قریب المرگ تجربات
__NEAR DEATH EXPERIENCE ___
جیسے جیسے میڈیکل ٹیکنالوجی بہتر ہوتی جا رہی ہے ویسے ویسے ان مریضوں کے تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے جو موت کے قریب تھے لیکن ڈاکٹروں نے انہیں موت کے منہ سے بچا لیا
بہت سے مریض تو ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں clinically dead قرار دے دیا جا چکا ہوتا ہے
یعنی ان میں تنفس، دل کی دھڑکن، بلڈ پریشر وغیرہ موجود نہیں ہوتا اور انہیں مردہ قرار دیا جاتا ہے
لیکن بروقت طبی امداد سے ان کا دل دوبارہ چالو کر دیا جاتا ہے اور وہ ‘زندہ’ ہو جاتے ہیں
ان میں سے کچھ مریض ایسے ہوتے ہیں جنہیں اس ‘موت کی حالت’ میں کچھ ایسے تجربات ہوتے ہیں جو ان کی شخصیت پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں
ان تجربات میں اپنے آپ کو ہوا میں معلق محسوس کرنا اور اپنے ہی مردہ جسم کو اوپر سے دیکھنا (جسے out of body experience کہا جاتا ہے)
بے انتہا سکون کا احساس، بہت زیادہ روشن سرنگ میں سے گذرنا، بچپن کے بچھڑے لوگوں سے ملاقات، مذہبی ہستیوں کا دیدار یا ان سے ملاقات وغیرہ شامل ہیں
ان تجربات کو مجموعی طور پر قریب المرگ تجربات (NDE – Near Death Experiences) کہا جاتا ہے
اب سے کچھ سال پہلے تک سائنس کے لیے ان تجربات کی فطری توجیہہ فراہم کرنا ممکن نہیں تھا
تاہم پچھلی دو دہائیوں میں نیورو سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اب NDE کی وضاحت کرنا ممکن ہو گیا ہے
آئیے دیکھتے ہیں کہ نیورو سائنس ان مختلف مظاہر کی کیسے وضاحت کرتی ہے
فضا میں تیرنے کا احساس:
قریب المرگ تجربات میں سب سے عام تجربہ فضا میں تیرنے کا احساس ہے جسے انگریزی میں Out Of Body Experience کہا جاتا ہے
ہمارے دماغ کا ایک حصہ ہے جسے Eemporoparietal Junction کہا جاتا ہے
یہ حصہ آپ کے جسم کے مختلف حصوں سے موصول ہونے والی حسیات کو اکٹھا کرتا ہے اور یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ آپ اس جسم کے اندر ہیں
اگر اس حصے کو خون کی سپلائی کم ہو جائے یا کسی وجہ سے یہ حصہ کام کرنا چھوڑ دے
تو آپ کو اچانک یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ آپ اپنے جسم کے اوپر تیر رہے ہیں اور اوپر سے اپنے جسم کو دیکھ رہے ہیں
لیبارٹری میں ایسا احساس آسانی سے پیدا کیا جا سکتا ہے
ایسا کرنے کے لیے سبجیکٹ (یعنی اس شخص کو جس پر یہ تجربہ کیا جا رہا ہے) کے دماغ کے Temproparietal Junction کو بجلی یا مقناطیسی لہروں کے ذریعے عبوری طور پر ناکارہ کر دیا جاتا ہے اور وہ شخص اپنے آپ کو ہوا میں تیرتا اور اپنے جسم کو اوپر سے دیکھتا محسوس کرتا ہے
اس کے علاوہ امریکی ایئرفورس کی چند لیبارٹریز ایسی ہیں جن میں جنگی طیاروں کے پائلٹس کو انتہائی تیز رفتاری سے جہاز موڑنے کی مشق کروانے کے لیے انہیں ایک ایسے چیمبر میں رکھا جاتا ہے
