ٹیلی پیتھی کی حقیقت اور طلسمات

                    کچھ احباب گزشتہ کئی ماہ سے وقتاً فوقتاً مجھے ٹیلی پیتھی کی بابت کچھ معلومات فراہم کرنے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں۔ مذکورہ علم کی بابت انکی بے بینی کا سبب سسپنس ڈائجسٹ کا مقبول ترین سلسلہ "دیوتا" ہو سکتا ہے۔ میں نے بھی لڑکپن میں مذکورہ ناول کی کچھ اقساط کا مطالعہ کیا تھا میرا مقصد یہاں فرہاد علی تیمور کی سرگزشت سنانا نہیں ہے، میں صرف یہ بات اپنے قارئین کے گوش گزار کرنے کا متمنی ہوں کہ اصل زندگی اور قصے کہانیوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ٹیلی پیتھی یا ترسیل خیالات کا علم ایک مسلمہ حقیقت ہے جو سائنسی تجربات اور مشاہدات کی رُو سے ثابت ہے، تاہم سائنسدان ہوں یا نفسیات دان کوئی بھی اس ضمن میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ میں اس علم کی بنیادی باتوں کو دہرانا چاہوں تو ایک چھوٹا کتابچہ بآسانی تصنیف کر سکتا ہوں جو بحرحال اس علم کی ذیل میں لکھی گئی اب تک کی تمام کتب سے بہتر نہیں تو منفرد ضرورہو گا۔

ٹیلی پیتھی کی حقیقت اور طلسمات

                    کچھ احباب گزشتہ کئی ماہ سے وقتاً فوقتاً مجھے ٹیلی پیتھی کی بابت کچھ معلومات فراہم کرنے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں۔ مذکورہ علم کی بابت انکی بے بینی کا سبب سسپنس ڈائجسٹ کا مقبول ترین سلسلہ “دیوتا” ہو سکتا ہے۔ میں نے بھی لڑکپن میں مذکورہ ناول کی کچھ اقساط کا مطالعہ کیا تھا میرا مقصد یہاں فرہاد علی تیمور کی سرگزشت سنانا نہیں ہے، میں صرف یہ بات اپنے قارئین کے گوش گزار کرنے کا متمنی ہوں کہ اصل زندگی اور قصے کہانیوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ٹیلی پیتھی یا ترسیل خیالات کا علم ایک مسلمہ حقیقت ہے جو سائنسی تجربات اور مشاہدات کی رُو سے ثابت ہے، تاہم سائنسدان ہوں یا نفسیات دان کوئی بھی اس ضمن میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ میں اس علم کی بنیادی باتوں کو دہرانا چاہوں تو ایک چھوٹا کتابچہ بآسانی تصنیف کر سکتا ہوں جو بحرحال اس علم کی ذیل میں لکھی گئی اب تک کی تمام کتب سے بہتر نہیں تو منفرد ضرورہو گا۔

                    ضترسیل خیالات کے اس عمل کو ممکن بنانے کے لئے کم از کم دو افراد کی ضرورت ہے جو ایک دوسرے کو پیغامات کی ترسیل اور وصولیابی کے لئے تیار کر سکیں۔ ایسا ممکن نہیں کہ کوئی تنہا مشق کر کے کسی بھی شخص کے خیالات کو اسکی مرضی کے بغیر پڑھ سکے۔ ٹیلی پیتھی کی صلاحیت کا ایک اور پہلو “مائنڈ کنٹرول” ہے۔ اس مقصد کے لئے عامل پہلے اپنے ذہن کو خاص ریاضت اور چند اوراد کی مدد سے اس قابل بناتا ہے کہ انتہائی طاقتور سگنل کو اپنے دماغ میں کسی خاص مقصد کے حصول یا کسی کے ذہن پر اثرانداز ہونے کے واسطے پیدا کر سکے، ایسا کر لینے کہ بعد اس سگنل کو تھاٹ فارم کی صورت میں اپنے مطلوب کے دماغ کیطرف پوری قوت اور توجہ سے پھینکا جاتا ہے۔ جس سے مطلوبہ نتائج ضرور حاصل ہوتے ہیں بشرطیکہ عمل کو تواتر سے جاری رکھا جائے۔ یہ کیونکہ ایک ایسا سربستہ راز ہے کہ جسکے افشاں ہونے سےمعاشرے میں پہلے سے موجود شر کی قوتوں کو تقویت ملے گی لہذا میں مناسب نہیں سمجھتا کہ مزید اس موضوع پر کچھ بھی قلم بند کروں۔ میری اس تحریر میں وہ راز پنہاں ہے جسے سمجھ کر کوئی بھی صاحب علم اس ضمن میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔

