سیرت_النبی_کریم_ﷺ
قسط_نمبر_6
آپﷺ کی ولادت کے وقت سرزمین عرب میں موجود دوسرے ادیان ومذاہب کا مختصر سا جائزہ:*
پچھلی اقساط میں مشرکین حجاز و عرب کے عقائد اور بت پرستی کی تاریخ بیان کی گئی، اس قسط میں ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت سرزمین عرب میں موجود دوسرے مذاہب اور ادیان کا ایک مختصر جائزہ پیش کریں گے۔
*یہودیت:*
عرب میں بت پرستی کے بعد دوسرا اہم ترین مذہب یہودیت تھا، یہ لوگ دو وجہ سے سرزمین میں آباد ہوئے، ایک تو اس لیے کہ حضرت عیسی’ علیہ السلام کی پیدائش سے پانچ سو سال پہلے جب بابل کے بادشاہ “بخت نزار” نے فلسطین کو تاراج کیا اور تباہ و برباد کیا تو یہودیوں کے بہت سے قبائل جان بچاکر دنیا کے کئی دوسرے حصوں کی طرف بھاگے، انہی میں سے چند قبائل عرب کی طرف آ نکلے اور خود کو یہاں محفوظ جان کر آباد ہوگئے۔
دوسری بہت اہم وجہ یہ تھی کہ یہودیوں کو تورات و زبور کی پیش گوئیوں کی وجہ سے علم تھا کہ اللہ عنقریب اپنا آخری پیغمبر سرزمین عرب میں مبعوث فرمانے والا ہے، یہ اس نبی کو اپنا نجات دہندہ جانتے تھے، اس لیے یہ لوگ آخری نبی کے انتظار میں یہاں آ کر آباد ہوگئے، چونکہ حضرت ابراھیم علیہ السلام سے لےکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک جتنے بھی نبی آۓ سب بنی اسرائیل میں سے ہی مبعوث ہوۓ تھے تو اس بناء پر ان کا خیال تھا کہ آخری نبی بھی بنی اسرائیل سے ہی ہوگا، مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت ملی تو اس بات کے باوجود کہ تورات و زبور اور دوسرے الہامی صحائف میں آخری نبی کی جو نشانیاں بتائی گئی تھیں سب کی سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کھلم کھلا نظر آ گئیں، مگر عرب کے یہود نے محض اس حسد اور تعصب پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنی اسرائیل کے بجاۓ بنی اسماعیل میں سے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی ماننے سے انکار کردیا۔
سب سے پہلے یہ لوگ یثرب (مدینہ) اور خیبر کے علاقہ میں آباد ہوۓ، ان کے اثر سے کچھ مقامی افراد نے بھی یہودیت اختیار کرلی، پھر 354 قبل مسیح میں یثرب سے دو یہودی مبلغ یمن پہنچے تو ان کے اثر سے یمن کے حمیری بادشاہ “یوسف ذونواس” نے جب یہودی مذہب قبول کرلیا تو یمن میں یہودیت کو بہت فروغ ملا۔
یہ لوگ اپنے علم اور دولت کی وجہ سے خود کو عربوں سے بہت برتر خیال کرتے تھے اور عربوں کو اپنے مقابلے میں “اُمّی” یعنی جاھل سمجھتے تھے، نسلی برتری کا شکار یہ متعصب قوم خود کو خدا کا چہیتا اور برگزیدہ تصور کرتی تھی، ان کا خیال تھا کہ جہنم کی آگ ان کو چند دن سے زیادہ
نہیں چھوۓ گی، حالاں کہ یہ لوگ اپنے تمام تر اوصاف کھوچکے تھے، سودخوری ان کا شعار بن چکی تھی، حسب ضرورت تورات اور مذہبی احکام میں تحریف کرنا ان کے ہاں عام تھا، مذہب گویا ان کے گھر کی لونڈی جیسا تھا جس کے ساتھ وہ جو چاہیں کریں، چونکہ خود کو تمام اقوام سے برتر جانتے تھے تو ان سے ہر قسم کا دجل و فریب اور ظلم جائز تھا، تاہم اپنی پوری دنیا پرستی کے باوجود مدینہ اور اردگرد کے علاقے میں ان کو الٰہیات اور خدائی علوم میں اجارہ داری حاصل تھی، ان کے اثر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مدینہ کے قبائل اوس و خزرج میں کسی کی اولاد نہ ہوتی تو وہ منت مانتا کہ بیٹا ہونے کی صورت میں اسے یہودی بنادیں گے۔