جس میں انہیں انتہائی تیزی سے گھمایا جاتا ہے تاکہ جہاز میں تیزی سے مڑتے وقت جسم کو جس قسم کی قوتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے
پائلٹ ان قوتوں کو برداشت کر پائیں
اسے ہائی جی (High_G) ٹریننگ کہا جاتا ہے
اس ٹریننگ کے دوران اکثر پائلٹ بے ہوش ہو جاتے ہیں کیونکہ اتنی تیزی سے گھومنے سے مرکز گریز قوت کی وجہ سے دل ان کے دماغ تک مناسب مقدار میں خون نہیں پہنچا سکتا
ان میں سے کچھ پائلٹ اس بے ہوشی کے عالم میں Out Of Body Experience کی رپورٹ بھی کرتے ہیں
تیز روشنی اور روشنی کی سرنگ کا احساس:
قریب المرگ تجربے سے گذرنے والے تقریباً تمام افراد عجیب قسم کی تیز روشنی اور روشنی کی سرنگ کا بھی تجربہ کرتے ہیں
ان کے بقول ایسی روشنی انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوتی – اس کے ساتھ ہی انہیں بے انتہا سکون کا احساس ہوتا ہے
نیورو سائنس کی سٹڈیز سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر خون میں آکسیجن کی کمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی ہو جائے تو بینائی پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے
چنانچہ ماہرین کا خیال ہے کہ قریب المرگ تجربات میں بھی چونکہ دماغ کو خون کی سپلائی منقطع ہو چکی ہوتی ہے
(قریب المرگ کی ڈیفینیشن ہی یہ ہے کہ اس میں دل کی دھڑکن بند ہو چکی ہوتی ہے)
اس لیے دماغ میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی سے دماغ کا وہ حصہ جو بینائی کی پراسیسنگ کرتا ہے جزوی طور پر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے
اور بے ہنگم فائرنگ کرنے لگتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے Visual Field کے مرکز میں تو بے انتہا روشنی کا احساس ہوتا ہے
اور اس کے ارد گرد اندھیرے کا احساس ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ایسی سرنگ کا احساس ہوتا ہے جس کے دوسرے کنارے پر بے انتہا تیز روشنی موجود ہے
بچپن کے ساتھیوں سے ملاقات:
قریب المرگ تجربات کی اکثریت بچپن کے ساتھیوں اور بچھڑے ہوئے رشتہ داروں سے ملاقات پر مشتمل ہوتی ہے
اس کے علاوہ اس تجربے سے گذرنے والے لوگوں کے مطابق ان کی ساری زندگی ان کے آنکھوں سے سامنے دوبارہ گذرتی ہے
یہ مظہر بھی خون میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی سے پیدا ہو سکتا ہے
خون میں آکسیجن کی کمی سے دماغ واہمے یا Hallucinations پیدا کرنے لگتا ہے
ان Hallucinations میں انسان اپنے بچپن کے ساتھیوں سے ملتا ہے اور بات چیت کرتا ہے
ہمیں یہ بھی علم ہے کہ شدید سٹریس کی صورت میں دماغ وقت کے احساس کی پراسیسنگ بھی سست رفتار کر دیتا ہے
یعنی دماغ بہت کم وقت میں بہت زیادہ تجربات سے گذر سکتا ہے
غالباً یہی وجہ ہے کہ دل کے دورے کے مریض جب قریب المرگ تجربے سے گذرتے ہیں تو دماغ میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے وہ اس قسم کی Hallucinations میں مبتلا ہو جاتے ہیں جو محض چند لمحوں میں گذر جاتی ہیں لیکن انسان بعد میں یہ محسوس کرتا ہے کہ ان تجربات میں بہت زیادہ وقت گذرا
