مرشد و آداب مرشد پر رسالہ التصوف

اگر کوئی خوش نصیب مرشِد کامل کے دامن سے وابستہ ہو کر مرید ہونے کی سعادت پالے ، تو اسے چاہئے کہ اپنے مرشِد سے فیض پانے کیلئے پیکرِ اَدَب بن جائے۔ اس لئے کہ طریقت کے تمام معاملات کا انحصار ادب پر ہے۔

اگر کوئی خوش نصیب مرشِد کامل کے دامن سے وابستہ ہو کر مرید ہونے کی سعادت پالے ، تو اسے چاہئے کہ اپنے مرشِد سے فیض پانے کیلئے پیکرِ اَدَب بن جائے۔ اس لئے کہ طریقت کے تمام معاملات کا انحصار ادب پر ہے۔

مرشد و آداب مرشد پر رسالہ التصوف کی تشریح پہلی بار۔۔۔۔🌹
اگر کوئی خوش نصیب مرشِد کامل کے دامن سے وابستہ ہو کر مرید ہونے کی سعادت پالے ، تو اسے چاہئے کہ اپنے مرشِد سے فیض پانے کیلئے پیکرِ اَدَب بن جائے۔ اس لئے کہ طریقت کے تمام معاملات کا انحصار ادب پر ہے۔

قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتاہے :

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) (پ ۲۶، الْحُجُرٰت : ۱ )

(ترجمۂ قرآن کنزالایمان) اے ایمان والو! اللہ اور اسکے رسول سے آگے نہ بڑھو، اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ سنتا جانتا ہے۔

ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے :

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ( پ۲۶، الْحُجُرٰت : ۲)

(ترجمۂ قرآن کنز الایمان)اے ایمان والو! اپنی آوازیں اونچی نہ کرو، اُس غیب بتانے والے نبی کی آواز سے ، اور ان کے حُضوربات چِلّا کر نہ کہو، جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چِلّا تے ہوکہ کہیں تمہارے عمل اَکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خَبْر نہ ہو۔

بے اَدَبی کی نُحوست

تفسیر رُوحُ البیان میں ہے کہ پہلے زمانے میں جب کوئی نوجوان کسی بوڑھے آدمی کے آگے چلتا تھا تو اللہ تَعَالٰی اسے (ا سکی بے اَدَبی کی وجہ سے)زمین میں دھنسا دیتا تھا۔

ایک اور جگہ نقْل ہے کہ کسی شخص نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم میں عرْض کی حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم میں فاقہ کا شکار رہتاہوں ۔ تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ تو کسی بوڑھے(شخص) کے آگے چَلا ہوگا۔(روح البیان پارہ ۱۷)

اس سے معلوم ہوا کہ بے اَدَبی دنیا وآخِرت میں مَردُود کروادیتی ہے ۔ جیسا کہ ابلیس کی نولاکھ سال کی عبادت ایک بے اَدَبی کی وجہ سے برباد ہوگئی اور وہ مَردُود ٹھہرا۔

(۱)حضرت ابوعلی دقّاق علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں ، بندہ اِطاعت سے جنّت تک اور اَدَب سے خدا عَزَّ وَجَلَّ تک پہنچ جاتا ہے ، ( الر سالۃ القشیریۃ ، باب الادب ، ص ۳۱۶)

(۲)حضرت ذُوالنُّون مِصری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ ، جب کوئی مرید اَدَب کا خیال نہیں رکھتا ، تو وہ لوٹ کر وہیں پہنچ جاتا ہے جہاں سے چَلا تھا۔( الر سالۃ القشیریۃ ، باب الادب ، ص ۳۱۹)

(۳) حضرت ا بنِ مبارَک علیہالرحمۃ فرماتے ہیں کہ ، ہمیں زیادہ عِلْم حاصل کرنے کے مقابلے میں تھوڑا سا اَدَب حاصل کرنے کی زیادہ ضَرورت ہے۔(الرسالۃ القشیریۃ ، باب الادب ، ص ۳۱۷)

(۴) اعلیٰحضرت الشاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے ایک جگہ حضرت شَیخ سَعدی علیہ رحمۃ الہادی کے قولِ نصیحت کو بڑی اَہمیت دی ۔