*عیسائیت:*
عربوں میں تیسرا اہم مذہب عیسائیت تھا، حضرت عیسی علیہ السلام سے کم و بیش 250 سال بعد
روم کی عیسائی حکومت کے زیراثر شام کی طرف کے عرب قبائل نے عیسائیت قبول کرلی، دوسری طرف حیرہ کے عرب بادشاہ “نعمان بن منذر” نے دین عیسوی قبول کیا تو وہاں کے بہت سے لوگ عیسائی ہوگئے، جبکہ یمن میں جب عیسائی مبلغین کی تبلیغ پر کچھ لوگ عیسائی ہوۓ تو یہودی بادشاہ “یوسف ذونواس” نے ان پر بے پناہ ظلم و ستم کیا اور پھر قتل کرادیا، روم کی عیسائی حکومت تک جب یہ خبر پہنچی تو قیصر روم بہت غصبناک ہوا، اس نے شاہ حبشہ کو جو رومی حلقہ اثر میں ایک عیسائی حکمران تھا، حکم دیا کہ یوسف ذونواس سے اس ظلم و ستم کا بدلہ لیا جاۓ، چنانچہ وہاں سے ایک حبشی نژاد لشکر آیا اور یوسف ذونواس کو شکست دےکر یمن پر بھی عیسائی حکومت قائم کردی۔
“ابرھہ بن اشرم” اسی لشکر کا ایک فوجی سردار تھا جو بتدریج ترقی کرکے بالآخر یمن کا نیم خود مختار بادشاہ بن بیٹھا، یہ کٹر عیسائی تھا اور اس نے یمن میں عیسائیت کے فروغ کے لیے بے پناہ کام کیا، یاد رہے کہ یہ وہی ابرھہ ہے جس نے “صنعاء” میں کعبہ کے مقابلے پر ایک عظیم الشان کلیسا (گرجا) تعمیر کرایا اور پھر خانہ کعبہ کو گرانے کے ارادہ سے مکہ پر حملہ آور ہوا تھا، (اس واقعہ کی تفصیل قسط نمبر 6 میں گزر چکی ہے۔)
اس زمانے کے عیسائی حضرت عیسی’ علیہ السلام کی تعلیمات کے بجاۓ “سینٹ پال” کے مذہب کے پیرو ہو چکے تھے، سینٹ پال پہلے یہودی تھا، اس نے دعو’ی کیا کہ اسے حضرت عیسی’ علیہ السلام نے خواب میں حکم دیا ہے کہ میرا دین پھیلاؤ، یوں وہ عیسائی ہوا اور پھر اس نے بتدریج عیسائیت کو ایک الہامی مذہب سے شرک و گمراہی سے لتھڑا ہوا مذہب بنا دیا، اس نے عیسائیت میں عقیدۂ تثلیث یعنی تین خداؤں کا عقیدہ شامل کیا، حضرت عیسی’ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا ٹھہرایا۔
اس نے عیسائیوں کو اس فریب میں مبتلا کردیا کہ حضرت عیسی’ علیہ السلام سولی چڑھ کر سب عیسائیوں کے گناہوں کا کفارہ ادا کرگئے ہیں اور اب انہیں گناہ کی کھلی چھٹی ہے، سینٹ پال کے زیر اثر عیسائی صرف پادری کے سامنے اعتراف جرم و گناہ کو ہی کافی سمجھتے، تاہم یہود کے مقابلے میں ان کی اخلاقی حالت قدرے بہتر تھی اور قبول حق کی صلاحیت سے بھی یہ لوگ بہرہ ور تھے، اس بات کا اندازہ آج بھی کیا جاسکتا ہے کہ آج بھی اسلام کی حقانیت جان کر مسلمان ہونے والوں میں یہودیوں کے مقابلے میں عیسائیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
آپﷺ کی ولادت کے وقت سرزمین عرب میں موجود باقی مذاہب اور ادیان کا مختصر سا جائزہ:*
سابقہ اقساط میں مشرکین حجاز و عرب کے عقائد اور بت پرستی کی تاریخ اور مذھب یہودیت و عیسائیت کا تذکرہ کیا گیا، اس قسط میں ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت سرزمین عرب میں موجود باقی مذاھب اور ادیان کا ایک مختصر جائزہ پیش کریں گے۔
*آتش پرست:*
ایران و عراق کی سرحد کے پاس آباد عرب قبائل ایرانیوں کے مذھب آتش پرستی سے بہت متاثر ہوئے، اہل ایران کی طرح یہ بھی نیکی اور بدی کے دو الگ الگ خداؤں کے قائل تھے اور اہل ایران کی طرح آگ کو خدا کا ظہور مانتے اور اس کی پوجا کرتے تھے۔
*صائبی۔*
