سیرت_النبیﷺ
قسط_نمبر_7
*جاہلی معاشرے کی چند جھلکیاں (حصہ اول)*
پچھلی دو اقساط میں عربوں میں بت پرستی کی تاریخ اور ولادت نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے وقت سرزمین عرب اور خصوصا” مکہ و مدینہ میں رائج مختلف ادیان اور عقائد کا جائزہ لیا گیا، اس قسط میں ظہور اسلام کے وقت عربوں اور خصوصا” قریش مکہ کے معاشی اور معاشرتی حالات بیان کیے جائیں گے۔
ظہور اسلام کے وقت اگر عرب معاشرے کا ایک سرسری سا جائزہ بھی لیا جاۓ تو ایک بات شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ تب کا عرب معاشرہ ایک ہی وقت میں اچھی بری متضاد خصلتوں کا شکار تھا، اور اس سے بھی اہم بات یہ کہ اچھی بری یہ متضاد خصلتیں اپنی پوری شدت سے ان میں سرائیت پزیر تھیں، ایسے میں اگر ہم ان میں رائج بد عادات و رسوم و رواج کو مدنظر رکھیں تو عرب معاشرہ ایک بدترین معاشرے کی تصویر پیش کرتا ہے اور اگر ہم عربوں کے اوصاف حمیدہ کو سامنے رکھیں تو درحقیقت ان سے بہتر انسانی معاشرہ اور معاشرتی اقدار کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
بنیادی طور پر عرب معاشرہ تین طبقات پر مشتمل تھا۔
*1 : حضری:*
وہ لوگ جو شھروں میں آباد تھے اور مستقل طور پر شھروں میں ہی سکونت پذیر تھے، ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی، حضری عربوں کا ذریعہ آمدنی نخلستانوں کی آمدن اور تجارت تھا، درحقیقت یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے پردادا حضرت ہاشم تھے جنہوں نے روم و ایران اور شام و ہندستان کے حکمرانوں کے ساتھ تجارتی معاہدات کیے، اس طرح عرب لوگ بڑے بڑے قافلوں کی صورت میں ان کے ممالک جاتے اور وہاں سے قافلے عرب آتے، قریش مکہ کو کیونکہ خانہ کعبہ کی تولیت کی وجہ سے مرکزی اہمیت حاصل تھی، اس لیے قریش مکہ کے قافلوں کو عرب کے بدوی قبائل لوٹنے سے بھی گریز کرتے۔
*2 : بدوی:*
عرب کی اکثر آبادی بدوی قبائل پر مشتمل تھی جو خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتی تھی، ان کا اصل ذریعہ معاش گلہ بانی یعنی جانور پالنا تھا، اس لیے جہاں کہیں چراگاہ نظر آتی وہیں ڈیرے ڈال دیئے جاتے تھے، جب اس چراگاہ میں ان کے جانوروں کی خوراک ختم ہوجاتی تو وہاں سے کسی اور جگہ کا رخ کرتے، اس کے علاوہ رہزنی بھی ان کی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ تھا، یہ لوگ عرب کے صحراؤں میں آتے جاتے قافلوں کو لوٹ لیتے جو قبائل ڈاکہ کے ذریعے روزی کماتے تھے وہ اس پر بہت فخر کیا کرتے تھے..