فرمایا!کیا وجہ ہے کہ مرید عالم فاضل اور صاحبِ شَرِیْعَت و طریقت ہونے کے باوُجود(اپنے مرشِد کامل کے فیض سے ) دامن نہیں بھر پاتا؟ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ مدارس سے فارغ اکثر علمائے دین اپنے آپ کو پیرو مرشِد سے افضَل سمجھتے ہیں یا عمل کا غُرور اور کچھ ہونے کی سمجھ کہیں کا نہیں رہنے دیتی۔ وگرنہ حضرت شَیخ سعدی علیہ رحمۃ اللہ علیہ مشورہ سنیں ۔
فرماتے ہیں ! بھر لینے والے کو چاہئے کہ جب کسی چیز کے حاصل کرنے کا ارادہ کرے تو اگرچہ کمالات سے بھرا ہوا ہو۔ مگر کمالات کو دروازے پر ہی چھوڑ دے (یعنی عاجزی اختیار کرے)اور یہ جانے کہ میں کچھ جانتا ہی نہیں ۔ خالی ہو کر آئیگا تو کچھ پائے گا، اور جو اپنے آپ کو بھرا ہوا سمجھے گا تو یاد رہے کہ بھرے برتن میں کوئی اور چیز نہیں ڈالی جاسکتی ۔
مرشِدِ کا مل کے حا سد ین
سَیِّدنا امام شعرانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں مشائخِ کبار نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ اپنے مرشِد کی مَحبّت کی شرائط میں سے ایک (اہم شرط )یہ ہے کہ مرید اپنے مرشِد کی گفتگو کے عِلاوہ دیگر تمام لوگوں کی گفتگو سننے سے اپنے کان(بند) کرلے۔(یعنی مرشِد کے خلاف ذہن خراب کرنے والے کی گفتگو سُننا تو دُور کی بات نفرت کے باعث اس کے سائے سے بھی بھاگے ) پس مرید کسی بھی مَلامَت کرنے والے کی مَلامَت کو نہ سنے۔یہاں تک کہ اگر تمام شہر والے لوگ کسی ایک صاف میدان میں جمع ہوکر اسے اپنے مرشِد سے نفرت دلائیں ( اور ہٹانا چاہیں ) تو وہ لوگ اس بات پر (یعنی مرید کو مرشِد سے دور کرنے) پر قدرت نہ پاسکیں ۔ (الانوارالقدسیہ فی معرفۃ قواعد الصوفیہ)
حضرت محی الدین ابنِ عَرَبی قدس سرہ العزیزنے مرشِد کی مَحبّت رکھنے والوں کے اوصاف اس طرح بیان فرمائے کہ(۱)وہ اپنے مَحبوب کی مَحبّت سے مقتول ہو۔ (۲) مَحبوب میں فانی ہو، (۳) ہمیشہ مَحبوب کی طرف چلنے والا ہو، یعنی باطن میں سیرالی المرشِد کرنے والا ہو، (۴) بہت جاگنے والا ہو۔(۵) مَحبوب کے غم میں ڈوبنے والا ہو۔(۶)جو چیز اسے مَحبوب مرشِد سے ہٹائے خواہشات دنیوی ہوں یا اُخروی سب سے علیحدہ ہونے والا(۷) جو چیز اسے مَحبوب سے رو کے ان تمام سے قطع تعلق کرنے والا (۸) بہت آہ و زاری کرنے والا(۹)مَحبوب کی گفتگو اور نام مبارَک سے راحت پانے والا(۱۰) مَحبوب کے غم اور دکھ میں ہمیشہ شریک ہونے والا(۱۱) مَحبوب کی خدمت گزاری میں بے اَدَبی سے ڈرنے والا(۱۲) اپنی طرف سے مَحبوب کے حق میں جو کچھ بھی کرے اس کو تھوڑا سمجھنے والا اور (۱۳) مَحبوب کے تھوڑے کو بہت سمجھنے والا (۱۴) مَحبوب کی اطاعت سے چمٹنے والا(۱۵) اس کی مخالِفت سے بھاگنے والا(۱۶) اپنے نفس سے بالکل علیحدہ ہونے والا(یعنی کوئی کام نفس کی خاطر نہ کرے)(۱۷) جن تکلیفوں سے طبِیْعَتْیں مُتَنَفِّر ہوتی ہیں ان پر صبر کرنیوالا(۱۸) جن مشکلات پر مَحبوب اسے کھڑا کرے ان پر مضبوطی سے قائم رہنے والا(۱۹) مَحبوب کی مَحبّت میں دائمی جنون اور(۲۰)اس کی رِضا کو پانے(کی کوشش کرنے)اور(۲۱) نفس کے تمام مطالب پر(مرشد کے احکام کو) ترجیح دینے والاہو۔۔۔

