سیرت النبی کریم ﷺ

حضرت ھاشم نے قیصر روم کے ساتھ تجارتی و سفارتی تعلقات قائم کرلیے تھے، چنانچہ اسی سلسلے میں شام کی طرف سفر کے دوران ان کی شادی بنو نجار کی ایک معزز خاتون سلمیٰ سے ہوئی، مگر بدقسمتی سے اسی سفر کے دوران حضرت ہاشم کا انتقال ہوگیا ۔۔۔

حضرت ھاشم نے قیصر روم کے ساتھ تجارتی و سفارتی تعلقات قائم کرلیے تھے، چنانچہ اسی سلسلے میں شام کی طرف سفر کے دوران ان کی شادی بنو نجار کی ایک معزز خاتون سلمیٰ سے ہوئی، مگر بدقسمتی سے اسی سفر کے دوران حضرت ہاشم کا انتقال ہوگیا ۔۔۔

سیرت النبی کریم ﷺ ۔۔۔
قسط نمبر 3

*حضرت عبداللہ کی قربانی اور ان کی دِیت:*

حضرت ھاشم نے قیصر روم کے ساتھ تجارتی و سفارتی تعلقات قائم کرلیے تھے، چنانچہ اسی سلسلے میں شام کی طرف سفر کے دوران ان کی شادی بنو نجار کی ایک معزز خاتون سلمیٰ سے ہوئی، مگر بدقسمتی سے اسی سفر کے دوران حضرت ہاشم کا انتقال ہوگیا ۔۔۔

ان کی وفات کے بعد ان کا ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام ” شیبہ ” رکھا گیا، مگر چونکہ شیبہ کو ان کے چچا مطلب بن عبد مناف نے پالا پوسا تو شیبہ کو عبدالمطلب (مطلب کا غلام) کہا جانے لگا اور پھر انہیں تاریخ نے ہمیشہ اسی نام سے یاد رکھا۔

حضرت عبدالمطلب بے حد حسین جمیل، وجیہہ اور شاندار شخصیت کے مالک تھے، اللہ نے انہیں بےحد عزت سے نوازا اور وہ قریش مکہ کے اہم ترین سردار بنے، ایک مدت تک ان کی اولاد میں ایک ہی بیٹا تھا جن کا نام حارث تھا ۔۔۔ حضرت عبدالمطلب کو بہت خواہش تھی کہ وہ کثیر اولاد والے ہوں، چنانچہ انہوں نے منت مانی کہ اگر اللہ ان کو دس بیٹے عطا کرے گا اور وہ سب نوجوانی کی عمر تک پہنچ گئے تو وہ اپنا ایک بیٹا اللہ کی راہ میں قربان کردیں گے ۔۔۔

اللہ نے ان کی دعا اور منت کو شرف قبولیت بخشا اور ان کے دس یا بارہ بیٹے پیدا ہوئے جن میں سے ایک جناب حضرت عبداللہ تھے ۔۔۔ آپ حضرت عبدالمطلب کے سب سے چھوٹ بیٹے تھے اور نہ صرف اپنے والد کے بلکہ پورے خاندان کے بہت چہیتے تھے، حضرت عبدالمطلب کو ان سے بہت محبت تھی،
دس بیٹوں کی پیدائش کے بعد جب تمام کے تمام نوجوانی کی عمر کو پہنچے تو حضرت عبدالمطلب کو اپنی منت یاد آئی، چنانچہ وہ اپنے سب بیٹوں کو لےکر حرم کعبہ میں پہنچ گئے، جب عربوں کے مخصوص طریقے سے قرعہ اندازی کی گئی تو قرعہ حضرت عبداللہ کے نام نکلا۔

حضرت عبدالمطلب یہ دیکھ کر بہت پریشان ہوئے، کیونکہ شدت محبت کی وجہ سے ان کا دل نہ چاہتا تھا کہ حضرت عبداللہ کو قربان کردیں، مگر چونکہ وہ منت مان چکے تھے تو اس کی خلاف ورزی بھی نہیں کرنا چاہتے تھے، چنانچہ حضرت عبداللہ کو لےکر قربان گاہ کی طرف بڑھے۔

