ہمزاد کیا ہے؟
ہمزاد کے لفظی معنی ہیں ساتھ پیدا ہوا ۔ انگریزی میں اسےٹوئن
اینجل کہتے ہیں۔ اکثر لوگوں کی خواہش ہے کہ وہ یہ معلوم کریں کہ ہمزاد ہے کیا ؟
زوجین کا مطلب صرف “جوڑا جوڑا” ہی نہیں ۔ یعنی نرومادہ ہی نہیں بلکہ “دو دو ” بھی ہیں زوج سے مراد برابر کے ساتھی کےہیں ۔ جب ہم ایک جوڑاجوڑا کہتے ہیں تو اس کا مطلب نر و مادہ نہیں ہوتا بلکہ دو دو ہوتا ہے ۔ زوج وہ عدد بھی کہلاتا ہے کہ جب اس کو نصف کریںتو دونوں ٹکڑے ٹوٹے بغیر برابر رہیں ۔ جیسے ۴۔۶۔۸ ہیں ۔
قرآن میں زوجین کہہ کر نر و مادہ بھی مراد لیاہے اور دو دو بھی ، اس کا اندازہ یوں کیجئے کہ اس مفہوم کو واضح طور پر سمجھانے کے لئے قرآن نے بعض مقامات پر زوج کا لفظ اس کے آگے ذکر والانثی اور بعض جگہ اثنین کا لفظ بھی بڑھایا ہے تاکہ زوجین کا مطلب جوڑا جوڑا اور دو دو واضح ہوجائے ۔
فجعل منہ الزوجین الذکر والانثی
75/39
اور وہی پیدا کرتا ہے ۔”زوجین”نرومادہ
جعل فیما زوجین اثنین
13/7
بنایا اس نے ان میں “زوجین” “دودو”۔
اگر زوجین سے مراد صرف نرومادہ ہوتے تو دو میں کسی جگہ ذکر والانثی اور اثنین کے اضافہ کی ضرورت نہ تھی ۔ ایسا اس لئے کیا گیا کہ یہ واضح ہوجائے کہ جوڑا جوڑا کا مطلب صرف نر و مادہ ہی نہیں بلکہ دودو بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے انمقامات پر بھی جہاں نر ومادہ کا کوئی سوال نہیں زوج کا لفظ استعمال کیا ہےاور اسی سبب سے میں نے ترجمہ میں جوڑا جوڑادو دو لکھا ہے ۔ مثلاًباغ کے پھلوں کے بارے میں ہے ۔
ومن کل الثمرات جعل فیما زوجین اثنین
13/3
اور ان میں کے پھلوںکو جوڑا جوڑا دودو بنایا۔
میووں کے بارے میں ہے کہ
فیھما من کل فاکھتہ زوجین
55/52
ان دونوں باغوں میں کےسارے میوے جوڑا جوڑا دو دو ہیں
غرض اس طرح ساری چیزیں جوڑا جوڑا دو دو ہیں ۔
خلق الازواج کلھا
45/12
اور ہم نے ہر شے کو جوڑا جوڑا دو دو بنایا ہے۔
ہم انسان بھی کل شئی میں داخل ہیں ۔ اور ہم بھی جوڑا جوڑا دو دو بنائے گئےہیں۔
جعلکم ازواجا
35/11
تم لوگوں کو بھی بنایا ہے جوڑا جوڑا ، دو دو ۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی زمین سے تخلیق کو نباتات کی پیدائش کے مماثل بتایاہے ۔
واللہ انبتکم من الارض نباتا
71/17
اور اللہ نے تمہیں زمینسے اگایا ہے ایک طرح کا “اگانا”۔
نہ صرف “انسان” اور “نباتات” ہی جوڑا جوڑا دو دو بنائے گئے ہیںبلکہ سب جوڑا جوڑا دو دو ہیں ۔ جن کی ہم کوابھی خبر بھی نہیں ۔
سبحن الذی خلق الازواج کلھا مما تنبت الارض ومن انفسھم ومما لا یعلمون
36/36