با با فریدعلیہ الرحمۃ کا عشقِ مُرشد
ایک مرتبہ خواجہ غریبِ نواز علیہ الرحمۃ اپنے مَحبوب خلیفہ حضرت بختیار کاکی علیہ الرحمۃ کے یہاں تشریف لائے۔آپ نے اپنے مُرید(بابا فرید علیہ الرحمۃ ) جو آپ کے عشق میں گھائل تھے ۔ بُلاکر ارشاد فرمایا، اپنے دادا پیر (یعنی خواجہ غریب نواز علیہ الرحمۃ ) کے قدموں کو بوسہ دو۔بابا فرید علیہ الرحمۃ حکْمِ مرشِد بجا لانے کیلئے دادا پیر کے قدم چُومنے جھکے ، مگر قریب ہی تشریف فرما اپنے ہی پیرو مرشِد(بختیار کاکی علیہ الرحمۃ ) کے قدم چُوم لئے۔
بختیار کاکی علیہ الرحمۃ نے دوبارہ ارشاد فرمایا ، فرید سُنا نہیں دادا پیر کے قدم چُومو ۔ بابا فرید جو مُرشِد کی حقیقی مَحبّت میں گم تھے فوراً حکْم بجا لائے اور دوبارہ داد ا پیر کے قدم چومنے جھکے مگر پھر اپنے پیر بختیار کاکی علیہ الرحمۃ کے قدم چوم لئے۔ بختیار کا کی علیہ الرحمۃ نے دوبارہ ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں دادا پیر کے قدم چُومنے کا کہتا ہوں مگر تم میرے قدموں کو کیوں چوم لیتے ہو؟ بابا فرید علیہ الرحمۃ نے اَدَب سے سر جھکا کر بڑے ہی مودبانہ اور عشق ومستی کے عالم میں حقیقتِ حال بیان فرمائی۔ حضور میں آپ کے حکْم پر دادا پیر غریبِ نواز علیہ الرحمۃ کے قدم چومنے ہی جھکتا ہوں ، مگر وہاں مجھے آپ کے قدموں کے سوا اور کوئی قدم نظر ہی نہیں آتے۔ لہٰذا میں انہیں قدموں میں جا پڑتا ہوں ۔خواجہ غریبِ نواز علیہ الرحمۃ نے ارشا دفرمایا، بختیار (علیہ الرحمۃ ) فرید(علیہ الرحمۃ ) ٹھیک کہتاہے ۔یہ منزل کے اس دروازے تک پہنچ گیا ہے جہاں دوسرا کوئی نظر نہیں آتا۔ (مقاماتِ اولیاء ، ص۱۸۰)۔۔۔
مرید کے لیے احتیاط و احکام۔۔۔

(۱)اچھی حا لت

اے میرے بھائی! تو جان لے کہ سُلوک کی منزل طے کرنے والا کوئی بھی شخص مشائخ کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہ کی مَحبّت اور ان کے اچھی طرح آداب بجالانے اور ان کی بہت خدمت کئے بِغیر طریقت کی ایک اچھی حالت پر کبھی نہیں پہنچا۔

(۲)حُسنِ اِعتِقا د

سَیِّدنا شَیخ عبدالقادر جیلانی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ۔ من لم یعتقد لشَیخہ الکمال لایفلح علی یدیہ لبدایعنی جو مرید اپنے شَیخ کے کمال کا اعتقاد نہ رکھے وہ مرید اس مرشِد کے ہاتھوں پر کبھی کامیاب نہ ہوگا۔

(۳) ناکام مرید

مرید پر لازم ہے کہ وہ اپنے مرشِد کو کبھی لفظ ’’کیوں ‘‘ نہ کہے کیونکہ تمام مشائخ نے اتفاق کیا ہے کہ جس مرید نے اپنے مرشِد کو ’’کیوں ‘‘ کہا تو وہ طریقت میں کامیاب نہ ہوگا۔

(۴) د ُھتکارا ہوا

حضرت شَیخ عبدالرحمن جیلی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جو مرید اپنے نفس کو اپنے مرشِد اور اپنے پیر بھائیوں کی مَحبّت سے رُوگردانی کرنے والا پائے تو اسے جاننا چاہئے کہ اب اس کو اللہ تَعَالٰی کے دروازہ سے دُھتکارا جارہا ہے۔

(۵) حقِّ مرشد

مرید کیلئے ضَروری ہے کہ وہ یہ خیال کبھی نہ لائے کہ اب وہ اپنے مرشِد کا حق پورا کرچکا ہے ۔اگرچہ اپنے مرشِدکی ہزار برس خدمت کرے اور اس پر لاکھوں روپے بھی خرچ کرے اور پھر مرید کے دل میں اتنی خدمت اور اتنے خرچ کے بعد یہ خیال آیا کہ اب وہ کچھ نہ کچھ حق ادا کرچکا ہے (تو اسے طریقت میں ناقابل تصور نقصان پہنچے گا)

