھی تقسیم نہ ہوا تھا)
اور چاند زمین سے حالیہ زمانے کی نسبت بہت زیادہ قریب موجود تھا
چاند کے اتنے نزدیک ہونے کی وجہ سے مدوجزر کی انتہائی اونچی لہریں اٹھتی تھیں

ماہرین کا اندازہ ہے کہ ان لہروں کی بلندی 300 میٹر (1000فٹ) تک تھی جو آج کل کی مدوجزر کی لہروں سے سینکڑوں گنا زیادہ ہے
چاند کے اتنے قریب ہونے کی وجہ سے زمین کی فضا بھی ہمہ وقت شدید طوفان کی صورت میں رہتی تھی
اور غیر معمولی حد تک طاقتور جھکڑ ہر وقت چلتے رہتے تھے
اس زمانے میں فضا میں آکسیجن آزاد حالت میں موجود نہ تھی بلکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی صورت میں موجود تھی

اس بارے میں بہت سے نظریات پیش کئے گئے ہیں جن میں سے دو خاص طور پر اہم ہیں
پہلے نظریے کے مطابق ڈی این اے کی تشکیل میں استعمال ہونے والے مرکبات (جنہیں امائنو ترشے کہا جاتا ہے) سمندروں میں اس وقت عام پائے جانے والے کیمیائی عناصر کے آپسی تعامل سے نتیجے میں بننے لگے
بعض نامعلوم واقعات اور وجوہات کی بنا پر بعد میں امائنو ترشے آپس میں ملنے لگے جس سے ڈی این اے کی تشکیل ہوئی
دوسرے نظریے کے مطابق ڈی این اے کی ابتدا زمین پر نہیں ہوئی تھی بلکہ یہ زمین سے باہر کہیں تشکیل پائے تھے
اور ان کی کچھ مقدار زمین پر گرنے والے شہابیوں کے ساتھ پہنچی تھی
سمندروں میں گرنے والے ان شہابیوں میں موجود ڈی این اے سے بعد میں زندہ اجسام کی ابتدا ہوئی

آسٹریلیا کے ساحل پر لاکھوں کی تعداد میں پڑے ہوئے یہ پتھر زمین پر زندگی کے قدیم ترین رکازات ہیں
یہ ریت کے بے شمار ذرات پر مشتمل ہیں جو آپس میں مضبوطی سے چپکے ہوئے ہیں
قریباَ 3.5 ارب سال قدیم یہ پتھر اولین طرز کے خلیات کے تشکیل دیے ہوئے سمجھے جاتے ہیں
یہ خلیات ایک چپکنے والا مادہ خارج کرتے تھے جس سے کروڑوں خلیات ریت کے ذروں سمیت آپس میں چپک جاتے تھے
ان پتھروں کو انگریزی میں سٹرومیٹولائٹ (Stromatolite) کہا جاتا ہے

قدیم ترین جانداروں کی ابتدا کیسے ہوئی، اس بارے میں ابھی سائنسدان لاعلم ہیں
البتہ اس زمانے میں زمین کی حالت اور آج کل پائے جانے والے سادہ ترین جانداروں کی تفصیل کو مد نظر رکھتے ہوئے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ابتدائی ترین جاندار سمندروں کی گہرائیوں میں ایسے علاقوں میں وجود میں آئے
جہاں اس زمانے میں زیر آب آتش فشاں پہاڑوں کی موجودگی کی وجہ سے پانی ابل کر چشموں کی صورت میں سمندری فرش سے باہر نکلتا تھا
زمین پر پائی جانے والی زندگی کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کیلئے حرارت لازمی ہے
آج کل اکثر جاندار اپنی زندگی کے برقرار رکھنے کیلئے مطلوبہ حرارت خود پیدا کرتے ہیں
لیکن قدیم ترین جانداروں میں ابھی ایسا نظام موجود نہ تھا
یہ حرارت کیلئے سمندری فرش پر موجود گرم پانی کے چشموں کے محتاج تھے
ان جانداروں میں صرف ایک ہی خصوصیت پائی جاتی تھی کہ یہ اپنے جیسے دیگر جاندار پیدا کرنے کے قابل تھے

