اور (وہ یہودی )ان (خرافات) کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان کے عہد سلطنت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے، اور سلیمان نے ہرگز کفر کی بات نہیں کی بلکہ شیطان ہی کفر کرتے تھے کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور اس علم کے بھی (پیچھے لگ گئے) جو شہر بابل میں دو فرشتوں (یعنی) ہاروت اور ماروت پر اترا تھا۔ اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو آزمائش ( کاذریعہ)ہیں چنانچہ تم نافرمانی میں نہ پڑو۔ غرض لوگ ان سے ایسا (علم ) سیکھتے جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں۔ اور خدا کے حکم کے سوا وہ اس (جادو) سے کسی کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے تھے۔ اور کچھ ایسے (منتر) سیکھتے جو ان کو نقصان ہی پہنچاتے اور فائدہ کچھ نہ دیتے اور وہ جانتے تھے کہ جو شخص ایسی چیزوں (یعنی سحر اور منتر وغیرہ) کا خریدار ہوگا اس کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں اور جس چیز کے عوض انہوں نے اپنی جانوں کو بیج ڈالا وہ بری تھی ، کاش وہ (اس بات کو) جانتے۔اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیزگاری کرتے تو خدا کے ہاں سے بہت اچھا صلہ ملتا اے کاش وہ اس سے واقف ہوتے”
(سورہ البقرہ ۲: آیات ۱۰۳-۱۰۲)۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کو جو معجزات عطا ہوئے تھے وہ حکمت الہی کے مطابق ایسے عطا ہوئے جو جادو اور جادوگروں کی دسترس سے باہر تھے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے تمام سرکش جنوں کو آپ کے لیے مسخر کر دیا تھا اور سلیمان علیہ السلام ان جنوں سے سخت مشقت کا کام لیتے تھے۔ ہوائیں آپ کے لیے مسخر تھیں جو آن کی آن میں آپ کا تخت مہینوں کی مسافت پر پہنچا دیتی تھیں۔ پرندے بھی آپ کے مسخر تھے اور آپ ان سے بھی کام لیتے تھے۔ آپ پرندوں کی بولی سمجھتے تھے اور پرندے بھی آپ کی بات سمجھ جاتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ جب سلیمان فوت ہوئے تو ان شیطان یہودیوں نے کہا کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) تو یہ سب کچھ جادو کے زور پر کرتے تھے اور اس کی دلیل یہ پیش کی کہ سلیمان(علیہ السلام) کے دفتر میں جادو کی بے شمار کتابیں موجود ہیں۔گویا جو کام سلیمان علیہ السلام نے اس فتنہ کے سدباب کےلئے کیا تھا۔ ان یہودیوں نے اسی فتنہ کو ان کی سلطنت کی بنیاد قرار دے کر ان پر ایک مکروہ الزام عائد کر دیا اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اسی الزام کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ کفر کا کام سلیمان نے نہیں کیا تھا بلکہ ان شیطان لوگوں نے کیا تھا جو جادو سیکھتے سکھاتے تھے۔
ہاروت اور ماروت کا قصہ اور جادو سیکھنے والوں کاہجوم:۔ سلیمان علیہ السلام کے جادو کو روکنے کے لیے اس اقدام کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہود کی ایک دوسرے طریقہ سے آزمائش فرمائی اور وہ یہ تھی کہ بابل شہر میں (جہاں آج کل کوفہ ہے) دو فرشتوں ہاروت اور ماروت کو پیروں، فقیروں کے بھیس میں نازل فرمایا اور اس آزمائش سے مقصد یہ تھا کہ آیا ابھی تک یہود کے اذہان سے جادو اور ٹونے ٹوٹکے کی عقیدت اور محبت زائل ہوئی ہے یا نہیں۔ جب یہودیوں کو ان پیروں اور فقیروں کی بابل میں آمد کا علم ہوا تو فوراً ان کی طرف رجوع کرنے لگے۔ ان فرشتوں کو یہ حکم دیا گیا کہ اگر تمہارے پاس کوئی شخص یہ ٹونے ٹوٹکے سیکھنے آئے تو پہلے اس کو اچھی طرح خبردار کر دینا کہ یہ ایک غلط کام ہے اور ہم محض تمہارے امتحان کے لیے آئے ہیں۔ لہذا تم اس کا ارتکاب مت کرو۔ پھر بھی اگر کوئی سیکھنے پر اصرار کرے تو اسے سکھادینا۔ چنانچہ جو لوگ بھی ان کے پاس جادو سیکھنے آتے ، فرشتے اسے پوری طرح متنبہ کر دیتے، لیکن وہ اس کفر کے کام سے باز نہ آتے اور سیکھنے پر اصرار کرتے اور ایسے ٹونے ٹوٹکے سیکھنے والوں کے ان فرشتوں کے ہاں ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگے رہتے تھے۔میاں بیوی میں جدائی ڈالنا: طرفہ تماشہ یہ کہ ان سیکھنے والوں میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو ایسا عمل سیکھنا چاہتے تھے۔ جس سے میاں بیوی کے درمیان جدائی ہو جائے اور پھر وہ بیوی اس سیکھنے والے پر عاشق ہو جائے اور میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال دینا ہی سوسائٹی کا سب سے بڑا مفسدہ ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ ابلیس سمندر میں اپنے تخت پر بیٹھا رہتا ہے اور اپنے چیلوں اور چانٹوں کو ملک میں فساد پیدا کرنے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے روزانہ بھیجتا رہتا ہے۔ شام کو یہ سب اکٹھے ہو کر ابلیس کے حضور اپنے اپنے کارنامے بیان کرتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ میں نے فلاں فتنہ کھڑا کیا اور کوئی کہتا ہے کہ میں نے فلاں شر بپا کیا مگر ابلیس انہیں کچھ اہمیت نہیں دیتا اور کہتا ہے کہ تونے کچھ نہیں کیا، پھر ایک اور چیلا آ کر کہتا ہے کہ میں فلاں میاں بیوی میں جدائی ڈال کے آیا ہوں تو ابلیس خوش ہو کر اسے شاباش دیتا اور گلے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تھا کرنے کا کام جو اس نے سر انجام دیا ہے۔
” (مسلم، کتاب صفۃ المنافقین، باب تحریش الشیطان و بعثۃ سرایاہ لفتنۃ الناس۔۔۔ الخ)
اس حدیث کے مضمون پر غور کرنے سے یہ بات خوب سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اس دور میں یہود میں اخلاقی انحطاط کس نچلے درجہ تک پہنچ چکا تھا کہ وہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے کا عمل ہی نہیں سیکھتے تھے۔( جس سے ان کی ذات کو کچھ فائدہ نہ تھا) بلکہ اس کے آگے ایسا عمل اور جنتر منتر بھی سیکھتے تھے۔ جس سے وہ جدا شدہ بیوی اس منتر کروانے والے پر عاشق ہو جائے۔ اب بھی قومِ یہود جادو اور سفل میں اس قدر آگے ہے کہ میری آپ کی سوچ سمجھ سے بھی باہر۔حضرت کعب بن احبارؓ اسلام لائے تو آقا کریم ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ اگر میں آج مسلامن نہ ہوتا تو مجھے ڈر تھا میری قوم والے مجھے میرے اسلام قبول کرنے کا ارادہ جان کر مجھے گدھا بنا دیتے۔ اب بھی ان کی بارھویں کتاب تالمودہ اور اقابلا کے نام سے سب کی سب جادو ٹونے پہ مشتمل ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور اس شر سے محفوظ فرمائے۔