(۶) سچائی او ریقین

حضرت شَیخ ابوالحسن شاذلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اے لوگو! تم بُزُرگوں کی صحبت سچائی اور یقین ہی کے ساتھ اختیار کرو۔ اگر وہ کسی سبب ظاہری کے بِغیر تم پر(بظاہر) زیادتی کریں تو بھی تم صبْر ہی کرو اور تم ان کے پاس پختہ ارادہ اور عاجزی ہی لے کر آؤ، پس اس طریقہ سے مرشِد تمہیں فوراً ہی قبول فرمالیں گے۔

(۷) سخت زَلزلے

حضرت سَیِّدنا علی بن وفا رحمۃا للہ تَعَالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ مرید پر لازم ہے کہ وہ اپنے تمام وسائل، اسباب اور اپنے تمام معمولات کو جن پر اسے اعتماد ہے اپنے مرشِد کے سامنے پیش کردے ، تاکہ مرشِد ان تمام چیزوں کو فنا اور گم کرڈالے۔پس اس وقت مرید کا اعتماد نہ اپنے علْم پر رہے نہ عمل پر۔ہاں ! اللہ تَعَالٰی کے بعد صرف اپنے مرشِد ہی کے فضْل پر اعتماد ہے اور یہ یقین
رہے کہ اب مجھے تمام بھلائیاں اور خیر صرف میرے مرشِد ہی کے واسطے سے پہنچیں گی۔

یہ سب چیزیں اس لئے ضَروری ہیں کہ مرشِد اس مرید کو دشمن کے منازل سے نکال کر مَقاماتِ حق جل جلالہ تک پہنچادے او رمُنْدَرِجہ بالا حالت میں مرید کو بہت سخت زلزلے بھی( جن کے آنے کے بہت امکان ہے) ان شا ء اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کچھ حَرَکت نہیں دے سکیں گے۔

(۸) سچائی

مرید پر لازم ہے کہ مرشِد کی خدمت میں ہر وقت سچائی ہی کے ساتھ آئے اگرچہ روزانہ ہزار بار آنا نصیب ہو۔

(۹) بہٹکا ہُوا مرید

حضرت سَیِّدی علی بن وفا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے بِغیر مرشِد اور ہادی کے کمال کا ارادہ کیا، تو وہ مقصود کے راستے سے بھٹک گیا ۔ کیونکہ میوہ اپنی گٹھلی کے وُجود کے بِغیر جو کہ اس کا اصْل ہے۔ کبھی کامل نہیں ہوگا۔ تو مرید بھی اسی طرح اپنے مرشِد کے وُجود کے بِغیر کبھی کامل نہ ہو گا۔

بے اَ دَبی کاانجام

حضرت جُنید بَغْدادی علیہ رحمۃ الھادی کاایک مرید آپ سے ناراض ہوگیا اور یہ سمجھا کہ اسے بھی مَقامِ معرِفت حاصل ہوگیا ہے ۔ اب اسے مرشِد کی ضَرورت نہیں رہی، ایک دن وہ آپ کا امتحان لینے کیلئے آیا۔ حضرت جُنید بَغْدادی علیہ رحمۃ الھادی اس کے دل کی کیفیت سے آگاہ ہوگئے، اس نے آپ سے کوئی بات پوچھی ۔آپ نے فرمایا، لفظی جواب تو یہ ہے کہ اگر تو نے اپنا امتحان کرلیا ہوتا تو میراامتحان لینے نہ آتا اور معنوی جواب یہ ہے کہ میں نے تجھے وِلایت سے خارج کیا۔ا س جملے کے فرماتے ہی اس مرید کا چہرہ کالا ہوگیا، پھر آپ نے فرمایا کہ تجھے خبر نہیں کہ اَولیاء واقفِ اَسرار ہوتے ہیں ۔ (کَشْفُ المَحجوب، ص ۲۰۶)

(۱۰)حَسَد کی نُحوست

مرید پر لازم ہے کہ جب اس کا مرشِد اس کے پیر بھائیوں میں سے کسی ایک کو اس سے آگے بڑھادے(یا کوئی منصب عطا کرے) تو وہ اپنے مرشِد کے اَدَب کی وجہ سے اپنے اس پیر بھائی کی خدمت(اور اطاعت) کرے اور حَسَد ہر گز نہ کرے۔ ورنہ اس کے جمے ہوئے پاؤں پھسل جائیں گے او راسے بڑا نقصان پیش آئے گا۔