انتہائی سکون اور مسرت کا احساس:
موت سے قبل انسان شدید سٹریس میں مبتلا ہوتا ہے
دماغ شدید سٹریس کی حالت میں اینڈور فینز اور دیگر نیورو ٹرانسمٹرز خارج کرتا ہے جو دماغ کے انعامی نظام کو متحرک کر دیتے ہیں
یہ سسٹم ذہن کو سکون اور مسرت بخشتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ درد کے احساس کو بھی ختم کر دیتا ہے
یہ ذہن میں رکھیے گا کہ اگرچہ درد ہمیں جسم کے مختلف حصوں میں محسوس ہوتی ہے لیکن درد کا احساس دراصل دماغ ہی پیدا کرتا ہے
اینڈور فینز دماغ میں درد کے احساس کی پیداوار کو روک دیتے ہیں جس سے انسان پرسکون محسوس کرتا ہے
مکمل ادراک اور بیداری کا احساس:
قریب المرگ تجربات میں بعض اوقات مکمل ادراک کا احساس ہوتا ہے گویا انسان کائنات کے تمام راز جانتا ہے اور اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے
اسے بعض اوقات Hyperconsciousness کہا جاتا ہے
اس کی وجہ غالباً یہ ہوتی ہے کہ ‘موت’ سے فوراً پہلے دماغ کے نیورونز بہت زیادہ تیزی سے فائرنگ کرنے لگتے ہیں
چوہوں پر ریسرچ سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ موت سے پہلے ان کے دماغ کے نیورونز بھی انتہائی تیزی سے فائرنگ کرنے لگتے ہیں
دل کی دھڑکن بند ہونے کے تیس سیکنڈ کے اندر اندر دماغ میں نیورونز کی فائرنگ بہت زیادہ ہونے لگتی ہے جس وجہ سے مکمل ادراک کا احساس ہوتا ہے
دماغ کا غلط یادوں کو محفوظ کر لینا:
بہت سے ایسے مواقع آتے ہیں جن میں دماغ غلط یادیں سٹور کر لیتا ہے
مثال کے طور پر بعض اوقات نیم خوابی کی حالت میں دماغ یہ فرق نہیں کر پاتا کہ ہم جو کچھ محسوس کر رہے ہیں وہ در حقیقت ہو رہا ہے یا ہم محض خواب دیکھ رہے ہیں
اسی طرح بعض قریب الموت مریضوں کے ذہن میں جو کچھ گذرتا ہے عین ممکن ہے کہ وہ محض ایک خواب کی طرح کا تجربہ ہو یعنی یہ سب کچھ ان کے دماغ میں پیدا ہونے والے خیالات ہوں جنہیں مریض موت کے بعد کا تجربہ سمجھنے لگتا ہو
موت سے فوراً پہلے کے واقعات کو یاد رکھا:
بعض اوقات قریب المرگ مریض ان واقعات کو من و عن بیان کر دیتے ہیں
جو ڈاکٹروں کے مطابق اس وقت پیش آئے جب مریض کی کلینیکل موت واقع ہو چکی تھی
اسی طرح بعض اوقات سرجری کے دوران مریض اینیستھیزیا کے زیرِ اثر بے ہوش ہوتا ہے لیکن ہوش میں آنے کے بعد سرجری سے متعلق تمام تفصیلات جزئیات کے ساتھ بیان کر پاتا ہے
پہلی صورت میں مریض کا دماغ اور حسیات دل کے بند ہونے کے بعد بھی کام کر رہے ہوتے ہیں
واضح رہے کہ حسیات اور دماغ دل کی دھڑکن بند ہوتے ہی کام کرنا نہیں چھوڑ دیتے بلکہ اس کے کچھ دیر بعد کام کرنا بند کرتے ہیں
جب دماغ میں آکسیجن کی اور Nutrients کی کمی اس حد تک ہو جاتی ہے کہ نیورونز فائر نہیں کر پاتے
چنانچہ عین ممکن ہے کہ کچھ نیورونز دل کی دھڑکن بند ہونے کے بعد بہت دیر تک کام کرتے رہیں