پاک ہے وہ خدا جس نے زمین سے تمام اگنے والوں کو اور خود ان کو اور جن کی لوگوں کو خبر نہین ۔ سب کو جوڑا جوڑا دو دو بنایا ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذات انسانی جوڑا جوڑا دو دو ہے ۔ یعنی ہمارا جسم دو ہے ۔ ایک ظاہری خاکی جو مادہ سے بناہے ۔ آنکھ سے دکھائی دیتا ہے اور مرنے کے بعد فنا اور بے کار ہوجاتا ہے اور دوسرا نہایت لطیف جو ہمارے فانی مادہ جسم کے فنا اور ختم ہونے کے بعد بھی بدستور باقی رہتا ہے ۔ ہم اس دوسرے جسم کے لئے اصلطاحاً آئندہ نوری جسم کا لفظ استعمال کریں گے اسی نوری جسم کو آپ ذات انسانی کہہ سکتے ہیں اور یہی اپنے کو انا کہتا ہے اس طور پر ذات انسانی کے بارے میں یہ کہنا بالکل درست ہے کہ وہ فنا نہیں ہوتی نیند کی حالت میں جو ہم اپنے آپ کو ادھر اُدھر رواں دواں دیکھتے ہیں وہ دراصل ہمارا یہی نوری جسم ہوتا ہے جو نیند کی حالت میں ہمارے معطل خاکی جسم سے غیر مادی ہونے کے سبب جدا اور الگ ہوجاتا ہے انسان کے بارے میں آیا ہے کہ
ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید
50/18
وہ کوئی بات منہ سے نہیں نکالتا اس کے پاس ایک نگہبان موجود ہے ۔
لہ معقبت من بین یدیہ ومن خلفہ یحفظونہ من امر اللہ
13/11
ہر شخص کے لئے چوکیدار ہے کہ جو آگے اور پیچھے سےخدا کے حکم سے اس کی نگرانی کرتے رہتے ہیں
ان کل نفس لما علیھا حافظ
86/4
کوئی ذات ایسی نہیں جس پر کوئی نگہباننہ ہو
غور فرمائیے کہ یہ رقیب عتید ، حاضر پاسبان ، موجود نگہبان مستعد چوکیدار اور ہمدردحافظ ہی ہمارا نوری جسم ہے ۔ جو ہمارے خاکی جسم سے وابستہ رہ کر ہر وقت ہماری نگرانی کرتا رہتا ہے وہایک الگ ذات ہوتے ہوئے بھی ہم سےالگ نہیں ہے وہ ہمارا شریک ہوتے ہوئے بھی ہمارے افعال کا جوابدہ نہیں ہے مگر وہہمارا خبر رساں ، نیک مشیر اور بہترین دوست ضرور ہے ۔
آپ کے گھر پر کوئی نئی بات ہوجاتی ہے آپ گھر سے دور ہوتے ہیں مگر یکایک آپ کو اندیشہ سا ہوجاتا ہے ، طبیعت گھبرانے لگتی ہے اور آپ گھر کے لئے روانہ ہوجاتے ہیں وہاں پہنچ کر آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں خاص بات ہوئی ہے ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ آپ کا نوری جسم کسی طرح موقع پا کر آپ کے خاکی جسم سے الگ ہوا تھا اور اس حقیقت کو وہ جان گیا تھا ۔ بہت سے مواقع پر دیکھا گیا ہے کہ حادثات سے لوگ یکایک بچ گئے یا پھر کسی وجہ سے کسی مقام پر جانے یا سفر کرنے سے رک گئے اور اس کے بعد گھر پر کوئی خاص بات ہوگئی ہے یا اس مقام پر یا سفر میں لوگوں کو کوئی حادثہپیش آگیا ہے ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ کسی
طرح ہمارا نوری جسم یا ہمارا نادیدہ محافظ و مشیر اس حقیقت سے باخبر ہوگیا تھا اور اس نے ہماری رہنمائی کی تھی ۔
علم مسمریزم کے ذریعہ معمول سے بہت سی حقیقتیں دریافت کرلی جاتی ہیں اور وہ بتا دیتا ہے ۔ وہ بھی اسی نوری جسم کا کارنامہ ہے ۔
علامہ طنطاوی مصری نےاپنی کتاب تفسیر جواہرجلد نمبر ۱ میں فقیر غلام نبی نوری کی طرف سے مسمریزم کے سلسلے میں شادل کتاب “مغناطیہ حیوان”سے کئی قصےنقل کئے ہیں ان میں سے دو آپ بھی سنئے ۔
.
