فلسفہ بسم اللہ الرحمن الرحیم قسط 2

کلماتِ تسمیہ کا پہلا حرف ’’بار،، ہے۔ جس کا معنی ’’سے،، کیا گیا ہے یہ فعل محذوف سے متعلق ہے۔ محذوف سے مراد وہ فعل اور فاعل ہے۔ جس کا ذکر یہاں لفظاً نہیں بلکہ معناً موجود ہے۔ یعنی میں شروع کرتا ہوں اﷲ کے نام سے گویا حرفِ باء فعلِ محذوف کو اﷲ کے نام سے ملانے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ حرفِ باء کی اپنے استعمال و افادیت کے لحاظ سے متعدد اقسام ہیں۔ جنہیں علماء نحو نے شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔ لیکن یہاں یہ حرف ان میں سے تین اقسام پر مشتمل ہوسکتا ہے۔

کلماتِ تسمیہ کا پہلا حرف ’’بار،، ہے۔ جس کا معنی ’’سے،، کیا گیا ہے یہ فعل محذوف سے متعلق ہے۔ محذوف سے مراد وہ فعل اور فاعل ہے۔ جس کا ذکر یہاں لفظاً نہیں بلکہ معناً موجود ہے۔ یعنی میں شروع کرتا ہوں اﷲ کے نام سے گویا حرفِ باء فعلِ محذوف کو اﷲ کے نام سے ملانے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ حرفِ باء کی اپنے استعمال و افادیت کے لحاظ سے متعدد اقسام ہیں۔ جنہیں علماء نحو نے شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔ لیکن یہاں یہ حرف ان میں سے تین اقسام پر مشتمل ہوسکتا ہے۔

فلسفہ بسم اللہ الرحمن الرحیم
دوسری قسط
حرفِ باء کی افادیت :
کلماتِ تسمیہ کا پہلا حرف ’’بار،، ہے۔ جس کا معنی ’’سے،، کیا گیا ہے یہ فعل محذوف سے متعلق ہے۔ محذوف سے مراد وہ فعل اور فاعل ہے۔ جس کا ذکر یہاں لفظاً نہیں بلکہ معناً موجود ہے۔ یعنی میں شروع کرتا ہوں اﷲ کے نام سے گویا حرفِ باء فعلِ محذوف کو اﷲ کے نام سے ملانے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ حرفِ باء کی اپنے استعمال و افادیت کے لحاظ سے متعدد اقسام ہیں۔ جنہیں علماء نحو نے شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔ لیکن یہاں یہ حرف ان میں سے تین اقسام پر مشتمل ہوسکتا ہے۔

1۔ بائے الصاق و مصاحبت

2۔ بائے استعانت

3۔ بائے تیمن و تبرک

بائے مصاحبت :
الصاق و مصاحبت کا معنی اکٹھا ہونا اور رفاقت و معیت اختیار کرنا ہے۔

اس صورت میں جب کہ با مصاحبت کے لیے تصور کی جائے تو تسمیہ کا مفہوم یہ ہوگا کہ میں اﷲ کے نام کو اپنا ساتھی بناتے ہوئے اس کے دامن رحمت سے وابستہ اور منسلک ہوتے ہوئے اور محض اسی کی رفاقت و معیت پر بھروسہ کرتے ہوئے، اپنے کام کا آغاز کرتا ہوں۔ امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ اس مقام پر فرماتے ہیں۔

هذا الباء باء الا لصاق فهو يلصق العبد بالرب فهو کمال المقصود.

یہ ’’با،، بائے الصاق ہے چنانچہ یہ بندے کو رب سے ملاتی ہے اور یہی انسانی مقصود کا کمال ہے۔

(تفسيرکبير، 1 : 99)

حرف باء کے اس مفہوم کی افادیت یہ ہے کہ تسمیہ کے ذریعے انسان کو اپنے ہرکام کے آغاز سے انجام تک خدا کی رفاقت و معیت کا احساس رہے۔ یہ امر واقع ہے کہ اگر انسان کو کسی نہایت قوی، مضبوط اور ہمدرد بہی خواہ ساتھی کی رفاقت کا احساس اور یقین ہو تو اسے کسی سطح پر بھی خوف وخطر دامنگیر نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ انسان کو کارگہ زیست میں ہر خوف و غم سے بے نیاز کرنے کے لیے بسم اﷲ کے ذریعے دل ودماغ میں یہ احساس جاگزیں کیا جارہا ہے کہ اﷲ تعالیٰ پر بھروسہ کرو گے تو اس کی معیت بھی تمہیں حاصل ہوگی۔ جس کی حفاظت کے باعث تمہیں نہ کوئی نقصان پہنچ سکے گا اور نہ تمہاری کاوشیں بے نتیجہ حاصل ہوں گی۔ اسی تصور کو قرآن یوں بیان کرتا ہے۔

وَهُوَ مَعَکُمْ اَيْنَ مَا کُنْتُمْ وَاﷲُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌO

وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہےo

(الحديد، 57 : 4)

اسی شب ہجرت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو غار ثور میں تنہائی کے احساس سے کچھ خدشہ محسوس ہوا کہ شاید کفار مکہ جو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعاقب میں تھے۔ انہیں نقصان پہنچا دیں۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے بزبان وجی ان سے ارشاد فرمایا :

لَا تَحْزُنْ اِنَّ اﷲَ مَعَنَا فَاَنْزَلَ اﷲُ سَکِيْنَتَه عَلَيْهِ.

