سیرت_النبی_کریمﷺ
قسط_نمبر_4
واقعہ_اصحاب_الفیل ②
قریش اتنی بڑی فوج سے لڑ کر کعبہ کو بچانے کی طاقت نہ رکھتے تھے، لہذا حضرت عبدالمطلب نے انہیں کہا کہ سب اپنے بال بچوں اور مال مویشی لےکر پہاڑوں میں چلے جائیں تاکہ ان کا قتل عام نہ ہو۔
پھر وہ قریش کے چند سرداروں کے ساتھ حرم کعبہ پہنچے اور اللہ کے حضور اپنی کمزوری کا اظہار کرکے دعائیں مانگیں کہ وہ اپنے گھر کی خود حفاظت فرمائے، مؤرخین نے حضرت عبدالمطلب کے جو دعائیہ اشعار نقل کیے وہ یہ ہیں:
*”الہی! بندہ اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے، تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما! کل ان کی صلیب اور ان کی تدبیر تیری تدبیر پر غالب نہ آنے پائے، صلیب کی آل کے مقابلے پر آج اپنی آل کی مدد فرما!*
*اے میرے رب! تیرے سوا میں ان کے مقابلے میں کسی سے امید نہیں رکھتا، اے میرے رب! ان سے اپنے حرم کی حفاظت فرما..”*
یہ دعائیں مانگ کر حضرت عبدالمطلب بھی سرداران قریش کے ساتھ باقی اہل مکہ کے پاس پہاڑوں میں چلے گئے ۔۔۔
*ابرھہ کا مکہ پر حملہ کا حکم:*
دوسرے روز ابرھہ نے مکہ پر حملہ کا حکم دیا اور وہ مکہ میں داخل ہونے کے لیے آگے بڑھا، مگر حیرت انگیز طور پر اس کا خاص ہاتھی “محمود” مکہ کی طرف چلنے کی بجائے یکایک وہیں بیٹھ گیا اور بےپناہ کوشش کے باوجود بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا، مگر جب اس کا منہ شام کی طرف کیا گیا تو اٹھ کر چلنے لگا اور یمن کی طرف رخ ہوا تو ادھر بھی دوڑنے لگا، مگر مکہ کی طرف اسے چلانے کی کوشش کی جاتی تو ایک انچ ادھر نہ بڑھتا، نتیجتاً باقی ہاتھیوں سمیت سارا لشکر بھی اپنی جگہ انتظار میں رکا ہوا تھا ۔۔۔
*اور جب ابابیل نے لشکر ابرھہ پر سنگریزے گرانا شروع کردیا۔*
ابھی وہ اسی چکر میں پھنسے تھے کہ اللہ کے قہر نے ان کو آ لیا اور اللہ کے حکم سے ابابیلوں کے جھنڈ کے جھنڈ ان پر نازل ہوگئے، ہر ابابیل کے چونچ اور دونوں پنجوں میں سنگریزے دبے ہوئے تھے، ابرھہ اور اس کے لشکر کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، ابابیلوں نے عین ان کے اوپر آ کر وہ سنگ ریزے گرانا شروع کردیے ۔۔۔
وہ سنگ ریزے، سنگ ریزے کہاں تھے، وہ تو اللہ کا عذاب تھے، جس پر جہاں گرتے، بجائے صرف زخمی کرنے کے کسی چھوٹے بم کی سی تباہی مچا دیتے، اللہ کے گھر پر حملہ کرنے کی جرآت کرنے والوں کے لیے کہیں کوئی جائے پناہ نہ تھی ۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں ابرھہ اپنے 60 ہزار کے لشکر اور 13 ہاتھیوں سمیت سنگریزوں کی اس بارش میں اپنے انجام کو پہنچا اور یوں پہنچا کہ جیسے کھایا ہوا بھوسہ ہو، ہر طرف انسانی لاشیں چیتھڑوں کے روپ میں پڑیں تھیں ۔۔۔
یہ واقعہ 571 عیسوی میں محرم کے مہینہ میں مزدلفہ اور منی’ کے درمیان وادی محصب کے قریب محسر کے مقام پر پیش آیا، جس سال یہ واقعہ پیش آیا اہل عرب اسے عام الفیل کہتے ہیں، جبکہ اسی سال اس واقعہ کے 50 دن بعد آپ ﷺ کی ولادت مبارک ہوئی ۔۔۔