(۱۱)اطاعت کی بَرَکت

اگر کسی مرید کا یہ ارادہ ہے کہ وہ اپنے پیربھائیوں سے آگے بڑھ جائے، تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے مرشِد کی خوب اطاعت کرے اور اپنے آپ کو ایسی صفات(جن سے مرشِد خوش ہوتے ہوں ) سے آراستہ کرلے جن کے ذریعہ وہ آگے بڑھ جانے کا مستحقہوجائے ، اور اس وقت مرشِد بھی اسے اسی پیر بھائی کی طرح دوسرے پیر بھائیوں سے آگے بڑھادے گا، کیونکہ مرشِد تو مریدوں کا حاکم اور ان کے درمیان عدل کرنے والا ہو تا ہے اور بہت کم ہے کہ کوئی مرید اس مَرَض سے بچ جائے۔ اللہ تَعَالٰی اپنی پناہ میں رکھے ۔
(۱۲)دائمی عزت

آپ علیہ الرحمۃ مزید فرماتے ہیں کہ جب تو نے جان لیا کہ تیرا مرشِد اللہ تَعَالٰی کو جانتا ہے اور وہ تیرے ربّ کے درمیان واسطہ ہے اور ایک ایسا ذریعہ ہے ، جس سے اللہ تَعَالٰی تیری طرف متوجہ ہوتاہے تَو، تُو اس مرشِد کی اطاعت کو لازم کرلے ۔ ان شآء اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ دائمی عزت پائے گا۔

(۱۳)خد متِ مرشِد

آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ تو عارِف ب اللہ کی خدمت کر، تیری خدمت کی جائے گی اور تو بالخُصوص مرشِد کے ُرو بَرو اس کی مُمانَعَتْ سے بچ۔ ورنہ توملعون ہوجائے گا اور دھتکارا جائے گا، جیسا کہ شیطان ملعون ہو گیا۔ اور دھتکارا گیا کیونکہ وہ اللہ تَعَالٰی کے رو برو ہی سجدہ کا تارک بن گیا۔

(۱۴)رِضائے الٰہی عَزَّ وَجَلَّ

حضرت سَیِّدنا علی بن وفا علیہ الرحمۃ مزید فرماتے ہیں کہ اللہ تَعَالٰی کی راہ دکھانے والا تیرا مرشِد ایک ایسی آنکھ ہے ، جس کے ذریعے اللہ تَعَالٰی تیری طرف لطف اور رَحمت سے دیکھتا ہے۔ اور ایک ایسا منہ ہے جس کے ذریعے سے اللہ تَعَالٰی تیری طرف متوجہ ہوتا ہے۔ او راس کی رِضا سے راضی ہوتا ہے اور اس کی ناراضگی سے ناراض ہوتا ہے ۔پس اے مرید تو اس بات کو جان لے اور مرشِد کی اِطاعت کو لازم کرلے ۔

(۱۵) ظا ہر بِین

آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اپنے مرشِد کی صرف ظاہری بَشَرِیّت دیکھی۔ تو اس کی تمام کوشش ضائع ہوگئیں اور اس وقت مرشِد اس کے لئے جتنا بھی روشن ر استہ کھولے۔ وہ راستہ اس مرید کے رُو گردانی اور جھٹلانے ہی کو بڑھائے گا کیونکہ بَشَر ہونے کی وجہ سے آدمی کی حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کی اطاعت نہ کریں ۔ پس یہ خاصیت اسے مرشِد کی نصیحت اور ارشاد سننے سے مانع رہے گی۔اگرچہ وہ ارشاد قرآن کا ارشاد ہی کیوں نہ ہو۔ جب تک کہ اللہ تَعَالٰی کی عنایت اسے نہ گھیرے ۔

(۱۶)سچائی کی خُوشبو

جب مرشِد کسی مرید کے معاملے میں ( اس کی بھلائی کی خاطر جس سے مرید بے خبر ہو) ا س کی مخالِفت کرے اور اس کی خواہش کے برعکس کام کرے۔ تو مرید کو صبْر کرنا چاہئے اور یہ اس بات کی ایک بڑی دلیل ہے کہ مرشِد نے اس مرید سے سچائی کی بو سونگھی ہے ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اس سے مخالِفت والا معاملہ نہ کرتا بلکہ بیگانوں والا معاملہ کرتا یعنی نرمی او رمُوافَقَتْ وغیرہ۔

(۱۷) مرشد سے دُور

حضرت سَیِّد علی بن وفار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس مرید نے یہ گمان کیا کہ اس کا شَیخ ا س کے اَسرار(یعنی رازوں ) سے واقف نہیں ہے تو وہ مرید اپنے شَیخ سے بہت دور ہے۔ اگرچہ دن رات مرشِد کیساتھ ہی بیٹھا ہو۔