علامہ شادل اپنی کتاب مغناطیہ حیوان میں لکھتے ہیں کہ میں نے ایک لڑکی پر مسمریزم کا عمل کیا وہ سو رہی تھی اور مجھے مختلف امراج اوران کے مجتعلق بتلا رہی تھی اس نے مجھ سے کہا کیا تم سنتے نہیں مجھے کس طرح ان کے متعلق حکم دے رہا ہے ؟۔ میں نے کہا کہ میں تو کسی کی آواز نہیں سنتا ۔ لڑکی نے کہا خوب ، تم سو رہے ہو۔ اور میں آزاد و بیدار ہوں میں ایسی آواز اور چیزیں ادراک کر رہیہوں جن کے ادراک پرتم کو قدرت نہیں اور میں تمہاری انگلیوں کے کناروں سے رو نکلتے ہوئے دیکھ رہی ہوں دور دراز کی آوازیں میرے کانوں میں آرہی ہیں میں اس شخصکی باتیں جو کسی دوسرے ملک میں کر رہا ہے اچھی طرح سن رہی ہوں میں ایسی چیزوں تک پہنچ جاتی ہوں جو مجھ تک نہیںپہنچ سکتی ۔ اس وقتمیری حالت بیداری کیسی ہے جیسا کہ مرنے کےبعد انسان کو بیداری ہوتی ہے ۔ ص۲۱۸۔
علامہ مذکور ہمیشہ ایک لڑکی پر عمل تنویم کرتے تھے ایک مرتبہاس لڑکی کو انہوں نے معمول بنایا تو اس نے کہا کہ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ میرا جسم آہستہ آہستہ پھیل رہا ہے ۔ حتیٰ کہ میں اس جسمسے بالکل علیحدہ ہوگئی ہوں اور اس کودور پڑا ہوا بالکل ٹھنڈا دیکھ رہی ہوں جیسا کہ کسی مردہ کا جسم ہوتا ہے میرا نفس بھانپ کی طرح ہے ، میں ایسی چیزیں ادراک کر سکتی ہوں جو حالت بیداری یا دوسریحالت میں ادراک نہیں کر سکتی ۔ میری یہ حالت پندرہ منٹ سے زیادہ دیر تک نہیں رہتی اور اس کے بعد وہ بھانپ والا جسم آہستہ آہستہ میرے ٹھوس اعضاء میں تحلیل ہوجاتا ہے اور پھر یہ شعور اور یہ حالت بالکل معدوم ہوجاتی ہے ۔ ص۲۱۹۔
مرنے کے بعد جو لوگوں کے سامنے بہت سے حقائق آجاتے ہیں اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اسوقت خاکی جسم کی توانائی ختم ہوتی ہوئی یا ماند پڑ گئی ہوتی ہے اور ہمارے نوری جسم کا غلبہ و اقتدار بڑھ گیا ہوتا ہے اس کی وجہ سے بہت سے حقائق دیکھنے لگتے ہیں ۔ ہمارا یہ نوری جسم پس موت کے وقت ہمارا ساتھیرہتا ہے ۔
دراصل میرا موضوع یہ تھا کہ خدا نے ہر چیزکو زوج پیدا کیا ہے ۔پھر کس طرح جسم دو ہیں ۔ دنیا بھی دو ہیں ۔ حیات بھی دوہیں ۔ حیات الدنیا وحیات الاخرۃ
موت بھی دو ہیں ایک عارضی جسے نیند کہتے ہیں ، دوسری دائمی جسے موت کہتے ہیں
قرآن میں دونوں نیند اور موت کو وفا کہا ہے
اسی طرح بعثت دو ہیں ۔ نیند سے بیداری ۔ اور مرنے کے بعد زندہ ہونا ۔
قرآن ان دونوں صورتوں کو بعثت قرار دیتا ہے ۔ یعنی ازروئے قرآن ہر چیز جوڑا جوڑا۔ دو دوہیں ۔