یہ قدیم ترین جاندار یک خلوی تھے یعنی صرف ایک خلیے پر مشتمل تھے
ان خلیات قدیمہ کو انگریزی میں پروکارئیوٹ (prokaryote) کہا جاتا ہے
ساخت کے لحاظ سے خلیات قدیمہ آج کل پائے جانے والے تمام جانداروں کی نسبت بہت سادہ تھے
یہ صرف تقسیم در تقسیم کے قابل تھے اور اپنی ہستی برقرار رکھنے کیلئے سمندر کے فرش پر گرم پانی کے چشموں کے محتاج تھے
پانی کے بہاؤ کے ساتھ جو جاندار گرم چشموں سے دور چلے جاتے تھے وہ تقسیم کے قابل نہیں رہتے تھے
اور ان کے کیمیائی مرکبات ٹوٹ جاتے تھے
عام الفاظ میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ گرم چشموں سے دور جانے والے خلیے مر جاتے تھے

کئی کروڑ سال بعد ان ابتدائی جانداروں میں ایک اور قابلیت کا اضافہ ہوا
یہ ماحول سے غذا حاصل کر کے اس سے حرارت حاصل کرنے کا نظام تھا
سمندروں کی تاریک گہرائیوں میں بسنے والے یہ سادہ جاندار گندھک اور نائٹروجن پر مشتمل کیمیائی مرکبات کھاتے تھے
یہ مرکبات بعد میں پیچیدہ سے سادہ حالت میں تبدیل ہو جاتے تھے جس کے نتیجے میں تھوڑی سی حرارت پیدا ہوتی تھی
یہی حرارت ان سادہ جانداروں کو مطلوب تھی۔ اس حرارت کا فائدہ یہ تھا کہ اب یہ سادہ جاندار صرف گرم پانی کے چشموں تک ہی محدود نہ رہے تھے بلکہ ان سے دور بھی گندھک اور نائٹروجن کے مرکبات کھا کر زندہ رہ سکتے تھے

ضیائی تالیف کی ابتدا

بعض نامعلوم وجوہات کی بنا پر نامعلوم ماحولیاتی حالات میں آج سے قریباً 270 کروڑ سال قبل چند خلیات قدیمہ میں ضیائی تالیف کا نظام پیدا ہوا
یہ وہ نظام ہے جس کی بدولت سبز پودے سورج کی روشنی، پانی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ استعمال کر کے اپنی خوراک خود تیار کر سکتے ہیں
اس عمل کے دوران آکسیجن فالتو نتیجے کے طور پر پیدا ہوتی ہے

ضیائی تالیف (اسےانگریزی میں فوٹوسنتھسز Photosynthesis کہا جاتا ہے) زمین پر زندگی کی بنیاد ہے
ابتدائی قسم کے خلیات قدیمہ کے علاوہ باقی تمام جاندار اپنی زندگی کیلئے آکسیجن کے محتاج ہیں جو ضیائی تالیف سے ہی حاصل ہوتی ہے

غذائی زنجیروں میں بھی ضیائی تالیف بنیادی کردار ادا کرتی ہے
شیر جنگلی بھینسوں کا شکار کرتے ہیں اور جنگلی بھینسیں گھاس چرتی ہیں
گھاس ضیائی تالیف کے ذریعے بڑھتا ہے
اگر ضیائی تالیف کا عمل نہ ہوتا تو نہ گھاس ہوتی، نہ ہی گھاس کھانے والی جنگلی بھینسیں اور نہ ہی بھینسوں کا شکار کرنے والے شیر
اسی طرح سمندروں میں ڈولفن مچھلیوں کا شکار کرتی ہیں
مچھلیاں خود سے چھوٹی مچھلیاں کھاتی ہیں اور بہت چھوٹی مچھلیاں سطح سمندر کے قریب پائے جانے والے یک خلوی جاندار کھاتی ہیں
یہ یک خلوی جاندار ضیائی تالیف کے ذریعے اپنی خوراک تیار کرتے ہیں

ضیائی تالیف بنیادی طور پر سورج کی توانائی کو محفوظ کرنے کا قدرتی نظام ہے
زمین پر بسنے والے تمام جاندار حقیقت میں سورج کی روشنی کھا کر زندہ رہتے ہیں
پودے، درخت، حشرات، پرندے، جانور؛ یہ سب سورج کی روشنی کے مختلف روپ ہیں