حضرت ادریس علیہ السلام کے زمانے میں لوگ بہت بد عمل ہو گئے تھے اور فرشتوں نے بارگاہِ الہیٰ میں عرض کی کہ انسان بہت بدکار ہے یہ تیری خلافت کے لائق نہیں ہے اس لیے انسان کو منصبِ خلافت سے ہٹا دیا جائے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہوا کہ انسان میں غصہ اور شہوت ہے جس کی وجہ سے وہ زیادہ گناہ کرتا ہے اگر یہ چیزیں فرشتوں کو دے دی جائیں تو وہ بھی گناہگار ہو جائیں گے۔ فرشتوں نے کہا ہم تو کبھی بھی گناہ کے قریب نہ جائیں گے خواہ کتنا ہی غصہ اور شہوت ہو۔ حکمِ ربی ہوا کہ اچھا تم فرشتے اپنی جماعت میں سے کوئی سے دو فرشتے چن لو جو تمہارے خیال میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں پھر انھیں غصہ اور شہوت دے کر دنیا میں بھیجا جائے گا تاکہ انہیں آزمایا جا سکے۔ چنانچہ ہاروت اور ماروت جو بہت پرہیزگار فرشتے تھے منتخب ہو گئے اور انہیں غصہ اور شہوت دے کر شہرِ بابل میں اتار دیا گیا۔ اور کہا گیا کہ تم دونوں قاضی بن کر لوگوں کے درمیان فیصلے کیا کرو اور شام کو اسمِ اعظم کے ذریعے واپس آسمان پر آ جایا کرو۔یہ دونوں قریب ایک ماہ تک اسی طرح آتے جاتے رہے اس عرصے میں ان کے عدل و انصاف کا چرچا عام ہو گیا اور بہت سے مقدمے ان کے پاس آنا شروع ہو گئے۔ ایک روز ملکِ فارس کی ایک حسین و جمیل عورت نے اپنے شوہر کے خلاف مقدمہ دائر کیا، یہ دونوں اُسے دیکھتے ہی اُس پر عاشق ہو گئے اور اُس کے ساتھ بدعملی کی خواہش کی۔ اس عورت نے کہا کہ میرا اور تمھارا دین الگ الگ ہے اور میرا شوہر بہت غیرت مند ہے اگر اسے پتہ چلا تو وہ مجھے قتل کر دے گا اس لیے اگر تم اپنی خواہش پوری کرنا چاہتے ہو تو پہلے میرے شوہر کو قتل کرنا ہو گا اور جس بت کی میں پوجا کرتی ہوں اسے سجدہ کرنا ہو گا۔ اس عورت کی شرائط سن کر دونوں نے انکار کر دیا۔ وہ عورت تو واپس چلی گئی لیکن ان دونوں کے دل میں عشق کی آگ بھڑکا گئی۔ کچھ روز تو ان فرشتوں نے برداشت کیا لیکن ایک روز مجبور ہو کر اس عورت کو ملاقات کے لیے پیغام بھجوایا۔ اس نے فوراً ان دونوں کو ملنے کے لیے بلوا لیا۔ جب یہ دونوں وہاں پہنچے تو وہ خوب بناؤ سنگھار کر کے بیٹھی تھی۔ اس نے کہا کے مجھے پتہ چلا ہے کہ تم دونوں اسمِ اعظم جانتے ہو۔ تو اپنی خواہش کے حصول کے لیے یا تو مجھے اسمِ اعظم بتا دو، یا پھر اس بت کو سجدہ کرو یا میرے شوہر کو قتل کرو یا پھر شراب پی لو۔ دونوں فرشتوں نے سوچا کہ اسمِ اعظم تو اسرارِ الہیٰ ہے اسے فاش نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح بت کو سجدہ کرنا یا کسی کو قتل کرنا بھی کبیرہ گناہ ہے اس لیے چلو شراب لاؤ ہم شراب پی لیتے ہیں۔ جب وہ دونوں شراب پی کر مست ہو گئے تو اس عورت نے ان دونوں سے بت کو سجدہ بھی کروایا، اپنے شوہر کو قتل بھی کروا لیا اور اسمِ اعظم معلوم کر کے صورت بدل کر آسمان پر جا پہنچی اور حق تعالیٰ نے اس کی روح کو زہرہ ستارے سے متصل کر دیا۔ دوسری جانب جب ہاروت اور ماروت کو ہوش آیا تو وہ اسمِ اعظم بھول چکے تھے اور اپنے کیے پر نادم اور شرمندہ تھے۔ حق تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ انسان میری تجلی سے دور رہتا ہے لیکن یہ دونوں تو ہر شام حاضرِ بارگاہ ہوتے تھے پھر بھی شہوت سے مغلوب ہو کر گناہ کر بیٹھے۔ تو اگر انسان سے گناہ سرزد ہوتا ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ یہ سن کر تمام فرشتوں نے اپنی خطا کا اقرار کیا اور انسانوں پر لعن طعن کرنے کے بجائے ان کے لیے دعاء مغفرت کرنے لگے۔