غمزدہ نہ ہو بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے پس اللہ نے ان پر اپنی تسکین نازل فرما دی۔

(التوبه، 9 : 40)

اس ارشاد پر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ خدا کی معیت پر ایمان تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا پہلے سے ہی تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اس قدر عداوت و مخالفت کے ماحول میں اپنے گھروالوں کواکیلا چھوڑ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شریکِ سفر نہ ہوتے۔ لیکن ظاہرًا بے سروسامانی کا عالم، تنہائی کا ماحول اور کفارو مشرکین کے مخاصمانہ تعاقب کا خیال وقتی طور پر حزن و ملال کا باعث بن گیا اور یہ انسانی طبیعت کا لازمی تقاضا بھی تھا۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف انہیں معیت خداوندی کی طرف متوجہ کردیا۔ یہ احساس بحال ہونا تھا کہ دل کو سکون و اطمینان کی دولت نصیب ہوگئی۔ گویا معیت خداوندی قلبی تسکین کا لازمی سبب ہے۔ یہی فلسفہ تسمیہ ہے کہ انسان خدا کی معیت کو رفاقت کا احساس اجاگر کرکے جہدِ حیات کا آغاز کرے تو کوئی خوف و حزن سے اسے پریشان نہیں کرسکتا۔ خوف وحزن سے نجات پاکر انسانی جدوجہد کو وہ تازگی اور قوت میسر آتی ہے۔ جس سے کامیابی وکامرانی کی منزل بھی آسان ہوجاتی ہے۔ ورنہ بے یقینی اور مایوسی کی کیفیت تگ و دو کو مطلوبہ منزل تک نہیں پہنچنے دیتی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

فَلَا تَهِنُوْا وَتَدْعُوْآ اِلَی السَّلِمْ وَاَنْتُمْ الْاَعْلَوْنَ وَاﷲُ مَعَکُمْ وَلَنْ يَّتِرَکُمْ اَعْمَالَکُمْO

پس تم سستی نہ کرو اور خود صلح کی طرف نہ بلاؤ اور تم ہی غالب آؤ گے اور اﷲ تمہارے ساتھ ہے اور وہ ہرگز تمہاری کوششیں بے نتیجہ نہیں جانے دے گا۔

(محمد، 47 : 35)

یہاں یہ امر ذہن نشین رہے کہ خدا کی معیت تو درحقیقت ہمہ وقت انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اسے اس معیت کا احساس اور شعور نہیں ہوتا۔ شعورِ معیتِ الٰہی متحقق نہ ہونے کی بناء پر وہ اس کے جملہ ثمرات و لطائف سے بہرور نہیں ہوسکتا۔ تسمیہ معیتِ الٰہی مہیا کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس کا شعور بیدار کرنے کے لیے ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِO

اور بے شک ہم نے آدمی کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں جو وسوسہ اس کا نفس ڈالتا ہے اور ہم اس سے اس کے دل کی رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہیںo

(ق، 50 : 16)

اس آیت سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوگئی کہ معیت الٰہی تو انسان کو پہلے سے ہی میسر ہوتی ہے۔ لیکن اس کا شعور پیدا نہیں ہوتا۔ جب اس معیت و رفاقتِ خداوندی کا شعور انسان کے اندر ایک زندہ قوت بن جاتا ہے تو تمام وساوس نفسانی اور دنیوی خطرات وخدشات نیست ونابود ہوجاتے ہیں اور قلب وباطن پر اس احساس کے محیط ہوجانے سے ایک عجیب لطف و سکون اورلذت و طمانیت کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ انسان کو پھر نہ توکسی اور کی رفاقت کی طلب رہتی ہے اور نہ کسی کے قرب کی۔

دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی

لیکن اس لطف کا اندازہ بیان سے نہیں خود دھیان سے ہی ہوسکتا ہے کیونکہ لذت بتانے کی نہیں حاصل کرنے کی چیز ہے۔

بائے استعانت :
استعانت سے مراد مدد طلب کرنا ہے اس کے معنی کے لحاظ سے مفہوم تسمیہ یہ ہوگا کہ ’’اﷲ کے نام سے مدد طلب کرتے ہوئے شروع کرتا ہوں،،۔ حضرت نوح علیہ السلام نے قیامت خیز طوفان سے اپنے پیروکاروں کوبچانے کے لیے حکم الٰہی سے ایک کشتی بنائی اور انہیں اس میں سوار ہوجانے کو کہا۔ قرآن حکیم اس کا تذکرہ اس طرح کرتا ہے۔

وَقَالَ ارْكَبُواْ فِيهَا بِسْمِ اللّهِ مَجْرِهَا وَمُرْسَاهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌO

اور نوح نے کہا تم لوگ اس میں سوار ہو جاؤ اللہ ہی کے نام سے چلنا اور اس کا ٹھہرنا ہے بے شک میرا رب بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہےo

(هود، 11 : 41)