عرب جاہلیت میں ایسے لوگ بھی تھے جن میں ستارہ پرستی کا چرچا تھا اور یہ ستاروں کی پوجا کرتے تھے، غالباً ان کا مذہب وادی دجلہ و فرات کی قدیم تہذیبوں کی باقیات میں سے تھا، ان کا دعویٰ تھا کہ ان کا مذہب الہامی مذہب ہے اور وہ حضرت شیث علیہ السلام اور حضرت ادریس علیہ السلام کے پیروکار ہیں، ان کے ہاں سات وقت کی نماز اور ایک قمری مہینہ کے روزے بھی تھے، ان کو مشرک عرب معاشرہ صابی یعنی بے دین کہہ کر پکارتا تھا، یمن کا مشہور قبیلہ “حمیر” سورج کی پوجا کرتا تھا، قبیلہ اسد سیارہ عطارد کی اور قبیلہ لحم و جزام سیارہ مشتری کو دیوتا مان کر پوجتے تھے، بعض لوگ قطبی ستارہ کے پجاری تھے اور قطب شمالی کی طرف منہ کرکے عبادت کرتے تھے، یہ لوگ خانہ کعبہ کی بھی بہت تکریم کرتے تھے۔
*دہریت:*
ان تمام مذاہب کے ساتھ ساتھ عرب میں ایسے لوگ بھی پاۓ جاتے تھے جو سرے سے مذہب اور خدا پر یقین ہی نہ رکھتے تھے، یہ نہ بت پرست تھے اور نہ کسی الہامی مذہب کے قائل تھے، ان کے نزدیک خدا، حشر و نشر، جنت دوزخ اور جزا وسزا کا کوئی وجود نہ تھا، یہ دنیا کو ازلی و ابدی قرار دیتے تھے۔
*مذہب توحید کے علم بردار:*
عرب معاشرہ میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود تھے جو اپنی فطرت سلیم اور قلبی بصیرت کی بدولت توحید خالص تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے، یہ لوگ ایک خدا کے قائل تھے اور شرک و بت پرستی سے نفرت کرتے تھے، ان میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سگے چچا زید بن عمر بن نفیل اور عبیداللہ بن جحش مشہور ہیں، دین حق کی تلاش میں سرگرداں ان لوگوں میں سے ورقہ بن نوفل بلآخر عیسائی ہوگئے، یہ وہی ورقہ بن نوفل ہیں، جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہونے پر آپ کی نبوت کی تصدیق کی تھی۔
عبیداللہ بن جحش اسلام کے بعد مسلمان ہوگئے، لیکن حبشہ ہجرت کی تو وہاں بدقسمتی سے مرتد ہوکر عیسائی ہوگئے، جبکہ ان میں زید بن عمر بن نفیل کو بہت اونچا مقام حاصل ہے، حالاں کہ ان کو اسلام نصیب نہیں ہوا، کیونکہ وہ پہلے ہی وفات پاگئے تھے، لیکن ان کی فضیلت کا اندازہ اس حدیث مبارکہ کے مفہوم سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب قیامت کے دن ہر امت اپنے نبی کی قیادت میں اٹھاۓ جائی گی تو زید بن عمر بن نفیل اکیلے ایک امت کے طور پر اٹھاۓ جائیں گے۔
زید بن عمر بن نفیل نے بت پرستی، مردار خوری، خون ریزی اور دیگر تمام معاشرتی خباثتوں کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا اور جب ان سے ان کے مذہب کے متعلق پوچھا جاتا تو آپ جواب دیتے کہ:
” اعبد رب ابراھیم ” میں ابراھیم کے رب کی پرستش کرتا ہوں۔
آپ بت پرستی سے سخت بیزار تھے اور خانہ کعبہ میں بیٹھ کر قریش کو کہتے کہ میرے سوا تم میں ایک بھی شخص دین ابراہیمی پر نہیں ہے، آپ قوم کو بت پرستی سے منع کرتے رہتے تھے، گو عرب میں ہر قسم کے دین موجود تھے، مگر ان کی اصلی صورت اتنی مسخ ہوچکی تھی کہ کفر و شرک اور دین میں امتیاز کرنا مشکل ہوچکا تھا، توحید جو ہر الہامی مذہب کا خاصہ تھا، اس کا کسی مذہب میں کہیں نام و نشان تک نہ تھا اور کفر و شرک و توہم پرستی کا اندھیرا صرف عرب ہی نہیں، تمام معلوم دنیا پر چھایا ہوا تھا، غرض تمام ہی دنیا ضلالت و گمراہی کی دلدل میں غرق ہوچکی تھی۔ تب خداۓ بزرگ و برتر کو اہل زمیں کی اس پستی وزبوں حالی پر رحم آیا اور اس نے ان میں اپنا عظیم تر پیغمبر مبعوث فرمایا۔۔۔۔۔
جاری_ہے……
ریپلائی کیجیئے