ایسی صورت میں دل کی دھڑکن بند ہونے کے بعد کے واقعات کا یاد رہ جانا عین ممکن ہے
وقت کی رفتار کے احساس میں تبدیلی:
جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا گیا ہے
شدید سٹریس کی حالت میں دماغ وقت کا احساس بھی کھو دیتا ہے اور یوں چند سیکنڈ میں دماغ بہت سے ایسے تجربات سے گذر سکتا ہے جو بعد میں گھنٹوں یا دنوں پر محیط محسوس ہوں
چنانچہ کچھ مریض جو کئی دنوں تک کومہ کی حالت میں رہتے ہیں اور جاگنے کے بعد ان دنوں میں ہونے والے ‘بعد از مرگ’ تجربات کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں
وہ تمام تجربات محض ان خیالات کی وجہ سے ہو سکتے ہیں جو دماغ میں کومہ کی حالت میں داخل ہوتے وقت یا کومہ سے واپس آتے وقت چند سیکنڈوں یا چند منٹوں میں وقوع پذیر ہوتے ہیں
دنیا کے بہترین نیوروسائنٹسٹ آنجہانی Oliver Sacks کا بھی یہی کہنا ہے
کہ جو لوگ ہفتوں کومہ میں رہتے ہیں اور جاگ اٹھنے کے بعد کئی دنوں کے تجربے کی داستان سناتے ہیں
ان کا یہ قریب الموت تجربہ اصل میں دماغ کی کومہ سے واپسی کے سفر کے دوران بیس یا تیس سیکنڈ میں ہی مکمل ہو جاتا ہے
فریبِ خیال یا ہذیان (Hallucinations):
قریب المرگ تجربے سے گذرنے والے بہت شدت کے ساتھ اصرار کرتے ہیں
کہ وہ جو واقعات بیان کر رہے ہیں وہ ان کے ساتھ حقیقت میں پیش آئے اور محض Hallucination نہیں ہیں
لیکن حقیقت یہ ہے کہ شدید سٹریس کی حالت میں حقیقت اور Hallucination میں تفریق ناممکن ہو جاتی ہے ، Oliver Sacks کا کہنا ہے
کہ Hallucination اور حقیقت میں تفریق اس لیے مشکل ہو جاتی ہے کہ Hallucination بھی دماغ کے انہی حصوں کے متحرک ہونے سے پیدا ہوتی ہیں
جو عام حالات میں حقیق حسیات کو پراسیس کر کے ہمیں حقیقت کا تجربہ دیتے ہیں
مثال کے طور پر دماغ کے جو حصے آوازوں کی پراسیسنگ کرتے ہیں انہی کی ابنارمل کارکردگی سے آوازوں کی Hallucination بھی پیدا ہوتی ہے
اسی طرح برین اسکین سے یہ صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ جب کسی شخص کے ذہن میں کسی چہرے کی Hallucination پیدا ہوتی ہے
تو دماغ کے ایک مخصوص حصے یعنی Fusiform Face Area کے نیورونز بہت زیادہ فائرنگ کرتے پائے جاتے ہیں
یہ دماغ کا وہی حصہ ہے جو بصری سگنلز کو پراسیس کر کے چہرے پہچانتا ہے
قریب المرگ تجربات اور مرگی:
مرگی کے مرض میں دماغ کے کسی حصے کے نیورونز بے ہنگم طریقے سے فائرنگ کرنے لگتے ہیں
جس کے نتیجے میں مریض کو بعض اوقات مافوق الفطرت تجربات ہوتے ہیں
خاص طور پر اگر مریض میں اس قسم کا دورہ دماغ کے Temporal Lobe کے نیورونز کی بے ہنگم فائرنگ کی وجہ سے ہو تو اس دورے کے دوران مریض کو بے انتہا سکون، مسرت اور دوسری دنیا میں ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے
مشہور روسی مصنف دوستوسکی بھی Temporal Lobe Epilepsy کا مریض تھا
مرگی کے دوروں کے دوران اسے کائنات سے مکمل یکجہتی کا احساس ہوتا تھا اور وہ کہتا تھا