*3 : لونڈی اور غلام:*
معاشرے کا تیسرا اور سب سے نچلا طبقہ لونڈیوں اور غلاموں کا تھا جو حضری و بدوی عربوں کے ساتھ خادم کی حیثیت سے رہتے تھے، غلاموں میں عرب اور غیر عرب دونوں شامل تھے، عرب تو قبائل کی آپس کی جنگ میں مغلوب ہونے یا پھر مقروض ہونے کی وجہ سے لونڈی اور غلام بنا لیے جاتے، جبکہ غیر عرب بکتے بکاتے سرزمین عرب پہنچتے جہاں باقاعدہ منڈیوں اور بازاروں میں ان کی خرید و فروخت ہوتی تھی، مالک کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنے غلام پر جس طرح چاہے ظلم ڈھاۓ اور چاہے تو اسے جان سے ہی مار ڈالے، معمولی معمولی باتوں پر غلاموں کو اتنی سخت سزائیں دی جاتیں کہ انسانیت کی روح بھی کانپ اٹھتی، غلام کا بیٹا بھی پیدائشی غلام ہوتا تھا، اسی طرح لونڈیاں بھی ظلم و ستم کا نشانہ بنتی تھیں اور ان سے بدکاری کا پیشہ بھی کرایا جاتا تھا، ناچ گانے جاننے والی لونڈیوں کی قیمتیں نسبتا” زیادہ ہوتی تھیں، غرضیکہ غلاموں اور لونڈیوں کی جان و مال، عزت و آبرو اور اولاد سب کی سب ان کے آقا کی ہی ملکیت ہوتی تھی۔
عرب معاشرے میں جنگ و جدل کا سلسلہ مسلسل جاری رہتا، مگر اس جنگ و جدل، مسلسل خانہ جنگی اور صدیوں تک جاری رہنے والے باہمی بغض و عناد اور تعصب و عداوت کے باوجود عرب ایک مشترکہ ثقافت رکھتے تھے جس کے بنیادی عناصر میں اپنے آباء و اجداد پر فخر کرنا، ان کی روایات کو برقرار رکھنا اور مشترکہ زبان عربی کو گنوایا جاسکتا ہے۔
عرب نسلی طور پر قحطانی اور عدنانی (بنو اسماعیل) دو گروہوں میں بٹے ہوتے تھے، لیکن دونوں کو عربی زبان پر فخر تھا، شعرو شاعری بچے بچے کی زبان پر تھی اور شعری ذوق اور عرب ثقافت کا بھرپور اظہار طائف کے قریب “عکاظ” کے مقام پر ہر سال لگنے والے میلہ میں کیا جاتا، عام حالات میں ایک عرب جنگجو سپاہی تھا، مگر اس میلے میں وہ بھی ایک شاعر کا روپ دھار لیتا، شراب خوری کی مجلسیں سجائی جاتیں اور گردش جام کے ساتھ ایسی بلند پایہ غزلیں کہی جاتیں کہ آج تک اس دور کے ادب کو کلاسیکی مانا جاتا ہے، فاحشہ عورتوں کی موجودگی نے ان مجالس کو بیہودگی کی انتہائی پستیوں تک پہنچا دیا تھا۔
*جاہلی معاشرے کی چند جھلکیاں: (حصہ دوم)*
پروفیسر عبدالحمید صدیقی اپنی کتاب ” لائف آف محمد” (صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم) میں لکھتے ہیں کہ جب عرب تاجر اپنے تجارتی کارواں لےکر روم و ایران و شام اور ہندستان تک جاتے وہ واپسی پر عیش پرستی اور تمام بری عادات لے کر لوٹتے، شام و عراق سے لڑکیاں درآمد کی جاتیں جنہیں عیش پرستی کے لیے استعمال کیا جاتا، شھوانی خواہشات کے اس چٹخارے نے عربوں کو بلا کا اوباش اور نفس پرست بنا دیا تھا اور ان کے ہاں بدکاری اتنی رچ بس گئی تھی کہ اگر کوئی صالح شخص ان بدکاریوں اور بری عادات سے اجتناب برتتا تو اس کا مذاق اڑایا جاتا اور اسے کمینہ، کنجوس اور غیر ملنسار قرار دے دیا جاتا۔
عرب معاشرے کی اخلاق باختگی کا ایک اور تاریک پہلو خاندانی نظام کی گراوٹ تھا، عرب کے متمول طبقے میں تو پھر بھی حالت کچھ بہتر تھی، مگر عمومی طور پر مرد عورت کا اختلاط سواۓ فحاشی اور بدکاری کے اور کچھ نہیں تھا، ایک ہی وقت میں کئی کئی عورتوں کو اپنے حرم میں داخل کرلیا جاتا، دو سگی بہنوں سے بیک وقت نکاح کرلینا اور باپ کے مرنے کے بعد سوتیلی ماں کو اپنی زوجیت میں لے لینے میں کوئی عار نہ تھا، دس دس لوگ ایک ہی عورت سے تعلقات قائم کرلیتے، جگہ جگہ رنڈیوں اور طوائفوں کے گھر زنا اور بدکاری کے اڈے تھے، شراب نوشی اور جواء عام تھا۔