گویا اس آیت کے ذریعے جملہ مہمات میں خدائے رحمان و رحیم کے نام سے استعانت کی تعلیم دی جا رہی ہے تاکہ انسان پر یہ حقیقت آشکار ہوکہ اﷲ تعالیٰ کی مدد واعانت کے بغیر نہ توکسی خیر کو حاصل کیا جاسکتا ہے اور نہ کسی شر سے محفوظ ہوا جاسکتا ہے۔ چونکہ فعل محذوف کے اعتبار سے یہاں کام کے شروع کرنے کا ذکر ہو رہا ہے۔ اس لیے بائے استعانت کا معنوی اطلاق یوں ہوگا کہ’’ اے اﷲ میں ہر کام کے شروع کرنے میں بھی تیری مدد کا محتاج ہوں،،۔ جب کوئی کام خدا کی مدد اور توفیق کے بغیر آغاز پذیر ہی نہیں ہوسکتا تواس کا انجام پذیر ہونا کیونکر ممکن ہوگا۔ دراصل یہاں انسان کو اپنی حاجتمندی کا احساس دلایا جارہا ہے تاکہ وہ دینوی متاع کو کثرت کے ساتھ حاصل کرکے خدائے لم یزل کے حضور سرنیازِخم کرنے سے باغی نہ ہوجائے۔ انسان کے ذہن میں یہ حقیقت ہر وقت موجود رہے کہ میں رب ذوالجلال کی عنایت کے بغیر اپنی جہدِ حیات میں پہلا قدم بھی نہیں اٹھا سکتا۔ کس قدر ظالم اور احسان فراموش ہے وہ شخص جس کا قدم بھی خدا کے لطف و انعام سے اٹھے۔ لیکن وہ بجائے اس کی اطاعت کے اسی کے احکام کی خلاف ورزی کے لیے بڑھ رہا ہو۔ اگر انسان کا یہ شعور بیدار ہوکہ اس کی زبان کو قوتِ گویائی، اس کے کانوں کو قوتِ سماعت، اس کی آنکھوں کو قوتِ دید، اس کے دست وبازو کوقوتِ عمل، اس کے قدموں کو قوتِ نقل وحرکت اور اس کے دماغ کو قوتِ فکر الغرض سب کچھ خدا کی مدد واعانت کے سبب میسر آیا ہے تو اس ظاہری اور باطنی اعضاء وجوارح میں سے کوئی عضو بھی رضائے الٰہی کے خلاف حرکت میں نہ آئے۔ ہم سے جوگناہ سرزد ہوتے ہیں اور ہمارے فکر میں جو تمرد وانحراف جنم لیتا ہے یہ دراصل اسی شعور و ادراک کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ تسمیہ فی الحقیقت انسان کی فکری و عملی اصلاح کا شاندار ذریعہ ہے۔ اگر ہرکام شروع کرنے سے پہلے زبان اور دل خدا کانام لینے اور اس سے مدد طلب کرنے کی طرف راغب ہوں اوریہ انکی عادی خصوصیت بن جائے تو نواہی و محرمات سے ازخود پرہیز ہونے لگے گا۔ کیونکہ خدا کی یاد کے ہوتے ہوئے حکمِ خدا کی خلاف ورزی ممکن نہیں رہتی۔

مزید برآں استعانت دعا ہے اور دعا خود مغز عبادت۔ اس لحاظ سے تسمیہ فی نفسہ عبادت کی روح قرار پاتا ہے۔ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان خود کسی کام کے کرسکنے میں اپنے ذرائع اور اسباب و وسائل کے باوجود ناکافی وعاجز تصور کرتا ہے اور پھر اپنی بے بسی و بے کسی کے اعتراف کے ساتھ خدا بزرگ و برتر کی مناجات کرتے ہوئے اس سے مدد طلب کرتا ہے۔ گویا انسان بارگاہ ایزدی میں سراپا سوال بن کر حاضر ہے، وہ دنیاو مافیہا سے ناامید اور تمام اسباب سے مایوس ہوکر مسبب الاسباب کی بارگاہ میں نیاز مندی کے ساتھ آن کھڑا ہوا ہے۔ اس کی آرزو مندی دل کو درد وسوز کی لذت سے آشنا کردیتی ہے اور یہی کیفیت انسان کو مقامِ بندگی سے ہمکنار کرتی ہے۔ بقول شخصے

سراپا آرزو ہونے نے بندہ کردیا مجھ کو
وگرنہ میں خدا ہوتا جو دل بے مدعا ہوتا

اسی مقام کو علامہ اقبال یوں بیان کرتے ہیں۔

متاع بے بہا ہے درد و سوز و آرزو مندی
مقام بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی

قرآن میں حرفِ باء کا استعمال کئی مقامات پر اسی مقصد کے لیے ہوا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَO

اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کیساتھ ہوتا ہےo

(البقره، 2 : 153)

یہاں صبر اور نماز دونوں کو ذریعہِ استعانت کے طور پر بیان کیا گیا ہے کہ استعانت تو لامحالہ باری تعالیٰ سے ہوگی لیکن اس کے کامل استحقاق کے لیے صبر و نماز کو اپنا لوتا کہ ان کے واسطے سے اﷲ تعالیٰ کا لطف و کرم اور عنایت واعانت زیادہ سے زیادہ نصیب ہوسکے۔ اسی تصور کو ایک اور مقام پر یوں واضح کیا گیا ہے۔

قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللّهِ وَاصْبِرُواْ.

موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا ! تم اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو۔

(الاعراف، 7 : 128)

اسباب سے صرفِ نظر کرکے مسبّب الاسباب پر نظر رکھنا ہی صبر کہلاتا ہے۔ اس لیے قرآن استعانت کے ساتھ توحید مطلب کی بھی تعلیم دے رہا ہے۔ تسمیہ میں بائے استعانت سے پہلے یا بعد میں کسی کا ذکر نہیں۔ صرف خدا ہی کے نام پر اکتفا کیا گیا ہے۔ جس کا واضح مقصد یہی ہے کہ انسان کی تمام ضروریات و مشکلات میں خدا ہی کی ذات کافی ہے۔ اسے کسی اور چیز پر توکل یا انحصار کی ضرورت نہیں۔

بائے تبرک :
تبرک کا معنی حاصل کرنا ہے۔ لہذا بائے تبرک کے حوالے سے تسمیہ کا معنی یہ ہوگا کہ ’’ اﷲ کے نام سے برکت حاصل کرتے ہوئے شروع کرتا ہوں،،۔ خدا کے نام سے شروع کرنا اس اعتبار سے باعث برکت ہے کہ اس کام کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کے امکانات زیادہ روشن ہو جاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اسباب و وسائل کا مہیا کرنا بھی تو اسی کا کام ہے۔ اس لیے جب اس ذات کے مقدس نام سے برکت طلب کی جائے تو وہ ذات اس کام کا انجام تک پہنچنا آسان کردیتی ہے۔ اس لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

کل امر ذي بال لا يبدا فيه ببسم اﷲ فهو أجذم او أقطع اولم يبدا فيه باسم اﷲ فهو أبتر اولا يفتح بذکر اﷲ فهو أبتر أو أ قطعا.

1. سنن ابن ماجه، 1 : 610، رقم : 1894
2. کنزالعمال، 1 : 555، رقم : 249

جو کام بسم اﷲ پڑھے بغیر شروع کیا جائے وہ دم بریدہ اور ناقص رہ جاتا ہے، جو کام بسم اﷲ کے شروع کے بغیر شروع کیا جائے ناتمام رہ جاتا ہے، جس امر کا افتتاح خدا کے ذکر کے بغیر ہوگا وہ انجام خیر تک نہیں پہنچے گا۔

اس وقت ہمارے پیش نظر لفظ اسم کی لغوی اور معنوی دلالت نہیں ہے۔ سردست ہم نحوی قاعدے کے مطابق اس کے صرف ایک پہلو پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔ عربی زبان میں کلمہ تین قسم کا ہوتا ہے۔

حرف، فعل اور اسم
تمام ائمہ نحو وادب اس امر پر متفق ہیں کہ :

الحرف هی الکلمة لا يصح الاخبار عنها ولابها.

حرف وہ کلمہ ہے جو نہ توکسی اور کی خبر دیتا ہے اور نہ خود کسی پر دلالت کرتا ہے۔

حرف جب تک کسی اور سے منسلک نہ ہو اس میں کوئی معنویت پیدا نہیں ہوتی۔ یعنی یہ ازخود کسی کامل مفہوم کی نشاندہی نہیں کرسکتا۔ اس لحاظ سے نہ ’’مسند،، ہے اور نہ ’’مسند الیہ،،۔

الفعل هی الکلمة لا يصح الاخبار عنها لکن يصح الاخبار بها.

فعل وہ کلمہ ہے جو فی نفسہ کسی اور کی خبر تو نہیں دے سکتا لیکن خود کسی نہ کسی خبر پر دلالت کرتا ہے۔

اس لحاظ سے فعل ’’مسند الیہ،، نہیں۔ یعنی اس کو خود تو کسی عمل یا خبر سے نسبت ہوتی ہے مگر کسی اور کو اس سے بالذات کوئی نسبت نہیں ہوتی۔ جب تک کوئی اسم اس کا فاعل بن کر مذکور نہ ہو۔ اس کی معنویت بھی کامل نہیں ہوسکتی۔

الاسم هی الکلمة يصح الاخبار عنها وبها.

اسم وہ کلمہ ہے جو خود بھی کسی اور کی خبر دیتا ہے اور کوئی بھی اس سے نسبت رکھتا ہے۔

اس لحاظ سے اسم کو ’’مسند،، اور ’’مسند الیہ،، دونوں حیثیتیں حاصل ہوتی ہیں۔ یعنی یہ خود بھی اپنی ذات میں کسی نہ کسی کی خبر دیتا ہے اور کوئی دوسرا اس سے منسلک ہوجائے یا اس سے نسبت پیدا کرلے تو وہ بھی بامعنی یعنی کامل بن جاتا ہے۔ بہ الفاظ ویگر اسم خود ’’کامل گر،، بھی ہے۔ مذکورہ بالا تینوں کلمات کا باہمی تعلق یہ ہے کہ حرف بھی اس سے نسبت پیدا کرکے خود کو بامعنی بناتا ہے، فعل بھی اسم سے نسبت پیدا کرکے اپنی معنویت اور دلالت کو کامل بناتا ہے۔ لیکن اسم ایک ایسا کلمہ ہے جو خود ہی اپنے مقصد اور ذات معینہ پر دلالت کرتا ہے یا اس کی خبر دیتا ہے۔ اس کو اپنی اس حیثیت کی تشکیل کے لیے نہ کسی اور حرف کی حاجت ہے نہ کسی فعل کی۔ گویا اسم میں دلالتِ کاملہ اور دلالتِ مطلقہ ہوتی ہے۔ فعل میں ناقصہ اورحرف میں سرے سے ہوتی ہی نہیں۔