ضیائی تالیف پیدا کرنے کے قابل یہ جاندار آج کل پائی جانے والی سبز کائی جیسے تھے جو نم پتھریلی جگہوں پر اگ آتی ہے
اس کائی کو ابتدائی اقسام کے خلیات قدیمہ پر یہ برتری حاصل تھی کہ یہ سمندرو ں کی سطح پر زندگی برقرار رکھ سکتی تھی
جبکہ گندھک اور نائٹروجن پر مشتمل مرکبات کھا کر زندہ رہنے والے خلیات قدیمہ صرف گہرائیوں کے باسی تھے
جہاں یہ مرکبات آسانی سے دستیاب تھے
اس کائی کو خلیات قدیمہ کی قدرے جدید قسم تسلیم کیا جاتا ہے
یہ کائی فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو رفتہ رفتہ آکسیجن میں تبدیل کر رہی تھی
چونکہ اس کائی کو کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ تھا، اس لئے اس کی مقدار میں اضافہ ہوتا گیا
آخر کئی کروڑ سال بعد یہ قدیم کائی اتنی بڑھ گئی کہ سمندروں کی سطح اس کی موجودگی سے سبز ہو گئی

یہ کائی اپنی خوراک تیار کرنے کے ساتھ ساتھ غیرمعمولی مقدار میں آکسیجن بھی پیدا کر رہی تھی
اس زمانے میں صرف کائی ہی نہیں بلکہ خلیات قدیمہ کی بہت سی دیگر نسلیں بھی وجود میں آ چکی تھیں
لیکن کائی کے برعکس یہ نسلیں بھی صرف کیمیائی مرکبات کھا کر زندہ رہنے کی عادی تھیں
مختلف اقسام کے کیمیائی مرکبات کھا کر زندہ رہنے والی کئی اقسام کے خلیات قدیمہ کی نسلیں ان کروڑوں سالوں کے دوران وجود میں آ رہی تھیں

کئی کروڑ سال تک اس کائی کی تیار کی ہوئی آکسیجن سمندری پانی میں حل ہو کر سمندر کی تہہ میں موجود لوہے کے وسیع ذخائر سے تعامل کر کے ختم ہو تی رہی
لوہے اور آکسیجن کے تعامل کے نتیجے میں زنگ پیدا ہوتا ہے
ایک طویل عرصے تک کائی کی خارج کی ہوئی آکسیجن سمندر کے فرش پر موجود لوہے کے وسیع ذخائر اور پھر قشر ارض پر باقی رہ جانے والے (یاد رہے کہ لوہے کی بیشتر مقدار وزنی ہونے کے باعث زمین کی تشکیل کے دوران گہرائی میں دفن ہو کر قلب میں شامل ہو چکی تھی
جبکہ بہت تھوڑی مقدار قشر ارض پر باقی رہ گئی تھی)
آخر ایک وقت ایسا آیا کہ سمندری فرش اور خشکی پر موجود لوہے کے تمام ذخائر زنگ میں تبدیل ہو گئے
اب کائی کی پیدا کی ہوئی آکسیجن فضا میں آزادانہ دستیاب ہونے لگی تھی
یہ آج سے قریباً 255 کروڑ سال قبل کی بات ہے

فضا میں آکسیجن کی عام فراہمی کا اولین نتیجہ وسیع پیمانے پر خلیات قدیمہ کی موت کی صورت میں نکلا
کیمیائی مرکبات کھا کر زندہ رہنے والے ان خلیات کے لئے آکسیجن مہلک زہر کی حیثیت رکھتی تھی
جب فضا میں آکسیجن کا تناسب 3 فیصد تک پہنچا (یعنی ہوا میں موجود آکسیجن کا وزن ہوا کے کل وزن کا 3 فیصد ہو گیا) تو کرہ ارض کی تاریخ کی یہ ابتدائی ترین عظیم معدومیت واقع ہوئی
یاد رہے کہ عظیم معدومیت اس واقعے کو کہا جاتا ہے جب بہت سی اقسام کے تمام جاندار کچھ ہی عرصے میں ہلاک ہو جائیں