یہ دیکھ کر خاندان بنو ہاشم کے افراد جن کو حضرت عبداللہ سے بہت لگاؤ تھا، بہت پریشان ہوئے، وہ حضرت عبدالمطلب کے پاس آۓ اور انہیں اس سلسلے میں یثرب (مدینہ) کی ایک کاہنہ عورت سے مشورہ کرنے کو کہا، چنانچہ جب اس کاہنہ عورت سے رابطہ کیا گیا تو اس نے اس کا حل یہ نکالا کہ حضرت عبداللہ کی جگہ خون بہا ادا کیا جائے، عربوں کے دیت (خون بہا) میں دس اونٹ دیے جاتے ہیں تو حضرت عبداللہ کے ساتھ دس دس اونٹوں کی قرعہ اندازی کی جاۓ اور یہ قرعہ اندازی تب تک جاری رکھی جاۓ جب تک قربانی کا قرعہ اونٹوں کے نام نہیں نکلتا۔

چنانچہ ایسے ہی کیا گیا اور بالآخر دسویں بار قرعہ حضرت عبداللہ کے بجاۓ اونٹوں پر نکلا، اس طرح ان کی جگہ سو اونٹوں کو قربان کیا گیا۔ حضرت عبداللہ کی شادی بنو زھرہ کے سردار وہب بن عبدمناف کی بیٹی جناب حضرت آمنہ سے ہوئی جن کے بطن سے تاجدار دوجہان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ ہوئی۔

اس سے پہلے کہ ہم کا باقاعدہ آغاز کریں، ضروری ہے کہ پیج میمبرز کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت قریش مکہ کے مذہبی، سیاسی، معاشرتی، معاشی اور تمدنی حالات سے روشناس کرایا جاۓ، نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش مبارکہ سے صرف پچاس دن پہلے ظہور پزیر ہونے والے واقعہ “عام الفیل” سے بھی آگاہ کیا جاۓ، جب حبشی نژاد “ابرھہ” خانہ کعبہ کو گرانے کے ارادے سے مکہ پر حملہ آور ہوا۔

*واقعہ اصحاب الفیل ۔۔۔ ①:*

”کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا۔؟ کیا اس نے ان کی تدبیر کو نامراد نہیں بنا دیا؟ اللہ نے ان پر پرندوں (ابابیل) کے جھنڈ بھیجے جو ان پر (کنگر مٹی کی) کنکریاں پھینکتے تھے۔ اس طرح اللہ نے ان کو کھاۓ ہوۓ بھوسے کی طرح کردیا۔” (سورہ الفیل، آیت 1 تا 5)

واقعہ اصحاب الفیل حضرت محمد مصطفی’ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت مبارکہ والے سال یعنی 571 عیسوی میں پیش آیا، جب یمن کا حبشی نژاد عیسائی حکمران “ابرھہ بن اشرم” 60 ہزار فوج اور 13 ہاتھی لےکر خانہ کعبہ کو گرانے کے ارادے سے مکہ پر حملہ آور ہوا۔

ابرھہ بن اشرم آغاز میں اس عیسائی فوج کا ایک سردار تھا جو شاہ حبشہ نے یمن کے حِمیری نسل کے یہودی فرماں روا “یوسف ذونواس” کے عیسائیوں پر ظلم و ستم کا بدلہ لینے کو بھیجی، جس نے 525 عیسوی تک اس پورے علاقے پر حبشی حکومت کی بنیاد رکھ دی ۔۔۔ ابرھہ بن اشرم رفتہ رفتہ ترقی کی منازل طے کرتا ہوا بالآخر یمن کا خود مختار بادشاہ بن بیٹھا، لیکن کمال چالاکی سے اس نے براۓ نام شاہ حبشہ کی بالادستی بھی تسلیم کیے رکھی اور اپنے آپ کو نائب شاہ حبشہ کہلواتا رہا۔

ابرھہ ایک کٹر متعصب عیسائی تھا ۔۔۔ اپنا اقتدار مضبوط کرلینے کے بعد اس نے عربوں میں عیسائیت پھیلانے کی سوچی، جبکہ اس کا دوسرا ارادہ عربوں کی تجارت پر قبضہ جمانا تھا۔

اس مقصد کےلئے اس نے یمن کے دارالحکومت “صنعاء” میں ایک عظیم الشان کلیسا (گرجا) تعمیر کرایا جسے عرب مؤرخین “القلیس” اور یونانی “ایکلیسیا” کہتے ہیں، اس کلیسا کی تعمیر سے اس کے دو مقاصد تھے، ایک تو عیسائیت کی تبلیغ کرکے عربوں کے حج کا رخ کعبہ سے اپنے کلیسا کی طرف موڑنا تھا اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتا تو اس کا دوسرا نتیجہ یہ نکلتا کہ عربوں کی ساری تجارت جو ابھی تک خانہ کعبہ کی وجہ سے عربوں کے پاس تھی، وہ یمن کے حبشی عیسائیوں کے ہاتھ آ جاتی ۔۔۔