اس نوری جسم کو جو ہمارا اپنا ہوتا ہے آپ ہمزاد کہہ لیں ،ٹوئن اینجل کہہ لیںیا جو چاہیں نام دے لیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ اس کی نوری دنیا میں ماضی حال اور مستقبل ، وقت اور فاصلے کی کوئی قندیل نہیں ۔ وہ چیزیں جو ہمارے لئے آڑ اور اوٹ ہیں اس کے لئے نہیں ۔ وہی نوری جسم بحالت خواب آپ کو لئے لئے پھرتا ہے ، وہی اطلاعات دیتا ہے ، وہی مسمریزم کے عمل سے اپنی آگاہی کا ثبوت دیتا ہے اور وہی ریاضت سے حاضر ہو کر آپ کے کاموں میں مدد دیتا ہے ۔
زمانہ قدیم میں بزرگوں نے ریاضت سے ایسے طریقے معلوم کئے جن سے دونوں اجسام کے درمیان جو اوٹ ہے وہ ختم ہوجاتی ہے ۔ مقصد ان کا یہ تھا کہ بجائے ہمارا نوری جسم یا ہمزاد ہم کو بذریعہ خواب دنیا کی سیر کرائے ہم جس وقت چاہیں سیر کر سکیں اور بجائے اس کے کہ کسی دوسرے پر عمل مسمریزم کرکے اسکے ہمزاد سے مشورہ لیں ، اپنے ہمزاد کو بلاکر رائے لیا کریں ۔ اور چونکہ زمان و مکان وفاصلہ اسکے لئے کوئی چیز نہیں ، اس سے جو چاہیں وہ منگوا سکتے ہیں ظاہر ہے کہ ہماری خاکی دنیا اورنوری دنیا کے درمیان جو آڑ ہے یا خاکی جسم اورنوری جسم کے درمیان جوآڑ ہے اس کو دور کرنا معمولی بات نہیں اس کے لئے کہ یہ فطرت ہے اور قوانین فطرت کو توڑنا معجزہ ،کرامت جیسی قوتوں سے ہی ممکن ہے ۔ آدمی کا صاحب نظر ہونا یہی معنی رکھتاہے کہ اسے نوری نظر حاصل ہوجائے اور یہ تمام قوتیں سخت محنت اور ریاضت چاہتی ہیں ۔
بعض لوگ لکھتے ہیں کہ ہمیں کوئی مستند اور کم سے کم دن والا عمل درکار ہے ۔میرا اپنا نظریہ ہے کہ کئی سالوں کی محنت کے بعد بھی آپ نے اس قوت کو حاصل کرلیا تو سمجھ لیں کہ مفت ہاتھ آگئی ۔
حیرت اس بات پر ہے کہ انسان کئی سال اسکول میں لگاتا ہے ، اس پر کئی اخراجات بھی آتے ہیں ، پھر کہا جاتا ہے کہ میٹرک پاس ہوگیا ۔ معاوضہ کیا ملتا ہے ؟؟
در در کی ٹھوکریں ،نوکری نہ ملنے کا شکوہ ۔ بلکہ موجودہ دور میں تو اچھے خاصے تعلیم یافتہ احباب بھی بے روزگاری کا شکار ہیں ۔
لیکن دوسری دنیا سے یا دوسری انجانی قوتوں کو حاصل کرنے کے لئے ہر انسان یہی چاہتا ہے کہ وہ دو دن میں ہوجائے یعنی ایک ادنیٰ قوت کے لئے تو کئی سال صرف کردئیے جاتے ہیں اور ایک اعلیٰ قوت کے لئے صرف چند دن ۔۔۔۔۔۔۔
بس عقل پر ہی رونا چاہئے ، یہی انسان کی بے وقوفی ہے جو اسے محروم رکھتی ہےاور نظریہ رکھتا ہے کہ عمل کوئی ٹھیک نہیں ملتا۔۔۔۔۔۔ ان شاء مذید رہنمائی دوسری پوسٹ میں کی جائے گی
منجانب فقیر مدینہ
غلام نبی قادری نوری
آپ کی لکھی کتب کون کون سی ہیں اور کدھر مل سکتی ہیں۔
آپکے چند مضامین پڑھے ہیں مگر تشنگی محسوس ہوئی ہے۔
کیا آپکا کوئی واٹسایپ گروپ ہے؟
اپکو فیسبک میسنجر پہ ایک میسیج کیا ہے آصف میر کے نام سے
وہ دیکھئے گا۔
میربانی