(۱۸) مرشد کے د شمن

آپ علیہ الرحمۃ مزید ارشاد فرماتے ہیں کہ اے مرید! تو حاسد اور اپنے شَیخ کے دشمن کی بات کی طرف کان لگانے سے بچ۔ورنہ وہ تجھے اللہ کی راہ (یعنی مَدَنی ماحول)سے دور کردیں گے۔

(۱۹)خوش فَہمی

آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ اے مرید! تو اپنے مرشِد کے میٹھے کلام(یعنی حوصلہ افزائی) سے دھوکہ مت کھا۔ یہ نہ سمجھ کہ تواب اس کے نزدیک ایک اعلیٰ مقام کو پہنچ گیا ہے۔(یہ ہی سمجھنے میں عافِیت ہے کہ یہ مرشِد کی شفقت ہے ورنہ حقیقتاً میں اس قابل نہیں )

(۲۰)خلافِِ عا دت کام

مرید پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ پر مرشِد کے اَدَب کو اشد ضَروری جانے اور مرشِد سے کرامت کی طلب کبھی نہ کرے ، اور نہ خلاف عادت کسی کام کا وُقوع چاہے، اور نہ ہی

کشْف اور ان جیسی چیزوں کا مطالَبہ کرے۔

(۲۱)ناقِص مرید

جس مریدنے اپنے مرشِد سے اس نیت سے کرامت چاہی کہ پھر وہ اپنے مرشِد کی اچھی اتباع کرے گا۔ تو ایسے مرید کا اب تک اعتقاد صحیح نہیں اور نہ ہی اسے یقین حاصل ہوا ہے کہ اس کا مرشِد اَہلُ اللہ کے طریقے سے بخوبی واقف ہے ۔یعنی ایسا مرید اب تک ناقص مرید ہے۔

(۲۲) کرامت کی طلب

حضرت مرشِد ابو العباس مرسی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں اے مرید! تواپنے مرشِد سے کرامت طلب کرنے سے بچ، تاکہ تو اس کرامت کی وجہ سے اس کے اَمْرٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَہْیٌ عَنِ الْمُنْـکَرِ کی اتباع کرے ۔کیونکہ یہ بے اَدَبی ہے اور دینِ اسلام میں تیرے شک کی علامت ہے۔ کیونکہ جس ذات نے تجھے اس راہ کی طرف دعوت دی ہے وہ تیرا(میٹھا میٹھا) مرشِد (ہی تو)ہے۔

(۲۳)مرشد کی ناراضی

اے مرید! تو اپنے مرشِد کی خَفگی اور عِتابوں کے وقت اپنے اوپر صبر کو لازم کرلے ۔ اگر وہ تجھے(تیری اصلاح کی خاطر) دھتکار ے تَو تُو جُدامت ہوجابلکہ تُو اس کی طرف دُزْدِیدہ نظر (یعنی چھپی نگاہ سے )دیکھتا رہ۔ او ریہ بھی جان لے کہ بُزُرگانِ دین رحمہم اللہ کسی ایک مسلمان کو ایک سانس برابر بھی ناپسند نہیں سمجھتے ۔اور وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ سب مریدین کی تعلیم ہی کی غَرَض سے کرتے ہیں (جس سے مریدین بے خبر ہوتے ہیں )۔بعض مرتبہ مرشِدِ کامل ا س طرح اپنے مریدین و مُعْتَقِدین کا امتحان بھی لیتے ہیں اور جو ثابِت قَدَمی کا مظاہَرہ کرتے ہیں وہ ہی فیضِ باطِنی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔

(۲۴) مَقامِ مرشد

آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ مرید کا اپنے مرشِد کے مَقام کو جاننا اللہ تَعَالٰی کی معرِفت سے زیادہ مشکل ہے۔ کیونکہ اللہ تَعَالٰی کا کمال، بُزُرگی اور قدرت مخلوق کو معلوم ہے اور مخلوق ایسی نہیں (کہ ہر ایک مریدکوپیر کا کمال و بُزُرگی بھی معلوم ہو)پس انسان اپنی طرح کی ایک مخلوق کے بلند مَقام کو کس طرح جان سکتا ہے۔ جو اس کی طرح کھاتا بھی ہو اور اس کی طرح پیتا بھی ہو۔