تسمیہ میں فعل، حرف اور اسم کے باہمی تعلق پر اشارۂ لطیف :
مذکورہ بالا بحث کی روشنی میں ’’تسمیہ،، کے الفاظ پر غور فرمائیں تو ’’فعل،، جس کا تعلق کسی غیر سے ہوسکتا تھا، محذوف کردیا گیا۔ کلماتِ تسمیہ کا آغاز ’’حرف باء،، سے کیا گیا۔ جو اپنی ذات میں کوئی معنی و مفہوم نہیں رکھتا۔ اس میں جو بھی معنویت او ر افادیت پیدا ہوئی ہے۔ صرف اسم کے ساتھ نسبت پیدا کرنے کے باعث ہوئی ہے۔ ’’حرف باء،، کا مقصد محض اپنے ماقبل محذوف کو یعنی کسی غیر کو جو متکلم یا فعل ہوگا، اسم کے ساتھ ملانا ہے۔ پھر لفظ ’’اسم،، وارد کیا گیا اور اس کے بعد ’’ اﷲ الرحمن الرحیم،، کے الفاظ بیان ہوئے۔ اسم کا معنی ’’علامت،، ہے۔ ذات و صفات باری تعالیٰ کے ذکر سے پہلے ’’اسم،، کا لایا جانا اس بات کو واضح کرنا تھا کہ اﷲ اپنی واحدانیت، الوہیت اور ہویت میں اس طرح غیر محسوس و غیر مبصر، وہم و ادراک سے بالا اور عقل و خرد سے بلند ہے کہ اس تک کسی کا وہم و گمان نہیں پہنچ سکتا، بندوں کا اس تک وصول محال ہے۔ لہذا اس مخفی وباطن اور پاک و منزہ ہستی تک وصول کے لیے ایسی علامت درکار ہے جو خود ظاہر ہو، اس ہستی کی خبر دینے والی ہو، اپنی ذات کے ظہور میں بھی کامل ہو اوراس ذات مطلق کے اظہار کے لیے بھی کامل ہو، جو خود اس کی خبر بھی رکھتی ہو اور دوسروں کو اس سے باخبر بھی کرسکتی ہویعنی وہ علامت ذات حق کے ظہور کی ایسی دلیل بن جائے کہ خود بھی اس سے ملی ہوئی ہو اور دوسروں کو بھی اس سے ملا سکے اوراس غرض سے دوسرے اس علامت سے نسبت و تعلق قائم کرنے کے لیے مجبور و مامور ہوں۔ ایسی علامت کاملہ جس کی شان یہ ہوکہ۔

اُدھر سے اﷲ سے واصل، اِدھر مخلوق میں شامل
خواص اس برزخ کبرٰی کو ہے حرفِ مشدد کا

وہ علامت صرف ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہی تھی جسے ’’ کلمہ اسم،، کے عنوان سے بطور ذریعہ بیان کردیا گیا۔

تصورِ دلالت اور کلمۂ اسم کی وساطت :
یہاں یہ امر غور طلب ہے کہ لفظ ’’ اﷲ،، کی دلالت کے لیے کلمۂ اسم بطور ذریعہ وارد ہوا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’ کیا ذات حق اپنی دلالت کے لیے کسی ذریعے کی محتاج ہے؟،، اس کا جواب صاف نفی میں ہے۔ بذاتِ خود باری تعالیٰ اپنی دلالت کے لیے کسی ذریعے، واسطے اور علامت کی محتاج نہیں ہے لیکن اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کلمہ اسم اﷲ ذات باری تعالیٰ ہی کی دلالت کے لیے بطور ذریعہ و علامت وارد ہوا ہے تو پھر اس ذریعے اور علامت کی احتیاج کس کو ہے۔

اس کا جواب خود عبارت تسمیہ میں ہے جو حرف باء سے شروع ہوتی ہے۔ ’’حرف باء،، اپنے سے پہلے بہر صورت کسی فعل و فاعل کو محذوف کے طور پر طلب کرتا ہے۔ یہ محذوف وہ شخص ہے جو بارگہ الوہیت تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے جو ’’ابداء، اشرع، اقراء وغیرہ،، کا فاعل ہے اور اس شخص کو ’’اسم،، یعنی علامت ذات حق سے ملانے کے لیے حرف باء درمیان میں لگایا گیا ہے۔ گویا مخلوق خدا حرف باء کے توسل سے اسم کے ساتھ اپنی نسبت پیدا کر رہی ہے تاکہ اسم کے ساتھ نسبت اور تعلق پیدا کرکے طالبان حق کو ذات حق تک رسائی نصیب ہوسکے۔

یہ اسم علامت کے طور پر اس ہستی مبارکہ کو بیان کررہا ہے جو ذات حق سے واصل اور اس کی عارف بھی ہے اور دیگر مخلوقات کو ذات حق کا وصال اور معرفت عطا کرنے والی بھی۔

ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کلمہ اسم کا مدلول کامل ہے :
پورا قرآن شروع سے آخر تک اس امر کی تائید کرتا ہے کہ اسی مقصد کے لیے دنیا میں انبیاء و رسل تشریف لاتے رہے۔ وہ ذات حق کی معرفت اور اس تک رسائی کا بہترین ذریعہ و واسطہ بھی تھے اور علامت ودلالت بھی۔ پھر یہ انبیاء و رسل ایک دوسرے پر فضیلت بھی رکھتے تھے۔ ارشاد قرآنی ہے۔

تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍ.