ان کی بے حیائی کا یہ عالم تھا کہ ان کی بیٹیاں تک نیم عریاں لباس میں قبائلی مخلوط مجالس میں شریک ہوتیں جہاں ان کے جسمانی اعضاء پر نہایت فحش شعر پڑھے جاتے، دنیا کی شاید ہی کوئی برائی ہو جو عربوں میں موجود نہ تھی، لہو و لعب، فسق و فجور اور قتل و غارتگری کے دلدادہ، زنا و بدکاری کے رسیا اور شراب نوشی اس قدر کہ جیسے ہر گھر ایک شراب خانہ تھا۔
عرب نہایت شقی القلب اور سنگدل تھے، جانوروں کو درختوں سے باندھ کر نشانہ بازی کی مشق کی جاتی، زندہ جانور کا کوئی حصہ کاٹ کر کھا جاتے، اسیران جنگ کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا، ایک ایک عضو کاٹ کر موت کے گھاٹ اتارا جاتا، دشمنوں کا جگر نکال کر کچا چبا لیا جاتا، ان کے کاسۂ سر میں شراب ڈال کر پی جاتی، مجرموں کو حد درجہ وحشیانہ سزائیں دی جاتیں۔
درحقیقت یہ اسلام کی حقانیت و سچائی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے کہ ایسی وحشی و جاہل قوم کو بدل کر تمام اقوام عالم کا پیشوا بنا دیا اور ان کو اخلاقی طور پر فرشتوں کے جیسا پاکیزہ بنا دیا، تاہم اخلاقی طور پر پستی اور گراوٹ کی اتھاہ گہرایوں میں ڈوبے اس معاشرے میں ایسے سلیم فطرت صالح انسان موجود تھے جو ان قبیح حرکات سے الگ تھلگ تھے۔
دوسری طرف جب انہی بدکار و بے حیا عربوں میں کچھ ایسی اخلاقی اچھائیاں بھی پائی جاتی تھیں جو ان عربوں کے لیے وجہ امتیاز تھیں۔ شجاعت عربوں میں اپنی معراج پر تھی، ان کی بہادری درحقیقت سفاکی کے درجہ تک پہنچی ہوئی تھی، کسی عرب کے لیے میدان جنگ میں تلوار کی دھار پر کٹ مرنا عزت اور شرافت کی بات تھی اور بستر پر ناک رگڑ رگڑ مرنا ذلت اور گالی سمجھا جاتا، نہ صرف مرد بلکہ عورتیں بھی میدان جنگ میں مردوں کے دوش بدوش حصہ لیتیں۔
سخاوت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا، کبھی کبھی تو اپنے پاس کا آخری روپیہ تک سائل کے حوالے کردیا جاتا، مہمان نواز اس درجے کے تھے کہ اگر کسی کے پاس صرف ایک اونٹ گزر بسر کے لیے ہوتا تو اگر مہمان آ جاتے تو اسے ذبح کرکے مہمانوں کو کھلا دیا جاتا..
عرب آزادی کے دلدادہ تھے اور اپنی آزادی برقرار رکھنے میں کسی قربانی سے دریغ نہ کرتے تھے، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ روم و ایران کی عظیم سلطنتوں کے بیچ میں ہونے کے باوجود کوئی ان کو محکوم نہ بنا سکا۔
عرب آخر درجے کے وفا پیشہ تھے، عہد و پیمان کی پابندی کو فرض سمجھا جاتا تھا اور ایفاۓ عہد میں اپنی جان و مال اور اولاد تک کو قربان کردیا جاتا تھا، جب کسی کو پناہ دے دیتے تو اپنی جان قربان کردیتے مگر اپنی پناہ میں آۓ شخص پر ایک آنچ نہ آنے دیتے۔
شاید عرب قوم کی یہ امتیازی صفات ہی تھیں کہ جن کی وجہ سے اللہ نے اس قوم کو اسلام کی داعی قوم کے طور پر فضیلت بخشی، بلاشبہ عرب قوم بدکاری و بے حیائی کی دلدل میں مکمل طور ڈوبی ہوئی تھی، مگر یہ سب وہ بری صفات تھیں جو ان کی فطرت میں شامل نہ تھیں اور انہیں ختم بھی کیا جاسکتا تھا اور اسلام کے ظہور کے بعد ختم ہو بھی گئیں، مگر کسی قوم کو نہ تو کوشش سے بہادر بنایا جاسکتا ہے نہ ہی امانت دار اور نہ ہی حریت و آزادی کا متوالا، یہ وہ صفات ہیں جن سے عرب قوم کو اللہ نے خوب خوب نواز رکھا تھا۔
اور جب اسلام قبول کرنے کے بعد عرب قوم اپنی اخلاقی گراوٹ سے نکلی اور ان صفات میں جب اسلامی جذبہ جہاد کی روح بھی پھونک دی گئی تو پھر دنیا میں ان کی شجاعت اور تلوار کی بہادرانہ کاٹ کا کسی قوم کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
جاری_ہے
ماشاء اللہ عزوجل