ابرھہ نے پہلے شاہ حبشہ کو اپنے اس ارادے کی اطلاع دی اور پھر یمن میں علی الاعلان منادی کرادی کہ ” میں عربوں کا حج کعبہ سے اکلیسیا کی طرف موڑے بغیر نہ رہوں گا۔”

اس کے اس اعلان پر غضبناک ہوکر ایک عرب (حجازی) نے کسی نہ کسی طرح ابرھہ کے گرجا میں گھس کر رفع حاجت کر ڈالی، اپنے کلیسا کی اس توہین پر ابرھہ نے قسم کھائی کہ میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک کعبہ کو گرا نہ دوں۔

اس کے بعد سنہ 570 عیسوی کے آخر میں وہ 60 ہزار فوج اور 13 جسیم ہاتھی لےکر یمن سے مکہ پر حملہ آور ہونے کے ارادے سے نکلا، راستے میں دو عرب سرداروں نے اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی، مگر شکست کھائی اور ابرھہ کسی طوفان کی طرح مکہ کے مضافاتی مقام “المغمس” میں پہنچ گیا۔

یہاں ابرھہ کے لشکر نے پڑاؤ ڈالا، جبکہ چند دستوں نے اس کے حکم پر مکہ کے قریب میں لوٹ مار کی اور اہل تہامہ اور قریش کے بہت سے مویشی بھی لوٹ لیے گئے، جن میں مکہ کے سردار اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب بن ہاشم کے دو سو اونٹ بھی تھے، اس کے بعد ابرھہ نے ایک ایلچی مکہ کے سردار حضرت عبدالمطلب کے پاس بھیجا اور اس کے ذریعے اہل مکہ کو پیغام دیا کہ میں تم سے لڑنے نہیں آیا ہوں، بلکہ اس گھر (کعبہ) کو گرانے آیا ہوں، اگر تم نہ لڑو تو میں تمھاری جان و مال سے کوئی تعرض نہ کروں گا ۔۔۔

حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا: “ہم میں ابرھہ سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے، کعبہ اللہ کا گھر ہے، وہ چاہے گا تو اپنے گھر کو بچا لے گا۔”

ایلچی نے کہا: “آپ میرے ساتھ ابرھہ کے پاس چلیں” وہ اس پر راضی ہوگئے۔

حضرت عبدالمطلب بہت خوبصورت اور شاندار شخصیت کے مالک تھے، ابرھہ ان کی مردانہ وجاہت سے اتنا متأثر ہوا کہ اپنے تخت سے اتر کر ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا، پھر آپ سے پوچھا: “آپ کیا چاہتے ہیں؟”

انہوں نے کہا: “میرے جو اونٹ پکڑ لیے گئے ہیں، میں اپنے ان اونٹوں کی واپسی چاہتا ہوں۔”

ابرھہ ان کی بات سن کر سخت متعجب ہوا اور کہا: “آپ مجھ سے اپنے دوسو اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ تو کررہے ہیں، مگر اس بیت اللہ کا ذکر نہیں کرتے جو آپ کے اور آپ کے آباؤ اجداد کے دین کی بنیاد ہے، میں اسے گرانے آیا ہوں، مگر آپ کو اس کی کوئی فکر ہی نھیں۔”

یہ سن کر حضرت عبدالمطلب نے کہا: “ان اونٹوں کا مالک میں ہوں، اس لیے آپ سے ان کی واپسی کی درخواست کررہا ہوں، رہا یہ گھر تو اس گھر کا مالک اللہ ہے، وہ اس کی حفاظت خود کرے گا۔”

ابرھہ نے متکبرانہ انداز میں کہا: “کعبہ کو اب آپ کا اللہ بھی مجھ سے نہیں بچا سکے گا۔”

حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا: “یہ معاملہ آپ جانیں اور اللہ، لیکن یہ اس کا گھر ہے اور آج تک اس نے کسی کو اس پر مسلط نہیں ہونے دیا: ” یہ کہہ کر وہ ابرھہ کے پاس سے اٹھ گئے اور ابرھہ سے واپس لیے گئے اونٹ لےکر مکہ آگئے۔

جاری_ہے…….

ترتیب غلام نبی قادری نوری