یہ سب رسول ( جوہم نے مبعوث فرمائے) ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔

(البقره، 2 : 353)

انبیاء و رسل کی تمام فضیلتیں جس نقطے پر جاکر اپنے منتہائے کمال کو پہنچ گئیں۔ وہ نقطہ نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تھا۔ اس لیے ذات حق پر آپ کی دلالت بھی سب سے زیادہ اکمل و افضل تھی اور آپ کی شانِ علامت بھی سب سے ارفع و اعلیٰ تھی۔ اس لیے نبوت و رسالت جہاں مقام و مرتبہ کے اعتبار سے آپ کی ذات ستودہ صفات پر ختم ہوگئی۔ وہاں ادوار زمانی کے اعتبار سے بھی آپ ہی پر اختتام پذیر ہوگئی۔ چنانچہ ذات حق کی علامتِ تامہ اور دلالتِ مطلقہ ذات مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرار پاگئی۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر اس حقیقت کی واضح نشاندہی بھی کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَى مَا أَنزَلَ اللّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًاO

(النساء، 4 : 61)

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ (قرآن) کی طرف اور رسول کی طرف آجاؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ (کی طرف رجوع کرنے) سے گریزاں رہتے ہیںo

اس آیت نے صراحت کے ساتھ اس حقیقت کو بے نقاب کردیا کہ منافقت یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطہ کے بغیر ہی ذات حق کی بارگاہ میں بازیابی کے حصول کی کوشش کی جائے۔ یعنی منافقت کی پہچان یہ ہے کہ ’’ رسول کو وصالِ حق کا ذریعہ نہ ماناجائے۔ اس کو معرفت حق کی علامت اور ذاتِ حق کی دلالت تسلیم نہ کیا جائے،،۔ یعنی منافق یہ سمجھتا ہے کہ نسبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر ہی احکام خداوندی پر عمل باعثِ ایمان ثابت ہوجائے گا۔ حالانکہ قرآن اسے ’’ منافقت،، کہہ کر رد کرچکا ہے۔ اسی تصور کو ایک اور مقام پر یوں بیان کیاگیا ہے۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْا رُؤُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَO

اور (ان کی حالت تو یہ ہے کہ) جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ رسول اللہ تمہارے لئے ( اللہ سے) بخشش طلب فرمائیں تو (یہ گستاخی سے) سر ہلاتے ہیں اور آپ دیکھتے ہیں کہ وہ بے رخی کرتے ہیں اور وہ تکبر کرتے ہیںo

(المنافقون، 63 : 5)

ان گستاخان رسالت اور بے نیازاِن درِ نبوت کے بارے میں مزید حکم صادر کیا گیا۔ ’’ کہ اے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری غیرت اور شان مجیت کا تقاضا یہی ہے کہ اگر یہ تیرے ذریعہ وواسطہ کو اپنا کر میری ذات تک پہنچیں گے تو انہیں بخش دوں گا۔ لیکن اس طرح تجھ سے منہ موڑ کر تجھ سے تکبر کرتے ہوئے، تجھے میری ذات تک رسائی کا واحد ذریعہ و واسطہ اور علامت نہ سمجھتے ہوئے براہ راست مجھ سے معافی مانگنا چاہیں یا تو سراپا رحمت و رافت ہونے کی بناء پر انکے غرور و تکبر کے باوجود اپنے طور پر ان کیلئے مغفرت مانگے تو میں ان بدبختوں کو پھر معاف نہیں کروں گا۔ ان کو تجھ سے منہ موڑنے کا مزہ چکھا کر ہی رہوں گا۔

سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ.

آپ ان کے لئے بخشش مانگیں یا ان کے لئے بخشش نہ مانگیں ان کے حق میں برابر ہے اللہ ان کو ہرگز نہ بخشے گا۔

(المنافقون، 63 : 6)

اگر یہ آپ کی سفارش، شفاعت اور غلامی کے ذریعہ کو ٹھکرا کر بھی بخشے جائیں تو پھر ان غلامانِ رسالت کا کیا حال ہوگا جو قدم قدم پر تیری بارگاہ میں نیاز مندیاں کرتے ہیں اور تجھے میری ذات کی علامت سمجھ کر تیرے واسطے سے مجھ تک پہنچتے ہیں۔ میں ان بدنصیبوں کو ان خوش نصیبوںکے برابر نہیں ٹھہرا سکتا اور پھر میرا دستور مغفرت ہی یہی ہے کہ لوگ بارگاہ رسالت کی وساطت سے مجھ تک پہنچیں۔

باری تعالیٰ خود اعلان فرماتے ہیں۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًاO

اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور (اے حبیب) اگر وہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتےo

(النساء، 4 : 64)

اس آیت کا مفہوم و مدعا سابقہ آیت کی روشنی میں سمجھا جائے تو حقیقت منکشف ہوجاتی ہے کہ لوگ ظلم ومعصیت کے بعد اگر ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واسطہ وصال الٰہی اور ذریعہ مغفرت حق مان کر در رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سرنیاز خم کردیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے بارگاہ الوہیت تک رسائی کی آرزو کریں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ذریعہ و واسطہ سمجھنے سے انکاری ہوں بلکہ آپ کی سفارش سے ہی منہ پھیر لیں تو پھر کوئی صورت نہیں کہ وہ بخشے جائیں۔ اس لیے کہ اندریں صورت میں ان کی بخشش سنت الٰہی کے خلاف ہے اور ارشاد ایزدی ہے۔

وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًاO

اور آپ اللہ کی سنت میں کبھی فرق نہ پائیں گےo

(الفتح، 48 : 23)