*بت پرستی کیسے شروع ہوئی؟*
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر کی تو آپ کی تبلیغ سے قبائل جرھم و قطورا نے دین ابراہیمی قبول کرلیا اور اللہ کو ایک خدا مان لیا، حضرت ابراھیم علیہ السلام کے بعد حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اثر سے بعد میں مکہ آباد ہونے والے بھی دین حنیف یعنی حضرت ابراھیم علیہ السلام کا دین قبول کرتے رہے ۔۔۔ تب آل اسماعیل سمیت تمام قبائلِ مکہ صرف ایک واحد خدا کی عبادت کے قائل تھے اور خانہ کعبہ کا تقدس پوری طرح سے قائم تھا، لیکن جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی وفات کے بعد پھر کوئی نبی اہل مکہ کی رہنمائی کے لیے مبعوث نہ ہوا تو آہستہ آہستہ ان میں شرک و گمراہی پھیلنے لگی ۔۔۔
پچھلی ایک قسط میں ذکر کیا گیا کہ جب مکہ پر قبیلہ ایاد و بنو خزاعہ یکے بعد دیگرے حملہ آور ہوۓ تو بنو اسماعیل کے کئی قبائل کو مکہ چھوڑنا بھی پڑا، تب یہ لوگ برکت کی غرض سے کعبہ کا ایک پتھر بھی اپنے ساتھ لے گئے ۔۔۔ کعبہ سے نسبت کی وجہ سے وہ اس کی بہت تعظیم کرنے لگے.. اس تعظیم کا اثر یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ آنے والے وقت میں ان کی آل اولاد نے خود اسی پتھر کو معبود مجازی کا درجہ دے دیا، اس طرح ان میں شرک رائج ہونا شروع ہوا ۔۔۔
لیکن حقیقی معنوں میں عربوں اور خصوصاً اہل مکہ میں باقاعدہ شرک و بت پرستی کا آغاز حضرت ابراھیم علیہ السلام سے کم و بیش ڈھائی ہزار سال بعد ہوا جب بنو خزاعہ نے مکہ پر قبضہ کیا، عربوں میں بت پرستی کا آغاز کرنے والا قبیلہ خزاعہ کا سردار ” عمرو بن لحی” تھا، یہ شخص خانہ کعبہ کا متولی تھا، ایک بار جب وہ شام گیا تو وہاں اس نے لوگوں کو بتوں کی پرستش کرتے دیکھا ۔۔۔
یہ کل پانچ بت تھے جن کے نام “ود، یغوث، سواع، یعوق اور نسر” تھے ۔۔۔ ان بتوں کو قوم نوح علیہ السلام پوجا کرتی تھی، یہ شخص وہاں سے ان کے بت ساتھ لے آیا اور واپسی پر ان کو جدہ کے ایک مقام پر دفن کردیا، جب مکہ واپس پہنچا تو وہاں مشھور کیا کہ اسے اس کے تابع جن نے ان بتوں کا پتہ بتایاہے جنہیں قوم نوح پوجا کرتی تھی، پھر وہ اہل مکہ کو جو پہلے ہی شرک و بت پرستی کی طرف راغب ہوچکے تھے، ساتھ لےکر جدہ پہنچا اور وہاں سے وہ بت زمین کھود کر نکال لیے اور انہیں مکہ لا کر خانہ کعبہ میں رکھ دیا، جھاں تعظیم کے نام پر ان بتوں کی عبادت شروع ہوگئی اور ان بتوں کو مختلف خدائی صفات کا مالک تصور کیا جانے لگا ۔۔۔
آہستہ آہستہ اہل مکہ خود نئے نئے بتوں کو ڈھالنے لگا اور تب بہت سے ایسے بت بناۓ گئے جنہیں آنے والے دور میں مشرکین عرب میں بے پناہ اہمیت حاصل ہوئی ۔۔۔
چونکہ کعبہ کی وجہ سے مکہ پورے جزیرہ نما عرب کا مرکز تھا تو جب باہر سے مختلف قبائل کے لوگ حج کے دنوں میں مکہ آتے تو وہاں ان بتوں کی پرستش ہوتے دیکھ کر واپسی پر ان بتوں کی شبیہیں بنوا کر ساتھ لے جاتے اور اپنے علاقے میں ان کو نصب کرکے ان کی پوجا شروع کردیتے ۔۔۔
جاری_ہے۔۔۔۔۔۔
ریپلائی کیجیئے