کہ کوئی میری ساری عمر لے لے اور مجھے چند سیکنڈ کے لیے وہی مسرت دے دے جو مجھے ان دوروں کے دوران محسوس ہوتی ہے
تو یہ سودا برا نہیں ہو گا
قریب المرگ مریضوں کے تجربات بھی دوستوسکی کے تجربات سے ملتے جلتے ہیں
اس لیے کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ دماغ کو خون کی فراہمی منقطع ہونے کی صورت میں اگر Temporal Lobe کے نیورونز میں بے ہنگم فائرنگ شروع ہو جائے
تو قریب المرگ مریض بہت Vivid مذہبی تجربات سے گذرتا ہے
چلتی پھرتی لاش:
بعض اوقات قریب المرگ تجربے کے لیے کلینیکل موت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی
شدید چوٹ یا بیماری کی وجہ سے بعض اوقات دماغ کے کچھ حصے وقتی طور پر کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں
دماغ کے دو حصوں Parietal Cortex اور Prefrontal Cortex میں خرابی سے بعض اوقات مریضوں کو یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ مر چکے ہیں
ایسے مریض چلتے پھرتے ہوں اور لوگوں سے بات چیت کرتے ہوں تو بھی یہی سمجھتے ہیں کہ وہ مر چکے ہیں
اس مرض کو Cotrad Syndrome کہا جاتا ہے
اگرچہ اس قسم کے مریض برسوں زندہ رہتے اور کھاتے پیتے ہیں
لیکن انہیں یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ مر چکے ہیں
تاہم یہی حالت اگر کچھ منٹ کے لیے رہے اور پھر دماغ کے یہ حصے دوبارہ کام کرنا شروع کر دیں تو مریض کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ کچھ دیر کے لیے مر گئے تھے اور اب دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں
پارکنسنز اور قریب المرگ تجربات:
پارکنسنز یعنی رعشہ کی بیماری ایک اعصابی بیماری ہے جس میں اعصاب مسلز کو درست طور پر کنٹرول نہیں کر پاتے
ان مریضوں کو بعض اوقات Delusions بھی ہونے لگتے ہیں جن میں انہیں بھوت پریت یا بلائیں نظر آنے لگتی ہیں
اس کی وجہ ان کے دماغ میں ڈوپامین کی غیر معمولی کارکردگی ہوتی ہے
پارکنسنز کے مریضوں میں قریب المرگ تجربات معمول سے زیادہ ہوتے ہیں جس کی وجہ یہی بتلائی جاتی ہے
کہ ڈوپامین کے غیر متناسب ہو جانے کی وجہ سے شدید سٹریس کی حالت میں ان کا دماغ Delusions کا شکار ہو جاتا ہے
جسے یہ مریض حقیقی قریب المرگ تجربات سمجھ بیٹھتے ہیں
یہ کہنا تو ناممکن ہے کہ کسی مخصوص مریض کا قریب الموت کا تجربہ ان میں سے کن وجوہات کی بنا پر پیش آیا
لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ نیوروسائنس کی جدید ترین ریسرچ یہی بتلاتی ہے کہ یہ تمام تجربات دماغ کی ابنارمل کارکردگی کی وجہ سے پیش آتے ہیں
ترتیب غلام نبی قادری نوری
اوریجنل آرٹیکل کا لنک
https://listverse.com/…/10-scientific-explanations-for-nea…/
https://www.livescience.com/16019-death-experiences-explain…
https://www.theatlantic.com/…/seeing-god-in-the-thir…/266134
Slm hazrat maur barhaq hai lekin phir bhi maut se darr lagta hai aisa kyun ha
اپکے سوال کی سمجھ نہیں ائی