متذکرہ بالا آیات نے اس حقیقت کو اظہر من الشمس کردیا کہ ذات حق تک رسائی کے لیے صرف اور صرف ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی واسطہ و ذریعہ ہے۔ اسی وجہ سے آپ کو تسمیہ میں ’’ کلمہ اسم،، سے تعبیر کردیا گیا اور آپ کو علی الاطلاق برھان من ربکم (تمہارے رب کی طرف سے حتمی و قطعی دلالت) کے لقب سے سرفراز کیا گیا ہے۔ چنانچہ بسم اﷲ الرحمن الرحیم کی اولین تعلیم ہی یہی تھی کہ ذات باری تعالیٰ اور اس کی صفاتِ کاملہ تک رسائی واسطہ و علامت کے بغیر ممکن نہیں اور وہ واسطہ جلیل ذات محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جسے اس ذات نے محمد، احمد، حامد اور محمود کے اسماء مبارکہ کے ذریعے اپنی شان اسمیت سے نواز رکھا ہے۔

ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شان اسمیت :
مذکورہ بالا تحقیق کا خلاصہ یہ ہوا کہ جناب مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ’’اسم،، ہیں کیونکہ ان کو اﷲ سے نسبت ہے اور ساری مخلوق خدا کو ان سے نسبت ہے یہی اسم کی شان اور تعریف پہلے بیان ہوچکی ہے کہ وہ مسند بھی ہوتا ہے اور مسندالیہ بھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اسی حیثیت کو اسطرح واضح فرمایا :

إنما أنا قاسم واﷲ يعطي.

بے شک نعمتوں کو مخلوق خدا میں تقسیم میں ہی کرنے والا ہوں اور مجھے عطا اﷲ تعالیٰ کرتاہے۔

(صحيح المسلم، 2 : 333، 12. کتاب الزکوة، 33. باب النهی عن المسألة، رقم حديث : 100)

اس حدیث صحيح کے ذریعے ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو نسبتیں واضح ہوگئیں۔

1۔ نسبت الی الخالق۔

2۔ نسبت الی الخلق

’’نسبت الی الخالق،، یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خالق سے حاصل کرتے ہیں اور ’’ نسبت الی الخلق،، یہ ہے کہ مخلوق میں تقسیم فرماتے ہیں۔

سورہ الضحٰی میں یہی دو نسبتیں خاص انداز سے بیان کی گئی ہیں۔

وَلَسَوْفَ يُعْطِيْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰیO اَلَمْ يَجِدْکَ يَتِيْمًا فَاٰوٰیO وَوَجَدَکَ ضَآلًا فَهَدَیO وَوَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰیO

اور بے شک قریب ہے کہ آپ کا رب آپ کو اتنا دے گاکہ آپ راضی ہوجائیں گے کیا اﷲ نے آپ کو حالت یتیمی میں نہ پایا۔ پس اس نے آپ کو بلند مقام سے سرفراز کردیا اور اس نے آپ کو اپنی محبت میں خود رفتہ پایا۔ پس اپنا قرب و وصال عطا کردیا اور اس نے آپ کو اپنی نعمتوں کا ضرورت مند اورطلبگار پایا تو اتنا عطا کیا کہ غنی اور مالدار کردیا۔

(الضحٰی، 93 : 5 – 8)

ان آیات میں پہلی نسبت کا بیان تھا کہ جس جس چیز کی ضرورت ذات مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محسوس ہوئی رب ذوالجلال نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کردی۔ اپنی نعمتوں اور عطاؤں کے خزانے نے ذات نبوی پر اس طرح کھول دیئے کہ انہیں ’’غنی،، یعنی بے نیاز کردیا۔ اب مخلوق خدا کو حکم دیاکہ میری نعمتوں اور عطاؤں کو حاصل کرنا چاہتے ہوتو تمہارے لیے واسطہ اتم مقرر فرمادیا ہے۔ جاؤ درِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری دو، وہاں دامن سوال دراز کرو، جو کچھ مانگو وہی کچھ ملے گا۔ کیونکہ ہم نے عطا میں کوئی کمی نہیں کی، وہ تقسیم میں بھی کچھ نہیں کریں گے۔ ساتھ ہی ’’نسبت الی الخلق، ’ کے حوالے سے اپنے اسم مقدس کو حکم صادر فرمایا :

فَاَمَّا الْيَتِيْمَ فَلَا تَقْهَرْO وَاَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنْهَرْO وَاَمَّا بِنِعْمَة رَبِّکَ فَحَدِّثْO

پس اے محبوب، اے تقسیم کرنے والے، اب اگر آپ کے پاس کوئی یتیم آئے تو اس (کے مانگنے) پر ناراض نہ ہوں، اور جو کوئی سائل آپ کے در پر آئے۔ پس اسے خالی نہ موڑیے اور اپنے رب کی عطاؤں اور نعمتوں کو ہر ایک میں تقسیم کرکے خوب چرچا کرو۔

(الضحٰی، 93 : 9 – 11)

لہذا ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اسمیت یہ قرار پائی کہ ’’نسبت الی الخالق،، کے نتیجے میں ساری کائنات میں انعامات الٰہیہ کی تقسیم کے فیضان رحمت کے مظہر اتم بن گئے اور ’’نسبت الی الخلق،، کے نتیجے میں ساری کائنات میں انعامات الٰہیہ کی تقسیم کے ضامن بن گئے بقول مولانا احمد رضا خان :