طلسمات

                    کل کائنات اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کے تحت چل رہی ہے۔ وہ قوانین جو اس کائنات کے ظاہری نظام کو چلا رہے ہیں اور جو سائنس کی مدد سے دریافت کئے جا سکتے ہیں، قوانین فطرت کہلاتے ہیں۔ لیکن مخفی و روحانی دنیا کو چلانے کے لئے بھی کچھ قوانین موجودہیں جو سائنس کی نظروں سے پوشیدہ ہیں اور نا ہی سائنس کی مدد سے انکا ادراک ممکن ہے۔ اور یہی وہ قوانین ہیں جو مادے کی مختلف حالتوں کے ذمہ دار ہیں۔ ان قوانین کا علم کل مخلوق کے اذہان پر مطلوبہ اثرات مرتب کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ ان قوانین کا اطلاق ایتھر کی مختلف حالتوں اور ارتعاش پذیری سے منسلک ہے۔ یعنی ایتھر کی موجوں پر پیدا ہونے والے تغیرات دراصل ان قوانین کے نفاذ کی علت ہیں۔ اور ایتھر کی کس حالت سے کل عالمین اور اس میں سانس لینے والی ہر ظاہری اور باطنی مخلوق کے اذھان پر کس قسم کے اثرات مرتب ہونگے یہ اللہ کیطرف سے پہلے سے طے شدہ ہے بلکل ویسے جیسے آگ کا جلانا طے ہے۔

               ضایتھر میں تغیر پیدا کرنے کے لئے لازم ہے کہ عامل یا ساحر ایتھر کو حلال یا حرام طریقے سے اپنے لطیفہ قلب میں ذخیرہ کر سکے اگر طریق شیطانی ہو گا تو ایتھر بھی کالاوارد ہو گا اور اگر طریق قرانی ہو گا تو ایتھر نوری وارد ہو گا۔ اسکے بعد عامل اپنے ذاتی ایتھر سے جو روز مرہ کے اوراد و اشغال یا شیاطین کی پوجا پاٹ سے حاصل شدہ ہوتا ہے اپنے ارادے اور لاشعور کی کارگزاری سے منا میں تبدیل کر کے وارد شدہ ایتھر جو ممکن ہے کہ صدیوں پرانا عمل ہونے کے سبب پہلے سے مطلوبہ حالت میں موجود ہو کر مزید مقصد کے موافق کرتا ہے اور اسکو واپس کائناتی شعور کیطرف لوٹا دیتا ہے۔ چنانچہ اگر ایتھر اس حالت کو پہنچ جاتا ہے کہ جو کسی خاص قانون قدرت کے مطابق و موافق ہو تو اسکو اللہ کی رضا حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ وہ پہلے سے طے شدہ امر ہوتا ہے لہذاء عالم مثال میں پہنچ کر وہ ایتھر کسی خاص قانون قدرت کو جاری کرتا ہے کہ جسکا اثر عالمین کی تمام تر مخلوق کے اذھان پر پڑتا ہے جس سے مطلوبہ واقعات حدث ہوتے ہیں۔ یا یوں کہہ لیں کے وہ اسباب پیدا ہوتے ہیں جو مطلوبہ نتائج کی فراہمی کو یقینی بناتے ہیں۔

از غلام نبی قادری نوری صاحب