اس کے بعد ہاروت اور ماروت حضرت ادریس علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوئے اور اللہ کے حضور معافی کی درخواست کی۔ آپ نے دونوں کے لیے دعاء مغفرت کی جس کے کئی روز بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب آیا کہ ان دونوں کو اختیار دیا گیا کہ چاہیں تو دنیاوی عزاب قبول کر لیں یا آخرت کا۔ انہوں نے سوچا کہ دنیا کا عزاب ایک نہ ایک دن ختم ہو جائے گا لیکن آخرت کا عزاب نہ ختم ہونے والا ہے اس لیے دونوں نے دنیاوی عزاب قبول کر لیا۔چنانچہ حق تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان دونوں کو لوہے کی زنجیروں میں جکڑ کر بابل(موجودہ کوفہ اور اس کے گرد ونواح) کے کنویں میں اوندھا لٹکا دیا جائے۔ اس کنویں میں آگ جل رہی ہے اور فرشتے باری باری ان پر کوڑے برساتے ہیں اور پیاس کی شدت سے ان کی زبانیں باہر کو لٹک رہی ہیں اور یہ عزاب ان پر قیامت تک یوں ہی شدید رہے گا۔ کچھ تفاسیر میں یہ بھی ہے کہ ساری دنیا کا دھواں، اور بدبو ان کے نتھنوں سے ہو کر منہ سے نکلتی ہے۔ ان فرشتوں نے یہ دنیاوی عذاب اس لئیے قبول کیا کہ بروزِ قیامت ان کو فرشتوں کی صف سے اٹھایا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب
جہاں تک قرآن پاک کی آیتِ مبارکہ کا حوالہ ہے تو میرا گمان ہے کہ ہاروت و ماروت کو عذاب دینے سے پہلے ایک آزمائش کے طور پہ انہیں یہ جادو دیا گیا۔
جادو اس لئے حرام ہے کہ اس میں شیاطین سے مدد لی جاتی اور خلاف شرع کام کئے جاتے ہیں ۔ دوسری جانب روحانی علم بھی موجود ہے جس میں عامل قرآن وغیرہ کے ذریعے علاج کرتے ہیں۔ اس قسم کے دم کرنے کے اشارات اسوہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی ملتے ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ چند صحابی کسی گاؤں میں گئے اور انہوں نے وہاں کے سردار کا علاج( جسے بچھو نے کاٹا تھا )سورہ فاتحہ دم کرکے کیا اور اس کا معاوضہ بھی لیا(صححہ بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2183 )۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں مسدد، عبدالوارث، عبدالعزیز سے روایت کرتے ہںا انہوں نے بادن کا کہ مںو اور ثابت، انس بن مالک کے پاس گئے تو ثابت نے کہا کہ اے ابوحمزہ! مںا بماتر ہوگاس ہوں تو انس نے کہا کہ کاھ مںل تم پر رسول اللہ صلی اللہ علہے کا دم پڑھ دوں انہوں نے کہا کہ ہاں۔ انس نے پڑھا اے اللہ! لوگوں کے معبود، سختی دور کرنے والے شفاء دے تو ہی شفا دینے والا ہے اییگ شفا دے جو بماہری کو نہ چھوڑے۔( صحح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 712
واللہ اعلم بالصواب
1۔ترجمہ و تفسیر مولانا عبدالرحمٰن کیلانی کی تفسیر “تیسیر القرآن
2۔تفسیرِنعیمی
مجھ سے اگر کوئی غلطی،گستاخی یا بے ادبی ہوئی ہو تو میں اللہ پاک کی بارگاہِ رحمت کے حضور توبہ کرتا ہوں، اور مغفرت اور بخشش کا امیدوار ہوں۔ اللہ پاک ہم سب کے ساتھ اپنی رحمت اور فضل والا معاملہ فرمائے ۔
آمین یا رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ سیدالنبیاء والمرسلین
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَولَانَا مُحَمَّدٍ صَلٰوةً تُحِلُّ بِھَا عُقدَتِی وَتُفَرِّجُ بِھَا کُربَتِی وَتُنقِذُنِی بِھَا مِن وَّحلَتِی وَتُقَیِّل بَھَا عُثرَتِی وَ تُقُضِی بِھَا حَاجَتِی وَعَلٰی اٰلِہ وَصَحبِہ وَسَلِّم۔
ریپلائی کیجیئے