بخدا، خدا کا یہی ہے در، نہیں اورکوئی مفر مقر
جو وہاں سے ہو یہاں آکے ہو، جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں

سورۃ الضحٰی کی آیت متذکرہ 8 اور 10 اور حدیث مذکورہ بالا دونوں مقامات میں نہ ’’عطا،، میں تخصیص فرمائی گئی ہے اور نہ تقسیم میں۔ عطا بھی مطلق اور بلاقید ہے۔ تقسیم بھی مطلق اور بلاقید ہے۔ اسی طرح سائلان و وابستگان پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی کہ تم کیا مانگو اور کیا نہ مانگو۔ جو کچھ بھی مانگو گے، دنیا مانگو یا آخرت، سب کچھ ملے گا کیونکہ ہم نے اپنے محبوب کو بلا استثنٰی تمہاری ضرورتوں سے بھی زیادہ عطا کر دیا ہے۔ پھر اس سے قبل یہ بھی اعلان فرما دیاگیا۔

وَلَلْاٰخِرَة خَيْرٌ لَّکَ مِنَ الْاٰوْلٰیO

اے محبوب! تمہاری ہر آنے والی گھڑی، گزری ہوئی گھڑی سے بہتر ہوگی۔

(الضحٰی، 93 : 4)

یعنی آپ پر ہر آن ہماری عطاؤں کا سلسلہ بڑھتا رہے گا۔ جب عطاؤں میں کمی نہیں آسکتی اسی طرح تقسیم میں بھی کمی یا رکاوٹ نہیں آنی چاہیے۔ چنانچہ ابدالآباد تک ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ دونوں نسبتیں ( نسبت الی الخالق۔ ۔ ۔ جو حصول فیضان سے عبارت ہے اور نسبت الی الخلق۔ ۔ ۔ جو تقسیم فیضان سے عبارت ہے) قائم و دائم رہیں گی۔ اس لیے قرآن کے پیغام ابدی کے ساتھ ساتھ مخلوق خدا کے لیے اسم مقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیضان وساطت و رسالت بھی جاری و ساری رہے گا۔

حرفِ جار کی نسبت ایک لطیف نکتہ :
یہاں یہ امر بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ تسمیہ میں کلمہ اسم کو حرف جار (باء) سے منسلک کیا گیا ہے ’’جر،، کے معنی کشش اور جذب کرنے کے ہوتے ہیں۔ حرف جار کشش کے لیے مقرر ہے چونکہ حرف جار فعل محذوف کو اسم سے ملانے کے لیے واقع ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو بھی ذات حق کا ماسوی ہے اور اسے ذات باری تعالیٰ کا قرب و وصال اور معرفت و اعانت مطلوب ہے۔ وہ ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جسے بطور علامت عنوان ’’اسم،، کے تحت بیان کیا گیا ہے جذب وکشش پیدا کرلے۔ اسے جس قدر ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قرب اور جذب و کشش نصیب ہوگی اسی قدر ذات حق کی محبوبیت کا سزا وار ہوتا چلا جائے گا۔

جیسے کہ ارشاد خداوندی ہے۔

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ يُحْبِبْکُمُ اﷲُ.

(اے حبیب!) آپ فرما دیں اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنالے گا۔

(آل عمران، 3 : 31)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اسی شان کریمی کا ذکر کرتے ہوئے یوں فرمایا :

مثلی کمثل رجل استوقد ناراً فلما أضاء ت ماحولها جعل الفراش و هذه الدوآب التی فی النار يقعن فيها و جعل يحجزهن و يغلبنه فيتقحمن فيها قال فذلکم مثلي و مثلکم أنا أخذ بحجرکم عن النارهلم عن النارهلم عن النار فتغلبوني و تقحمون فيها.

(صحيح لمسلم، 2 : 248، 43. کتاب الصقائل، 6. باب شفقة صلي الله عليه وآله وسلم علي امته، رقم : 18)

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا میری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی اور جب اس آگ نے ماحول کو روشن کر دیا تو اس میں پروانے اور حشرات الارض گرنے لگے وہ شخص ان کو آگ میں گرنے سے روکتا ہے اور وہ اس غالب آکر آگ میں دھڑا دھڑ گر رہے ہیں پس یہ میری مثال اور تمہاری مثال ہے میں تمہاری کمر پکڑ کر تم کو جہنم میں جانے سے روک رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ جہنم کے پاس سے چلے آؤ اور تم لوگ میری بات نہ مان کر جہنم میں گرے جا رہے ہو۔

اس حدیث کے ذریعے اس جذب و کشش کی ماہیت بھی واضح ہوگئی جو کلمہ کے باعث اسم مقدس میں پیدا ہو گئی تھی۔ اسم نحوی کا خاصہ جر من حیث الوقع ہے اور اسم الٰہی کا خاصہ جرمن حیث الصدور ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ بسم اﷲ الرحمن الرحیم کے ذریعے باری تعالیٰ نے ’’توحیدِخالص،، کی تعلیم دی لیکن اس کی صحت وقبولیت کی شرط بھی متعین فرما دی اور وہ شرط واسطہ رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اسی لیے اسم ذات ’’اﷲ،، کو علی التخصیص الرحمن الرحیم کے ذریعے صفتِ رحمت سے اجاگر کیا تاکہ ’’شانِ اسمیت،، کے معنی ومفہوم پر بھی دلالت ہوجائے کہ اسمِ مقدس کا کامل ترین مدلول ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