(۲۵) قلْبِ مرشد

آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ اے مرید! تم اپنے مرشِد کے اَدَب کو اپنے اوپر ہر دم لازم بناؤ، اگرچہ وہ تم سے کبھی خوش رُوئی و خَندہ پیشانی سے گفتگو فرمائیں ۔کیونکہ اَولیاء اللہ رحمہم اللہ کے قُلوب، مثلِ قُلوب بادشاہوں کے ہیں ۔ فوراً ہی حلْم و بُردباری سے ناراضگی(یعنی سزا دینے) کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں ۔یاد رکھو! جب ولی اللہ کا بازو تنگ ہوگیا، تو اس کا اِیذا دینے والا اسی وقت ہلاک ہوجائے گا، اور جب کشادہ رہا تو اس وقت ثَقَلین( یعنی تمام جنوں اور تمام انسانوں ) کی اِیذا رسانی کو بھی برداشت فرمائیں گے۔

(۲۶)حکْمتِِ مرشد

آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ مرشِد کو جائز ہے کہ وہ اپنے مرید کو ایک وظیفے کے ترْک کرنے اور دوسرے وظیفہ کے اختیار کرنے کا حکْم فرمائے، پھر جب مرشِد اسے کسی وظیفہ کے ترْک کرنے کا حکْم فرمائے تو مرید کو چاہئے کہ فوراً ہی امتثال امر(یعنی حکمِ مرشِد کی بجا آوری کرے) اور مرید کو اپنے دل میں بھی اعتراض لانا جائز نہیں ۔ مثلاً دل میں یوں کہے کہ وہ وظیفہ تو اچھا تھا، مرشِد نے مجھے اس سے کیوں روکا؟

کیوں کہ بَسا اوقات مرشِد اس وظیفہ میں مرید کا ضَرَر دیکھتا ہے ۔(جس سے مرید بے خبر ہوتا ہے) مثلا! اس وظیفہ سے مرید کے ا خلاص کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے ۔نیز بہت سے اعمال ایسے ہوتے ہیں جو عِنْدَالشّرع افضَل ہوتے ہیں ۔ لیکن جب ان میں نفْس کا کوئی عمل دخل ہو تو وہ عمل مَفضول (یعنی کم درَجہ والے) ہوجاتے ہیں اور مرید کو ان چیزوں کا پتا نہیں چلتا۔ (اسی طرح مرشِد سے اَوراد و وظائف کی اجازت طلب کرنے کے بجائے ان کے عطا کردہ شَجَرَہ میں موجود اَوراد وظائف پرھنے کا ہی معمول بنائے کہ اس میں عافِیت ہے)پس مرید کو چاہئے کہ وہ ہروقت! امتثال امر ( یعنی حکْم کی بجا آوری) کرتا رہے اور اپنے آپ کو خَطَرات و وَساوس کے آنے اور شُبہات کے پیدا ہونے سے بچائے۔

(۲۷)ضَروری احتیاط

آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ جب کبھی مرشِد تمہارے سامنے بظاہر خوش خوش اور تبسم فرماتے ہوئے نظرآ ئیں ، تب بھی تم ان سے ڈرو اوران کے پاس اَدَب ہی سے بیٹھو، کیونکہ مرشِد کبھی کبھی بارش اور رَحمت کی صورت میں تلوار کی مانند ہوتا ہے ۔ (یعنی گرفت بھی فرماسکتے ہیں )

(۲۸)ملفوظاتِِ مرشِد

آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ اے مرید! تیرا مرشِد جو کلام( بیانات، مَدَنی مذاکرات، تحریرات، ملفوظات، یا مکتوبات کے ذریعے) تیرے دل میں بَودے تَو اس کو بے ثَمَر(یعنی بے فائدہ) ہر گزمت سمجھ ۔کیونکہ بعض اوقات اس کلام کا ثمر(یعنی فائدہ) مرشِد کے انتقال کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کی کھیتی ان شا ء اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ برباد نہیں ہوگی۔ پس اے بیٹے! ہر اس بات کو جو توُ اپنے مرشِد سے سنے اسکی خوب حفاظت کر اگرچہ اس بات کو سننے کے وقت تو اس کے فائدے کو نہ سمجھے۔

(۲۹)زیارتِِ مرشد

مرید پر لازم ہے کہ وہ اپنے مرشِد کے چہرے کوٹکٹکی باندھ کر نہ دیکھے۔ بلکہ جہاں تک ہوسکے اپنی نظر نیچے رکھے اور اس بات کے لطفْ کو کتابوں میں نہیں لکھاجاسکتا ہے ۔سالک لوگ ہی اسے چکھتے ہیں ۔۔۔۔
۹۲)

(۳۰)چہرۂ مبارَک

میرے سردار علی مرصفی رحمۃ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ہاں ! اگر مرید اپنے مرشِد کے اَدَب کے مَقام میں ثابت قدم ہوجائے اور مرشِد کے چہرے مبارَک کی طرف اکثر نگاہ رکھنے سے اس کی اِہانَت لازم نہ آئے توپھر کوئی نقصان نہیں ہے۔ (کئی بااَدَب مریدین تومرشِد کامل کی موجود گی میں تو کسی اور طرف دیکھنے سے بھی بچتے ہیں )

(۳۱)اجازتِ مرشِد

میں (یعنی عبدالوہاب شَعرانی علیہ الرحمۃ ) نے اپنے سردار علی مرصفی علیہ الرحمۃ سے سنا، آپ فرماتے ہیں کہ مرید کو لائق نہیں کہ وہ اپنے مرشِد کی اجازت کے بِغیر کسی وظیفے یا کسی ہنر میں مشغول ہو جائے۔

(۳۲)خاص خیال

مرید پر لازم ہے کہ وہ اپنے مرشِد کی طرف پاؤں کبھی نہ پھیلائے۔شَیخ زندہ ہو یا وفات پاگئے ہوں ۔ رات ہو یا دن، ہر وقت خواہ مرشِد حاضر ہوں یا غائب دونوں میں مرشِد کے اَدَب کی رعایت اور نگہبانی کرے۔

(۳۳)مرید پرحقّ

مرید پر لازم ہے کہ وہ اپنے مرشِد کے کپڑے اور جوتی مبارَک کو نہ پہنے اور مرشِد کے بستر پر نہ بیٹھے او رمرشِد کی تسبیح پر وظیفہ نہ پڑھے۔نہ مرشِد کی موجودگی میں اور نہ مرشِد کی غیرموجودگی میں ۔ہاں ! جب مرشِد ان چیزوں کے استعمال کی خود اجازت دے تو پھر دُرُست ہے۔(بہت سے عُشاق کو دیکھا گیا ہے کہ وہ نہ صرف مرشِد کے شہر میں اَدَباًننگے پاؤں رہتے ہیں بلکہ مرشِد کے سائے بلکہ چلتے وقت جہاں مرشِد قدم مبارَک رکھتے وہاں پر اپنے پیر رکھنے سے بچاتے ہیں ، مرشِدکی طہارت و وُضُو کی جگہ کوبھی اَدَباً استعمال نہیں کرتے اور کوشش کرتے ہیں کہ مرشِدکی موجودگی میں وُضُو قائم رہے۔جس طرف مرشِد کا گھر یا مزار ہواسطرف قصداً پیٹھ یا پاؤں بھی نہیں کرتے )۔

(۳۴)تحفۂ مرشِد

مشائخِ کِبار رحمہم اللہ نے فرمایا کہ جب مرشِد اپنے مرید کو کوئی کپڑا، عمامہ ، ٹوپی یا مِسواک مبارَک عطا فرمائے تو یہ ُدرُست نہیں کہ وہ اس کو کسی دُنیوی چیز کے بدلے میں بیچ ڈالے ۔کیونکہ بسا اوقات مرشِد اس چیز میں مرید کے لئے کامل لوگوں کے اخلاص(یعنی خُصوصی فُیوض وبَرَکات) ڈال کر اس کے سِپُرد کرتے ہیں ۔ جیسا کہ حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے حضرت ابو ہُریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو چادر لپیٹ کر دے دی او روہ زیادہ بھولنے والے تھے ۔پس انہوں نے فرمایا کہ پھر میں نے اس کے بعد جو سنا یا دیکھا اسے نہیں بھولا۔

( ۳۵)اِمداد کا دروازہ

مرید پر لازم ہے کہ وہ اپنے دل کو اپنے مرشِد کے ساتھ ہمیشہ مضبوط باندھے ہوئے رکھے اور ہمیشہ تابعداری کرتا رہے اور ہمیشہ اعتقاد رکھے کہ اللہ تَعَالٰی نے اپنی تمام امداد کا دروازہ صرف اس کے مرشِد ہی کو بنا یا ہے اور یہ کہ اس کا مرشِد ایسا مظہر ہے کہ اللہ تَعَالٰی نے اس کے مرید پر فُیوضات کے پلٹنے کیلئے صرف اسی کو مُعَیّن کیا ہے اور خاص فرمایا ہے اور مرید کو کوئی مدد اور فیض مرشِد کے واسطہ کے بِغیر نہیں پہنچتا۔ اگر چہ تمام دنیا مشائخ عظام سے بھری ہوئی ہو۔ یہ قاعدہ اس لئے ہے کہ مرید اپنے مرشِد کے عِلاوہ او رسب سے اپنی توجُّہ ہٹادے ۔کیونکہ اس کی امانت صرف اس کے مرشِد کے پاس ہوتی ہے ، کسی غیر کے پا س نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔

ترتیب غلام نبی قادری نوری